Tuesday 21 April 2020

جذام زدہ مریض ایک نیزے کے برابر فاصلہ اور موجودہ صورتِ حال

0 comments
جذام زدہ مریض ایک نیزے کے برابر فاصلہ اور موجودہ صورتِ حال
محترم قارئینِ کرام : کرونا وائرس کی طرح جذام بھی ایک وبائی مرض ہے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِي، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم قَالَ : لاَ تُدِيمُوا النَّظَرَ إِلَى الْمُجَذَّمِينَ ، وَإِذَا كَلَّمْتُمُوهُمْ فَلْيَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ قِيدُ رُمْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے ۔ (مسند احمد مترجم اردو جلد اوّم صفحہ نمبر 314 حدیث نمبر581)،(المقصد العلي في زوائد مسند أبي يعلى الموصلي باب في المجذومين)

اس لئے کہ جب آدمی بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے تھوک کے چھینٹے نکلتے ہیں جس میں بیماری کے کافی جراثیم موجود ہوتے ہیں یہ جب مخاطب کے اوپر پڑیں گے تو مخاطب کو بھی بیماری میں مبتلا کر سکتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا خود کا عمل ایک حدیث میں موجود ہے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جذام کے مریض سے قربت پسند نہیں کی ، بلکہ دور سے ہی اسے واپس بھیج دیا امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے عمرو بن الشريد رضی اللہ عنہما سے بيان كيا ہے وہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ : قبيلہ ثقيف كے وفد ميں ایک شخص جذام كا مريض تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس كو پيغام بھيجا كہ ،إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ ، تم ہم سے بيعت كر چكے ہو لہٰذا واپس چلے جاؤ ۔ (صحيح مسلم حديث نمبر2231 ،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جذام كے اس مريض كى طرف بيعت كا پيغام اس ليئے بھيجا كہ اذيت و مكروہ كے اسباب سے فرار ہونا مشروع ہے ، اور بندہ كسى آزمائش و ابتلاء كے اسباب كے سامنے خود نہ آئے ۔ جو جذام کا مریض بیعت کرنے آیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسے دور سے ہی واپس بھیج دیا کہ بس بیعت ہو گئی واپس چلے جاؤ ، تا کہ اس کی بیماری کے اسباب سے محفوظ رہا جائے ، یعنی احتیاط اختیار کی وہ قریب آئے گا تو عین ممکن ہے اس کی بیماری ہمیں بیمار کرنے کا سبب نا بن جائے ۔

(1) ایک کی بیماری یا مرض کا اُڑ کر دوسرے کو لگ جانا یا کسی مریض سے مرض تجاوُز کرکے صحیح سلامت تندرست آدمی میں منتقل ہوجانا ! یہ بالکل باطل ہے ۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے بیماری خود اُڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہے ، خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ خود ہی مؤثر (یعنی بذاتِ خود اثر انداز ہونے والی) ہے ۔ حدیثِ پاک میں اسی نظریے کا ردفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :”لَاعَدْوَی“ یعنی بیماری کا اُڑ کر لگنا کچھ نہیں ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجذوم (جذام کے مریض) کے ساتھ کھانا بھی کھایا تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ مرض اڑ کر دوسرے کو نہیں لگتا ۔

(2) تعدیۂ جراثیم یعنی ”مرض کے جراثیم کا اُڑ کر دوسرے کو لگنا“ کھلی حقیقت ہے ، جراثیم خود مرض نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہے جو صرف خرد بین یا الٹرا مائکرو اسکوپ (Ultra-Microscope) کے ذریعے ہی نظر آتی ہے اور یہ جراثیم مرض کا سبب بنتے ہیں ۔ پہلے زمانے کے لوگ ان جراثیم سے واقف نہ تھے تو انہوں نے یہی نظریہ بنا لیا کہ مرض مُتَعَدِّی ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ اسلام نے اس کی نفی فرمائی کہ کوئی مرض مُتَعَدِّی نہیں ہوتا اسلام کے تعدیہ مرض کی نفی کرنے سے جراثیم کے مُتَعَدِّی ہونے کی نفی قطعاً نہیں ہوتی ۔ فتح الباری میں ہے : تعدیہ کی نفی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شے اپنی طبیعت کے اعتبار سے دوسری چیز کو نہیں لگتی ، چونکہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ امراض اپنی طبیعت کے اعتبار سے مُتَعَدِّی ہوتے ہیں اور وہ ان کی نسبت اللّٰہ تعالٰی کی طرف نہیں کرتے تھے ، لہٰذا اس اعتقاد کی نفی کی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کے اعتقاد کو باطل فرمایا اور مجذوم کے ساتھ کھانا کھایا تا کہ آپ انہیں بیان کردیں کہ اللہ ہی بیمار کرتا ہے اور شفا دیتا ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر،ج11،ص136،تحت الحدیث: 5707،چشتی)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے ۔ وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو مُتَعَدِّی مانتے ہیں : جذام ، خارش ، چیچک ، موتی جھرہ ، منہ کی یا بغل کی بو ، آشوبِِ چشم ، وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے ۔ اس معنیٰ سے مرض کا اُڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تَعَفُّنْ سے اثر لے کر بیمار ہو جائے اس معنیٰ سے تَعَدِّی ہوسکتی ہے اس بنا پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہٰذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔غرضکہ عدویٰ یا تَعَدِّی اور چیز ہے کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ اور چیز ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص256)

محترم قارئینِ کرام : موجودہ وبائی صورتِ حال کے متعلق اس سے قبل ہم دو مضامین پیش کر چکے ہیں مضمون نمبر ایک کا لنک یہ ہے (https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/04/blog-post_19.html) اور مضمون نمبر دو کا لنک یہ ہے (https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/04/blog-post_21.html) یہاں ہم پھر عرض کرینگے کہ نماز میں صفوں کو سیدھا رکھنا اور حتی الامکان فاصلہ نہ رکھنا سنت مؤکدہ ہے ، لہٰذا عام حالات میں بغیر مجبوری کے قصدا صفوں میں خلا چھوڑ دینا مکروہ ہے ۔ موجودہ وبائی صورتِ حال میں بھی یہی حکم ہے ، محض بیماری کے وہم کی وجہ سے صفوں میں خلا چھوڑنا مناسب نہیں ہے ، تاہم اگر کسی مقام پر واقعی وبائی صورت حال پیدا ہو جائے ، مجبوری کی حالت ہو اور اس سنت پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں مسجد میں جماعت میں نمازیوں کے درمیان کچھ فاصلہ رجکھ کر نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی اور مجبورا ایسا کرنے کی صورت میں کراہت کا گناہ بھی نہیں ہوگا ۔ موجودہ وبائی صورتِ حال میں اگر حکام کی جانب سے باجماعت نماز میں مل کر کھڑے ہونے کی اجازت نہ دی جائے ، یا مسلمان ماہرین اطباء و ڈاکٹروں کی جانب سے موجودہ وبائی وائرس سے بچاؤ کے لیئے ضروری قرار دیا جائے ، تو باجماعت نماز میں دو افراد کے درمیان کسی قدر فاصلے سے کھڑے ہونے کی صورت میں نماز ادا کرنے کی گنجائش ہوگی ۔ عمومی احوال میں فاصلہ رکھ کر نمازادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے ۔ البتہ موجودہ وبائی صورتِ حال میں کرونا وائرس کی وجہ سے حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت ، حکومتی احکامات اور مسلمان دین دار ، تجربہ کا رڈاکٹر وں و اطباء کے مشوروں کے مطابق اگر مسجد کی حدود کے اندر کچھ فاصلہ رکھ کر جماعت سے نماز پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہوجائے گی، تاہم جیسا کہ ذکر ہواکہ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونا سنتِ متواترہ کے خلاف ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔