مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی تعلیمات ادائیگی حقوق
ہر انسان پر مختلف حیثیتوں سے مختلف حقوق عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لئے کھانا اور پینا ضروری ہے۔آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر بیٹا اپنے والدین کے اور والدین اپنے اولاد کے ،شوہر اپنی بیوی کے اور بیوی اپنے شوہر کے، مالک اپنے نوکر کے اور نوکر اپنے مالک کے،استاد اپنے شاگرد کے اور شاگرد اپنے استاد کے اوراسی طرح حکومت اپنی رعایا کے اور رعایا اپنی حکومت کے حقوق ادانہ کریں ۔تواس صورت میں ایک انسانی معاشرہ کی کتنی بد نما تصویر ہوگی؟اور کیا اسے انسانوں کا معاشرہ کہا جا سکے گا؟ہر گز نہیں۔
اسی لئے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی امت کے ہر فرد کو اپنے اوپر عائدحقوق کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دلائی اور انہیں حقوق کے ادا نہ کر نے کے نقصانات سے ڈرایا ۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے صحابہ کرام سے ارشاد فر مایا کہ:جانتے ہو مفلس کون ہے؟صحابہ کرام نے عرض کیا کہ:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ! ہم لوگ تو مفلس اسی کو کہتے ہیں جس کے پاس مال و دولت نہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا:میری امت میں مفلس و کنگال وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ،روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ کے ثوابوں کا انبار)لے کر آئے گا مگر اس شخص نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تمہت لگایا ہوگا ،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا ۔تو (اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کے حقوق وہ دنیا میں مارا ہوگا،ان کے حقوق کی ادائیگی کے لئے )اس شخص کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی توان لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے اور( آخر کار)اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم الظلم،حدیث:۲۵۸۱)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : دفتر تین ہیں ۔ایک دفتر میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ بخشے گا اور ایک دفتر کی اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں اور ایک دفتر میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ چھوڑے گا ۔وہ دفتر جس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں وہ تو کفر وشرک ہے کہ وہ کسی طرح نہ بخشا جائے گا ۔اور وہ دفتر جس کی اللہ تعالی کو کچھ پرواہ نہیں وہ بندے کا گناہ ہے خالص اپنے اور اپنے رب کے معاملے میں کہ کسی دن کا روزہ چھوڑدیا یا کوئی نماز ترک کردی۔اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف کردے اور درگزر فر مائے۔اور وہ دفتر جس میں سے اللہ تعالیٰ کچھ نہ چھوڑے گا وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ اس کا ضرور بدلہ ہونا ہے۔(مسند احمد بن حنبل،حدیث:۲۵۵۰۰،چشتی)
یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : بے شک قیامت کے دن تمہیں حق والوں کا حق ادا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا ۔ (مسلم،حدیث:۲۵۸۲)
پھر وہاں روپئے پیسے تو ہوں گے نہیں کہ اسے دے کر حق ادا کرادیا جائے گا تو ادائیگئی حق کا طریقہ یہ ہوگا کہ حق والوں کو حق مارنے والے کا ثواب دے دیا جائے گا۔حق پورا ہوگیا تو ٹھیک۔ نہیں تو پھر اس کا گناہ اس پر ڈال دیا جائے گا۔جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان کیا گیا ۔
اسی لئے ہر انسان پر ضروری ہے کہ اگر ان پر کسی کا ایسا حق ہو جو قابل ادا ہو تو اسے اس دن کے آنے سے پہلے اداکر دے اور اگر کوئی ایسا حق ہو جو ادا نہیں کیا جا سکتا تو اس سے معافی مانگ لے ۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : جس کے ذمہ اپنے بھائی کی عزت و آبرو وغیرہ کسی بھی بات کا مظلمہ ہو(یعنی گناہ ہو) تو اس پر ضروری ہے کہ یہیں اس سے معافی مانگ لے ۔ اس وقت کے آنے سے پہلے کہ وہاں نہ روپیہ ہوگا نہ اشرفی ،اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کے حق کے مطابق اس سے لے کر اس کو دے دیا جائے گا نہیں تو اس کے گناہ اس پر ڈال دئے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری، کتاب المظالم،باب من کانت لہ مظلمۃ،حدیث:۲۴۴۹،چشتی)
مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے جس طرح اپنی امت کو تعلیم دیا اسی طرح خود بھی اس پر عمل کرکے اپنا بہترین نمونہ اپنی امت کے لئے چھوڑا چنانچہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام علالت کے دنوں میں بخار کی حالت میں میرے پاس تشریف لائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم اپنا سر مبارک باندھے ہوئے تھے ،اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو بخار بہت شدید تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے مجھے حکم دیا کہ : اے فضل میرا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے دست مبارک پکڑ لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم منبر پر جا کر تشریف فر ما ہوئے اور مجھے فر مایا کہ : لوگوں میں اعلان کردو کہ سب لوگ جمع ہو جائیں ۔میں نے بلند آواز سے’ الصلوۃ جامعہ ‘ کہا ،تو لوگ یہ سنتے ہی جوق در جوق مسجد نبوی میں پہونچنا شروع ہوگئے ۔جب سب لوگ آگئے اور اطمینان سے بیٹھ گئے تو اس مرشد برحق نے شدید علالت کے باوجود اپنے صحابہ کرام کو یوں خطاب فر مایا:اے لوگو! اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کبھی کوئی دُرّہْ مارا ہے تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ،وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے۔اگر میں نے کسی کو برا بھلا کہا ہے تو میری عزت و آبرو حاضر ہے ،وہ اس سے اپنا انتقام لے سکتا ہے ۔اگر کسی کا مال چھینا ہے تو میرا مال حاضر ہے ۔وہ اس سے اپنا حق لے سکتا ہے ۔تم میں سے کوئی یہ نہ سوچے کہ اگر کسی نے مجھ سے بدلہ لیا تو میں اس سے ناراض ہو جائوں گا۔نہیں ،یہ میری شان نہیں ہے۔مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ اگر کسی کا حق میرے ذمہ ہے تو وہ مجھ سے وصول کر لے یا مجھے معاف کردے ۔تا کہ میں اللہ سے ایسی حالت میں ملاقات کروں کہ کسی کا حق میرے ذمے واجب الادا نہ ہو۔(بخاری،بحوالہ:ضیاء النبی ،جلد۴؍ص:۸۰۰،چشتی)
یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کبھی کسی کا حق مارا نہ کبھی کسی پر ظلم کیا۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا اپنے صحابہ کے سامنے اس طر ح خطاب فر مانا ۔ آخر کیوں تھا ؟
یہ یقینا اپنی امت کی تعلیم اور تر بیت کے لئے تھا اور حقوق کی ادائیگی کی اہمیت کو اجاگر کر نے کے لئے تھا ۔ مگر افسوس آج ہم اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی تعلیمات کو بھلا ئے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق مارنے میں سر گرم عمل ہیں ۔دوسروں کی برائی کرنا،دوسروں کی عزت اچھا لنا ،کمزوروں کو ستانا اوربرا بھلا کہنا تو ہمارے لئے ایک معمولی بات بن گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہماری آخرت کے ساتھ دنیا بھی تباہ و برباد ہورہی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے صدقے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment