Wednesday, 4 July 2018

ذاتی اور عطائی صفات

ذاتی اور عطائی صفات

اللہ کی تمام کی تمام صفات اس کی ذاتی صفات ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور اس کی صفات بے شمار ہیں جن کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔جبکہ مخلوق کی تمام کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں لہذا ان کو عطائی صفات کہا جاتا ہے ۔ علم ، ارادہ ، کلام ، سننا، دیکھنا وغیرہ وغیرہ کئی صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لیے بهی ثابت ہیں ، اور بندوں کے لیے بهی ثابت ہیں لیکن ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے اور ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ : اللہ کی یہ صفات ذاتی صفات ہیں اور بندوں کی یہ صفات عطائی صفات ہیں ۔ اب جو کہتا ہے کہ میں اس فرق کو نہیں مانتا اس سے سوال یہ ہے کہ تم اس فرق کو مٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں جو مذکورہ بالا صفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے تو کیا یہ اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں ہیں ؟

یقیناً اللہ کی ہی عطا کردہ ہیں لہذا عطائی صفات تو ماننی پڑیں گی ورنہ تم اللہ کی عطا کے منکر ٹهرو گے اور جو اللہ کی عطا کا انکار کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔اب کچھ صفات ایسی ہیں جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو خاص طور پر ملی ہیں مثلاً مردے کو زندہ کرنا، شفا دینا، غیب جاننا، ما فوق الاسباب مدد کرنا، اندهے کو بینا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ان کو معجزات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ عقل میں نہیں آ سکتی ،اسی طرح اولیاء کرام رحمهم اللہ تعالیٰ کو بہت سی کرامات سے نوازا گیا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا سے ہے کوئی اللہ کی عطا کے بغیر ایک ذرہ بهی کسی کو نہیں دے سکتا۔اب جو ان صفات کو اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ذاتی عطائی کوئی چیز نہیں تو جان لو وہ حقیقت میں اللہ کی عطا ہی کا منکر ہے اور وہ توحید و شرک کا فرق اٹھانا چاہتا ہے اور قرآن کی آیات کا انکار اور احادیث کا انکار کر کے اپنے فاسد نظریات پھیلانا چاہتا ہے ، شرک کی جڑ کاٹنے والا فرق یہی ذاتی عطائی اور حقیقی مجازی کا فرق ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا لازمی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں :

(1) صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی

(2) صفات مجازی بمعنی صفات عطائی

(1) اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ ترجمہ : بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ (الإسراء، 17 : 1)

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ ترجمہ : پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں ۔ (الدهر، 76 : 2)

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔ (البقرة، 2 : 143)

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (التوبة، 9 : 128،چشتی)

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے ۔ (الحج، 22 : 17)
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا. ترجمہ : اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو ۔ (البقرة، 2 : 143)

کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًا ۔ ترجمہ : اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی ۔ (النساء، 4 : 164) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے کلام کیا ۔

أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا ۔ ترجمہ : کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے ۔ (النساء، 4 : 139)
وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : عزت اللہ کیلئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے ۔ (المنافقون، 63 : 8،چشتی)

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً ۔ ترجمہ : ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے ۔ (البقرة، 2 : 165)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا : نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ۔ ترجمہ : ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں ۔ (النمل، 27 : 33)

بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ ترجمہ : ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ (آل عمران، 3 : 26)
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ ترجمہ : خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ (الاعراف، 7 : 54)

وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۔ ترجمہ : جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی ۔ (البقرة، 2 : 269)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ۔ ترجمہ : میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں ۔ (آل عمران، 3 : 49)

محترم قارئین : نفس مسلہ کو سمجھانے کےلیئے ہم چند آیات قرآنی نقل کی ہیں اس طرح کی دیگر بہت سی آیات موجود ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے جو بلا سوچے سمجھے اہل اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور امت مسلمہ فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...