امن پسندیِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
امن پسندی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نمایاں ترین وصف تھا یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمطاقت وقوت کے باوجود اپنے سخت سے سخت دشمنوں کو معاف کر دیا کرتے تھے اور حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑے اور ماحول کو کشیدہ بنانے سے کو سوں دور رہا کرتے تھے ۔ اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دیا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو قیام امن کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فر مایاکہ: تم میں سے جو کوئی ناحق جھگڑا کرنا چھوڑ دے کیو نکہ وہ باطل ہے(یعنی چھوڑنے کی چیز ہی ہے)تو اس کے لئے جنت کے کنارے میں ایک محل بنایا جائے گا اور جو حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا کرنا چھوڑ دے تو اس کے لئے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا اور جو اپنا اخلاق اچھا بنا لے(یعنی ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے)تو اس کے لئے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل بنایا جائے گا ۔ (سنن ابودائود، حدیث:۴۸۰۰)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امن پسندی کی ہمہ گیری کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کے اس دین کے احکام کا تجزیہ کرنا ضروری ہے جس نے پورے عرب ہی کو نہیں بلکہ ان تمام ممالک کوجہاں پر آپ کے جانثاروں نے خلق خدا کی خدمت کرنے کا شرف حاصل کیا۔امن و سکون کا ایسا گہوارہ بنایا جس کی نظیر وہاں نہ پہلے دیکھی گئی اور نہ ان کے بعد ۔جس سے وہاں کے کافر و مشرک اور یہودی اور عیسائی باشندے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپراپنے ہم مذہب بھائیوں کے بجائے ان کی حکومت کے زیر سایہ رہنے میں اپنی عافیت سمجھی اور جب کسی وجہ سے منبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیوانوں کو وہاں سے جانے کی نوبت آئی تووہ لوگ ان کی حکومت کی بقا کے لئے اپنے اپنے انداز میں رو رو کر دعائیں کر نے پر مجبور ہوگئے ۔
چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملک شام کے گورنر تھے ۔جب آپ کو معلوم ہوا کہ عیسائی بادشاہ ہرقل ملکِ شام کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر رہا ہے اس وقت آپ کے پاس صرف ایک چھوٹی سی جماعت تھی جو دمشق شہر کی حفا ظت نہیں کر سکتی تھی تو آپ نے دمشق کے باشندوں کو جمع کر کے ان سے کہا:ہم نے آپ لوگوں سے شہر کی حفاظت کرنے کے بدلے جزیہ(یعنی ٹیکس) لیا تھا ،لیکن اب ہم ہرقل کے مقابلے میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے ۔اس لئے ہم جزیے کا مال تمہیں واپس کر رہے ہیں ۔کیو نکہ ہم بلا وجہ یہ مال اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔چنانچہ جزیے کی مد میں لئے گئے اموال ان کے مالکوں کو واپس کر دئے گئے۔یہ نا قابل یقین منظر دیکھ کر عیسائیوں کے رہبان اور یہودیوں کے پادری اپنی عبادت گا ہوں کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی مدد اور بقا کی گڑگڑا کر دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کو الوداع کرتے ہوئے انہوں نے کہا:انشاء اللہ !تم لوگ جلد واپس آئوگے اور ہمیں ہرقل کے ظلم وستم سے نجات دلائوگے ۔ (عمر بن الخطاب:جوانبہ المختلفہ وادارتہ للدولۃ،جلد۱؍ص:۲۱۳۔۲۱۴،بحوالہ:نور سرمدی فخر انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ، جلد ۱؍ص:۱۷۷۔۱۷۸،چشتی)
اسی طرح جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے۴۹۲ھ میں قبضہ کیا تو وہاں کے مسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا کہ ان کے گھوڑوں کے پائوں مسلمانوں کے خون میں ڈوب گئے مگر ٹھیک۹۱؍سال کے بعد ۵۸۳ھ میں جب مسلمانوں کے سالار صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے بیت المقدس پر فتح ونصرت کا پر چم لہرایا تو نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے مال ودولت کے ساتھ مکمل حفاظت کے ساتھ جانے دیا بلکہ قانونی اعتبار سے جو فدیے کی رقم ان پر لاگو کی گئی تھی۔ جب ان کا مالدار طبقہ اپنے فدیہ کی رقم ادا کر کے چلا گیا اور اپنے غریب بھائیوں کو بے یار ومددگار اوربے سہارا چھوڑ دیا تو صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں بد بختوں اور درندہ صفت وحشی قسم کے لوگوں کو جنہوں نے مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی تھی ۔اپنے جیب خاص سے ان پر لاگو فدیے کو ادا کر کے انہیں با عزت طریقے سے رہا کیا ۔
اس کے علاوہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیض یافتہ صحابہ اور بعد کے لوگوں نے امن و امان کا ایسا بے مثال مظا ہرہ کیا کہ جس سے دشمنان اسلام بھی متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔اور جی کھول کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میں بسے ہوئے لوگوں کی بارگاہ میں ھدیہ تشکر کے گلدستے پیش کرنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ یہ کہ صرف امن وامان کو پسند فر ماتے تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ان تمام سر چشموں کو جہاں سے بد امنی کے جراثیم پنپتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔
آج امن کے جھوٹے دعویدار ایک طرف تو لوگوں کے حقوق کا گلا انتہائی بے رحمی اور سفا کی سے گھونٹتے ہیں اور عوام جب اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لئے سڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر کھڑے نظر آتے ہیں تو ان سے امن قائم رکھنے کی درخواست کی جاتی ہے ۔
کوئی ہمیں بتا ئے کہ : کیا اس طر ح سے قیامت تک کوئی امن و امان قائم کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اسی لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امن وامان قائم رکھنے کے لئے ہر شخص کو اپنے اوپر عائد حقوق کو ادا کرنے کی تر غیب دیا اور حقوق کے ادا نہ کرنے کے انجام سے ڈرایا اورخود بھی سب کے حقوق ادا فر مائے۔ کیو نکہ ایک گھر کے اندرونی امن کا مسئلہ ہو یا ملکی اور عالمی امن کا مسئلہ ہر سطح پربد امنی اور انتشار اسی وقت اپنے مہلک پر نکا لتے ہیں جب کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment