Tuesday, 3 July 2018

ماں باپ اور بزرگوں کے ہاتھ پاؤں چومنا

ماں باپ اور بزرگوں کے ہاتھ پاؤں چومنا

عَنْ عَائِشَة أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا رَآهَا قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّي يُجْلِسَهَا فِي مَکَانِهِ. وَ کَانَتْ إِذَا رَأَتِ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کسی ایسے آدمی کو نہیں دیکھا جو عادات کے لحاظ سے فا طمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ مشابہت رکھتا ہو ۔جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ، ان کا بو سہ لیتے اور انہیں اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تووہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے کھڑے ہو جاتیں ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ہاتھ پکڑتیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا بو سہ لیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ (النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، 392، الرقم : 9236، 9237، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 336، الرقم : 947، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 367، الرقم : 2967، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 4089، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 100، الرقم : 184،چشتی)

عَنْ عَائِشَة أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کَانَتْ فَاطِمَة إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا وَ رَحَّبَ بِهَا وَ أَخَذَ بِيَدِهَا، فَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلَسِهِ، وَ کَانَتْ هِي إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَتْ إِلَيْهِ مُسْتَقْبِلَة وَ قَبَّلَتْ يَدَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے، انہیں بوسہ دیتے خوش آمدید کہتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھالیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے ہاں رونق افروز ہوتے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیتیں ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ ( المستدرک، 3 / 174، الرقم : 4753، والمحب الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 85، و الهيثمي في موارد الظمآن : 549، الرقم : 2223، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 50، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 279)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرما : جس نے اپنی ماں کا پاؤں چُوما تو ایسا ہے جیسے جنَّت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا ۔ (اَلْمَبْسُوط لِلسَّرَخْسِی ج۵ص۱۵۶)

علامہ عبدالحکیم لکھنوی لکھتے ہیں : وفی مطالب المومنین ولاباس بتقبیل قبر والدیہ کما فی کفایۃ الشعبی ان رجلا جاٗ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی حلفت ان اقبل عتبۃ باب الجنۃ فامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یقبل رجل ووجہ الاب ویدوی انہ قال یارسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم ان لم یکن ابوان فقال قبل قبر ھما قال فان لم اعرف قبر ھما قال حط خطین وانوبان احدھما قبرالام والآخر قبر الاب فقلبھا فلا تحنث فی یمینک کذا فی مغفرۃ الغفور فی زیارۃ القبور ۔
ترجمہ : ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام میں نے آستانِ جنت چومنے کی قسم کھائی تھی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ماں کے پاؤں اور باپ کی پیشانی چومے مروی ہے کہ اس نے عرض کیاکہ اگر میرے ماں باپ نہ ہوں تو فرمایا ان دونوں کی قبروں کو بوسہ دے عرض کیا کہ اگر قبریں معلوم نہ وہں تو فرمایا دو خط کھینچ اور نیت کر کہ ایک ان میں سے ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی ، ان دونوں کو بوسہ دے تیری قسم اتر جائے گی ۔ (نورالایمان مطبوعہ لکھنو ہندوستان ۔ حاشیہ شرح الیاس ج ۲ ص ۳۰۳ مطبوعہ قصہ خوانی پشاور،چشتی)

والدین کی زیارت : جو دیکھے گا ماں باپ کو ایک لمحہ وہ حج اور عمرہ کا پائے گا بدلہ اگرچہ وہ دن میں کئی بار دیکھے توہر بار ایسا ہی بدلہ وہ پائے ۔ (روح البیان ص۱۲۱؍۸)

ماں باپ کے قدموں میں جنت ہے : عن معاویۃ بن جاہمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ جاء الی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقال :یا رسول اللہ ! : اردت ان اغزو و قد جئتک استشیرک فقال : ہل لک من ام ؟ قال : نعم ، قال : فالزمہا فان الجنۃ عند رجلیہا ۔
ترجمہ : حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ و ہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! میں چاہتاہوں کہ جہاد کروں ۔ میں آپ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہو اہوں ۔ فرمایا : کیا تمہاری ماں ہیں ؟ عرض کی : ہاں ، فرمایا : جائو ان کی خدمت کرو کہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے (السنن للنسائی ،جہاد، باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ ، ۲/ ۴۴)(السنن لا بن ماجہ ، باب الرجل یغز وو لہ ابوان، ۲/ ۲۰۴)(المستدرک للحاکم)(المعجم الکبیر للطبرانی۲/ ۳۲۵)(المسند لا حمد بن حنبل، ۳/ ۴۲۹)(اتحاف السادۃ للزبیدی ۶/ ۳۲۲)(کشف الخفا للعجلونی، ۳/ ۳۲۴)(مشکل الآثار للطحاوی،۳/ ۳۰)(الدر المنثور للسیوطی، ۴/ ۱۷۳،چشتی)

عن طلحۃ بن معایۃ السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال :اتیت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقلت : یا رسول اللہ ! انی ارید الجہاد فی سبیل اللہ ، قا ل: امک حیۃ ؟قلت :نعم، قال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : الزم رجلیہا فثم الجنۃ ۔
ترجمہ : حضرت طلحہ بن معاویہ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو ااور عرض کی : یا رسول اللہ ! میں اللہ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں فرمایا :تمہاری ماں باحیات ہیں؟میںنے عرض کی ہاں ، ارشاد فرمایا : اپنی والدہ کے قدموں میں رہو جنت وہیں ہے ۔ (السنن لا بن ماجہ،باب الرجل یغزو لہ الوان ،۲/ ۲۰۵)(المعجم الکبیر للطبرانی ،۸/ ۳۷۲)( کنز العمال للمتقی، ۴۵۴۴۴ ،۱۶/۴۶۲)

عَنْ مُعَاویہ جَاهِمَةَ رضي الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم أَسْتَشِيْرُهُ فِي الْجِهَادِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلَکَ وَالِدَانِ؟ قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : إِلْزَمْهُمَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أَرْجُلِهِمَا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت با برکت میں جہاد کے سلسلہ میں مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہو ا ، حضور نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ میں نے عرض کی : ہاں ، ارشاد فرمایا : ان کی خدمت کو اپنے ذمہ لازم کر لو کہ جنت ان کے قدمو ں کے نیچے ہیں ۔ (النسائي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : الرخصة في التخلف لمن له والدة، 6 / 11، الرقم : 3104، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 289، الرقم : 2202، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 216، الرقم : 3750، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 138. وَ قَالَ : وَ رِجَالُهُ الثِّقَاتُ،چشتی)

ممدوح وہابیہ و دیابنہ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ آئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرے گھر میں تھے ،زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں آئے اوردروازہ کھٹکھٹا یا ۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اٹھ کر کپڑاکھینچتے ہوئے ان کی طر ف تشریف لے گئے ۔ ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا ۔ (جامع الترمذی،کتاب الاستئذان ،باب ماجآء فی المعانقۃ والقبلۃ،الحدیث۲۷۴۱،ج۴،ص۳۳۵)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے مقد س ہاتھ پاؤں چومتے تھے : حضرت زارع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبد القیس کا وفد سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقد س میں حاضر ہوا،یہ بھی اس وقت وفد میں شریک تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ جب ہم اپنی منزلوں سے مدینہ شریف پہنچے تو جلدی جلدی سر کار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے دست مبارک اور قدم شریف کو بو سہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی قبلۃ الرجل ،الحدیث۵۲۲۵،ج۴،ص۴۵۶،چشتی)

میں نے والدہ کے پاؤں چومے : ابو اسحاق سے اک روز اک انسان نے پوچھا فلاں شب آپ کو میں نے جو اپنے خواب میں دیکھا زمرد اور یاقوت وجواہر سے سجی داڑھی چمکتی تھی وہ مثل چاندنی اور رخ تھا نورانی مجھے تعبیر میرے خواب کی بتلائیے آقا مجھے اپنا معمہ آپ ہی سمجھائیے آقا تڑپ دیکھی جو اس انسان کی تو شیخ بول اٹھے چمکتی داڑھیوں کا راز وہ یوں بر زباں لائے سبب اس کا بتاتا ہوں اے انساں! غور سے سن لے اسی شب میں نے اپنی والدہ کے پاؤں تھے چومے ۔ (نزہۃ المجالس۶۳۶؍۱)

حضرت سیدنا با با فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مشائخ و بزرگان دین رحمہم اللہ کی دست بو سی یقینادین ودنیا کی خیروبرکت کاباعث بنتی ہے ۔ ایک دفعہ کسی نے ایک بزرگ کو انتقال کے بعد خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا ، 'مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ ؟ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کہا ، دنیا کاہرمعاملہ اچھا اور برا میرے آگے رکھ دیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حکم ہوا ، اسے دو زخ میں لے جاؤ ! اس حکم پر عمل ہونے ہی والا تھا کہ فرمان ہوا ، ٹھہرو ! ایک دفعہ اس نے جامع دمشق میں خواجہ شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ مبارک کو چوماتھا ۔ اس دست بوسی کی برکت سے ہم نے اسے معاف کیا۔ (اسرار اولیاء مع ہشت بہشت،ص۱۱۳)

شیخ المشائخ بابا فرید الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مزید فرماتے ہیں :قیامت کے دن بہت سارے گناہگار، بزرگان دین رحمہم اللہ تعالیٰ کی دست بو سی کی برکت سے بخشے جائیں گے اور دوزخ کے عذاب سے نجات حاصل کریں گے ۔ (اسرار اولیاء مع ہشت بہشت،ص۱۱۳)
عالمِ دین کے ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہے ۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۹) ، ہاتھ پاؤں وغیرہ چومنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ محل فتنہ نہ ہو ، اگر معاذ اللہ شہوت کے لئے کسی مسلمان بھائی سے مصافحہ یامعانقہ کیا ، ہاتھ پاؤں چومے یا نعوذباللہ پیشانی کابو سہ لیا تو یہ ناجائزہے ۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۸)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




1 comment:

  1. حاشیہ شرح الیاس ج2 ص 303 کا اگر پیج فوٹو مل جاتا تو نوازش ہوگی؟السلام علیکم

    ReplyDelete

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...