Saturday, 21 July 2018

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت، خصائص وامتیازات

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت، خصائص وامتیازات

نبی کریم ،نور مجسم ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کے چند خصائص وامتیازات کا مبارک تذکرہ ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ -
ترجمہ : مجھے اس شہر مکہ کی قسم ہے،اس لئے کہ ائے محبوب آپ اس شہر میں تشریف فرماہیں-(سورۃ البلد:1/2)

اب یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ رب العالمین نے شہرمکہ کی قسم اس لئے ذکرفرمائی کہ وہ روحانیت کاعظیم مرکز ہے، وہ ایسا باعظمت شہر ہے کہ جہاں قدرت الہی کی عظیم نشانیاں موجود ہیں،اس شہر میں کعبۃ اللہ شریف اور حجر اسودہے،وہاں مقدس حطیم اورمیزاب رحمت ہے،وہاں مقام ابراہیم اور چاہ زم زم ہے،وہاں صفا ومروہ کی بابرکت پہاڑیاں ہیں،وہاں جبل رحمت اور جبل نور ہے،وہاں مزدلفہ اور منی ہے،یقینا یہ ساری عظمتیں مکہ مکرمہ کو حاصل ہیں !لیکن اللہ تعالی نے ان خصائص وعظمتوں کے سبب مکہ مکرمہ کی قسم ذکر نہیں فرمائی ،بلکہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ نے مکہ مکرمہ کو اپنی جائے قیام بنایاتو اللہ تعالی نے اپنے پاکیزہ کلام میں اس حیثیت سے شہر پاک کی قسم ذکر فرمائی :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ ۔
ترجمہ : مجھے اس شہر مکہ کی قسم ہے،اس لئے کہ ائے محبوب آپ اس شہر میں تشریف فرماہیں-(سورۃ البلد:1/2)

آئیے ،جس باعظمت نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت اور جلوہ گری کی وجہ سے اللہ تعالی نے شہر مکہ کی قسم ذکر فرمائی ہے، ان کی ولادت باسعادت کے احوال وکیفیات ،خصائص وامتیازات کے ذکرسے اپنی روح کو جلاعطا کریں اور ایمان کو تازگی بخشیں۔

جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتي وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ۔
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب کہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۔ (جامع الترمذی،ابواب المناقب،باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:3968چشتی)

یوں تو آپ تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے اخیر میں تشریف لائے لیکن کہ آپ کے نور مبارک کی تخلیق ساری کائنات سے پہلے ہوچکی تھی جیساکہ ارشاد نبوی ہے : اَوّلُ مَاخَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِيْ۔
ترجمہ : سب سے پہلے جو چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میر ا نور ہے۔
محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس حدیث شریف کو حدیث صحیح قرار دیتے ہوئے فرمایا:چنانچه در حديثِ صحيح وارد شده " اَوّلُ مَاخَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِيْ ۔"(مدارج النبوۃ ۔ج2۔ص2 )

مصنف عبد الرزاق،مواہب لدنیہ اورسیرت حلبیہ میں روایات ہے : وَرَوَي عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِسَنَدِهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْاَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ : بِاَبِيْ وَاُمِّيْ اَخْبِرْنِيْ عَنْ اَوِّلِ شَيْءٍ خَلَقَهُ اللهُ تَعَالَي قَبْلَ الْاَشْيَاءَ ؟ قَالَ يَا جَابِرُ : إنَّ اللهَ تَعَالي خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُوْرِهِ، فَجَعَلَ ذَلِک النُّوْرُ يَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ اللهُ تَعَالَي، وَلَمْ يَکُنْ فِیْ ذَلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ وَلَا اَرْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ وَلَا جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا :اے جابر!بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات سے پہلے تمہارے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا ، پھروہ نور قدرت الٰہی سے جہاں چاہتا تھا سیر کرتا رہا ۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت نہ دوزخ،آسمان نہ زمین،چاند نہ سورج اورنہ جن نہ انسان ۔
(المواہب اللدنیۃ مع حاشیۃالزرقانی ۔ ج1 ۔ ص 89 ، السیرۃ الحلبیۃ ج 1۔ ص 31)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور مبارک کو اللہ تعالی نے سب سے پہلے پیدا فرمایااور اس نورمبارک پر طرح طرح کی سرفرازیاں فرماتارہا، جب وہ نورمبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں رہا تو آپ کو مسجود ملائکہ بنادیا ، اس طرح یہ نور حضرت نوح علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام وحضر ت اسماعیل علیہ السلام میں جلوہ گر ہوکر سب کو مشرف فرماتا رہا : انَّ الْمَلَائِکَةَ اُمِرُوْا بِالسُّجُوْدِ لِآدَمَ لِاَجْلِ اَنَّ نُوْرَ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِيْ جَبْهَةِ آدَمَ -
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا' فرشتوں کو اس لئے حکم دیا گیا تھا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی جبین مبارک میں تھا ۔ (التفسیر الکبیر۔سورۃ البقرۃ۔253)

وہ نور مبارک پاک پشتوں اور پاکیزہ ارحام کے ذریعہ بنوہاشم سے ہوکر حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی روشن جبین پر چمکا ۔ اس نور مبارک کی فیض رسانی کا یہ عالم تھا کہ قحط سالی کے وقت لوگ اس سے فیض حاصل کیا کرتے،چنانچہ مواہب لدنیہ میں روایت ہے : وکانت قريش اذا اصابها قحط شديد تاخذ بيد عبد المطلب فتخرج به الي جبل ثبير فيتقربون به الي الله ،ويسالونه ان يسقيهم الغيث ،فکان يغيثهم ويسقيهم ببرکة نور رسول الله صلي الله عليه واله وسلم غيثا عظيما۔
ترجمہ : قریش جب سخت قحط سالی میں مبتلاہوتے توحضرت عبد المطلب کا ہاتھ پکڑکر ثبیر پہاڑ کی جانب لے جاتے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالی کے دربار میں معروضہ کرتے،اور باران رحمت کے نزول کے لئے دعا کرتے تو اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور مبارک کی برکت سے ان پر باران رحمت کا نزول فرماتا اور انہیں مکمل طور پر سیراب فرمادیتا ۔ (المواہب اللدنیۃ مع حاشیہ الزرقانی ۔ج 1۔ص155)

پھر وہ نو رمبارک حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ میں منتقل ہوا،چوبیس(24)سال کی عمرمیں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کانکاح حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے ہوا، ماہ رجب، شب جمعہ حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا نور مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت دار ہوئیں ،جیساکہ مواہب لدنیہ میں خطیب بغدادی کے حوالہ سے مذکور ہے : وقال سهل بن عبد الله التستري فيما رواه الخطيب البغدادي الحافظ: لما اراد الله تعالي خلق محمد صلي الله عليه واله وسلم فی بطن آمنة ليلة رجب ، وکانت ليلة جمعة ،امر الله تعالي فی تلک الليلة رضوان خازن الجنان ان يفتح الفردوس ، ونادي مناد فی السموات والارض: الا ان النور المخزون المکنون الذی يکون منه النبي الهادی ، فی هذه الليلة يستقر في بطن آمنة ، الذي يتم فيه خلقه ويخرج الی الناس بشيرا ونذيرا ۔
ترجمہ : امام سہل بن عبداللہ تستری نے وہ روایت بیان فرمائی جسے خطیب بغدادی نے روایت کی ہے : جب اللہ تعالی کو منظور ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مبارک حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک میں آیا،وہ ماہ رجب تھا ،اور شب جمعہ تھی،اس رات اللہ تعالی نے خازن جنت "رضوان"کو حکم فرمایا کہ فردوس بریں کے تمام دروازے کھول دیں،آسمانوں ا ور زمین میں ایک منادی نے ندا دی "سنو! بیشک وہ خزانۂ قدرت میں رکھا ہوا نور جس سے نبی ہادی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لانے والے ہیں، آج کی شب اپنی والدۂ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک میں متمکن ہوچکا ہے ،وہ حمل شریف میں مدت مکمل کرنے کے بعد بشیرونذیر کی شان سے خاکدان گیتی میں جلوہ گر ہونے والے ہیں ۔ (المواھب اللدنیۃ مع حاشیہ الزرقانی ج1ص197)۔

اس رات کرۂ ارض پر جوخوشی وشادمانی کا اہتمام تھا، خصائص کبری اور مواہب لدنیہ کی یہ روایت اس کی ترجمانی کررہی ہے : واخرج ابو نعيم عن ابن عباس قال کان من دلالات حمل رسول الله صلي الله عليه وسلم ان کل دابة کانت لقريش نطقت تلک الليلة وقالت حمل برسول الله صلي الله عليه وسلم ورب الکعبة وهو امام الدنيا وسراج اهلها ولم يبق سرير ملک من ملوک الدنيا إلا اصبح منکوسا ومرت وحش المشرق إلی وحش المغرب بالبشارات وکذلک اهل البحار يبشر بعضهم بعضا۔ له في کل شهر من شهوره نداء فی الارض ونداء في السماء ان ابشروا فقد آن لابي القاسم ان يخرج إلي الارض ميمونا مبارکا ۔
ترجمہ:امام ابو نعیم نے سیدنا عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شکم مادر میں تشریف لانے کی نشانیوں میں یہ تھا کہ اس رات قریش کے سارے جانور بول اُٹھے: رب کعبہ کی قسم! آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادر میں تشریف لائے ہیں،آپ ساری دنیا کے امام اور تمام اہل دنیا کے لئے روشن چراغ ہیں،اس شب دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت الٹ گئے،مشرق کے جانور مغرب کے جانوروں کو مبارکبادیاں دینے لگے،اسی طرح سمندر کی مخلوق بھی آپس میں ایک دوسرے کو بشارت دینے لگی، حمل شریف کے بعد ہر ماہ آسمان اور زمین میں ندا دی جاتی:"مبارک ہو!سرچشمۂ خیر وسراپا برکت ،حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جلوہ گری کا وقت آچکاہے ۔ ( المواھب اللدنیۃ مع حاشیہ الزرقانی ج 1ص202۔203۔الخصائص الکبری،ج1ص81،چشتی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد سے قبل اللہ تعالی نے کس قدر فرحت وخوشی کا اہتمام فرمایا،ہر طرف سرورکا ماحول ہے،مسرت وشادمانی کا سما چھایا ہوا ہے ، سورج کو مزید روشن کردیا گیا،ستارے زمین کے قریب آگئے،چارسُو نور ہی نور چھاگیاہے،ملائکہ استقبال کے لئے حاضر ہیں،حضرت مریم وحضرت آسیہ حوران بہشت کے ساتھ خدمت کی سعادت کے لئے آچکی ہیں،نور کامل کی آمد کی خوشی میں آسمان کو منور کردیا گیا،حسن مطلق کی آمد کی فرحت میں زمین کو مزین کردیا گیا،گلستان مہکنے لگے،مسحورکن ہوائیں قلب وجاں کو سرور پہنچانے لگیں،جن سے مشام جان بھی مُعطر ہونے لگا اور مشام ایمان بھی مُعنبر ہونے لگا،اشتیاق محبوب میں سمندر کی موجیں بلند ہونے لگیں،فخر سے پہاڑ کا سینہ کشادہ ہوگیا۔

غرض ساری مخلوق منتظر ہے اس ذات گرامی کی آمد کی،جس کے لئے بزم کائنات سجائی گئی،جس کے صدقہ میں مخلوق کو وجود بخشا گیا ۔ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوچکی ہیں،وہ احمد مختار ،رسولوں کے تاجدار ،نبی عالی وقار،غریبوں کے غمگسار،حبیب کردگار کی آمد ہے ، جن کی جلوہ گری کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی،جن کی رونق افروزی کی بشارت حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی، جن کے فضائل وکمالات کتب سماوی میں بیان کئے گئے ۔

اصحاب فیل کے واقعہ کے پچپن ( 55) دن بعد مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاوّل بروز دوشنبہ مطابق20 اپریل571 ؁ صبح صادق کے وقت آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم طلوع ہوا جس کی کرنیں افق عالم کو ہمیشہ کے لئے روشن کردیں اور ساری دنیا میں خوشی کا سماں چھا گیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ربیع الاول ہے ، آپ کی ولادتِ مبارک ماہ ربیع میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ربیع کے معنی بہار کے ہیں ، جب موسم بہار آتا ہے تو مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے، خشک زمین میں پھر سے ہریالی اُگ آتی ہے ،درخت جو سوکھ چکے تھے وہ پھر ہرے بھرے اور ترو تازہ ہوجاتے ہیں، باغ و چمن کو اپنی کھوئی ہوئی رونق پھر سے حاصل ہوجاتی ہے ، اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ ماہِ ربیع (موسم بہار) میں ماہِ نبوت ، مہررسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھیج کر یہ اشارہ فرما رہا ہے کہ ائے لوگو! یہ جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم میں تشریف لارہے ہیں وہ مردہ دلوں کو زندگی بخشنے والے ہیں ، جو لوگ ظلم و ستم کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان پر رحم وکرم فرمانے والے ہیں ، لوگوں کے دلوں کو الفت ومحبت سے مزین کرکے حلاوتِ ایمان مرحمت فرمانے والے ہیں اور غفلت میں ڈوبے ہوئے دلوں کو یاد خدا سے معمور کرنے والے ہیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی امتیازی شان : دنیا میں بچے پیدا ہوتے ہیں تو روتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں ،لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے ہوئے ،کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ساری کائنات کو مسرت و شادمانی سے نوازتے ہوئے تشریف لارہے ہیں، آپ کا سجدہ کرنا کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کو سجدہ گاہ بنادیا۔

صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے : عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .. قَالَ .... وَجُعِلَتْ لِیَ الاَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا۔
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔۔۔اور میری خاطرساری زمین پاک کرنے والی اور سجدہ گاہ بنادی گئی۔(صحیح مسلم،کتاب المساجد، حدیث نمبر1195)
پچھلی قوموں کے لیے یہ حکم تھا کہ اگر عبادت کرنا ہو تو مخصوص مقام پر ہی عبادت کریں ،وہ لوگ اس کے علاوہ دوسری جگہ عبادت نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب طوفان آیا تو ساری زمین زیرآب ہوگئی اور تمام زمین کو غسل دیا گیا ،پھر بھی زمین پاک نہیں ہوئی کہ کہیں بھی سجدہ کیا جاسکے، لیکن سرکار کا قدم مبارک پڑنا کیاتھا کہ ساری زمین پاک ہی نہیں بلکہ آپ کی آمد کی برکت سے پاک کرنے والی بن گئی ۔
اسی طرح گزشتہ قوموں کے لیے تیمم نہیں تھا، لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں کی برکت سے زمین ایسی پاک ہوگئی کہ آپ کے امتی کے لئے اگر کسی وقت پانی میسر نہ ہو تو وہ مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرسکتا ہے۔

تمام کائنات کو کفر و شرک کی نجاست، گمراہی و بے دینی کی نحوست سے پاک و صاف کرکے ایمان و اسلام کے انوار سے منور کرنے کے لیے نبی مطہر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، آپ کی حالت شریفہ کے بارے میں خود آپ کی والدۂ ماجدہ فرماتی ہیں: جب آپ تشریف لائے تو اس حالت میں تشریف لائے کہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی آلائش و نامناسب چیز نہ تھی ۔ (المواہب اللدنیۃ مع حاشیہ الزرقانی۔ج1 ۔ص220)

جسم اقدس سے خوشبو مہک رہی تھی اور آپ سرمہ لگائے ہوئے ناف بریدہ اورمختون پیدا ہوئے ۔ (السیرۃ الحلبیۃ ۔ج1 ۔ص53)

شاعر دربار رسالت ، مدّاح حبیب کبریا، سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر بھی اس مضمون کا آئینہ دار ہے :

واَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاء ُ

خُلِقْتَ مَبَرّاً مِنْ کُلِّ عَْيبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاء ُ

ترجمہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ جیسا حسیں میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا او رآپ جیسا حسن وجمال والا کسی خاتون کو تولدہی نہیں ہوا۔
آپ ہرعیب وآلائش سے پاک پیداکئے گئے گویا آپ کو اسی شان کے ساتھ پیداکیاگیا جیسا آپ چاہتے تھے ۔ (دیوان حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، قافیۃ الالف ، ج1ص2)

بوقت ولادت عجائب کا ظہور، خانۂ کعبہ تین دن تک جھومتا رہا : جس سہانی گھڑی سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کی آمد کی خوشی کا اظہار خانۂ کعبہ بھی کررہا تھا : واخرج ابو نعيم عن عمرو بن قتيبة قال سمعت ابي وکان من اوعية العلم قال لما حضرت ولادة آمنة قال الله لملائکته افتحوا ابواب السماء کلها وابواب الجنان کلها وامر الله الملائکة بالحضور فنَزَلت تبشر بعضها بعضا وتطاولت جبال الدنيا وارتفعت البحار وتباشر اهلها فلم يبق ملک إلا حضر واخذ الشيطان فغل سبعين غلا والقي منکوسا فی لجة البحر الخضراء وغلت الشياطين والمردة البست الشمس يومئذ نورا عظيما واقيم علی راسها سبعون الف حوراء في الهواء ينتظرون ولادة محمد (صلي الله عليه وسلم) وکان قد اذن الله تلک السنة لنساء الدنيا ان يحملن ذکورا کرامة لمحمد (صلي الله عليه وسلم) وان لا تبقي شجرة إلا حملت ولا خوف إلا عاد امنا فلما ولد النبی (صلي الله عليه وسلم) امتلات الدنيا کلها نورا وتباشرت الملائکة وضرب فی کل سماء عمود من زبرجد وعمود من ياقوت قد استنار به فهي معروفة في السماء قد رآها رسول الله (صلي الله عليه وسلم) ليلة الإسراء قيل هذا ما ضرب لک استبشارا بولادتک . وقد انبت الله ليلة ولد علي شاطء نهر الکوثر سبعين الف شجرة من المسک الاذفر جعلت ثمارها بخور اهل الجنة وکل اهل السموات يدعون الله بالسلامة ونکست الاصنام کلها واما اللات والعزي فإنهما خرجا من خزانتهما وهما يقولان ويح قريش جاء هم الامين جاء هم الصديق لا تعلم قريش ماذا اصابها واما البيت فاياما سمعوا من جوفه صوتا وهو يقول الآن يرد علي نوري الآن يجيئني زواري الآن اطهر من انجاس الجاهلية ايتها العزي هلکت ولم تسکن زلزلة البيت ثلاثة ايام ولياليهن وهذا اول علامة رات قريش من مولد رسول الله (صلي الله عليه وسلم)
ترجمہ : سیدنا عمرو بن قتیبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا -اور وہ علم کا ایک عظیم ظرف تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت آیاتواللہ تعالی نے اپنے ملائکہ کو حکم دیا کہ تمام آسمانوں اور تمام جنتوں کے دروازے کھول دیں اور زمین پر حاضر ہوجائیں،تو تمام فرشتے زمین پر حاضر ہوگئے،اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دینے لگے،اور دنیا کے پہاڑ اونچے ہوگئے،اور سمندر کی موجیں بلند ہوگئیں،اور سمندر کی مخلوق آپس میں ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دینے لگی،تمام فرشتے حاضر ہوچکے تھے،اور شیطان کو ستر بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا،اور اسے سبز سمندر کی گہرائی میں منہ کے بل ڈال دیا گیا، شیاطین اور سرکش جنوں کو قیدوبند کی زنجیروں میں جکڑدیا گیا،اور اس دن سورج کو نور عظیم سے آراستہ کیا گیا،اور اس کے اوپر فضا میں ستر ہزار حوروں کو ٹھرایا گیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مسعود گھڑیوں کا انتظار کرتی رہیں،اور اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعزاز میں اس سال اللہ نے دنیا کی تمام خواتین کے بارے میں فیصلہ کردیا کہ انہیں لڑکا پیدا ہوگا،اور تمام درختوں کو ثمرآور کردیا گیا،اور ہر خوف کو امن میں تبدیل کردیا گیا،جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساری دنیا نور سے معمور ہوگئی،اور ملائکہ آپس میں ایک دوسرے کو خوشخبری دینے لگے،اور ہر آسمان میں زبرجد اور یاقوت کا ایک ایک ستون نصب کیا گیا،جس کی وجہ سے آسمان منور ہوگیا،وہ ستون ملاء اعلی میں معروف ہے،جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معراج کی شب ملاحظہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ یہی وہ ستون ہے جو آپ کی ولادت کی خوشی میں نصب کئے گئے،اور جس شب آپ کی ولادت ہوئی اللہ تعالی نے حوض کوثر کے کنارہ پرستر ہزار خوشبودار مشک کے درخت لگائے،اور ان کا پہل اہل جنت کے لئے بخور بنادیا گیا،اورتمام آسمانوں کی مخلوق اللہ تعالی سے سلامتی کی دعا کرنے لگے،اورتمام بت سرنگوں ہوگئے،اور لات وعزی اپنے مقام سے باہر نکل پڑے،اور وہ کہہ رہے تھے:"قریش کا بھلا ہو! ان کے پاس نبی امین تشریف لاچکے ہیں،ان کے پاس صداقت شعار آچکے ہیں،قریش کو نہیں معلوم کہ اسے کیا فضیلت حاصل ہوئی ہے"،اورلوگوں نے کعبۃ اللہ شریف سے کئی روز تک آواز سنی ،وہ کہہ رہا تھا:اب میرا نور مجھے لوٹا دیا جائے گا،اب میرا طواف کرنے والے میرے پاس آئینگے،اب میں جاہلیت کی آلودگیوں سے پاک کردیا جاؤنگا،ائے عزی!تو ہلاک ہوگیا،اور کعبۃ اللہ مسلسل تین دن اور تین رات تک جھومتا رہا،اور یہ پہلی نشانی تھی جسے قریش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے موقع پر دیکھی تھی۔(الخصائص الکبری،ج1،ص:80،چشتی)

وعن عبد المطلب قال: ۔ ۔ ۔ سمعت صوتاً من جدار الکعبة يقول : ولد المصطفي المختار الذي تهلک بيده الکفار، ويطهر من عباده الاصنام، ويامر بعبادة الملک العلام .
ترجمہ : حضرت عبدالمطلب فرماتے ہیں :میں نے کعبہ شریف کی دیواروں سے یہ آوازسنی" مختار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت ہوچکی ہے،جن کے وجود مبارک سے کفر کی تاریکی ختم ہوگی،بتوں کی پرستش سے دنیاکوپاک کرینگے اورخدائے واحد کی طرف لوگوں کوبلائینگے ۔ (السیرۃ الحلبیۃ،ج 1 ص 86)

سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان مسندامام احمد میں روایت ہے : عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ ... اَنَّ اُمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَاَتْ حِينَ وَضَعَتْهُ نُوراً اَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ .
ترجمہ : سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدۂ ماجدہ نے مشاہدہ فرمایاکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ ملک شام کے محلات نظر آنے لگے ۔ (مسند الامام احمد : حدیث نمبر ۔17615)

یہ سب انتظام کس لئے ہورہا ہے کیونکہ یہ ا س شاہ کی آمد ہے کہ جس کی آمدکا ہرکوئی منتظر تھا ، انبیاء کرام جن کے آنے کی خوشخبریاں دیتے رہے، یہ وہی ہیں جن کی امت میں ہونے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آرزو تھی ۔

ولادت باسعادت کی خوشی میں تین جھنڈے نصب کئے گئے : محدث جلیل امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکر سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خصائص کبری میں ، اور شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مواہب لدنیہ میں درج فرمایا ہے : فکانت آمنة تحدث عن نفسها وتقول ۔۔۔ورايت ثلاثة اعلام مضروبات : علما فی المشرق وعلما فی المغرب وعلما علی ظهر الکعبة ۔
ترجمہ : سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ولادت باسعادت کے وقت تین جھنڈے نصب کے گئے:(1) ایک مشرق میں( 2) دوسرا مغرب میں(3) اور تیسرا خانۂ کعبہ پر- (الخصائص الکبری ، باب اخبار الکہان بہ قبل مبعثہ ،ج:1،ص:82۔المواہب اللدنیۃ،ج1،ص125چشتی)

کعبۃ اللہ شریف پر جھنڈا اس لئے نصب کیا گیا کہ تاکہ دنیا والوں کو پتا چل جائے کہ اب تک کعبۃ اللہ کے اطراف تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ،وہاں باطل کی پرستش ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ نبی مکرم ،شافع امم،رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لاچکے ہیں جو کعبۃ اللہ کو تمام آلائشوں سے پاک کریں گے،اسے ساری دنیا کے لئے قبلہ بنائینگے ۔ اور مشرق ومغرب میں جھنڈا نصب کرکے گویا یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ یہ مولود سعید ،مختار کائنات ہیں،مشرق سے مغرب تک انہی کی حکومت رہے گی،اور آپ ساری مخلوق کے لئے رسالت کی شان کے ساتھ مبعوث کئے جارہے ہیں۔اس کی تائید صحیح احادیث شریفہ سے ہوتی ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث پاک ہے : عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔خَرَجَ يَوْمًا ۔۔ فَقَالَ :۔۔ وَإِنِّي قَدْ اُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الاَرْضِ ۔
ترجمہ : سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیشک مجھے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام،حدیث نمبر3596)
اور صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے : عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ..وَاُرْسِلْتُ إِلَي الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ ۔
ترجمہ : سیدناابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تمام مخلوق کی طرف رسالت کی شان کے ساتھ بھیجاگیاہوں،اور مجھ پر نبوت کے سلسلہ کو ختم کردیا گیا ۔ (صحیح مسلم،کتاب المساجد،حدیث نمبر1195)

سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : وسمعت مناديا ينادي طوفوا بمحمد شرق الارض وغربها..... وإذا قائل يقول بخ بخ قبض محمد (صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) علي الدنيا کلها لم يبق خلق من اهلها إلا دخل في قبضته -
ترجمہ : جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت ہوئی،تو یہ ندا دی گئی:"آپ کو زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی سیر کراؤ"!۔۔اور ایک کہنے والے نے کہا:"خوش ہوجاؤ!محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے، دنیا کی تمام مخلوق برضا ورغبت آپ کے قبضہ میں داخل ہوگئی ۔ (الخصائص الکبری ، باب اخبار الکہان بہ قبل مبعثہ ،ج:1،ص:82،چشتی)

امام بیہقی اورامام ابونعیم نے روایت کی ہے : اخرج البيهقي وابو نعيم عن حسان بن ثابت قال إني لغلام يفعة ابن سبع سنين او ثمان اعقل ما رايت وسمعت إذا يهودي بيثرب يصرخ ذات غداة علي اطمه يا معشر يهود ! فاجتمعوا إليه - وانا اسمع - قالوا ويلک مالک ؟ قال : طلع نجم احمد الذي ولد به في هذه الليلة ۔
ترجمہ : حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں سات یاآٹھ سال کی عمر کا ایک سمجھ دار لڑکا تھا ، میں نے دیکھا کہ یثرب کاایک یہودی صبح کے وقت اپنے قلعہ کی چھت پر کھڑا پکار نے لگا :اے گروہ یہود!آس پاس کے سارے یہودی جمع ہوگئے ، لوگوں نے اس سے کہا: تیری خرابی ہو، کیوں شور مچاتا ہے ؟ وہ کہنے لگا: احمد مختار کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے ،جن کی آج رات ولادت باسعادت ہونے والی تھی ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات والخصائص ج 1 ۔ص77)

امام بیہقی ، امام طبرانی ،امام ابونعیم او رامام ابن عساکر رحمہم اللہ نے روایت کی ہے : واخرج البيهقي والطبراني وابو نعيم وابن عساکر عن عثمان بن ابي العاص قال : حدثتني امي انها شهدت ولادة آمنة اُمَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة ولدته قالت فما شیء انظر إليه فی البيت إلا نور وإنی لانظر الی النجوم تدنو حتی اني لاقول ليقعن علي فلما وضعت خرج منها نور اضاء له البيت والدار حتی جعلت لا اری إلا نورا ۔
ترجمہ : سیدناعثمان بن ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ میری والدہ نے بتایا :میں اس رات حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تھی، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ، میں گھر میں جس چیز کو دیکھتی وہ روشن و منور نظر آتی،میں نے ستاروں کو دیکھا کہ وہ قریب سے قریب تر ہورہے ہیں حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے ، پھر جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے وضع حمل کیا تو آپ سے ایسا نور برآمدہوا جس سے تمام کمرے،اورسارا گھر روشن ہوگیا، یہاں تک کہ مجھے نور کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دینے لگا ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات والخصائص ج 1 ۔ص78)

حجر اسود نے مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا : حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ سے واپس ہوتے وقت بغرض استبراک حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے پہونچیں،اس وقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کی مبارک گودمیں تھے، آپ نے دیکھا وہ حجر اسود جس کو تمام لوگ بوسہ دیتے ہیں بذات خود شدتِ اشتیاق و کمالِ محبت کے ساتھ اپنی جگہ سے آکر سرکار کا بوسہ لیا اور اپنی جگہ پر واپس چلاگیا۔ جیساکہ تفسیر مظہری میں ہے : وجاء ت به إلى الحجر الاسود ليقبّله فخرج الحجر الاسود من مکانه حتی التصق بوجهه الکريم صلى اللّه عليه وسلم ۔ (تفسیر مظہری ۔سورۃ النور۔ ج 6۔ ص 528،چشتی)

ذکر ولادت ،بزبان تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم : امام احمد بن حنبل،امام بزار ،امام طبرانی،امام حاکم ،امام بیہقی اورامام ابونعیم رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے : واخرج احمد والبزار والطبرانی والحاکم والبيهقی وابو نعيم عن العرباض بن سارية ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال إنی عبد الله وخاتم النبيين وان آدم لمنجدل فی طينته وساخبرکم عن ذلک دعوة ابی ابراهيم وبشارة عيسی ورؤيا امی التی رات وکذلک امهات النبيين يرين وان ام رسول الله صلی الله عليه وسلم رات حين وضعته نورا اضاء ت له قصور الشام ۔
ترجمہ : سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہیکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میں اس وقت بھی اللہ کابندہ اورخاتم النبیین تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ہنوزاپنے خمیرمیں تھے ، اور میں تم لوگوں پر واضح کرتا ہوں کہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعاء اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدۂ ماجدہ کا وہ نظارہ ہوں جو انہوں نے مشاہدہ کیا تھااوراسی طرح حضرات انبیاء کرام کی مقدس مائیں مناظر دیکھا کرتی تھیں،اوربلا شبہ آپ کی والدۂ ماجد ہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ایسانور دیکھا جس کی وجہ سے ان کے سامنے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات والخصائص ج 1 ۔ص78)
ایک روایت کے مطابق حشر ملک شام میں بپا ہوگااور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر بطور خاص ملک شام کے محلات نظر آنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس مولود سعید کی فیض رسانی اِس عالم میں بھی ہے اور اُس عالم میں بھی،ان کی کرم نوازیاں دنیا میں بھی ہے اور میدان حشر میں بھی۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانا فطری تقاضہ : انسان کی طبیعت و فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اُسے کوئی تکلیف یا غم لاحق ہوتا ہے یا کسی کی تکلیف کو سنتا ہے تو اس کے چہرے پر خود بخود غم کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، اسی طرح جب کوئی حسین منظر دیکھتا ہے یا کوئی نعمت اسے حاصل ہوتی ہے تو فطرتاً اس کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ہر ایک کے سامنے اس کا چرچہ کرنے لگتا ہے، اس پر نہ کسی کا دباؤ ہوتا ہے نہ اسے کوئی برا سمجھتا ہے ۔ غور کرنا چاہئے کہ دنیا کی چھوٹی سی نعمت کے حصول پر اتنا اظہارِ مسرت جبکہ دنیا بھی فانی اس کی نعمتیں بھی فانی، اس کے لیے طبیعتاً اتنی خوشی ہے تو پھر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تو نعمتِ عظمیٰ اور نعمت کبریٰ ہے کہ تمام نعمتیں خواہ دنیوی ہوں یا اُخروی اُنہی کے صدقے میں ملتی ہیں ،اس نعمت کی سرفرازی پرہمیں کتنی خوشی و اظہار مسرت کرنا چاہیے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کرنا تقاضۂ فطرت بھی ہے اور منشاء قدرت بھی ،ارشاد الہی ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِه فَبِذَلِکَ فَلْيَفْرَحُوا۔(سورۃ یونس۔58)
ترجمہ:آپ فرمادیئجے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل پر ہی خوشی منائیں۔

جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجرعظیم وثواب جزیل عطافرماتاہے ۔ صحیح بخاری شریف اور دیگر کئی کتب حدیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ یہ روایت مذکور ہے ، بعض روایتوں میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل ہے ، صحیح بخاری شریف ،ج 2،صفحہ 764،کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : قَالَ عُرْوَةُ وَثُوَيْبَةُ مَوْلاَةٌ لاَبِي لَهَبٍ کَانَ اَبُو لَهَبٍ اَعْتَقَهَا فَاَرْضَعَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَلَمَّا مَاتَ اَبُو لَهَبٍ اُرِيَهُ بَعْضُ اَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ قَالَ لَه مَاذَا لَقِيتَ قَالَ اَبُو لَهَبٍ لَمْ اَلْقَ بَعْدَکُمْ غَْيرَ اَنِّی سُقِيتُ فِی هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں " ثُوَیْبَہ " ابولہب کی باندی ہے، ابو لھب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اُسے بدترین حالت میں دیکھا،اس سے کہا : تو نے کیا پایا؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ،سوائے یہ کہ ثُوَیْبَہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اِس (انگلی ) سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔ (صحیح البخاری شریف ،کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین ، حدیث نمبر:5101،چشتی)
اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرھمارحمہم اللہ تعالی نے اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرمائی ہے۔یہاں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح عمدۃ القاری ج،14 صفحہ 45، سے عبارت نقل کی جارہی ہے : وذکر السهيلي ان العباس رضی اللع تعالى عنه قال لما مات ابولهب رايته فى منامي بعد حول فی شرحال، فقال مالقيت بعدکم راحة الا ان العذاب يخفف عني کل يوم اثنين، قال وذلک ان النبي صلى اللع عليه وسلم ولد يوم الاثنين وکانت ثويبة بشرت ابالهب بمولده فاعتقها۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب مر گیا تو میں نے ایک سال کے بعد خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا تو اس نے کہا :میں تم سے جداہونے کے بعد اب تک راحت نہیں پایا ،البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ۔حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :وہ اس لئے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن تولد ہوئے اور ثُوَیْبَہ نے ابولہب کو آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تو اس نے انہیں آزاد کردیا تھا ۔ (عمدۃ القاری، کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین،ج14،ص45)
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ اِن کتب احادیث میں بھی وارد ہے:السنن الکبری للبیھقی،کتاب النکاح ،حدیث نمبر14297۔مصنف عبدالرزاق ، کتاب المناسک ج7۔حدیث نمبر13546۔جامع الاحادیث والمراسیل، مسانید الصحابۃ،حدیث نمبر43545۔کنزالعمال، ج6،کتاب الرضاع من قسم الافعال ،حدیث نمبر15725۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسے ہی دنیا میں آمد ہوئی ، اس کی برکت سے حضرت ثویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزادی مل گئی ،اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ وہ حبیب جلوہ گر ہوئے ہیں جوانسانیت کوطوقِ غلامی سے آزاد فرمانے والے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں ذکرمیلادکی سعادتوں اور برکتوں سے مالامال فرمائے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے انتہا محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...