اعلٰی حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ ﷲ علیہ ایک عظیم محدث
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ ﷲ علیہ اپنے زمانے کے ان عظیم علماء کرام میں سے ہیں جن کے علم و بصیرت پر زمانہ ناز کیا کرتا ہے۔ تفسیر قرآن ہوکہ حدیث و اصول حدیث، اسلامی فقہ ہو یا شعر و سخن، ادب و تاریخ ہو یا ریاضی و سائنسی علوم ہر شعبے میں امام احمد رضا کو مہارت تامہ اور بصیرت کاملہ حاصل تھی۔ کئی درجن علوم و فنون میں آپ رحمۃ ﷲ علیہ کی شاہکار تصانیف یادگار ہیں۔ فتاویٰ رضویہ کے نام سے ۳۲ ضخیم جلدیں آپ رحمۃ ﷲ علیہ کا انتہائی شاندار اور بے مثل کارنامہ ہے جسے دیکھ کر فتاویٰ عالمگیری کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو اورنگزیب کے عہد کے سوسے زیادہ علماء وفقہاء کرام کی مشترکہ کاوش ہے جبکہ فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت کی اکیلی ذات کے علم و فضل کا شاہکار ہے۔ اس میں شامل احادیث کریمہ کی تعداد 3591 ہے۔
آپ رحمۃ ﷲ علیہ کی 8 تصانیف میں کہیں ضمناً اور کہیں تفصیلاً حدیث و معرفت حدیث اور مبادیات حدیث ایسی نفیس اور شاندار بحثیں ہیں کہ اگر انہیں امام بخاری رحمۃ ﷲ علیہ و مسلم رحمۃ ﷲ علیہ بھی دیکھتے تو داد دیئے بغیر نہ رہ سکتے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ ﷲ علیہ یہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ کتاب ﷲ کے بعد احادیث کریمہ کی اہمیت مسلم ہے ۔ اس لئے آپ رحمۃ ﷲ علیہ نے کسی مسئلے کو بیان کرنے کے لئے سب سے پہلے قرآن مجید کی آیات پیش کیں پھر احادیث مبارکہ تحریر کیں اور اس کے بعد فقہی جزئیات کے ساتھ ائمہ و فقہاء و علماء کرام کے اقوال پیش کئے ۔ اس طرح آپ رحمۃ ﷲ علیہ نے ہر مسئلے کی تحقیق اور ثبوت میں دلائل کے انبار لگادیئے اور مسئلہ زیر بحث کے کسی بھی گوشہ کو تشنہ تکمیل نہیں چھوڑا ۔ جہاں ایک حدیث مبارکہ کے ذکر کردینے سے مسئلہ حل ہوجائے وہاں آپ رحمۃ ﷲ علیہ کئی کئی احادیث برجستہ و برمحل پیش کرتے ہیں۔ گویا فقہ کی نہیں بلکہ حدیث کی کتاب لکھنا چاہتے ہوں۔اپنی اسی خصوصیت کی بناء پر وہ اپنے معاصر علماء میں ممتاز نظر آتے ہیں۔کتب حدیث کی جتنی بھی اقسام ہیں، ان تمام کے تمام حوالہ جات آپ رحمتہ اﷲ علیہ کی تصانیف میں جابجا ملتے ہیں اور آپ رحمۃ ﷲ علیہہ نے تمام اصناف کتب حدیث سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔چشتی۔
علم حدیث کے حوالے سے فن تخریج حدیث کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ امام احمد رضا رحمۃ ﷲ علیہ نے اس بنیادی اور اہم فن حدیث میں بھی اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ رحمتہ اﷲ علیہ کی دو کتب انتہائی اہم ہیں ۔ پہلی ’’اروض البھیج فی آداب التخریج‘‘ اور دوسری ’’النجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب‘‘ معرفت حدیث پر تحقیق کے سلسلے میں درج ذیل کتب میں آپ رحمۃ ﷲ علیہ کی بصیرت و مہارت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :
(۱)… منیر العین فی حکم تقبیل الالبھامین
(۲)… الھاد الکاف لاحادیث الضعاف
(۳)… حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین
(۴)… مدارج طبقات الحدیث
(۵)… الفضل الموہبی فی معنی اذاصح الحدیث فہو مذہبی
امام احمد رضا رحمۃ ﷲ علیہ نے چالیس سے زائد کتب حدیث پر حواشی تحریر کئے ہیں جن میں سے صحاح ستہ کے حواشی نہایت جامع اور مفید ہیں۔ ان حواشی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عام مصنفین کی طرح عربی و فارسی متون و شروح سے ماخوذ نہیںبلکہ یہ آپ رحمۃ ﷲ علیہ کے ذاتی واجتہادی افادت و اضافات ہیں۔لہذا یہ حواشی بذات خود مستقل تصانیف کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
علوم و فنون میں علم اسماء الرجال کو نہایت مشکل اور ادق خیال کیا جاتا ہے، مگر امام احمد رضا رحمۃ ﷲ علیہ کی خداداد صلاحیت اور قابلیت اور علمی سطوت کے مقابل یہ فن اپنی دقت پیچیدگی کے باوجود بھی سہل معلوم ہوتا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اسی فن میں مہارت حاصل کرنے کی زندگی بھر جدوجہد کی ہے لیکن آپ رحمۃ ﷲ علیہ کے معمولات زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ دیگر علوم پر بھی انہوں نے بھرپور توجہ دی ہے ۔چشتی۔
اسی لئے فن اسماء الرجال سے متعلق جتنے بھی علوم و فنون ہیں ان سب پر آپ رحمۃ ﷲ علیہ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ علماء فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ ﷲ علیہ کی طرح اسماء الرجال کا جاننے والا پچھلے چار سو سال میں پیدا نہیں ہوا۔ امام احمد رضا رحمۃ ﷲ علیہ کی تصانیف میں جہاں احادیث مبارکہ کا بحر ذخار ملتا ہے وہاں معرفت حدیث، طرق حدیث اور علل حدیث پر بھی شاندار بحثیں ملتی ہیں جن سے حدیث کے صحیح و ضعیف، حسن و موضوع، معلول و منکروغیرہ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔
متن حدیث کے ساتھ ساتھ سند حدیث پر بھی جابجا بحثیں ملتی ہیں اور راویوں کے احوال وآثار اور ان کی ثقاہت کی معرفت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ ﷲ علیہ راوی کی حیثیت پر بھی بحث کرتے ہیں جوکہ قبول روایت حدیث میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔
عموماً یہ مشہور ہے کہ آپ رحمۃ ﷲ علیہ صرف ایک مولوی اور نعت خواں شاعر تھے اور بس ، لیکن درج بالا سطور اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ رحمۃ ﷲ علیہ ایک عظیم محدث بھی تھے جو فن علم حدیث کے جملہ گوشوں پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ فن اصول حدیث ہو یا فن روایت ہو یا فن درایت، فن جرح و تعدیل ہو یا فن اسماء الرجال ۔ آپ رحمۃ ﷲ علیہ ہر شعبے میں ایک بے مثال ، ماہر اور فقید المثال محدث نظر آتے ہیں ۔ آپ کی تصانیف جلیلہ سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ آپ رحمۃ ﷲ علیہ کی علمی عظمت آشکار ہوسکے ۔
جو رضا کے محب ہیں مل بیٹھیں
ختم سارے تنازعات کریں
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment