مختصر سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کانام مبارک : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احادیث مبارکہ میں بہت سارے نام آئے ہیں ۔ جیسے مصطفی،مجتبیٰ، مرتضیٰ ،مزمّل اورمدثّر و دیگر اسماٗ مبارکہ ہیں ۔
انتقال والد ماجد : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے شکم مبارک ہی میں تھے کہ آپ کے والد محتر م حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ شام کے تجارتی سفر سے واپسی کے دوران مدینہ منورہ میں اپنے والد حضرت عبد المطلب کے ننیہال میں ٹھہرے اور بیماری کی وجہ سے وہیں انتقال فر ما گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی ولادت با سعادت ۱۲/ربیع الاول بروز پیر مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء کو ہوئی (اس کے علاوہ مور خین نے ۹/۸/اور۱۱/ ربیع الاول بھی لکھا ہے مگر زیادہ راجح ۱۲/ربیع الاول ہی ہے ۔ کیو نکہ مکہ شریف کے لوگ اسی تاریخ کو ہمیشہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مناتے تھے)
نسب نامہ شریف ، والد ماجد کی طرف سے: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
نسب نامہ شریف، والدہ ماجدہ کی طرف سے: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن حضرت آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن ُمرّہ ۔مرہ پر آکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کا نسب مل جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا: (1)حارث۔(2)ابو طالب۔(3) زبیر۔(4) حمزہ۔ (5) عباس۔ (6)ابو لہب۔(7)غیداق۔(8)مقوم۔(9) ضرار۔ (10)قُثم۔ (11)عبد الکعبہ۔(12)جحل۔ان میں سے صرف حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھو پھیاں: (1)عاتکہ۔(2)اُمیمہ۔(3)ام حکیم۔ (4) برّہ۔(5) صفیہ۔(6)اروی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن مقدس عورتوں کا دودھ نوش فرمایا وہ یہ ہیں: (1)حضرت آمنہ۔ (2)حضرت ثویبہ۔(3)حضرت حلیمہ سعدیہ (4) حضرت ام ایمن رضی اللہ عنھن۔
ولادت کا پہلا سال:آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۳،۲ روز اپنی والدہ محتر مہ کا دودھ نوش فر مایا۔اس کے بعد چند دن حضرت ثویبہ کا دودہ پیا پھر ولادت طیبہ کے ایک ہفتہ کے بعدعرب کے دستور کے مطابق دودھ پلانے کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کر دئے گئے۔اور آ پ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسال تک حضرت حلیمہ کے گھر رہے پھر جب دودھ پینے کا زمانہ ختم ہوگیا تو حضرت حلیمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لے کر آپ کی والدہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں اور ان سے در خواست کی کہ کچھ دن اور حضور کو میرے گھر پہ رہنے دیں چنانچہ پھر وہ آپ کو واپس اپنے گھر لے آئیں ۔لیکن ولادت کے تیسرے سال جب فر شتوں نے پہلی بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سینہ چاک کیا تو اس واقعہ سے گھبرا کر چند ہی دن کے بعد دو بارہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ محتر مہ کے سپر د کر دی۔اس طر ح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ محتر مہ کی آغوش محبت میں آگئے۔
ولادت کاچھٹا سال : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش آپ کے دا دا حضرت عبد المطلب نے فر مائی۔لیکن دو سال کے بعد آپ کے دادا کا بھی وصال ہو گیا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شفیق چچا ابوطالب نے ادا فر مائی۔
ولادت کا تیرھواں سال:جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر تیرہ سال کی ہوئی تو پہلی بار اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملک شام کاسفر فر مایا۔اسی سفر میں بحیرہ راہب کاواقعہ پیش آیا۔پھر ۲۳/سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ملک شام کا دوسرا سفر بغرض تجارت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر ان کے غلام میسرہ کے ساتھ کیا۔
ولادت کا پچیسواں سال: آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فر مایا۔اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40/سال کی تھی اور وہ بیوہ تھیں ۔جب تک حضرت خدیجہ با حیات رہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فر مایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام بیویوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات: (1)حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔(2)حضرت سودہ رضی اللہ عنہا۔(3)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔ (4)حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا۔ (5)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا۔(6)حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا۔(7)حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا۔(8)حضرت زینب بنت خز یمہ رضی اللہ عنہا۔ (9) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا۔(10)حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا۔(11) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا۔،چشتی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باندیاں: (1)حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا۔(2)حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا۔(3)حضرت نفیسہ رضی اللہ عنہا۔ایک اور باندی تھی ،نام مذکور نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے: (1)حضرت قاسم رضی اللہ عنہ۔آپ ہی کی مناسبت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی کنیت ابو القاسم رکھا ۔ (2)حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ۔ آپ طیب وطاہر کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں(3)حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزاد یاں:(1)حضرت زینب رضی اللہ عنہا۔زوجہ ابوالعاص بن ربیع(2)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا۔زوجہ سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ (3)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔زوجہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ (4)حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا۔زوجہ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام اولاد مبارک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئیں سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے ۔وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔
نبوت کا پہلا سال:حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعلان نبوت سے پہلے اکثر غار حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک ۴۰؍ سال کی ہوئی تو غار حرا میں پہلی بار آپ پر وحی کانزول ہوا جس میں سورہ علق کی پہلی پانچ آیتیں تھیں ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کے اپنی نبوت کا اعلان فر مایا ۔شروع میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،سیدنا صدیق اکبر ،سیدنا علی مرتضی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا۔اورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے اور بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا انہیں میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ بھی تھے۔چنانچہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے ہی گھر میں دینی تعلیم وتر بیت کی سب سے پہلی درسگاہ قائم ہوئی اوراعلان نبوت کے بعد تین سال تک اسلام کی تعلیم و تبلیغ ہوتی رہی۔اور ان تین سالوں میں تقریبا ۴۰؍ لوگوں نے اسلام قبول کیا۔شہر سے باہر نماز ادا کی جاتی رہی اور خفیہ طور پر سب کام ہوتے رہے۔ تین سال کے بعد جب اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اعلانیہ دعوت دینے کا حکم دیا تو اعلانیہ طور پر دعوت کا آغاز ہوا۔اور ساتھ ہی کفار و مشر کین کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا پڑا ،شروع میں مخالفت کم رہی لیکن بعد میں جب کافروں نے ظلم وستم کی انتہا کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت کی پانچویں سال مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت عطا فر مائی ۔توحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں 11/مرد اور 4/ عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت فر مائی ۔ اس سفر میں حضرت عثمان کے ساتھ ان کی زوجہ محتر مہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی تھیں ۔ چشتی ۔
نبوت کا چھٹا سال:نبوت کے چھٹے سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ اور اسی کے تین دن بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے اسلام لانے کی سعادت حاصل کی۔حضرت عمر کے اسلام لانے کے بعد پہلی مرتبہ خانہ کعبہ میں بر سر عام نماز ادا کی گئی۔لیکن کفاروں کی مخالفت ختم نہ ہوئی اور نبوت کے ساتویں سال کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان والوں کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک پہاڑ کی گھاٹی میں گھیر کر رکھ دیا جسے ‘شعب ابی طالب’ کہا جاتا ہے۔ اس پہاڑ کی گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تین سال تک رہے اور ان تین سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
نبوت کا دسواں سال : نبوت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ والوں سے نا امید ہو کر طائف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے طائف تشریف لے گئے لیکن یہاں کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اتنا پتھر مارا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خون سے لہو لہان ہو گئے ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان ظالموں کے لئے بد دعا بھی نہ فرمائی ۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غمگسار چچا ابو طالب کی وفات ہوئی اور اسی کے تین یاپانچ دن کے بعدآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانثار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال پُر ملال ہوا۔اس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پے در پے کئی گہرے غم پہو نچے اسی وجہ سے اس کا نام ’عام الحزن ‘یعنی غم کا سال رکھا گیا ۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے پھر نماز فر ض ہوئی ۔
نبوت کا گیارہواں سال : نبوت کے گیارہویں سال مدینہ شریف کے 16/ لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی شہرت ہوئی تو نبوت کے بارہویں سال مدینہ شریف کے تقر یبا 90/ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مدینہ شر یف آنے کی دعوت دی ۔
نبوت کا تیر ھواں سال:نبوت کے تیر ھویں سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کافروں کے شدید ظلم وستم کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو مدینہ شر یف ہجرت کر کے جانے کی اجازت عطا فر مائی چنانچہ مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کے دین کی خاطر مدینہ شریف جانے لگے ۔اور ایک دن ایسا آیا کہ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جان سے مارنے کا مکمل منصوبہ بنا لیا توآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ شر یف چلے آئے ۔
۱ ہجری کے خاص واقعات:مدینہ شریف آنے کے بعد حضور نے سب سے پہلی مسجدـ’’مسجد قبا‘‘ کی تعمیر صحابہ کے ساتھ مل کر فر مایا ۔
پھر اس کے بعدمسجد نبوی کی تعمیر ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعد مدینہ شریف کے بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور تیزی سے اسلام پھیلنے لگا ۔جب مسلمانوں کی تعداد بہت ہوگئی تو نماز کی دعوت کے لئے آذان دینے کا طریقہ شروع ہوا.
۲ ہجری کے خاص واقعات:ہجرت کے دوسرے سال قبلہ تبدیل ہوااور مسجد اقصیٰ کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔اسی سا ل جنگ بدر ہوئی۔جس میں کافروں کی سخت ہار اور مسلمانوں کو بڑی جیت حاصل ہوئی۔اسی جنگ میں ابوجہل کے ساتھ مکہ کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور بہت سارے قید کئے گئے ۔
اسی سال رمضان کے روزے فر ض ہوئے۔اور نماز عید وبقر عید ادا کی گئی اور قر بانی بھی کیا گیا ۔نیزاسی سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔
۳ ہجری کے خاص واقعات: ہجرت کے تیسرے سال جنگ احدلڑی گئی اور اسی جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔اسی سال ۱۵/رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فر مایا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما سے نکاح فر مایا ۔ نیز اب تک مسلمانوں کا مشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز تھا اسی سال اس کو حرام قرار دیا گیا۔
۴ ہجری کے خاص واقعات:اس سال شعبان کے مہینے میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔اسی سال ماہ شوال میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فر مایا۔نیز اسی سال شادی شدہ آدمی کو زنا کرنے پر سنگسار کرنے اور چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم نازل ہوااوربقول مشہور شراب بھی حرام قرار دیا گیا۔
۵ ہجری کے خاص واقعات : (۱)اسی سال غزوہ خندق اورغزوہ بنو قر یضہ پیش آیا۔(۲)اسی سال غزوہ مریسیع کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار مدینہ شریف سے قریب ہی مقام صلصل میں گم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے قصئہ افک پیش آیااور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنے کا حکم نازل ہوانیزپردہ کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔
۶ ہجری کے خاص واقعات : اس سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمرہ کے ارادے سے ماہ ذی قعدہ پیر کے دن مکہ مکر مہ کے لئے روانہ ہوئے مگر راستے میں حدیبیہ کے مقام پہ کافروں نے روکا جس کی وجہ سے جنگ کی کیفیت پیدا ہو گئی لیکن آخر کار صلح ہو گئی جو’’ صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اور اسی موقع پر بیعت رضوان بھی واقع ہوا۔نیزاس سال بہت سارے غزوات و سرایا پیش آئے۔
۷ ہجری کے خاص واقعات: غزوہ خیبر اسی سال واقع ہوا جس میںمسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔اس غزوہ کے موقع سے بہت سارے واقعات پیش آئے ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔
(۱) گھر یلو گدھے کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ۔
(۲) درندے جانور اور پنجہ مارنے والے پرندوں کو حضور نے حرام قرار دیا ۔
(۳) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نکاح فرمایا۔
(۴) خیبر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھانے میں زہر ملا کر دیا ۔
(۵) مقام صہباء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز عصر قضاء ہوئی ۔ت و حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ڈوبے سورج کو لوٹا یا ۔
(۶) متعہ یعنی ایک خاص زمانے تک کے لئے نکاح کرنے کو حرام قرار دیا گیا ۔ اسی سال ماہ ذی قعدہ میں عمرۃ القضاۃ واقع ہوا جو صلح حدیبیہ میں طے پایا تھانیزاسی سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فر مایا ۔
۸ ہجری کے خاص واقعات : اس سال مکہ مکر مہ فتح ہوا۔اور اس کے بعد غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا۔اسی سال مسجد نبوی شریف میں منبر بنایا گیا۔اور اسی سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم ،حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔
۹ ہجری کے خاص واقعات : اس سال حج فرض ہوا اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت اور حضرت علی کی نقابت میں تین سو حجاج کرام کا قافلہ روانہ فر مایا۔قرآن نے اسی حج کو ’’حج اکبر‘‘ کہا۔اس لئے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ سنت ابراہیمی کے مطابق حج کے ارکان ادا ہوئے ۔اور خانہ خدا میں عہد جاہلیت کا اختتا م اور اسلامی حکومت کے آغاز کا اعلان کیا گیا اور زمانہ جاہلیت کی تمام بے ہودہ رسمیں باطل قرار دی گئیں۔اس سال پورے ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہو گئی اور محرم کے مہینے میں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عمال مقرر کئے گئے۔سود کو اسی سال حرام قرار دیا گیا۔
۱۰ ہجری کے خاص واقعات:اس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔اور اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا آخری حج کثیر صحابہ کرام کے ساتھ فر مایا۔اس حج پر جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں سے اس طرح ملاقات کیا جیسے وہ شخص ملاقات کرتا ہے جسے معلوم ہوگیا ہو کہ وہ اب دنیا چھوڑ کر جانے والا ہو ۔اسی لئے یہ حج ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔
۱۱ ہجری کے خاص واقعات : جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو ۲۶ صفر بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک لشکر حضرت زید بن اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ملک شام کے عیسائیوں سے لڑنے کے لئے تیار فر ما کر روانہ کیا لیکن ابھی یہ لشکر مدینہ شر یف سے کچھ ہی دور گیا تھا کہ ۲ یا ۸ ربیع الاول بروز پیر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال حسرت آیات ہوا ۔ جس سے پورا مدینہ بے رونق اور اندھیرا ہوگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوغسل دینے والے مقدس صحابہ : (۱) سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ (۲) سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ (۳) سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غسل کے لئے غرس نام کے کنوئیں سے پانی لایا گیا تھا جو قبا کے قریب تھا اور حضرت سعد بن خثیمہ کی ملکیت میں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں اکثر اسی کنوئیں کا پانی نوش فر ماتے تھے۔اور اس کے بارے میں ارشاد فر مایا تھا کہ : غر س کا کنواں بہترین کنواں ہے ۔یہ جنت کے چشموں میں سے ایک بہترین چشمہ ہے،اس کا پانی نہایت پاکیزہ ہے۔اس پانی میں بیری کے پتے بھی ملائے گئے تھے ۔
کفن مبارک : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا۔یہ تینوں کپڑے یمن کی ایک جگہ’’ سحول ‘‘کے بنے ہوئے تھے۔اسی مناسبت سے ان کپڑوں کو’’ سحولیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
نماز جنازہ کی کیفیت : اس بارے میں کئی اقوال ہیں مگر زیادہ راجح یہ ہے کہ جب جنازہ تیار ہو گیا تو پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچوں نے نماز جنازہ پڑھی، جنازہ مبارکہ کمرے کے اندر ہی تھا باری باری تھو ڑے تھوڑے لوگ اندر جاتے اور نمازپڑھ کر چلے آتے۔لیکن کو ئی امام نہ تھا۔اور اس نماز میں دعا کی جگہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے درود شریف پڑھا ۔
قبر انو ر : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ام المومنین حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے میں ہوا ،اور اسی کمرے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قبر انور بنایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کھودنے کا شرف حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حاصل کیا ۔جو مدینہ شریف میں لحد والی قبر کھو د نے میں ماہر تھے ۔
عمر شریف : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک وصال کے وقت تریسٹھ (۶۳)سال تھی ۔
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی ۔ (ماخوذ : سیرت ابن اسحاق المعروف سیرت ابن ہشام ، مدارج النبوۃ ، سیرت حلبیہ ، السیرۃ النبویہ ، معارج النبوۃ ، حجۃ اللہ علی العالمین ، انوار محمدیہ ، ضیاء النبی ، سبل الہدیٰ )۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment