Sunday 19 April 2020

موجودہ وبائی صورتِ حال میں صفوں میں فاصلہ رکھنے کا حکم

0 comments
موجودہ وبائی صورتِ حال میں صفوں میں فاصلہ رکھنے کا حکم
محترم قارئینِ کرام : موجودہ صورتِ حال میں جن جگہوں پر حکومت کے اہل کار یہ کہتے ہیں کہ دو مصلی کے درمیان ایک میٹر کے فاصلہ کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں ورنہ مسجد بند کرو تو اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ مسجد بند کرنے کے مقابلہ میں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ صفوں کا اتصا ل ضروری ہے لیکن اگر مسجد یا فناء مسجد یا صحن مسجد میں کہیں مصلی ہو اور صف کا انقطاع ہوجائے یا دو مصلی کے درمیا ن ایک میٹر کا فاصلہ ہوجائے تو بھی نماز درست ہوجاتی ہے اگر چہ ایسا کرنا مکروہ ہے ، لیکن یہاں پر ایسا کرنے کی مجبوری ہے اس لیئے اہون البلیتین کے طور پر اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے الاشباہ و النظائر میں علاّمہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : وفناء المسجد کالمسجد فیصح الاقتداء و ان لم تتصل الصفوف ۔ (الاشباہ و النظائر ص:۱۹۷،چشتی)

موجودہ صورتِ حال نے بہت سے ایسے مسائل کو جنم دیا جو کہ لوگوں کے لیئے بالکل نئے ہیں ،اسلام ہمیشہ کے لیے آیا ہے ، اس میں ہر دور کے لیے رہنمائی ہے ، اس لیے قرآن و حدیث سے موجودہ حالات کے لیے رہنمائی تلاش کی گئی ، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دین اسلام آسان ہے اور مشقت و تکلیف کے وقت فقہاء کرام نے المشقۃ تجلب التیسیر اور اس طرح کے دیگر فقہی قواعد کی روشنی میں آسانیاں پیدا کی ہیں ، اس لیے اسلامی شریعت کے اصول کی روشنی میں ان مشکل حالات میں موجودہ وقت کے اربابِ افتاء و صاحبانِ علم کو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ لوگوں کےلیئے آسانی و حفاظت ہو ۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے واضح کیا ہے کہ اقتداء کے صحیح ہونے کے لیئے مسجد یا فناء مسجد میں اتصال صفوف ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ امام کے احوال کا علم ہونا یہ کافی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : کہ وبہ علم أن الاقتداء من صحن الخانقاہ الشیخونیۃ بالامام فی المحراب صحیح و ان لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد و کذا اقتداء من بالخلاوی السفلیۃ صحیح لان ابوابہا فی فناء المسجد ۔ (فتاوی شامی ۱/۵۸۵،چشتی)

موجودہ وبائی صورتِ حال میں وائرس کی وجہ سے اگر حکومتی احکامات اور مسلمان ماہرین کی رائے یہ ہو کہ دو مقتدیوں کے درمیان ایک آدمی کے فاصلہ سے کھڑا ہونا ضروری ہے ، ایسی صورت میں ایک یا دو ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہوجائے گی ، تاہم صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا خلافِ سنت ہوگا ۔

شرح أبي داؤد للعيني میں ہے : نا أبو الوليد الطيالسي، وسليمان بن حرب قالا: نا شعبة، عن قتادة، عن أنس قال: قال رسول الله: " سَووا صفوفكم، فإن تسوية الصف من تمام الصلاة ۔
ش - أخرجه البخَاري، ومسلم، وابن ماجه، وفي رواية: " من حُسن الصلاة"، وعند السراج من حديث شعبة: قال قتادة: قال أنس: إن من حسن الصلاة: / إقامة الصف، وفي لفظ: من تمام الصلاة .
ثم إن تَسوية الصفوف من سُنة الصلاة عند أبي حنيفة ومالك والشافعي، وزعم ابن حزم أنه فرض، لأن إقامة الصلاة فرض، وما كان من الفرض فهو فرض، قال عليه السلام: "فإن تسوية الصف من تمام الصلاة ". قلنا: قوله: "فإنه من حُسن الصلاة " يدل على أنها ليْست بفرضِ، لأن ذلك أمر زائد على نفس الصلاة، ومعنى قوله: " من تمام الصلاة ": من تمام كمال الصلاة، وهو- أيضاً- أمر زائد، فافهم . ( كتاب الصلاة، بَابُ: تفْريع أبْواب الصُّفُوفِ، ٣ / ٢١٨ - ٢١٩، رقم: ٦٤٩، ط: مكتبة الرشد)

فتح الباری میں ہے : (قَوْلُهُ: بَابُ إِثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصُّفُوفَ) قَالَ ابن رَشِيدٍ: أَوْرَدَ فِيهِ حَدِيثَ أَنَسٍ مَا أَنْكَرْتُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّكُمْ لَاتُقِيمُونَ الصُّفُوفَ، وَتُعُقِّبَ بِأَنَّ الْإِنْكَارَ قَدْ يَقَعُ عَلَى تَرْكِ السُّنَّةِ، فَلَا يَدُلُّ ذَلِكَ عَلَى حُصُولِ الْإِثْمِ، وَأُجِيبَ بِأَنَّهُ لَعَلَّهُ حَمَلَ الْأَمْرَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ} عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْأَمْرِ الشَّأْنُ وَالْحَالُ لَا مُجَرَّدُ الصِّيغَةِ، فَيَلْزَمُ مِنْهُ أَنَّ مَنْ خَالَفَ شَيْئًا مِنَ الْحَالِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْثَمَ؛ لِمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ الْوَعِيدُ الْمَذْكُورُ فِي الْآيَةِ، وَإِنْكَارُ أَنَسٍ ظَاهِرٌ فِي أَنَّهُمْ خَالَفُوا مَا كَانُوا عَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ إِقَامَةِ الصُّفُوفِ، فَعَلَى هَذَا تَسْتَلْزِمُ الْمُخَالفَة التأثيم، انْتهى كَلَام ابن رَشِيدٍ مُلَخَّصًا. وَهُوَ ضَعِيفٌ؛ لِأَنَّهُ يُفْضِي إِلَى أَنْ لَايَبْقَى شَيْءٌ مَسْنُونٌ؛ لِأَنَّ التَّأْثِيمَ إِنَّمَا يَحْصُلُ عَنْ تَرْكِ وَاجِبٍ، وَأَمَّا قَوْلُ ابن بَطَّالٍ: إِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ لَمَّا كَانَتْ مِنَ السُّنَنِ الْمَنْدُوبِ إِلَيْهَا الَّتِي يَسْتَحِقُّ فَاعِلُهَا الْمَدْحَ عَلَيْهَا دَلَّ عَلَى أَنَّ تَارِكَهَا يَسْتَحِقُّ الذَّمَّ، فَهُوَ مُتَعَقَّبٌ مِنْ جِهَةِ أَنَّهُ لَايَلْزَمُ مِنْ ذَمِّ تَارِكِ السُّنَّةِ أَنْ يَكُونَ آثِمًا، سَلَّمْنَا، لَكِنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ التَّعَقُّبُ الَّذِي قَبْلَهُ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْبُخَارِيُّ أَخَذَ الْوُجُوبَ مِنْ صِيغَةِ الْأَمْرِ فِي قَوْلِهِ: "سَوُّوا صُفُوفَكُمْ"، وَمِنْ عُمُومِ قَوْلِهِ: "صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"، وَمِنْ وُرُودِ الْوَعِيدِ عَلَى تَرْكِهِ، فَرَجَحَ عِنْدَهُ بِهَذِهِ الْقَرَائِنِ أَنَّ إِنْكَارَ أَنَسٍ إِنَّمَا وَقَعَ عَلَى تَرْكِ الْوَاجِبِ وَإِنْ كَانَ الْإِنْكَارُ قَدْ يَقَعُ عَلَى تَرْكِ السُّنَنِ، وَمَعَ الْقَوْلِ بِأَنَّ التَّسْوِيَةَ وَاجِبَةٌ فَصَلَاةُ مَنْ خَالَفَ وَلَمْ يُسَوِّ صَحِيحَةٌ لِاخْتِلَافِ الْجِهَتَيْنِ، وَيُؤَيِّدُ ذَلِكَ أَنَّ أَنَسًا مَعَ إِنْكَارِهِ عَلَيْهِمْ لَمْ يَأْمُرْهُمْ بِإِعَادَةِ الصَّلَاةِ. وَأَفْرَطَ ابن حَزْمٍ، فَجَزَمَ بِالْبُطْلَانِ، وَنَازَعَ مَنِ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ عَلَى عَدَمِ الْوُجُوبِ بِمَا صَحَّ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ ضَرَبَ قَدَمَ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ لِإِقَامَةِ الصَّفِّ، وَبِمَا صَحَّ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَ بِلَالٌ يُسَوِّي مَنَاكِبنَا وَيَضْرِبُ أَقْدَامَنَا فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: مَا كَانَ عُمَرُ وَبِلَالٌ يَضْرِبَانِ أَحَدًا عَلَى تَرْكِ غَيْرِ الْوَاجِبِ، وَفِيهِ نَظَرٌ لِجَوَازِ أَنَّهُمَا كَانَا يَرَيَانِ التَّعْزِيرَ عَلَى تَرْكِ السُّنَّةِ . ( ٢ / ٢١٠، ط: دار المعرفة)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح میں ہے : قوله : "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه قوله: "وسدوا الخلل" أي الفرج روى البزار بإسناد حسن عنه صلى الله عليه وسلم: "من سد فرجة في الصف غفر له . ( باب الإمامة، فصل: في بيان الأحق بالإمامة، ص: ٣٠٦، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے : وَيَنْبَغِي لِلْقَوْمِ إذَا قَامُوا إلَى الصَّلَاةِ أَنْ يَتَرَاصُّوا وَيَسُدُّوا الْخَلَلَ وَيُسَوُّوا بَيْنَ مَنَاكِبِهِمْ فِي الصُّفُوفِ وَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْمُرَهُمْ الْإِمَامُ بِذَلِكَ وَيَنْبَغِي أَنْ يُكْمِلُوا مَا يَلِي الْإِمَامَ مِنْ الصُّفُوفِ، ثُمَّ مَا يَلِي مَا يَلِيهِ وَهَلُمَّ جَرًّا وَإِذَا اسْتَوَى جَانِبَا الْإِمَامِ فَإِنَّهُ يَقُومُ الْجَائِي عَنْ يَمِينِهِ، وَإِنْ تَرَجَّحَ الْيَمِينُ فَإِنَّهُ يَقُومُ عَنْ يَسَارِهِ وَإِنْ وَجَدَ فِي الصَّفِّ فُرْجَةً سَدَّهَا وَإِلَّا فَيَنْتَظِرُ حَتَّى يَجِيءَ آخَرُ كَمَا قَدَّمْنَاهُ، وَفِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَرَوَى أَبُو دَاوُد وَالْإِمَامُ أَحْمَدُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُقِيمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا بِأَيْدِي إخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ» . وَرَوَى الْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَدَّ فُرْجَةً فِي الصَّفِّ غُفِرَ لَهُ» . وَفِي أَبِي دَاوُد عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خِيَارُكُمْ أَلْيَنُكُمْ مَنَاكِبَ فِي الصَّلَاةِ» وَبِهَذَا يُعْلَمُ جَهْلُ مَنْ يَسْتَمْسِكُ عِنْدَ دُخُولِ دَاخِلٍ بِجَنْبِهِ فِي الصَّفِّ وَيَظُنُّ أَنَّ فَسْحَهُ لَهُ رِيَاءٌ بِسَبَبِ أَنَّهُ يَتَحَرَّكُ لِأَجْلِهِ بَلْ ذَلِكَ إعَانَةٌ لَهُ عَلَى إدْرَاكِ الْفَضِيلَةِ وَإِقَامَةٌ لِسَدِّ الْفُرُجَاتِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي الصَّفِّ وَالْأَحَادِيثُ فِي هَذَا كَثِيرَةٌ شَهِيرَةٌ اهـ". ( بَابُ الْإِمَامَةِ، وُقُوف الْمَأْمُومِينَ فِي الصَّلَاة خَلْف الْإِمَام، ١ / ٣٧٥، ط: دار الكتاب الإسلامي)

نوٹ : یہ ایک نئی صورتِ حال ہے اسلام دینِ فطرت ہے اور ملتِ اسلامیہ پر فقہائے کرام علیہم الرّحمہ کا احسانِ عظیم ہے کہ انہوں مستقبل پہ نظر رکھتے ہوئے بہت سے مسائل کا حل عطاء فرما دیا ہوا ہے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اس موضوع پر تحقیق کر رہا ہے جلد اس پر مفصّل مضمون مکمل حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جائے گا ان شاء العزیز ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔