زندوں کا وسیلہ جائز اور وفات یافتہ کا ناجائز کا جواب
زندوں کا وسیلہ جائز اور وفات یافتہ کا ناجائز کہنے والوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ کون سی آیت یا حدیث ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ صرف زندہ لوگوں کا وسیلہ جائز ہے اور وفات یافتہ کا وسیلہ جائز نہیں ہے ۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اگر منکرین کے پاس کوئی دلیل ہے تو بتائیں ۔
قرآن مجید میں جن آیات سے وسیلہ جائز ہے ان میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ وفات کے بعد وسیلہ ناجائز ہے ۔ بلکہ تمام علماء کرام جن آیات سے حیات ظاہری میں توسل اور وسیلہ ثابت کرتے ہیں ان سے بعض از وصال بھی وسیلہ جائز ہے ۔ سورۃ النساء آیت نمبر 64 کے تحت حیات ظاہر اور بعد از وصال دونوں طرح حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو وسیلہ بنانا جائز اور مستحسن ہے ۔
علامہ ابن کثیر جو کہ منکرین کے نزدیک بڑے مستند ہیں وہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 کے تحت فرلکھتے ہیں : يرشد تعالیٰ العصاة والمذنبين اذا وقع منهم الخطاء والعصيان ان ياتوا الی الرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيستغفروا الله عنده ويسالوه ان يغفرلهم فانهم اذا فعلوا ذالک تاب الله عليهم و رحمهم وغفرلهم .
ترجمہ : اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر (یعنی انکی قبر انور کے پاس) اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔ (ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج : 1، ص : 520)
پھر فرماتے ہیں : وقد ذکر جماعة منهم الشيخ ابو منصور الصباغ فی کتابه الشامل الحکاية المشهورة عن العتبی : قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فجاء اعرابی، فقال : السلام عليک يارسول الله سمعت الله يقول وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاo (النسآء ، 4 : 64) وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربي.
فرماتے ہیں ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں کہ عتبی بیان کرتے ہیں کہ میں قبر انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا کہ السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے سنا کہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo) میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ عتبی کا بیان ہے کہ پھر وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی میں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا عتبی جاؤ اس اعرابی دیہاتی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج : 1، ص : 520)
یہ واقعہ درج ذیل کتب میں مذکور ہے ۔ (بيهقی شعيب الايمان، ج : 3، ص : 495)(ابن قدامه، المغنی، ج : 3، ص : 557) (نووي، کتاب الاذکار، ج : 3، ص : 92)(امام سبکی، شفا الستقام فی زيارة خير الانام، ص : 47. 46،چشتی)
حدیث میں آتا ہے : قحط اهل المدينه قحطاً شديداً فشکوا الی عائشة، فقالت انظر قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاجعلوا منه کووا الی السماء حتی لا يکون بينه و بين السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشهم فسمی عام الفتق.(دارمی، السنن، ج : 1، ص : 43، الرقم : 93)
ایک مرتبہ مدینہ پاک میں سخت قحط پڑ گیا انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ روای کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا تھا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہذا اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا۔
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265،چشتی)
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔
مفسرین کرام اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ (سورة البقرہ، 144) ۔
ہم آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں۔
معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لئے ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کاکیاپوچھنا ہے۔
احادیث مبارکہ اور وسیلہ
مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے چالیس (40)ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس(40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دورہوگا۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے۔(مشکوٰة باب ذکریمن وشام)۔
دارمی شریف میں ہے کہ ایک دفعہ مدینہ شریف میں بارش بندہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایاکہ روضۂ رسول پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی چھت کھولدوکہ قبرانور اورآسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایساہی کیاتو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔(مشکوٰة ،باب الکرامات)
مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں کافرمایا۔حضور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کوآزماچکا ہوں ۔ اپنی امت کیلئے رب سے رعایت مانگئے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اوررحمت ملی کہ پچاس(50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے۔
مسلم وبخاری میں ہے کہ حضور نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ ےُعطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضورپرنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتاہے لہٰذا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خالق کی ہرنعمت کاوسیلہ ہیں ۔
شرح السنہ میں ہےکہ ایک دفعہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں کام کررہاتھا حضور علیہ الصلاة والسلام کودیکھا اور منھ اپنازانوئے مبارک پررکھ کرفریاد ی ہواسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کے مالک کو بلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورچارہ کم دیتے ہو۔اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کورفع حاجات کیلئے وسیلہ جانتے ہیں ۔جو انسان ہوکران کے وسیلہ کا منکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔
حضور علیہ الصلاة والسلام کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کودودھ پلایاتھا۔(بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوا نبی علیہ الصلاة والسلام کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔
اشیاء کا وسیلہ : مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جوبیمار ہوجاتا ہے اسے دھوکر پلاتے ہیں اس سے شفا ہوجاتی ہے۔(مشکوٰة، کتاب اللباس،چشتی)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام حضور علیہ الصلاة والسلام کے بدن شریف سے مس کئے ہوئے کوشفاکاوسیلہ سمجھ کر اسے دھوکر پیتے تھے ۔
بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کوحج کوجاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہواکہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔ یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔
بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال : صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک کے تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں اورحضور علیہ الصلاة والسلام کے صدقہ سے اولیاء اللہ اورعلماء بھی وسیلہ ہیں ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں ۔
اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک
ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں حضور کی عطا کاامیدوار ہوں اورمخلوق میں ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں ۔معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپناوسیلہ مانتے ہیں ۔
غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اپنے خداد اد اختیارات بیان فرماکر ارشادفرماتے ہیں ۔
وکل ولی لہُ قدم وانی
علیٰ قدم النبی بدرالکمال
ترجمہ : میں جودنیا پرراج کررہا ہوں اورمیرے قبضہ میں زمین وزمان ،مکین ومکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پرہوتاہے میں نبیوں کے چاند اور رسولوں کے سورج حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قدموں پرہوں ۔ معلوم ہواکہ حضورغوثِ پاک کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ایسی اہم خلقت ہیں کہ انہیں سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسرہوئے۔
امام بوصیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں اوریہ مقبول بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہوچکا ہے۔
ومن تکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسدفی احامھابجم
ترجمہ : یعنی جس کی مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرمادیں وہ شیروں سے بھی بچ جاتا ہے ۔معلوم ہواکہ ہربزرگ بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کوہرمصیبت کے دفع کاوسیلہ مانتے ہیں ۔
مولانا جلال الدین رومی قدس سرة العزیز اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں ۔
اے بسادرگوخفتہ خاک دار
بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار
سایہ اوبورخاکش سایہ مند
صدہزاراں زندہ درسایہ دے اند
ترجمہ : بہت سے قبروں میں سونے والے بندے ہزاروں زندوں سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں پر سایہ فگن ہے لاکھوں زندے ان قبروالوں کے سایہ میں ہیں ۔معلوم ہواکہ مولانا قدس سرہ ' اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کوبعدوفات زندوں کاوسیلہ مانتے ہیں ۔
عقلی دلائل اور وسیلہ : عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کاوسیلہ پکڑنا جائز ہے حسب ذیل دلائل سے ۔ ''رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر''جیسا کہ ارشاد تبارک وتعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ '' اوروہ غنی ہمیں بغیروسیلہ کے کوئی نعمت نہیں دیتا۔ ماں باپ کے وسیلہ سے جسم دیتاہے ۔استادکے ذریعہ علم، پیرکے ذریعہ شکل ،ملک الموت کے ذریعہ موت، غرضیکہ کوئی نعمت بغیروسیلہ نہیں دیتا توہم فقیر ومحتاج ہوکربغیروسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کرنا ہوتا تو وہ رسول کو کیوں بھیجتا۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا۔ معاذ اللہ
دنیا ادنی اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیاجیسی حقیر بغیروسیلہ نہیں ملتی توآخرت جودنیاسے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے۔ اس لئے قرآن وایمان دینے کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کومبعوث فرمایا ۔ ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم واولیاء اللہ کی مقبولیت یقینی ہے۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔ اعمال صالحہ وسیلہ ہیں رب سے ملنے کااور اعمال کاوسیلہ انبیاء ،اولیاء ،علما ء تویہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کابھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں بت رکھےگے تھے۔ حضور علیہ الصلاة والسلام کے دست اقدس سے کعبہ پاک صاف کیاگیا تاکہ معلوم ہوکہ کعبہ معظمہ جوخداتعالیٰ کاگھرہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پاک نہ ہوسکا توتمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں ہوسکتے ۔ رب فرماتا ہے: '' وکونوامع الصادقین '' سچوں کے ساتھ رہو ۔اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے۔ لہٰذا وسیلہ کامانناہی سچاراستہ ہے۔
شیطان نے ہزاروں برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیاتو مردودہوگیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کرکے محبوبیت پائی۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہوتو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے ۔
قبرمیں مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں پہلاسوال توحیدکا اوردوسرا دین کا۔ مگر ان دونوں سوالوں کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں کھلتی۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تواس کالی زلفوں والے ہرے گنبد والے محبوب کوکیاکہتاتھا ۔دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور کافرماں بردار بندہ جواب دیتاہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں اور میں ان کا امتی ہوں ۔
مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کاثواب پچاس ہزار ہے ۔کیوں ؟ کیادوسری مسجدیں خداکاگھرنہیں ہیں ؟۔ صرف اسی لئے یہ ثواب بڑھاکہ ا س میں حضور محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم آرام فرمارہے ہیں اسی طرح بیت المقدس میں کئی ہزارپیغمبر جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں بھی ایک نیکی کاثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامقام پیدائش ہے اور وہاں بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے ۔
منکرین وسیلہ کی سوچ کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں۔ " ذریعہ، واسطہ، شفاعت، دستگیری، حمایت" یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں- اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا۔ علیہدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا- اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا-
یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے اسلام اباد میلاد شریف کی محفل کے لۓ جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں۔اسی طرح انبیاء علیہم السّلام اور صالحین علیہم الرّحمہ جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ ۔ یہ سب وسیلہ ہیں ۔
نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کودودھ پلایاتھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کا بندۂ بے دام ہے ۔
حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔ یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔ یاد رہے جو سوچ آپ بیان کر رہے ہیں وہ ہجرت کے 700 سال بعد کی ہے ۔ یہ ہم سب ماننتے ہیں کہ جتنا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے نزدیک ہو گا اتنا صحیح ہو گا ۔ آپ کی دی گئی تفصیل میں جن تفاسیر کا بیان ہے ان کے بارے میں دیکھیں کہ تفسیر جلالین 864ھ 1459ع کی ہے تفسير الخازن 741ھ کے قریب ہے ۔ تفسیر حافظ ابن کثیر 774ھ سے ذرا پہلے کی ہے ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں ۔ ( 80ھ تا 150ھ تابعین)
اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک
ترجمہ : یارسو ل اللہ میں حضور کی عطا کا امیدوار ہوں اورمخلوق میں ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سواکوئی نہیں ۔ معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلاة والسلام کواپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔ پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کووسیلہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائینات سے ثابت ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment