Tuesday, 21 April 2020

وہ لوگ جنہیں جماعت میں نہ آنے کی اجازت ہے

وہ لوگ جنہیں جماعت میں نہ آنے کی اجازت ہے
محترم قارئینِ کرام : موجودہ وبائی صورتِ حال کے متعلق اس سے قبل فقیر اس عنوان (موجودہ وبائی صورتِ حال میں صفوں میں فاصلہ رکھنے کا حکم) سے لکھ چکا ہے جس کا لنک یہ ہے : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/04/blog-post_19.html ۔ اس مسلہ پر یہ دوسرا مضمون ہے اہلِ علم سے ھزارش ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو فقیر کی اصلاح فرمائیں جزاکم اللہ خیرا اور ساتھ ہی فیس بک کے مفتیانِ کرام سے ایڈوانس معذرت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف فرمائیں شکریہ آیئے مضمون پڑھتے ہیں :

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : بیماری کی وجہ سے ، لنگڑا پن ، اپاہج ، بڑھاپہ جس کی وجہ سے چل نہ سکے ، بارش کیچڑ، بہت سردی ، بہت اندھیری رات کی وجہ سے جماعت ساقط ہو جاتی ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری مترجم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 299 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہو)

وہ لوگ جنہیں جماعت میں نہ آنے کی اجازت ہے : مریض جسے مسجد تک جانے میں مشقت ہو، اپاہج جس کا پاؤں کٹ گیا ہو، جس پر فالج گرا ہو، اتنا بوڑھا کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہو، نابینا ، اگر چہ اس کو ہاتھ پکڑا کر مسجد تک پہنچانے والا موجود ہواور نابالغ کے ذمہ جماعت کی حاضری لازم نہیں ہے ۔ (ہمارا اسلام جماعت کا بیان حصہ نمبر 4 صفحہ نمبر 234 مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ) ۔ کیا کرونا بیماری و وبا نہیں ہے اے مفتیانِ فیس بک ؟

شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں کو یا فرشتوں کو اس سے اذیت ہو، اسی وجہ سے جس نے نماز سے پہلے بدبودار چیز کھالی ہو تو اسے اس حالت میں مسجد نہیں جانا چاہیے ، بلکہ منہ سے بدبو دور کرکے مسجد جانا چاہیے ، فقہاءِ کرام علیہم الرّحمہ نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہو ، جیسے جذامی ۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یقینی طور پر کرونا وائرس میں مبتلا مریض کو مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جائے گا ۔

ایسے مریض کے لیئے جمعہ کی نماز کے حوالے سے کیا حکم ہوگا ؟

سحنون مالکی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ایسے شخص کا لوگوں کی ایذا کا سبب بننا یقینی ہو تو اس سے جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائے گا ۔ (بحوالہ عمدۃ القاری)

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول صرف جمعہ کی نماز میں یہ شرکت کرے گا ۔ (الکامل للنووی علی صحیح مسلم)
البتہ پنج وقتہ نمازوں کی جماعت میں لوگوں کو ایذا سے محفوظ رکھنے کے لیئے ایسے شخص کو جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہیئے ، اور ایسے مریض کو دیگر اجتماعی جگہوں سے بدرجہ اولیٰ دور رہنا چاہیے ۔

عمدۃ القاری اور شرح نووی کی عبارت میں تضاد نہیں ہے ، بلکہ عمدۃ القاری کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس سے جمعے کا وجوب ساقط ہوجائے گا ، تاہم اگر وہ شرکت کرنا چاہے تو منع نہیں کیا جائے گا ، اور شرح نووی کا حاصل بھی یہی ہے کہ جمعہ سے منع نہیں کیا جائے گا ، یعنی اگر مرض کی وجہ سے وہ شریک نہ ہو تو ایسا کرسکتاہے، کیوں کہ اس پر جمعہ واجب نہیں ہوگا ۔

ایسے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد اگر زیادہ ہوجائے تو ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ اس حوالے سے علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ سے مفید و مبسوط تفصیل نقل کی ہے، چند سطور بعد وہ باحوالہ آجائے گی، اس کا خلاصہ اور اس سے مستفاد مسائل یہ ہیں : اگر جذامی (یا دیگر اس طرح کے مریض واقعتاً) تعداد میں زیادہ ہوجائیں تو اہلِ علم کی رائے کے مطابق ان کے لیے جدا اور مستقل محفوظ جگہ بنائی جائے، جہاں ان کی عزتِ نفس ، طبی سہولیات وغیرہ کی خیال داری بھی ملحوظ رہے اور لوگوں کے رویے سے انہیں کسی قسم کا اِحساس کم تری بھی لاحق نہ ہو ، یعنی ان کے متعلقین اور تیمار دار اسباب کے تحت احتیاطی تدابیر اختیار کریں اس کی تو اجازت ہے ، لیکن انہیں اچھوت بنادینا اور ہاتھ لگانے کے لیے بھی تیار نہ ہونا، جائز نہیں ہے ، نیز اگر ایسے مریض کو علاج و خیال داری کی ضرورت ہو تو قریبی لوگوں کے ذمہ ان کی خیال داری لازم ہوگی ، اور ان کے بنیادی ضروری منافع سے انہیں نہیں روکا جائے گا ۔

اگر ایسے مریضوں کی تعداد زیادہ نہ ہو یا ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے دیگر لوگ ان کے لیے انتظامات نہ کریں تو ایسے مریضوں کو صحت مند افراد سے اختلاط رکھتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرنے سے نہیں روکا جائے گا ۔

اگر کوئی مریض واقعتاً کرونا وغیرہ (وبائی) مرض میں مبتلا ہو اور اس کی خدمت اور تیمارداری کا انتظام ہو تو ظاہری سبب کے طور پر ایسے مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط کرنا جائز ہے، البتہ ایسی صورت اختیار کی جائے کہ بیمار کی دل آزاری نہ ہو اور یہ عقیدہ بھی نہ ہو کہ ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے ، اگر یہ نظریہ ہو کہ بیماری لازمی طور پر متعدی ہوتی ہے تو یہ ایمان کے لیے خطرناک ہے ، احادیثِ مبارکہ میں بیماریوں کے لازمی اور بذاتہ متعدی ہونے کے جاہلی عقیدے کی سختی سے تردید کی گئی ہے ۔ اور اگر ایسے مریض کی بیماری میں تیمار داری اور خدمت کا کوئی انتطام نہ ہو تو اس کی خدمت میں لگنا ضروری اور باعث اجر وثواب ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ منورہ کی آب و ہوا میں وبائی مرض تھا ، جس کی وجہ سے بہت سے مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم بیمار ہوگئے ، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان مریضوں کی تیمار داری اور خیال داری اپنے ہی گھروں میں کرتے رہے ، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا سے یہ وبا مدینہ منورہ سے منتقل کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو پاک کردیا ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الطب کے تحت یہ حدیثِ مبارک "باب من دعا برفع الوباء والحمی" عنوان کے تحت ذکر کی ہے، یعنی" وبا اور بخار کے ختم ہونے کی دعا کرنے کا بیان ۔ (صحیح البخاری، کتاب الطب، باب من دعا برفع الوباء والحمی، (2/847) ط: قدیمی کراچی،چشتی)

عن عائشة أنها قالت : لما قدم النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وعك أبوبکر وبلال قالت : فدخلت علیهما ، فقلت: یا أبت کیف تجدك؟ ویا بلال کیف تجدك؟ قالت: وکان أبوبکر إذا أخذته الحمّی یقول :

کل امرء مصبح في أهله والموت أدنی من شراك نعله

وکان بلال إذا أقلع عنه یرفع عقیرته، فیقول :

ألالیت شعري هل أبیتنّ لیلة بواد و حولي إذخر وجلیل

وهل أردن یومًا میاه مجنة وهل یبدون لي شامة و طفیل

قالت عائشة : فجئت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فأخبرته ، فقال : اللهم حبّب إلینا المدینة کحبّنا مکة أو أشدّ حبًّا، وصححها، وبارك لنا في صاعها و مدها، و انقل حمّاها فاجعلها بالجحفة ۔ (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب المساجد و مواضع الصلاة، الفصل الأول، (ص:68) ط : قدیمی کراچی)

عن جابر قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : من أکل من هذه الشجرة المنتنة فلایقربنّ مسجدنا؛ فإن الملائکة تتأذی مما یتأذی منه الإنس. متفق علیه ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اس بدبودار پودے میں سے کچھ کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ؛ اس لیے کہ ملائکہ کو اس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے جس سے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ (صحیح البخاري، کتاب الطب، باب الهامة، (2/859) ط : قدیمی کراچی،چشتی)

عن أبي سلمة عن أبي هریرة قال : قال النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : لا عدوی و لاصفر و لا هامة، فقال أعرابي: یارسول الله! فما بال الإبل تکون في الرمل، لکأنها الظباء، فیخالطها البعیر الأجرب فیجربها؟ فقال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : فمن أعدی الأول ؟
وعن أبي سلمة سمع أبا هریرة یقول : قال النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لایوردن ممرض علی مصحح. و أنکر أبوهریرة الحدیث الأول، قلنا : ألم تحدّث أنه لاعدوی ؟ فرطن بالحبشیة، قال أبوسلمة: فمارأیته نسي حدیثًا غیره ۔
ترجمہ : ابو سلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: بیماریوں کے (بذاتہ) متعدی ہونے کی حقیقت نہیں ہے ۔۔۔ چناں چہ ایک اعرابی نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! پھر اونٹوں کا کیا حال ہے کہ وہ ریت میں ایسے ہوتے ہیں گویا کہ (جلد کی ملائمت اور خوب صورتی میں) ہرن ہوں ، پھر ان میں خارشی اونٹ ملتا ہے تو ان کو بھی خارشی بنادیتا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : (سب سے) پہلے (خارشی اونٹ) کو کس نے بیماری متعدی کی ؟

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: بیمار اونٹوں والا شخص ہرگز اپنے اونٹ صحیح اونٹ والے کے پاس نہ لائے ۔۔۔ الخ ۔ (عمدة القاری شرح صحيح البخاری (6 / 146)

وكذلك ألحق بذلك بعضهم من بفيه بخر، أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب والسماك والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق، وصرح بالمجذوم ابن بطال، ونقل عن سحنون : لاأرى الجمعة عليه، واحتج بالحديث. وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به ۔
(صحیح لمسلم، کتاب السلام، باب اجتناب المجذوم و نحوه، (2/233) ط: قدیمی کراچی،چشتی)
عن عمرو بن الشرید عن أبیه قال : کان في وفد ثقیف رجل مجذوم ، فأرسل إلیه النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم إنا قد بایعناك فارجع ۔
ترجمہ : عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بنوثقیف کے وفد میں ایک جذامی شخص بھی آیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسے پیغام بھجوایا کہ ہم نے تمہیں (یہیں سے) بیعت کرلیا ہے ، چناں چہ آپ لوٹ جائیے ۔

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : (قوله: کان في وفد ثقیف رجل مجذوم فأرسل إلیه النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم إنا قد بایعناك فارجع) هذا موافق للحدیث الآخر في صحیح البخاري: "و فرّ من المجذوم فرارك من الأسد"، وقد سبق شرح هذا الحدیث في "باب لاعدوی"، و أنه غیر مخالف لحدیث: "لایورد ممرض علی مصحح"، قال القاضي: قد اختلف الآثار عن النبي صلی الله علیه وسلم في قصة المجذوم، فثبت عنه الحدیثان المذکوران، وعن جابر أن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم أکل مع المجذوم وقال له: کل ثقة بالله و توکلاً علیه، وعن عائشة قالت: کان لنا مولی مجذوم، فکان یأکل في صحافي و یشرب في أقداحي و ینام علی فراشي .
قال : وقد ذهب عمر و غیره من السلف إلی الأکل معه و رأوا أن الأمر باجتنابه منسوخ. والصحیح الذي قاله الأکثرون و یتعین المصیر إلیه: "أنه لانسخ بل یجب الجمع بین الحدیثین، وحمل الأمر باجتنابه والفرار منه علی الاستحباب والاحتیاط، لا للوجوب، و أما الأکل معه ففعله لبیان الجواز". والله أعلم.(چشتی)
قال القاضي: قالوا: و یمنع من المسجد و الاختلاط بالناس، قال: وکذلك اختلفوا في أنهم إذا کثروا هل یؤمرون أن یتخذوا لأنفسهم موضعًا منفردًا خارجًا عن الناس ولایمنعوا من التصرف في منافعهم، وعلیه أکثر الناس، أم لایلزهم التنحي، قال: ولم یختلفوا في القلیل منهم في أنهم لایمنعون، قال: ولایمنعون من صلاة الجمعة مع الناس ویمنعون من غیرها،قال: ولو استضرّ أهل قریة فیهم جذمي بمخالطتهم في الماء، فإن قدروا علی استنباط ماء بلاضرر أمروا به و إلا استنبط لهم الآخرون أو أقاموا من یستقي لهم، و إلا فلایمنعون. والله أعلم".
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر اہلِ سلف کی رائے یہ ہے کہ ایسے مریض (جذامی) کے ساتھ کھانا کھایا جائے ، اور ان کا خیال یہ ہے کہ اس سے دور رہنے کا حکم منسوخ ہے ۔ لیکن صحیح بات جو جمہور کی رائے ہے اور (تمام نصوص کو دیکھتے ہوئے) اسی نتیجے تک پہنچنا متعین ہوجاتاہے وہ یہ ہے : جذامی سے دور رہنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا ، بلکہ دونوں حدیثوں میں تطبیق ضروری ہے ، لہٰذا مجذوم سے دور رہنے کا حکم استحباب اور احتیاط پر محمول ہے ، نہ کہ وجوب پر ، جہاں تک اس کے ساتھ کھانے کی بات ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایسا بیانِ جواز کے لیے کیا ۔ واللہ اعلم (یعنی اگر کوئی ساتھ رہتاہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ اور یقین ہے تو اسے دور رہنے اور اجتناب پر مجبور نہیں کیا جاسکتا)

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علماء فرماتے ہیں : جذامی کو مسجد اور لوگوں کے ساتھ اختلاط سے روکا جائے گا ۔ اور اہلِ علم کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر جذامی مریض زیادہ ہوجائیں تو کیا انہیں حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے لیے لوگوں سے جدا مستقل جگہ بنائیں البتہ ان کے منافع والے تصرفات سے انہیں نہیں روکا جائے گا، یا ان پر صحت مند لوگوں سے دور رہنا لازم نہیں ہوگا ؟ اکثر کی رائے پہلی والی ہے ۔ البتہ اگر ایسے مریض کم ہوں تو بالاتفاق انہیں اختلاط سے نہیں روکا جائے گا ۔ امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : انہیں جمعہ کی نماز سے نہیں روکا جائے گا ، البتہ دیگر نمازوں کی جماعت سے روکا جائے گا ۔ آگے فرماتے ہیں: اگر کسی بستی میں جذامی مریضوں کے پانی میں اختلاط کی وجہ سے بستی والوں کو ضرر لاحق ہو ، تو اگر یہ جذامی مریض بغیر ضرر کے اپنے لیے پانی کا انتظام کرسکتے ہوں تو انہیں اس کا پابند کیا جائے گا ، ورنہ دوسرے (صحت مند) لوگ ان کے لیے پانی کا انتظام کریں یا کسی کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ ان کے لیے پانی بھرے ، اور اگر یہ انتظام نہ ہوسکے تو جذامی مریضوں کو (اپنے ضروری منافع سے) نہیں روکا جائے گا ۔ واللہ اعلم

ان صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو ، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخولِ مسجد اور شرکتِ جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے ، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے ، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے ۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور فقہائے اسلام علیہم الرّحمہ کے مزاروں پر اللہ عز و جل بے شمار رحمتیں نازل فرمائے جنہوں ہر ہر مسلے پر رہنمائی فرمائی ہے مذکورہ بالا تمام دلائل کی روشنی میں فیس بک کے مفتیوں سے معذرت کے ساتھ کہ آپ لوگ اپنا مفتیانہ فیصلہ دیتے رہیں مگر انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جن علمائے کرام نے مساجد میں صفوں میں فاصلہ اور کرونا جیسی وباء سے بچنے کےلیئے احتیاطی تدابیر کا حکم فرمایا ہے وہ آپ سے کہیں زیادہ علم اور دین کا درد رکھتے ہیں آپ لوگ دین کی اپنے ٹھیکیداری کو اپنے تک رکھیں اور علمائے کرام کی شان میں بے ادبیاں و گستاخیاں نہ کریں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو جملہ فتنوں و اور وباؤں سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...