عقیدہ عمل کی بنیاد ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ایمان کے بعد اعمال صالحہ کا ذکر فرماتا ہے پہلے ایمان ہے پھر اعمال صالحہ ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔
ترجمہ : یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیئے ۔ (البقرۃ ۲۷۷)
اس مسئلہ میں امت مسلمہ کااجماع ہے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل صالح صحیح اور درست نہیں ہوسکتا۔ عقیدہ عمل پر مقدم ہے بلکہ اعمال صالحہ کی عمارت کیلئے سنگ بنیاد ہے ۔ یایوں کہئے کہ اعتقاد جڑ ہے اور اعمال صالحہ درخت ۔کوئی درخت جڑ کے بغیر سرسبز و شاداب نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح کوئی عمل صالح اعتقاد صحیح کے بغیر درست نہیں ہوسکتا ۔
قرآن مجید میں رب تعالیٰ نے منافقین کا حال بیان فرمایا وہ نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ مسجدیں بنواتے تھے اور کئی دوسرے نیکی کے کام کرتے تھے۔اس کے باوجود انکے حق میں ارشاد ہوا : اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۔
ترجمہ : بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ۔ (النساء ۱۲۵)
سب نیکیوں میں اول اور مقدم کلمہ شہادت ہے منافقین کلمہ شہادت بھی پڑھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا کلمہ شہادت پڑھنا بھی قبول نہیں فرمایااور یہ اس لیے کہ ان کے دل میں ایمان نہیں تھا ان کا اعتقاد صحیح نہیں تھا ۔
سورہ ٔالمنافقون میں ارشاد خداوندی ہے ۔ (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک ضرور آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا ضرور آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک منافق ضرور جھوٹے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتقاد کے بغیر عمل نہیں ہوتا مثلا جو شخص نماز کی فرضیت کا اعتقاد ہی نہ رکھتا ہو وہ نماز ہی نہیں پڑھ سکتا اور اگر پڑھے گا بھی تو اس کی نماز نہیں ہوگی ۔ اسی طرح دوسرے اعمال کا معاملہ ہے اب جو اعتقاد کسی کے عمل کی بنیاد ہے وہ دوحال سے خالی نہیں یا تو عقیدہ صحیح ہوگا یا فاسد ۔ اعتقاد صحیح ہوگا تو عمل بھی صحیح ہوگا اعتقاد فاسد ہوگا تو عمل بھی فاسد ہوجائے گا ۔
جب فاسد العقیدہ لوگوں کے اعمال کا فاسد ہونا ظاہر ہوگیا تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آگئی کہ بد عقیدہ لوگوں کے پیچھے نماز درست نہیں ہوسکتی ۔ معمولی عقل والا آدمی بھی اس بات کو باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے امام کی نماز درست نہ ہو تو مقتدیوں کی نماز بھی درست نہیں ہوگی ۔ مثلا اگر امام کے کپڑے ناپاک ہوں یا اس کا وضو صحیح نہیں ہے تو امام کی نماز نہیں ہوگی اور جب امام کی نماز نہیں ہوگی تو یقینا مقتدیوں کی نماز بھی نہیں ہوگی اسی طرح یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امام کا عقیدہ باطل ہو تو امام کی نماز بھی باطل ہوجائے گی اور جب امام کی نماز باطل ہوئی تو اس کے پیچھے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی نماز کیونکر صحیح ہوسکتی ہے ۔
سنن ابو دائود کی ایک حدیث ہے مدینہ منورہ کی کسی مسجد میں ایک امام تھا اس نے کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے تھوکا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ملاحظہ فرمایا اور اس کے مقتدیوں کو اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرما دیا اس کے بعد اس شخص نے ان کو نماز پڑھانے کا ارادہ کیا انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کردیا اور اس کوحضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان سے آگاہ کیا وہ شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا توحضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے لوگوں کی تصدیق فرمائی ۔ راوی حدیث کا بیان ہے کہ شاید حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا تو نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذادی (اِنکَّ قَدْ آذَیْتَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ) مشکوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ ایک بد عمل امامت کے لائق نہیں تو بد عقیدہ امام کے پیچھے نماز کیسے درست ہوسکتی ہے ۔ (خطابات کاظمی/4) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment