تمہید بسلسلہ عقائد
یاد رہے کہ کوئی بھی عقیدہ یا مسئلہ پورے قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر اختیار کیا جاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ چند ایک آیات یا کچھ احادیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیا جائے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے یا فلاں مسئلہ اس طرح ہے، بلکہ تمام قرآن و احادیث کو سامنے رکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس بارے یہ عقیدہ ہے یا فلاں مسئلہ اس طرح ہے ۔
ہم اپنے اس سلسلے میں اس بات کو واضح کر دیں گے کہ عقائد اہلسنت قرآن و حدیث کے مطابق ہیں کسی طرح بھی قرآن و حدیث سے متصادم نہیں ہیں، جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ان کی جہالت کو بھی ہم بے نقاب کریں گے ان شاءاللہ عزوجل ۔
عقائد کی دو قسمیں ہیں
1 : قطعی اور یقینی عقائد
2 : ظنی عقائد
1 : قطعی اور یقینی عقائد کے ثبوت کے لیے قرآن کی آیت، یا حدیث متواتر خواہ تواتر لفظی ہو یا معنوی، درکار ہوتی ہے جس کی اپنے مدلول پر دلالت قطعی اور یقینی طور پر ہو، تو ایسی دلیل سے قطعی اور یقینی عقیدہ ثابت ہوتا ہے ۔
2 : ظنی عقائد کے ثبوت کے لیے قرآن کی آیت جس کی اپنے مدلول پر دلالت ظنی ہو یا حدیث مشہور اور خبر آحاد بهی کفایت کرتی ہیں، جن کی اپنے مدلول پر قطعی دلالت ہو ۔
3 : احکام کے ثبوت کے لیے حدیث صحیح، حسن لزاتہ یا کم از کم حدیث حسن لغیرہ ہو، تو فرض واجب وغیرہ احکام کا ثبوت ہو گا ورنہ نہیں ۔
4 : فضائل و مناقب کے ثبوت میں ضعیف احادیث کا اعتبار کیا جاتا ہے محدثین علیہم الرّحمہ کا اس بات پر اتفاق ہے ، البتہ حدیث ضعیف سے فرض واجب کا ثبوت نہیں ہوتا، مستحب کے ثبوت کے لیئے بهی حدیث ضعیف معتبر مانی جاتی ہے ، اگر حدیث ضعیف متعدد طرق یعنی کئی سندوں سے مروی ہو تو وہ حدیث حسن لغیرہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اور اس وقت وہ احکام کے ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے ۔
نوٹ : جس طرح کا دعویٰ ہوتا ہے دلیل بهی اسی درجے کی درکار ہوتی ہے ، اور دلیل دعوے کے مطابق ہو تو دعویٰ ثابت ہوتا ہے ، اگر دعویٰ کے مطابق دلیل نہ ہو تو دعویٰ کا ثبوت نہیں ہو سکتا ، فرقہ پرستوں کی یہ عام عادت ہے کہ وہ دلیل دعوے کے مطابق نہیں دیتے بلکہ ڈنڈی مار جاتے ہیں جس کو علم والے ہی پکڑ سکتے ہیں
بعض لوگ ضعیف حدیث کو موضوع حدیث کے برابر سمجھتے ہیں یہ باطل محض ہے اس کا اعتبار نہیں ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment