عصمت کی تعریف اور مسئلہ عصمت میں اقوال علماء
۱: مشہور کتاب تعریف الاشیاء میں علامہ میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں
’’(العصمۃ) ملکۃ اجتناب المعاصی مع التمکن منہا‘‘ (تعریف الاشیاء ص ۶۵ طبع مصر)
گناہ کر سکنے کے باوجود گناہوں سے بچنے کا ملکہ عصمۃ ہے۔
۲: یہی عبارت اقرب الموارد میں ہے۔ ملاحظہ ہو اقرب الموارد جلد ۲ ص ۹۱ طبع مصر
۳: مفردا ت میں ہے
وعصمۃ الانبیاء حفظہ ایاہم اولا بما خصہم بہ من صفاء الجوہر ثم بما اعطاہم من الفضائل الجسمیۃ والنفسیۃ ثم بالنصـرۃ وتثبیت اقدامہم ثم بانزال السکینۃ علیہم وبحفظ قلوبہم وبالتوفیق (مفرداتِ امام راغب اصفہانی ص ۳۴۱ طبع مصر)
’’عصمت انبیاء‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں کو (ہر قسم کی برائی سے) محفوظ رکھنا، اولاً اس صفاء جوہر کی وجہ سے جو انہی کے ساتھ خاص ہے پھر ان کے فضائل جسمیہ اور نفسیہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے پھر اپنی نصرتِ خاص اور انہیں ثابت قدم رکھنے کے ساتھ پھر ان پر سکون و طمانیت نازل فرما کر اور ان کے قلوب کو کجروی سے بچا کر اور اپنی توفیق ان کے شامل حال فرما کر۔
۴: یہی مضمون دستور العلماء میں ہے (دیکھئے دستور العلماء جلد ۲ ص ۳۴۵)
۵: نبراس میں ہے
العصمۃ ملکۃ نفسانیۃ یخلقہا اللّٰہ سبحانہ فی العبد فتکون سبباً لعدم خلق الذنب فیہ (نبراس ص ۵۳۲)
عصمت وہ ملکہ ٔ نفسانیہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندے (نبی) میں پیدا کرتا ہے جو اس میں گناہ پیدا نہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔
۶: شرح عقائد نسفی میں ہے
وحقیقۃ العصمۃ ان لا یخلق اللّٰہ فی عبد الذنب مع بقاء قدرتہ واختیارہ (شرح عقائد نسفی ص ۷۳)
عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ کرنا۔
۷: اسی شرح عقائد میں بقول بعض علماء عصمت کی تعریف اس طرح بھی منقول ہے
ھی لطف من اللّٰہ تعالیٰ یحملہ علی فعل الخیر ویزجرہ عن الشر مع بقاء الاختیار تحقیقاً للابتلاء …… (شرح عقائد ص ۷۴،چشتی)
عصمت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا لطف ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقدس بندہ (نبی) کو فعل خیر پر برانگیختہ کرتا اور اسے شر سے بچاتا ہے۔ مع ابقاء اختیار کے تاکہ ابتلاء کے معنی برقرار رہیں۔
۸: مجمع بحار الانوار میں ہے
والعصمۃ من اللّٰہ دفع الشر (جلد ۲، ص ۳۹۳)
’’عصمت من اللہ‘‘ دفع شر ہے۔
۹: مسامرہ میں ہے
العصمۃ المشترطۃ معناہا تخصیص القدرۃ بالطاعۃ فلا یخلق لہٗ ای لمن وصف بہا (قدرۃ المعصیۃ) (مسامرہ جلد ۲ ص ۸۱)
عصمت مشترطہ کے معنی ہیں قدرت کا طاعت کے ساتھ خاص کر دینا پس جو شخص اس عصمت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے اس کے لئے معصیت کی قدرت پیدا نہیں کی جاتی۔
نبوۃ و عصمت کے متعلق ہم نے اکابر علمائے امت کے اقوال نقل کر کے ان کا خلاصہ ترجمہ ہدیہ ناظرین کر دیا ہے اور تفصیلی ابحاث کو صرف اختصار کلام کے لحاظ سے نظر انداز کر دیا ہے۔
مسئلہ عصمت میں اقوال علماء
امور تبلیغیہ میں کذب عمد سے عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر جمیع اہل ملل و شرائع کا اجماع ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ تبلیغ میں انبیاء علیہم السلام سے عمداً صدور کذب عقلاً محال ہے۔
شرح مواقف میں اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا
اذ لوجاز علیہم التقول والافتراء فی ذالک عقلا لادی الی ابطال دلالۃ المعجزۃ وہو محال (شرح مواقف جلد ۸ ص ۲۶۳ طبع مصر،چشتی)
کیوں کہ اگریہ (کذب عمد فی التبلیغ) عقلاً جائز ہو تو دلالت ِ معجزہ کے ابطال کی طرف مودی ہو گا اور وہ محال ہے۔
البتہ علی سبیل السہو والنسیان، میں قاضی ابوبکر نے اختلاف کیا ہے مگر ائمہ اعلام اس میں بھی عقلاً عدم جواز ہی کے قائل ہیں۔ رہے باقی ذنوب یعنی کذب فی التبلیغ کے علاوہ تو وہ کفر ہوں گے۔ یا غیر کفر۔ عصمت عن الکفر پر اجماع امت ہے۔ عام اس سے کہ قبل النبوۃ یا بعد النبوۃ۔ اس اجماع کے خلاف خوارج کے ایک خاص گروہ ازارقہ کا قول پایا جاتا ہے جو اہل حق کے نزدیک باطل و مردود ہے۔ قائلین تقیہ نے انبیاء علیہم السلام سے خوف کے وقت تقیۃً اظہار کفر کو جائز مانا ہے مگر اہل حق کے نزدیک یہ قول بھی قطعاً باطل ہے کیوں کہ یہ اخفائے دعوت اور ترک تبلیغ رسالت کی طرف مفضی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے حق میں محال ہے۔
اب ان گناہوں کے متعلق سنئے جو کفر کے ماسوا ہیں تو ان کی دو قسمیں ہیں کبائر و صغائر۔ ان میں سے ہر ایک کے دو حال ہیں یا ان کا صدور عمداً ہو گا یا سہواً۔ دو کو دو سے ملا کر چار قسمیں حاصل ہوئیں۔ کبیرہ عمداً، کبیرہ سہواً، صغیرہ عمداً، صغیرہ سہواً۔ ان اقسام اربعہ میں سے ہر ایک قبل البعثت ہو گا یا بعد البعثت۔ انبیاء علیہم السلام سے کبائر کا صدور خواہ عمداً ہو یا سہواً بعد النبوۃ شرعاً محال ہے، قول مختار یہی ہے قبل النبوۃ اکثر مشائخ کے نزدیک محال نہیں۔ اسی طرح عمداً بعد البعثت صغائر کا صدور بھی محال ہے۔ سہواً میں اختلاف ہے۔ اکثر مشائخ جواز (یعنی امکان) کے قائل ہیں لیکن جو صغائر رذالت و خست اور دناء ۃ کا موجب ہوں بالاتفاق ان کا صدور انبیاء علیہم السلام سے ممکن نہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس محققین اہلسنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام ان امور سے بھی معصوم ہیں جو موجب نفرت ہوں۔ جیسے امہات و زوجات کا فجور اور آباء کی دناء ۃ و رذالت۔ مختصر یہ کہ باب ذنوب میں جمہوراہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنی نبوت کے زمانہ میں کبائر سے مطلقاً اور صغائر سے عمداً معصوم ہیں اور انہوں نے اپنے اس دعویٰ پر حسب ِ ذیل دلائل قائم کئے ہیں۔
پہلی دلیل: ازروئے قرآن و اجماع انبیاء علیہم السلام کی اتباع فرض ہے۔ کما قال اللّٰہ تعالیٰ: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور گناہ حرام ہے۔ اگر کسی نبی سے گناہ صادر ہو تو اس کی اتباع حرام ہو گی کیوں کہ اس صورت میں وہ گناہ بھی کرنا پڑے گا جو نبی نے کیا ورنہ اس کی اتباع نہ ہو سکے گی اور گناہ حرام ہونے کی وجہ سے نبی کی اتباع بھی حرام ہو گی اور نبی کی اتباع کا حرام ہونا قطعاً باطل ہے۔ لہٰذا نبی سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل ہو گا۔
دوسری دلیل: اجماع اور قرآن کی رو سے گناہگار کی شہادت مردود ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو معاذاللہ وہ مردود الشہادۃ قرار پائیں گے اور یہ قطعاً محال ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا ہونا بھی محال ہے۔
تیسری دلیل: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو انہیں گناہ سے باز رکھنے کے لئے زجر کرنا پڑے گا جو ایذا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ایذا قطعاً حرام ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور ممکن نہیں۔
چوتھی دلیل: ’’گناہ‘‘ ظلم و معصیت اور موجب ملامت و مذمت ہے اور ظالم و عاصی کے حق میں لعنت او رنار جہنم کی وعید قرآن کریم میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ (پارہ ۲۹ سورۃ جن) نیز فرمایا اَلاَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۸ سورۃ الاعراف) اسی طرح ملامت و مذمت بھی وارد ہے۔ ارشاد فرمایا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ الصف) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے اَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (پارہ ۱ سورۃ بقرۃ) اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو ’’خاکم بدہن‘‘ وہ نار جہنم کے مستحق، ملامت کے حق دار اور ملعون و مذموم ہوں گے جو قطعاً باطل ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل و مردود ہے۔
پانچویں دلیل: اگرانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے گناہ صادر ہوں تو وہ اپنی امت کے گناہگاروں سے بھی زیادہ بدحال اور گئے گزرے ہوں گے۔ کیوں کہ بزرگی اور کرامت میں جس قدر زیادہ مرتبہ بلند ہو، گناہ کرنے پر اسی قدر عقلاً و نقلاً زیادہ عذاب کا استحقاق ہوتا ہے۔ نبوت سے زیادہ بلند کوئی مرتبہ نہیں۔ اس لئے نبی کے گناہ کا عذاب تمام گناہگاروں کے عذاب سے زیادہ ہو گا اور یہ ایسی زبوں حالی ہے جو نبی کے حق میں متصور نہیں۔ لہٰذا گناہ کا صدور بھی کسی نبی سے نہیں ہو سکتا۔
چھٹی دلیل: ’’گناہ‘‘ اپنے نفس پر ظلم ہے اور ظالم اللہ تعالیٰ کے عہد کو نہیں پا سکتا۔ قرآن مجید میں ہے: لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۱ سورۃ بقرہ) نبوت سب سے بڑا عہد ہے جو کسی ظالم کو نہیں مل سکتا۔ انبیاء علیہم السلام نے جب عہد نبوت کو پا لیا تو ثابت ہو گیا کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں۔
ساتویں دلیل: انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے عباد مخلصین ہیں جیسا کہ یوسف ں کے حق میں ارشادِ الٰہی وارد ہے۔ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (پارہ ۱۲ سورۃ یوسف) اور موسیٰ ں کے متعلق فرمایا اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً (پارہ ۱۶ سورۃ مریم) اور حضرت ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اِنَّا اَخْلَصْنَا ہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِo وَ اِنَّہُمْ عِنْدَ نَالَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورۃ ص) اَلْمُخْلَصِیْن ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور انہیں ہر چیز سے معصوم کر دیتا ہے جو طاعت ِ خداوندی کے خلاف ہے۔اس لئے مخلصین سے گناہ کا صدور نہیں ہو سکتا اور اسی بناء پر شیطان نے کہا تھا: لَاُ غْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْن (پارہ ۲۳ سورۃ ص) میں سب کو بہکاؤں گا سوا تیرے مخلص بندوں کے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اس کی تکذیب نہیں فرمائی بلکہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (پارہ ۱۴ سورۃ حجر) کہہ کر تصدیق فرمائی۔ ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں اور گناہوں کا ارتکاب ان سے نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ ان کا مصطفیٰ اور اخیار (یعنی برگزیدہ اور پسندیدہ) ہونا ان کی عصمت عن المعصیۃ کو اور بھی زیادہ واضح کر رہا ہے اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ بعض انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام غیر مخلص ہیں اور بعض مخلص غیر انبیاء ہیں۔ اگر مخلص ہونا عصمت کی دلیل ہے تو غیر مخلص نبی کی عصمت ثابت نہ ہو گی اور مخلص غیر نبی کا معصوم ہونا بھی لازم آ جائے گا۔ حالاں کہ یہ دونوں امر مستدل کے نزدیک باطل ہیں تو میں عرض کروں گا کہ یہ شبہ اس وقت درست ہو سکتا تھا جب کہ انبیاء علیہم السلام کو عام لغوی معنی کے اعتبار سے مخلص کہا جائے لیکن قرآن مجید میں ایسے خاص معنی کے لحاظ سے انبیاء کرام کو مخلص فرمایا گیا ہے جو نبوت کی خصوصیات اور اس کے لوازمات سے ہیں جن کی رو سے ہر نبی کا مخلص ہونا ضروری ہے اور کسی غیر نبی کا مخلص ہونا ممکن نہیں جیسا کہ سورۃ ص کی آیت منقولہ بالا ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ سے واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ ‘‘ فرما کر ’’اَخْلَصَ‘‘ فعل کی اسناد اپنی ذات مقدسہ کی طرف فرمائی۔ یعنی ہم نے انہیں مخلص بنایا پھر آیۃ مبارکہ میں ان کے مخلص ہونے کا سبب خالصۃً کو قرار دیا گیا ہے اور ’’ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ اس کا بیان ہے۔ خالصۃً کی تنوین تنکیر برائے تعظیم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ کے سبب مخلص کیا ہے جو آخرت کی یاد ہے اور یاد آخرت سے مراد ان کا انذار و تبشیر ہے جس کا ذکر آیۃ کریمہ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ (پارہ ۷ سورۃ انعام) میں وارد ہے یوں تو ہر ایک یاد آخرت کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے بصیرت و یقین پا کر نعمائے جنت کی خوشخبری سنانے اور عذابِ نار سے ڈرانے پر مامور ہو کر یاد آخرت کرنا ایسی خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ ہے جو نبوت کا خاصہ اور لازمہ ہے۔ نیز اس نوعیت سے بشیر و نذیر ہونا اور آخرت کی دائمی یاد کرنا ہر نبی کے لئے لازم اور نبوۃ کا خاصہ ہے۔ اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ہر نبی مخلص ہونے کی وجہ سے معصوم ہے اور کوئی غیر نبی ان معنی میں مخلص نہیں جو انبیاء مخلصین میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا کسی غیر نبی کا معصوم ہونا لازم نہیں آتا۔
آٹھویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (پارہ ۲۲ سورۃ سبا) وجہ استدلال یہ ہے کہ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے انبیاء علیہم السلام مراد ہیں یا ان کی امت کے مومنین؟ برتقدیر اول ہمارا مدعا ثابت ہے کیوں کہ اتباعِ شیطان ہی گناہ ہے جب وہ اتباع شیطان سے محفوظ رہے تو یہی محفوظیت ان کے حق میں عصمت ہے۔ برتقدیر ثانی انبیاء علیہم السلام کا اتباع شیطان سے محفوظ رہنا بطریق اولیٰ ثابت ہوگا کیوں کہ جس کی امت کے مومنین شیطان کے متبع نہیں وہ نبی کیوں کر اس لعین کا متبع ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کی اتباع سے بچنا تقویٰ ہے اور بدلالت نص قطعی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (پارہ ۲۶ سورۃ الحجرات) تقویٰ معیارِ فضیلت ہے۔ اگر اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے مومنین مراد لے کر انبیاء علیہم السلام سے صدور گناہ کا قول کیا جائے تو غیر نبی کا نبی سے افضل ہونا لازم آئے گا جو بالاتفاق باطل ہے۔ ثابت ہوا کہ بہر تقدیر انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہونا اس آیت کا مفاد ہے۔
نویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو دو گروہ میں تقسیم فرمایا ’’حزب اللّٰہ اور حزب الشیطان‘‘ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور مانا جائے تو کم از کم صدور معصیت کے وقت تو معاذ اللہ وہ ضرور ہی حزب الشیطان قرار پائیں گے۔ کیوں کہ مطیع حزب اللّٰہ ہیں اور عاصی حزب الشیطان۔ اور حزب الشیطان خاسرین ہیں۔ لقولہٖ تعالیٰ اَلَا اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ المجادلہ) ایسی صورت میں العیاذ باللہ! انبیاء کرام کو خواہ ایک آن ہی کے لئے ہو، خاسرین کہنا پڑے گا جو بداہۃً باطل ہے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور قطعاً ممکن نہیں۔
علاوہ ازیں بکثرت افرادِ امت زہّاد و عباد زمرہ مفلحین میں داخل ہیں۔ پھر یہ عجیب بات ہو گی کہ افراد امت مفلحون ہوں اور انبیاء خاسرون۔ معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ
دسویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ں، حضرت اسحٰق ں، حضرت یعقوب ں و دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق فرمایا اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ (پارہ ۱۷ سورۃ الانبیاء) بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے۔ ’’الخیرات‘‘ جمع معرف باللام ہے اور ایسی جمع عموم کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ فعل اور ترک دونوں سے متعلق سب نیکیوں کو شامل ہو گی۔ فعل سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو عمل اور قول سے حاصل ہوتی ہیں۔ جیسے نماز روزہ، حج و زکوٰۃ اور ترک سے وہ نیکیاں مراد ہیں جو کسی کام کو نہ کرنے سے حاصل ہوتی ہیں جیسے جھوٹ، چوری، غیبت اور زنا نہ کرنا۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح عبادات فعلیہ کا عمل میں لانا نیکی ہے اسی طرح گناہ کے کاموں کا نہ کرنا (۱) بھی نیکی ہے اور ’’الخیرات‘‘ کا لفظ سب کو شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام گناہ نہ کرنے میں بھی مسارعت کی صفت سے متصف ہیں۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول ’’اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفِیْنِ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورہ ص) میں لفظ ’’مصطفین‘‘ اور ’’اخیار‘‘ دونوں ہر اس فعل اور ہر اس ترک کو شامل ہیں جس میں نیکی، پسندیدگی اور برگزیدگی کے معنی پائے جائیں۔ اس عموم کی دلیل صحت استثناء ہے۔ کیوں کہ یہ کہنا جائز ہے کہ ’’فلان من المصطفین الا فی کذا او من الاخیار الا فی کذا۔‘‘ مستثنیٰ منہ کا عموم صحت استثناء کی شرط ہے۔ جب یہاں استثناء صحیح ہے تو عموم ثابت ہو گیا اور عموم اس امر کی دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام کل امور میں برگزیدہ اور پسندیدہ ہیں۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور جائز نہ ہوا۔
استدراک : یہاں بعض لوگوں نے یہ شبہ وارد کیا ہے کہ اصطفاء صدور معصیّت کے منافی نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۔ پارہ ۲۲ سورۃ فاطر
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مصطفین کو تین قسموں میں منقسم کر دیا۔ ظالم، مقتصد اور سابق
ان اقسام میں ظالم کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اصطفاء کے باوجود بھی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں
ایک یہ کہ انبیاء علیہم السلام آیت کریمہ میں مذکور نہیں نہ وہ ’’الذین‘‘ میں شامل ہیں۔ یہاں غیر انبیاء کا اصطفاء مذکور ہے اور غیر انبیاء کے اصطفاء پر انبیاء علیہم السلام کے اصطفاء کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیوں کہ اصطفاء کے مراتب مختلف ہیں ہر شخص کا اصطفاء اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا حال باقی تمام کائنات سے افضل و اکمل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا اصطفاء بھی کل مخلوقات سے اکمل و اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا غیر انبیاء کے (لغوی) اصطفاء کا صدور ذنب کے منافی نہ ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا اکمل و اعلیٰ اصطفاء بھی صدورذنب کے منافی نہ ہو۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’فمنہم ظالم‘‘ میں ضمیر مجرور ’’مصطفین‘‘ کی طرف نہیں بلکہ ’’عباد‘‘ کی طرف راجع ہے کیوں کہ اقرب مذکورین کی طرف ضمیر کا لوٹنا اولیٰ ہے۔ لہٰذا اقسام ثلٰثہ (جن میں ظالم بھی شامل ہے) مصطفین کے نہیں بلکہ عباد کے ہیں۔ اس تقدیر پر شبہ مذکور اصل سے ساقط ہو گیا۔ وللّٰہ الحمد۔
زیر نظر مضمون کے اکثر مطالب اور عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر یہ دس دلیلیں ہم نے شرح مواقف کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہیں اور حسب ضرورت دلائل کی قوت کو واضح کرنے کے لئے بعض مقامات پر بسط کے ساتھ کلام کر دیا ہے۔ اہل علم حضرات سے امید ہے کہ وہ ہماری اس جرأت کو ضرورت پر محمول فرمائیں گے۔
اب ان مخالفین کی طرف آیئے جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد البعثت عمداً صدور کبائر و صغائر کو جائز مانتے ہیں۔
ان لوگوں کا استدلال قصص انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ جن میں سے بعض قصے قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں منقول ہیں جن سے بظاہر وہم پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے ان کے زمانہ نبوۃ میں گناہوں کا صدور ہوا۔ سب کا اجمالی جواب یہ ہے کہ وہ واقعات اخبار آحاد میں منقول ہیں یا بطریق تواتر۔ پہلی صورت میں واجب الرد ہیں۔ اس لئے کہ کسی راوی کی طرف خطا کا منسوب کر دینا انبیاء علیہم السلام کی طرف گناہ منسوب کرنے سے زیادہ آسان ہے۔
برتقدیر ثانی چونکہ وہ دلائل عصمت سے متعارض ہیں اس لئے مؤول ہوں گے۔ وجوہ تاویل، موقع محل اور اقتضاء کلام کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوں گی۔ مثلاً بعض واقعات کو بشرطِ اقتضاء مقام قبل البعثت پر حمل کیا جائے گا۔ بعض میں اقتضاء مقام کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام کے ان افعال کو جنہیں منکرین عصمت معصیت قرار دیتے ہیں ’’ترکِ اولیٰ‘‘ کہا جائے گا۔ بعض مواقع ایسے بھی ہوں گے جہاں موقع محل کی مناسبت سے ان افعال کو صدور صغیرہ سہواً قرار دیا جائے گا۔ کسی جگہ موہم کلام کو دلیل کی روشنی میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تواضع اور کسر نفسی پر حمل کیا جائے گا۔
رہا یہ شبہ کہ ان افعال میں بعض ایسے ہیں جن کے لئے لفظ ذنب وارد ہوا۔ جیسے ’’لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ۔‘‘ بعض وہ ہیں جن کے ارتکاب کے بعد حضرات انبیاء علیہم السلام نے استغفار فرمایا۔ نیز ان میں بعض ایسے افعال بھی ہیں جنہیں کرنے کے بعد انبیاء علیہم السلام نے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کا اعتراف کیا۔ پھر انہیں کیوں کر ترک اولیٰ یا صغائر صادرہ عن السہو پر حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ترکِ اولیٰ جیسے ہلکے امور کو ذنب سے تعبیر کرنے کی وجہ منصب نبوت کی عظمت اور انبیاء علیہم السلام کے درجات کی رفعت و بلندی ہے اور اسی عظمت و رفعت کے پیش نظر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے صغیرہ صادرہ عن السہو اور خلافِ اولیٰ کاموں پر اعترافِ ظلم کر کے استغفار کیا۔ تعلیمات قرآنیہ کی روشنی میں یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین ۔
جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے
یہ بھی حق ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے عاجزی، تواضع کسر نفسی کے لئے اعترافِ ظلم اور استغفار فرمایا۔ ان مقدسین کا ایسا کرنا دراصل اپنے رب کی بارگاہ میں تضرع و زاری ہے اور یہ اعتراف و استغفار ان کے انتہائی فضل و کمال پر دال ہے چہ جائیکہ اسے ان کے ظالم و عاصی ہونے کی دلیل بنا لیا جائے۔ مخالفین کے دلائل کا اجمالی جواب تو ہم دے چکے۔ البتہ اہل علم کی دلچسپی کے لئے تفصیلی گفتگو باقی ہے جسے ہم ان شاء اللہ پھر کسی وقت لکھیں گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بہت خوب۔۔جزاک اللہ
ReplyDelete