Monday 29 June 2020

پیری مریدی اور آج کل کے جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے

0 comments
پیری مریدی اور آج کل کے جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے
محترم قارئینِ کرام : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔ درحقیقت مرید اپنی مرضی کومرشد صالح کے ہاتھ بیچ دیتاہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔

مقصد بیعت : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔ (مشکوۃ کتاب الایمان بالقدر)

یعنی دل کو خواہشات کی ہوائیں یہاں سے وہاں پھیرتی رہتی ہیں تو ضروری ہے کہ کسی کا دست تو انا اس پر رکھ دیا جائے تا کہ وہ الٹنے پلٹنے سے محفوظ ہوجائے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوااور ارشاد فرمایا : لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ ۔ (سورۃ الفتح ،آیت۱۸)
ترجمہ : بے شک اللہ راضی ہوا مسلمانوں سے جب وہ تم سے بیعت کرتے ہیں درخت کے نیچے ۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کے قائم مقام کیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایاـ’’یہ اللہ کا دست قدرت ہے اوریہ عثمان کا ہاتھ ہے ،تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔ (صحیح بخاری،چشتی)

پس قرآن و حدیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہواوہاں ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لئے سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ غیر حاضری میں بھی بیعت کرنا جائز ہے ۔پیری مریدی کے اثبات میں یہ مستحکم اور قطعی اصل ہے اور وہ بنیاد ہے جسے مضبوط اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا جاسکتا ہے ۔اس میں کسی منکر کو انکار کی گنجائش نہیں اور آج تک کسی مجتہد نے اس سے انکار نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

پیر کیسا ہونا چاہئے ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ (1) سنی صحیح العقیدہ ہو۔ (2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ (3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔ (4) اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳،چشتی)
ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت کرے جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

اگر پیر نہ ہو تو ؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ ( عوارف المعارف)

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ)

میر سیّد عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ : اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔ اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکہ اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔شیطان نے اگر چہ تیرے لیے جال لگا دیے ہیں لیکن تو اس کے دانہ اور پانی سے ذرہ برابر نہ لے اور بہت جلد کسی پیر کا ہاتھ پکڑلے ۔بغیر پیر کے مرجانامردار موت کے مانند ہے ۔اپنا وسیلہ آیہ وا بتغو ا کے ماتحت تلاش کر اور ماننے والوں سے پوچھ اور فسئلوا کو پڑھ ۔ ہمارا سرتاپا وجود گناہ ہے اور مرید ہوجانا ہر گناہ کے لیے پناہ گاہ ۔مریدی دین و ایمان کی چار دیواری ہے اور ہر مسلمان کو اپنے دین کی فکر رہتی ہے ۔ (سبع سنابل)

دیوبندیوں کے پیشوا علاّمہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مرید جہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ۔ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات،چشتی)

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اسکی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے ۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے ۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت اعلی و افضل ہے ۔ غوث اپنے دور میں تمام اولیاء کاسردار ہوتا ہے ۔ لیکن حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب غوثوں کے غوث ہیں اور سب اولیاء اللہ کے سردار ہیں اوران سب کی گردن پر ان کا قدم ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ،جلد ۲۶،ص۵۵۸،چشتی)

پیر یا شیطان ؟

یاد رکھئیے پیر وہی ہے جو شریعت کا تابعدارہو ۔ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی بھی بیعت کے وقت کسی اجنبی عورت کا ہاتھ اپنے دستِ اقدس میں نہ لیا ۔ آج کل پیروں کو دیکھیں :
(1) عورتوں کے ماتھوں کو ، ہاتھوں کو چھوتے رہتے ہیں ۔

(2) ہاتھوں میں ایک سے زائد انگوٹھیاں پہنتے ہیں ۔

(3) اپنے بالوں کو شانوں سے بھی لمبا کرتے ہیں ۔

(4) نمازکی بالکل پرواہ نہیں کرتے ۔

ایسے پیرہرگز ہرگز قابل بیعت نہیں نہ ان کی ارادت جائز اور نہ ہی ان سے فیض کا حصول ،جو اَیسوں کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجے وہ حدیث کے مطابق دیُّوث (بے غیرت) ہے ۔ ہم نے آپ کے سامنے پیری مریدی کی شرعی حیثیت رکھ دی اور فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑدیا ۔

جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے

ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے ، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :

پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے ، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے ۔

اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے ، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں ، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے ، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے ، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے ۔

غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے ۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں ، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں ۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے ۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں ، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے ۔(چشتی)

اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس ! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے ، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھرتھرانے لگتا ہے ۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں ، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کے لئے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے ۔

پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا ۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے والے (Suspense creative) ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں۔ جاہل مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اگر کوئی مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔