توحید اور شرک کی حقیقی تعریف
توحید کی تعریف : کلمہ طیبہ "لا الہ الا اللہ" میں توحید کا مکمل بیان ہے یعنی اس بات کا زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا کہ سچا معبود اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔لا الہ الااللہ کی تشریح میں حضرت العلامہ علی قاری محدث علیہ الرحمۃ مرقا ہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں : (لا الہ)لا ھی النافیۃ للجنس علیٰ تنصیص علیٰ نفی کل فرد من افردہ(الا اللہ) قیل خبر۔لا۔والحق انہ محذوف والاحسن فیہ لا الہ معبود بالحق فی الوجود۔الا اللّٰہ ۔ولکون الجلالۃ اسما للذات المستجمع لکمال الصفات وعلماً للمعبود بالحق قیل لو بدل بالرحمٰن لایصح بہ التوحید المطلق ثم قیل التوحید ھو الحکم بوحدانیہتہ منعوتا بالتنزہ عما یشاء بہ اعتماد افقولا وعملا فیقینا وعرفانا فمشاھدۃ وعیانا فثبوتا ودواما ۔
ترجمہ: لا الہ میں لا نفی جنس کا ہے جو ہر فرد الہٰ کی نفی پر نص ہے اور الا اللہ کی نسبت کہا گیا ہے کہ "لا"کی خبر ہے اور حق یہ ہے کہ خبر محذوف ہے اور احسن یہ کہ ہستی میں کوءی الہ معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے کیونکہ اسم اللہ ذات مسجمع صفات کمال کا اسم اور معبود برحق کا عَلَم ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر اس کی جگہ الرحمن لایا جائے تو توحید مطلق اس سے صحیح نہ ہو۔ پھر کہا گیاہے کہ توحید کسی شے کی وحدانیت کا حکم کرنا اور اس کو جاننا ہے اور اصطلاح میں "توحید" اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی وحدانیت کے ساتھ مشابہ سے منزہ ثابت کرنا اعتقاداً پھر قولاً و عملاًپھر یقیناً و عرفاناً پھر مشاہدۃً و عیاناً پھر ثبوتاً و دواماً ۔
شرک کی تعریف : شرک وہی ہے جس کو الا الہ الا اللہ نے باطل کیا یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود ٹھہرانا۔تفسیر خازن میں ہے۔"من یشرک باللہ یعننی یجعل معہ شریکا غیرہ"شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے غیر کو شریک ٹھہرایا جائے۔"شرح عقائد می ہے "الا شراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ یعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقا العبادۃ کم لعبدۃ الاصنام"یعنی شرک کرنا یہ ہے کہ شریک کا ثابت کرنا ہے الوہیہ میں یعنی وجوب وجود میں جیسے کہ مجوسی کرتے ہیں یا بمعنی استحقاق عبادت میں جیسے کہ بت پرست کرتے ہیں۔کذا فی شرح الفقہ الاکبر ۔
حضرت شیخ المحققین عبدالحق محدث دہلوی قدسنا اللہ باسرارہ العزیز اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔بالجملہ شرک سہ قسم است۔دروجود ودر خالقیت و در عبادت۔خلاصہ مطلب یہ ہے کہ شرک تین طرح کا ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو واجب الوجود ٹھہرائے ۔
دوسرے یہ کہ کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے سوا حقیقۃً خالق جانے۔ تیسرے یہ غیر اللہ کی عبادت کرے یا اللہ کے سوا کسی کو مستحق عبادت سمجھے۔۔۔‘‘ معلوم ہوا کہ واجب الوجود یعنی اپنی ذات وصفات میں دوسرے سے بے نیاز اور غنی بالذات فقط اللہ تعالیٰ ہے اور فقط وہی عبادت کے لائق ہے اور حقیقۃًوہی خالق ہے ۔پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ذات و صفات میں دوسرے سے بے نیا زاور غنی بالذات جانے یا اسے حقیقۃً خالق جانے یا مستحق عبادت سمجھے تو وہ مشرک ہے مثلاًآریہ جو اللہ کے سوائے روح اور مادۃ کو بھی قدیم اور واجب الوجود مانتے ہٰں اور خالق سے بے نیاز جانتے ہین مشرک ہیں اور مثلاً ستارہ پرست کہ تغیرات عالم کو تاثیر کواکب سے جانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیٰں کہ ستارے اپنی تاثیرات میں غنی بالذات ہیں۔کسی محتاج نہیں پس یہ بھی مشرک ہیں۔یا بے پرست جو بتوں کو مستحق عبادت جانتے اور ان کی عبدت کرتے ہیں یہ بھی مشرک ہیں۔لیکن جو لوگ اشیاء کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں وہ کسی طرح مشرک نہیں ٹھہرتے ۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں واجب الوجود،ازلی،ابدی، مستقل ،غیر متغیر، قائم بالذات ، خالق و مالک حقیقی ، غنی عن الغیر ، وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے پس اللہ کی سی صفات اوروں کے لیے ثابت کرنے کا یہ مطلب ہو کہ غیر اللہ کے لیے صفات ذاتی، قدیم، مستقل ، غیرمتغیر کا اعتقاد رکھا جائے اور اسے عطاء الہی کے بغیر کسی صفت سے متصف تسلیم کیا جائے جو کہ یقینا شرک ہے ۔
اہلسنت و جماعت کے عقیدہ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لیئے ذرہ بھی قدرت یا اختیار یا علم ثابت کرنا اور تسلیم کرنا یا کسی بھی صفت کو ماننا اگر بالذات ہو تو شرک ہے لیکن غیر اللہ کے لیے کسی صفت کا اثبات بہ عطاء الہی ہرگز شرک نہیں۔جبکہ وہ صفت ازروئے قرآن و حدیث اس کے لیے ثابت ہو۔حقیقت یہ کہ کفار و مشرکین آثار کو اسباب کی طرف حقیقۃً منسوب کرتے ہیں اور انھیں مستقلاً بالذات مؤثر جانتے ہیں مگرمسلمان اسباب کو وسائل جانتے ہیں اور ان وسائل کے حجابات میں قادر مطلق کے دست قدرت کو دیکھتے ہیں ،اختیار بالذات اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور افعال و صفات اور تاثیرات کو اسباب و وسائل کی طرف مجازاً منسوب کرتے ہیں نہ کہ حقیقتاً ۔پھر اگر اس فرق وامتیاز کو تسلیم نہ کیا جائے تو انسان ہر بات میں مشرک ہو جائے اور ایمان کی کوئی راہ ہی نہ رہے۔
پس مخلوق میں سے کسی کے لیے صفات و کمالات کو بہ عطائے الہٰی جاننا ہی ’’اللہ کی سی صفات اوروں کے لیے تسلیم یا ثابت کرنے ‘‘کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات بالذات ہیں نہ کہ بالعطاء یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت یا کمال غیر سے حاصل شدہ نہیں۔اس کا ہر کمال ذاتی اور غیر مکتسب ہے تو ثابت ہوا کہ کسی اور کے لیے صفات و کمالات بعفائے الہٰی تسلیم یاثابت کرنا شرک نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔۔پس ثابت ہوا کہ سفھاء الاحلام وہابی اب تک ذات صفات الہٰی سے بے خبر اور جاہل ہیں کہ یہ مسئلہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ۔ اسی لیے یہ لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے کرام کے لیے کوئی صفت وکمال بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کوبھی اللہ کی سی صفت قرار دے کر خواہ مخواہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں۔حالانکہ ہنوز وہ خود توحید و شرک کی حقیقت سے بے خبر ہیں قصور تو ہے خود ان کے فہم و علم کا مگر مجرم ٹھہراتے ہیں دوسرے بے گناہوں کو ۔ ان کے اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ مخلوق میں سے کسی کے لیئے بھی کوئی صفت بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پھر بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر تم کسی کے لیے کوئی صفت بعطائے الہٰی تسلیم کرنے کو شرک ہی ٹھہراتے ہو تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’حی‘‘ ہے یا نہیں۔ پھر کیا شرک سے بچنے کی خاطر تم اپنے آپ کو مردہ کہو گے ؟
کیا تمھارے بڑے بھی کسی زمانہ میں صفت حیات سے متصف ہو یا نہیں ؟
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’عالم‘‘ہے تو کیا تم خود کو یا اپنے پیشوائوں کو عالم نہیں سمجھتے ؟
سمیع‘‘اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ’’بصیر‘‘ بھی تو کیا تم سمیع و بصیر نہیں ہو ؟
پھر کلام کرنا بھی اللہ کی صفت ہے اور ارادہ وقدرت بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر شرک سے بچنے کیلئے تم کیا کروگے ؟
آیا یوں کہو گے کہ ہم میں اللہ کی صفات ؛ میں سے کوئی صفت نہیں ہم وہابی سب مردے ہیں ۔ جاہل مطلق ہیں ۔ بہرے ہیں ۔ اندھے ہیں ، گونگے ہیں اور ہم وہابیوں میں نہ ارادہ ہے نہ قدرت تم کیا تم خاک ہو یا پتھر، جماد محض ہو ؟
پھر اگر تمھاری یہ بات بھی تسلیم کرلی جائے کہ تم سب کے سب اجساد جامد ہو تو بھی تمھارا پیچھا شرک سے نہیں چھوٹتا کہ جسم جامد ہونے کی صورت میں بھی ’’موجود‘‘ ہونا پایا جائے گا اور موجود ہونا بھی اللہ کی صفت ہے تو پھر شرک سے بچنے کیلئے اپنے وجود کا بھی انکار کردوگے ؟
یعنی کہ دنیا میں تمھارا وجود ہی نہیں ہے۔ پس اگر تمھاری بائیں صحیح ہیں تو بتائو کہ تم کیا ہو؟
تم کس حیثیت سے موجود ہو ؟
دنیا میں کیونکر چلتے ، پھرتے ، دیکھتے، سنتے، دنیاوی کام کاج کرتے اور یہ شرک و کفر کی گردانیں رٹتے ، اوٹ پٹانگ تحریریں لکھتے اور لمبی چوڑی تقریریں جھاڑتے پھرتے ہو۔ تم میں یہ صفات کہاں سے اور کیسے آگئیں ؟
کیا تم میں یہ صفات بالذات ہیں ، خودبخود ہیں یا اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ؟
تو اب انھیں لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ ہمیں یہ صفات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں مگر اس قدر خرابی بسیار کے بعد بھی اپنے خانہ ساز وہابیانہ اصول کی بناء پر شرک سے یہ بچ نہ سکے بلکہ مشرک ہی رہے کیونکہ ان کا اصول یہ ہے کہ ’’پھر خواہ یوں سمجھئے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خودبخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی طاقت بخشی ہے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۔‘‘(تقویۃ الایمان) تو ان کو چاہیے کہ کوئی تیسری صورت نکالیں اور شرک سے بچنے کی تدبیر کریں ۔
اُلجھا ہے پائوں یار کا زُلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
مزید بر آں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بقول معترضین اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے کسی کو کوئی صفت عطا نہیں فرمائی تو پھر افراد و اشیاء مخلوقات میں ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں بلکہ لاتعداد اقسام کی دویہ اور جڑی بوٹیاں کہ نفع بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی ۔ بارود ڈائنا میٹ، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ ہتھیاروں میں یہ قوت کہاں سے اور کیونکر ہے کہ چشم زدن میں ہزروں لاکھوں جانداروں کو موت کے گھاٹ اتاردیں ، پہاڑوں کو اڑا دیں اور علاقوں کے علاقے تباہ و برباد کرڈالیں ۔ نیز ٹیلی فون ، وائرلیس ، ریڈیواور ٹیلی ویژن وغیرہ میں یہ تاثیرات کہاں سے آگئیں کہ سینکڑوں ، ہزاروں میل دور ہلکی سے ہلکی آوازوں اور تصویروں کو بھی آن واحد میں پہنچادیں ۔ یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات ذاتی نہیں ہیں تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کا ظہور انکے ذریعے ہوتا ہے تو پھر جب کہ ایسی ادنیٰ اور بے جان اشیاء کیلیئے بھی صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی تسلیم کیئے بغیر چارہ نہیں تو حضرت انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے صفات بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے میں کیونکر تامل ہوسکتا ہے ۔
پس معترضین کے انکار سے واضح ہے کہ یہ عقل ودانش سے عاری لوگ عام انسان کے مقام و منصب سے بھی واقف نہیں چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں، خلفاء اللہ فی الارض انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء اللہ قدسنا اللہ باسرارہم کے اعلیٰ و بلند و بالا مقامات و مناصب کو جن سکیں اور ان کے فضائل و کمالات علوم و اختیارات اور خداداد تصرفات کو سمجھ سکیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور حدیث میں سرکار دو عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات گواہ ہیں کہ محبوبان خدا انبیاء و اولیاء متخلق باخلاق اللہ ہیں ۔ صفاتِ الہٰی کے مظہر ہیں۔ بہ عطائے الہٰی متصرف ہیں اور ان کا ہر کام حکم و مشیت الہٰی کے تحت ہوتا ہے ۔ استاذی المکرّم غزالیئ زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی قدس سرہٗ فرماتے ہیں ۔ مومن ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عطاء خداوندی کا اعتقاد رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے ککہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکم خداوندی ارادہ و مشیت ایزدی کے ماتحت ہے ۔ ہر آن خدا تعالیٰ کے مشیت اس کے متعلق ہے اور اس بندے کا ایک آن کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعاً محال اور ممتنع بالذات ہے ۔ (تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment