Monday, 2 July 2018

درس قرآن موضوع آیت وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا

درس قرآن موضوع آیت وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا

وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۪ وَاذْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ کُنۡتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمۡ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوٰنًاۚ وَکُنۡتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنْہَاؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہۡتَدُوۡنَ ۔ ﴿سورہ اٰل عمران آیت نمبر 107﴾

ترجمہ : اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی)اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ ۔

وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا : اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔} اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی مُمانَعت کی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب مل کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ جیسے یہود و نصاریٰ نے فرقے بنالئے ۔

صلح کلیت کا رد

یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے ، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔ بعض لوگ یہ آیت لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنت ِ رسول اور جماعت ِ صحابہ کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کردیا جائے۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے ۔

’’ حَبْلِ اللہِ ‘‘ کی تفسیر : ’’ حَبْلِ اللہِ ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ قرآنِ پاک حَبْلُ اللہہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اورجس نے اُسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۳، الحدیث: ۳۷ ۲۴۰۸،چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ:حَبْلُ اللہ سے جماعت مراد ہے ۔ (معجم الکبیر، ۹/۲۱۲، الحدیث: ۹۰۳۳)

اور فرمایا کہ: تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حَبْلُ اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ۔ (معجم الکبیر، ۹/۱۹۹، الحدیث: ۸۹۷۳)

جماعت سے کیا مراد ہے ؟

یہ یاد رہے کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کی اکثریت ہے ، یہ نہیں کہ تین آدمی مل کر’’ جماعتُ المسلمین ‘‘نام رکھ لیں اور بولیں کہ قرآن نے ہماری ٹولی میں داخل ہونے کا کہا ہے، اگر ایسا ہی حکم ہے تو پھر کل کوئی اپنا نام ’’رسول‘‘ رکھ کر بولے گا کہ قرآن نے جہاں بھی رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے مراد میری ذات ہے لہٰذا میری اطاعت کرو ۔ اَعُوذُ بِاللہِ مِنْ جَہْلِ الْجَاہِلِینْمیں جاہلوں کی جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔

وَاذْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیۡکُمْ : اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ۔ اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو جن میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اے مسلمانو! یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اور تمہارے درمیان طویل عرصے کی جنگیں جاری تھیں حتّٰی کہ اوس اور خَزْرَج میں ایک لڑائی ایک سو بیس سال جاری رہی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی لیکن اسلام کی بدولت عداوت و دشمنی دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہاری دشمنیاں مٹادیں اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگجو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ورنہ یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے اور اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صدقے دولتِ ایمان عطا کرکے اس تباہی سے بچالیا ۔

جہنم سے بچنے کا سب سے بڑ اوسیلہ

اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہمارے لئے دوزخ سے بچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں ،چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ کچھ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سو رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا:یہ تو سوئے ہوئے ہیں ۔ دوسرے نے کہا : ان کی آنکھ سوتی اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ فرشتوں نے کہا : آپ کے ان صاحب کی مثال ہے لہٰذا وہ مثال بیان کرو ۔ ایک نے کہا : وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا : ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے گھر بنایا ، اس میں دستر خوان بچھایا اور بلانے والے کو بھیجا تو جس نے اس کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو ا اور دستر خوان سے کھانا کھایا اور جس نے دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہوا اور نہ دستر خوان سے کھانا کھا سکا ۔ فرشتوں میں سے ایک نے کہا: اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ ان میں سے ایک نے کہا :یہ تو سو رہے ہیں۔دوسرے نے کہا : ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ فرشتوں نے کہا : گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے مراد حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہیں تو جس نے محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی ا س نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں ۔ (بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴/۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱،چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب ا س آگ نے اردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ،میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح) جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو ۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۴، الحدیث: ۱۸(۲۲۸۴))

سب سے اعلیٰ نعمت : اور یہ بھی معلوم ہو اکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی سب سے اعلیٰ نعمت ہیں ۔ آیت کے شروع میں فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو یاد کرو ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ایک دوسرے کو یاد دلانا بہت عمدہ عبادت ہے ۔ لہٰذا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی یاد کیلئے جو محفل منعقد کی جائے خواہ وہ میلاد شریف کی ہو یا معراج کی یا کوئی اور وہ سب بہت عمدہ ہیں اور حکمِ الٰہی پر عمل ہی کی صورتیں ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...