Monday, 8 June 2020

امامُ الوہابیہ قاضی شوکانی کے نزدیک وسیلہ جائز ہے و دیگر دلائل

امامُ الوہابیہ قاضی شوکانی کے نزدیک وسیلہ جائز ہے و دیگر دلائل

محترم قارئینِ کرام : امامُ الوہابیہ قاضی شوکانی لکھتے ہیں : (قوله ويتوسل إلى الله سبحانه بأنبيائه والصالحين) أقول ومن التوسل بالأنبياء ما أخرجه الترمذي وقال حسن صحيح غريب والنسائي وابن ماجة وابن خزيمة في صحيحه والحاكم وقال: صحيح على شرط البخاري ومسلم من حديث عثمان بن حنيف رضي الله عنه أن أعمى أتى النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال يا رسول الله ادع الله أن يكشف لي عن بصري قال: «أو أدعك» فقال: يا رسول الله أني قد شق علي ذهاب بصري قال: «فانطلق فتوضأ ثم صل ركعتين ثم قل: اللهم أني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة» الحديث. وسيأتي هذا الحديث في هذا الكتاب عند ذكر صلاة الحاجة ۔ وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في الصحيح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي الله عنه عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال عمر رضي الله عنه اللهم إنا نتوسل إليك بعم نبينا الخ ۔۔۔ (تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلين صفحہ نمبر 50)
ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام) کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی (رحمۃ اللہ علیہ) نے روایت کر کے کہا : یہ حدیث حسن ‘ صحیح اور غریب ہے ‘ امام نسائی (رحمۃ اللہ علیہ) ‘ امام ابن ماجہ (رحمۃ اللہ علیہ) ‘ اور امام ابن خزیمہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کو روایت کرکے کہا یہ حدیث امام بخاری (رحمۃ اللہ علیہ) اور امام مسلم (رحمۃ اللہ علیہ) کی شرط پر صحیح ہے ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت بحال کر دے ‘ آپ نے فرمایا : یا میں رہنے دوں ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر نابینائی بہت دشوار ہے ‘ آپ نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور محمد نبی رحمت کے وسیلہ سے میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ الحدیث ۔ ” حصن حصین “ کے باب صلوۃ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا ‘ اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح (بخاری) میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کی اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا : اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ۔ (تحفہ الذاکرین صفحہ نمبر 37‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ،چشتی)

حضور اکرم نور مجسّم رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے وسیلہ سے دعا کرنے کی خود تعلیم دی اپنے صحابی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ۔ ( صحیح سنن ترمذی صفحہ 469 پر محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی نے اس حدیث پاک کو صحیح قرار دیا ہے)

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا کَانَ يَخْتَلِفُ إِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فِي حَاجَةٍ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ، وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَشَکَی ذَلِکَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : ائْتِ الْمِيْضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلِّ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلَی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذَکَّرْ حَاجَتَکَ، وَرُحْ حَتَّی أَرُوْحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ، ثُمَّ أَتَی بَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ص، فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّی أَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ص، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَی الطُّنْفُسَةِ، فَقَالَ : حَاجَتُکَ، فَذَکَرَ حَاجَتَهُ وَقَضَاهَا لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ : مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ، حَتَّی کَانَ السَّاعَةَ وَقَالَ : مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَةٍ فَاذْکُرْهَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَقَالَ لَهُ : جَزَاکَ ﷲُ خَيْرًا، مَاکَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّی کَلَّمْتُهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : وَﷲِ مَا کَلَّمْتُهُ، وَلَکِنِّي شَهِدْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَتَاهُ ضَرِيْرٌ، فَشَکَی إِلَيْهِ ذِهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَتَصْبِرُ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ائْتِ الْمِيْضَأَةَ، فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ اُدْعُ بِهَذِهِ الدَّعْوَاتِ. قَالَ ابْنُ حُنَيْفٍ : فَوَ ﷲِ، مَا تَفَرَّقْنَا، وَطَالَ بِنَا الْحَدِيْثُ، حَتَّی دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ : وَالْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، وفي المعجم الصغير، 1 / 183، الرقم : 508، وفي الدعاء، 1 / 320، الرقم : 1050،چشتی)(البيهقي في دلائل النبوة، 6 / 167)(المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، 274، الرقم : 1018، وقال : والحديث صحيح)(السبکي في شفاء السقام : 125)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279)(السيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 201)
ترجمہ : حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا جاتا تھا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص (عثمان) بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس کی بابت شکایت کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے ﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ (یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) اور اپنی حاجت بیان کرو اور جاؤ یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری حاجت کیا ہے ؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کیا۔ پھر انہوں نے اس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک کیوں نہ بتایا ؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو ۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : ﷲ آپ کو بہتر جزا دے ، اگر آپ میری حاجت میں میری رہنمائی نہ فرماتے تو نہ تو وہ میری حاجت پر غور کرتے اور نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا یہ میں نے نہیں کہا بلکہ میں نے ﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی چلے جانے کا شکوہ کیا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا : اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوٹا لیکر آؤ اور وضو کرو، ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے کوئی اندھا پن ہی نہیں تھا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
وہابی مذہب کا بانی محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتا ہے : دسواں مسئلہ - علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے ۔ (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 68،چشتی)

حضرت آدم علیہ السلام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعا
امام الوہابیہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد-
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا : اے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرونگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - (الححج النقلیۃ والعقلیۃ صفحہ 84 ، 85 علامہ ابن تیمیہ ممدوح وہابیہ) (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690) (معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243) (مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917) (جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457) (كنز العمال ، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 ) (تفسير در منثور, سورة البقرة:37،چشتی)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37) (تفسیر روح البیان،ج،2،ص : 376، سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82،چشتی)(شرح المواهب للزرقاني,ج ,1,ص ,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل") (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد ) (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي ، متوفي 360 ه، كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ،چشتی)

توسل بعد از وصال قرآن وسنت کی روشنی میں

توسل بعد از وصال قرآن وسنت سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃ النساء آیۃ ٤٦ میں اللہ عزمجدہ کا فرمان ہے : ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما(سورۃ النساء آیۃ 64)
ترجمہ : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حافظ عماد الدین ابن کثیر منکرین وسیلہ کے ممدوح مذکورہ آیۃ کے تحت رقمطراز ہیں : یرشد اللہ تعالیٰ العصاۃ والمذنبین اذا وقع منہم الخطاء والعصیان ان یاتوا الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فیستغفروا اللہ عندہ ویسالوہ ان یغفرلہم فانہم اذا فعلوا ذالک تاب اللہ علیہم و رحمہم وغفرلہم.
ترجمہ : اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں ،خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تورسول اللہ ؐ کے پاس آکر (آپکی قبر انور کے پاس)ا للہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔
مزید لکھتے ہیں : وقد ذکر جماعۃ منہم الشیخ ابو منصور الصباغ فی کتابہ الشامل الحکایۃ المشہورۃ عن العتبی قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فجاء اعرابی، فقال السلام علیک یارسول اللہ سمعت اللہ یقول:ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما(النساء/٦٤) وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربی ۔
ترجمہ : شیخ ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں عتبی کہتے ہیں میں قبر انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہؐ میں نے اللہ تعالیٰ کا ارشادسنا ہے (اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریںتو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ (عزمجدہ)سے معافی چاہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) ان کی شفاعت فرمائیں تو (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر)ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں)۔میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ عتبی قائل ہیں کہ وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں نبی اکرم ؐ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپؐنے فرمایا:''یا عتبی، الحق الأعرابی فبشرہ أن اللہ قد غفر لہ'' عتنی جاؤ اس اعرابی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء زیرآیۃ 64،چشتی)
نیز اس آیت مبارکہ کا حکم صرف زمانہ نبوی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بعدا زارتحال تک حکم جاری ہے کہ اصولی قاعدہ ہے:العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب''کہ عموم لفظ کا اعتبار ہو تا ہے ،خصو ص محل کا اعتبار نہیں ہو تا '' لھذامتذکرہ بالا آیۃ کریمہ میں قبل از وصال کی کو ئی قید نہیں نیز لفظ (اِذ ْ ) ظرفیہ ہے جو اپنے معنی عموم پر دلالت کر رہا ہے جوقبل اور بعد از وصال دونوں کو شامل ہے،اس لیے جناب رسول اللہ ؐ ہرمجرم کے لیے ہر وقت تا قیامت وسیلہ مغفرت ہیں ۔
سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انبیاء سابقین سے توسل
بعد از وصال صاحب مزار سے توسل خود سید المرسلین ؐ کے فعل سے مبرھن ہے کہ آپ ؐنے جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کے لیئے انبیاء سابقین کے توسل سے دعا مانگی ۔
جیسا کہ أبو القاسم سلیمان بن أحمد بن أیوب الطبرانی اپنی معجم میں رقمطراز ہیں : اللہ الذی یحیی ویمیت وہو حی لایموت أغفر لأمی فاطمۃ بنت أسد۔۔۔۔۔۔ ووسع علیہا مدخلہا بحق نبیک والأنبیاء الذین من قبلی فإنک أرحم الراحمین ۔
ترجمہ : اللہ وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتاہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کوموت نہیں ،اے اللہ! تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان کی قبر کو کشادہ فرما اپنے نبی اور مجھ سے پہلے تمام انبیا کے وسیلے سے یقینا تو بڑا رحم فرمانےوالا ہے ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،مسند النساء ،باب الفاء فاطمۃ بنت أسد بن ہاشم أم علی بن أبی طالب : ٤ ٢/٣٥١،الرقم: ٨٧١،المعجم الاوسط ج ١ ص ١٥٢،کنز العمال،کتاب الفضائل،فاطمۃ أم علی رضی اللہ عنہما من الإکمال، مجمع الزوائد للھیثمی کتاب المناقب ،باب مناقب فاطمۃ بنت أسد أم علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہا،جامع الاحادیث للسیوطی،حرف الراء)
اہل مدینہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بحکم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا حضور پرنور ؐ کی مزار پر انوار سے توسل
امام أبو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی اپنی سنن میں رقمطراز ہیں : حدثنا ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال قحط اہل المدینہ قحطاً شدیداً فشکوا الی عائشۃ، فقالت انظر قبر النبی ؐ فاجعلوا منہ کووا الی السماء حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشہم فسمی عام الفتق (رجالہ ثقات،چشتی)
ترجمہ : اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے جناب عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک کھڑکی بایں طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ روای قائل ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے فربہ ہوگئے کہ محسوس ہوتا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ بایں وجہ اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا ۔ (سنن الدارمی، المقدمہ ،باب ما أکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم بعد موتہ ج١، ص :٤٣، الرقم٩٣،مطبوعہ دمشق،مشکاۃ المصابیح،باب فضائل سید المرسلین)
کبار صحابہ کرام علیھم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد بھی آپکے وسیلہ سے بارگاہ ایزدی میں التجائیں کرتے تھے جیسا کہ جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق امام أبو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسابوری اپنی مستدرک میں ارقام فرماتے ہیں : عن داود بن أبی صالح قال أقبل مروان یوما فوجد رجلا واضعا وجہہ علی القبر فأخذ برقبتہ و قال:أتدری ما تصنع ؟ قال:نعم فأقبل علیہ فإذا ہو أبو أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ فقال جئت رسول اللہ ؐ و لم آت الحجر۔۔۔۔۔۔ہذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاہ ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح سے مروی ہے کہ ایک روز مروان (خلیفہ وقت ) آیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور پر ایک شخص کو چہرہ رکھے ہوئے پایا تو کہا کیا تو جانتا ہے کیا کر رہا ہے جب وہ شخص مروان کیطرف متوجہ ہوا تو وہ ''صحابی رسول'' ابو ایوب انصاری تھے اور آپ نے جوابًا فرمایا (ہاں میں جانتا ہوں) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں پتھر کے پاس نہیں آیا۔
(المستدرک علی الصحیحین/کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم/کتاب الفتن و الملاحم ٤:٥٦٠،الرقم٨٥٧١،چشتی)
صحابی رسول بلال بن حارث کا بعد از وصال حضور سید المرسلین سے توسل
حافظ عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ اپنی مصنف میں رقمطراز ہیں : عن مالک الدار ، قال :أصاب الناس قحط فی زمن عمر ، فجاء رجل إلی قبر النبی ؐ فقال یا رسول اللہ !استسق لامتک فإنہم قد ہلکوا فأتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فأقرئہ السلام ، وأخبرہ أنکم مسقیون وقل لہ:علیک الکیس علیک الکیس فأتی عمر فأخبرہ فبکی عمر ثم قال یا رب لا آلوإلا ما عجزت عنہ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار کہتے ہیں خلافت فاروقی میں لوگ قحط میں مبتلاء ہوئے تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ) حضور ؐ کی مرقد انور پر حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیے کہ امت ہلاک ہورہی ہے ۔ آپ ؐ خواب میںاس صحابی کے پاس تشریف لائے ارشاد فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور خبر دو کہ بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔۔۔پھر وہ صحابی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور خبر دی توجناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ روپڑے اورکہا اے میرے پروردگا ر !میں کوتاہی نہیں کرتا سوائے اس کے جس سے میں عاجز ہوجاؤں۔ (المصنف لابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل،باب ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب٦:٣٥٦الرقم٣٢٠٠٢،)
بعد از وصال وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والی روایت جس میں مالک دار رضی اللہ عنہ کی متابعت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کر رکھی ھے اگر بلفرض مالک کو مجھول مان لیا جائے تو مضرنھیں اور دوسری سند میں اعمش بھی نھیں ھے لہٰذا تدلیس والا بھی بہانہ ختم ھو جاتاھے ۔ نجدی منکرو اب تمہارا کیا بنے گا ؟ ( الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ نمبر678باب ذکراحالتہ من سائلہ فی منامہ الدعاء علیہ ( مترجم اردو جلد اوّل کے صفحات نمبر 668 ، 669 مطبوعہ مکتبہ نور حسینیہ بلال گنج لاہور،چشتی)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے مزار اقدس کی زیارت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ نمانا جائز ہے (استحباب زیارۃ خیر الانام صفحہ 534 ،534)
علامہ ابن تیمیہ سے سوال ہوا وسیلہ جائز ہے کہ نہیں جواب دیا امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں جائز ہے ۔ (مجموعہ فتاویٰ جلد 1 صفحہ140)
ترجمہ : دسواں مسئلہ - علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے . (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ترجمہ : ابو بکر بن صدقہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ احمد بن حنبل کے سامنے صفوان بن سلیم کا ان کے قلیل الروایت ہونے کا اور ان کی بعض مخالف جمہور باتوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صفوان ایسے شخص ہیں کہ ان کی حدیثوں کے ذریعہ شفا طلب کی جاتی ہے اور ان کے ذکر سے بارش مانگی جاتی ہے . (صفتہ الصفوة ، جلد ٢ ، صفحہ ١٥٦)
محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتے ہیں : ہمارا مذہب امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ کا مسلک ہے ، جو اہلسنت کے امام ہیں ، ہم چاروں مذاہب کے مقلدین پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ، جبکہ وہ کتاب و سنت اجماع اور جمہور کے قول کے مخالف نہ ہو -(مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / رسائل الشخصیہ ، جلد ٧ ، صفحہ ١٠٧)
مزید لکھتے ہیں کہ : ترجمہ : الله کا شکر ہے کہ ہم متبع سنت ہیں ، موجدِ بدعت نہیں ، امام احمد بن حنبل کے مسلک پر کاربند ہیں - (بن عبد الوہاب / رسائل الشخصیہ ، جلد ٧ ، ، صفحہ ٤٠)
علامہ ناصر البانی لکھتے ہیں : امام احمد بن حنبل علیہ الرّحمہ اور امام شوکانی کے نزدیک وسیلہ صالحین جائز ہے ۔ (التوسل صفحہ نمبر 42 عربی)
اگر توسل بعد از وصال ناجائز وبدعت اور شرک ہوتا تواللہ تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد نہ فرماتا نیز نہ ہی محبوب رب کائنات انبیاء سابقین علیہم السّلام کے توسل سے دعاء مانگتے نہ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مصائب وآلام سے چھٹکارے کے لیئے آپکی مرقد انور سے توسل کرنے کو فرماتیں اور نہ ہی صحابہ کرام توسل کرتے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...