Tuesday 10 July 2018

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

2 comments
اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ آپ جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام قرار دیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اس شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ:ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ۔(یہ نبی) ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔(سورہ اعراف،آیت: ۱۵۷ )
اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اس شان کو نہ ماننے والوں سے مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دیا ۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔قاتلوا الَّذِیْنَ لایؤمنونَ باللّٰہِ ولا بالیوم الاٰخر ولایُحرِّمونَ ماحرَّ م اللّٰہُ ورسولہ۔ لڑوان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور حرام نہیں مانتے ان چیزوں کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ۔(سورہ توبہ،آیت:۲۹)
مزید مسلمانوں کو حکم فر مایا کہ: وما اٰتکٰم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا۔واتقوااللہ ان اللہ شدید العقاب۔ اور رسول جو تمہیں دیں لے لو اور جس چیز سے منع فر مائیںرک جائو،اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔(سورہ حشر،آیت:۷)
ان تمام آیات کریمہ سے صاف اور واضح طر یقے سے معلوم ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو کسی چیزکو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیا ر تھا۔

انبیاء علیہم السلام کی بالذات اطاعت فرض ہوتی ہے کیونکہ نبی کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً.(النساء، 04 : 59)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا.(النسا، 04 : 80)
ترجمہ : جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ.(آل عِمْرَان ، 3 : 32)
ترجمہ : آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا.(النِّسَآء ، 4 : 61)
ترجمہ : اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ.(النِّسَآء، 4 : 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے،

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا.(النِّسَآء، 4 : 69)
ترجمہ : اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں

وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.
(المائده، 05 : 92،چشتی)
ترجمہ : اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے رُوگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (احکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ.(النور، 24 : 54)
ترجمہ : فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ.(محمد، 47 : 33)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا.(الفتح، 48 : 10)
ترجمہ : (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

جب تک آپ نبی کی ذات کی اطاعت نہیں کریں گے اس وقت تک آپ نبی کی تعلیمات پر عمل نہیں کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر بخاری شریف میں ہے :صلوا کما رايتمونی اصلی. ترجمہ : جیسے تم مجھے (نماز) پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ (بخاری، الصحيح، 01 : 226، رقم : 605 دار ابن کثير اليمامه، بيروت،چشتی)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو حیثیتیں واضح ہوتی ہیں ایک بطور شارع اور دوسری اطاعت بالذات یعنی نماز کا طریقہ وہی بن گیا جس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی۔ قرآن پاک میں ہے:

يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.(الاعراف، 7 : 157)
ترجمہ : جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.(الحشر، 59 : 07)
ترجمہ : اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو،

معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل اختیار تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی تشریح بھی فرمائی اور کچھ ایسے احکام ہیں جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ہی ملتے ہیں مثلا قرآن مجید میں تو دم مسفوح، مردار اور خنزیر کو حرام قرار دیا گیا لیکن کتا، گدھا، بندر وغیرہ جو جانور ہیں ان کو بھی ہم حرام حرام کہتے ہیں اور ان کو کھاتے بھی نہیں قرآن میں ان سے منع بھی نہیں کیا گیا یہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں حرام ہیں یہی اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ ہمارے لیے حرام و حلال صرف وہ نہیں جو قرآن اللہ تعالی نے بیان فرمایا بلکہ وہ بھی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے سامنے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث بتائی جائے گی تو وہ یہ کہے گا :ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب کافی ہے ۔ہم جو اس میں حلال پائیں گے اسے حلال مانیں گے اور جو حرام پائیں گے اسے حرام مانیں گے،(حضو ر صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا)سنو!بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم)نے حرام قرار دی ہیں وہ ایسے ہی حرام ہیں جیسے وہ چیزیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔[ترمذی،کتاب العلم،باب مانھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی ﷺ،حدیث:۲۶۶۴۔ابن ماجہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ ﷺ والتغلیظ علی من عارضہ، حدیث:۱۲،چشتی)

حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے لو گوں کو خطبہ دیا تو ارشاد فر مایا:بے شک اللہ عز وجل نے تم پر حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔حضرت اقرع بن حابس تیمی رضی اللہ عنہ نے کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم!کیا ہر سال؟تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خاموش رہے،تین بار سوال ہونے کے بعد،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو واجب ہو جا تا ۔(ترمذی ،کتاب الحج عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء کم فر ض الحج، حدیث :۸۱۴، ابن ماجہ،حدیث:۲۸۸۴)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ ،باب السواک ،حدیث: ۲۵۲،ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وسننھا،باب السواک،حدیث:۲۸۹)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ۔تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔(ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق،حدیث:۶۲۰،چشتی)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فر مادی۔ جبکہ یہ کسی کے لئے جائز نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔(بخاری،کتاب الاضاحی،باب الذبح بعد الصلاۃ، حدیث :۵۵۶۰۔مسلم،حدیث:۱۹۶۱)

حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اکیلی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دی۔(سنن ابوداود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم بہ ،حدیث:۳۶۰۷)

حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے لئے جوانی میں بھی حرمت رضاعت ثابت فر مادی ۔ (مسلم،کتاب الر ضاع ،باب رضاعۃ الکبیر، حدیث : ۱۴۵۳،نسائی،حدیث:۳۳۱۹) اس کے علاوہ اور بھی مثالیں احادیث میں مذکور ہیں۔ان سب احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اختیارات کا بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مدینہ طیبہ کو حرم قرار دیا۔یعنی مدینہ طیبہ کے اندر خاص حد میں شکار کرنے ،درخت کاٹنے اور گھاس وغیرہ کو اکھاڑنے کو حرام قرار دیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ :ائے اللہ! بیشک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ طیبہ کے دونوں سنگستان یعنی کوہِ عیر سے جبل ثور کے درمیان جو کچھ ہے اسے حرم بناتا ہوں(یعنی اس کے خار دار درختوں اور گھاسوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیتا ہوں )۔(مسلم،کتاب الحج ،باب فضل المدینۃ ودعاء النبی ﷺفیھا بالبر کۃ وبیان تحر یمھا وتحریم صیدھا وشجر ھا وبیان حدود حر مھا،حدیث :۱۳۶۱،۱۳۶۲،بخاری،حدیث:۱۸۶۷،۱۸۶۹،سنن ابوداود،حدیث :۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

2 comments:

  • 8 January 2020 at 15:43

    ماشاء اللہ جزاک اللہ خیرا کثیرا

  • 1 April 2021 at 13:09

    ہماری مَسجِد کا اِمام چور ہے!

    افریقہ کے ایک ملک میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔
    اسی سبب ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا
    عالِم جی نے دعوت قبول کی،
    اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،
    اور وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے،
    مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد,
    مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی،
    تو اسے یاد آیا کہ،
    اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،
    لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی،
    اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،
    کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟
    شوہر نے جواب دیا: نہیں،
    اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتادی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا
    اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا،
    اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ چوری نہیں کرسکتا،
    بالآخر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ:
    رقم مہمان نے چوری کی ہے
    اور یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی،
    کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا،
    اور انہوں نے یہ غلط کام کیا،
    اس شخص کو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا،
    نہ کہ چور ڈکیٹ،
    غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے حیا کے مارے اس بات کو چهپا لیا،
    لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا
    تا کہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے،
    اسی طرح سال گذر گیا
    اور پھر رمضان المبارک آگیا،
    اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں افطار کے لیے بلانے لگے
    اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ:
    ہمیں کیا کرنا چاہیئے
    *مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟
    زوجہ نے کہا:
    بلانا چاہیئے،
    کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،
    ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،
    اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا،
    اور جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے مہمان سے کہا:
    جناب آپ متوجہ ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ میرا رویہ بدل گیا ہے؟
    عالم نے جواب دیا:
    ہاں,
    لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں,
    تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا،
    میزبان نے کہا
    قبلہ! میرا ایک سوال ہے
    اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے،
    پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی،
    اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی،
    اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی،
    کیا رقم آپ نے لی تهی؟
    عالم دین نے کہا:
    ہاں میں نے لی تهی،
    میزبان حیران پریشان ہو گیا،
    اور عالِمِ جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
    جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو،
    میں نے دیکها کہ،
    کاونٹر پر پیسے رکھے ہوئے ہیں،
    چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی،
    اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے،
    لہذا میں نے وہ نوٹ جمع کئے،
    اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ،
    ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو،
    اور پریشان ہو جاو،
    اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا،
    اور اُونچی آواز میں رونا شروع کر دیا،
    اور پھر میزبان کو مخاطب کرکے کہا:
    میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،
    تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا،
    اگرچہ یہ بہت دردناک ہے
    لیکن!
    میں اس لئے گِریہ کر رہا ہوں کہ،
    365 دن گذر گئے،
    اور تم میں سے کسی نے قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،
    اور اگر تم قرآن کو ایک بار کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن میں رکھی مل جاتی،
    یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید اٹها کر لایا،
    اور جلدی سے کھولا،
    اور اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی نظر آرہی تهی،

    یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ،
    سال بھر میں بھی قرآن نہیں کهولتے، اور اپنے آپ کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔