درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ نہم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
پینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ ضمیر مجرور پر بغیر اعادۂ جار عطف
٭ پھلواروی صاحب نے درود کے ان الفاظ پر بھی اعتراض کیا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق وہ فرماتے ہیں!چند دنوں سے اخباروں‘ رسالوں میں ‘ٹی وی اور ریڈیو میں اور بعض قدیم معتبر مذہبی کتابوں میں بڑی کثرت سے یہ درود لفظ ’’اٰلِہٖ‘‘کے ساتھ دہرایا جاتا ہے حالانکہ نحوی اعتبار سے یہ الفاظ صحیح نہیں۔ اصول یہ ہے کہ ضمیر مجرور پر جب اسم ظاہر کا عطف ہو تو اعادہ جار ضروری ہوتا ہے۔(ص۲۲)
٭ پھلواروی صاحب کی علمی بے مائیگی پر افسوس ہوتا ہے نحاۃ کا یہ قول تو انہوں نے دیکھ لیا کہ ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف اعادۂ جار کے بغیر نہیں ہوتا بیشک قرآن و حدیث اور کلام عرب میں اعادہ جار کی بیشمار مثالیں موجود ہیں پھلواروی صاحب نے بھی اس کی ایک دلیل نہیں کہ تمام نحاۃ کا اس پر اتفاق ہو اور کسی کے نزدیک بھی اعادہ جار کے بغیر ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف جائز نہ ہو۔ اکثر بصریین کا یہی مذہب ہے لیکن کوفین اسے جائز سمجھتے ہیں۔ ابن مالک بھی اس کے جواز کے قائل ہیں الفیہ میں ان کے دوشعر ملاحظہ فرمائیں۔
وَعَوْدَ خَافِضً لَڈٰی عَطْفِ عَلٰی
ضَمَیْرٍ خٍَْضٍ لَازِمًا قَدْ جُعِلاَ
وَلَیْسَ عِنْدِیْ لَا زِمًا اِذْقَدْ اَتٰی
فِی النَّثْرِ وَالنَّظْمِ الصَّحِیْحِ مُثْبَتَا
٭ شارح القیہ ابن عقیل نے ان دونوں شعروں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا! یعنی جمہور نحاۃ نے اس صورت میں اعادہ جار کو ضروری قرار دیا اور میرے نزدیک صورت مذکورہ میں جار کا اعادہ ضروری نہیں کیونکہ اعادہ جار کے بغیر یہ عطف نظم و نثر میں سماعًا وارد ہوا ہے۔(ابن عقیل فرماتے ہیں) نثرمیں اعادۂ جار کے بغیر یہ عطف حمزہ کی قرأت ’’تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَ رْحَام‘‘(بجرالارحام) میں وارد ہے کیونکہ یہاں ’’الارحام‘‘ کا عطف ’’بِہٖ‘‘کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ہوا ہے اور نظم میں یہ شعر ہے جسے سیبویہ نے پڑھا
فَالْیَوْمَ قَرَّبْتَ تَھْجُوْنَا وَتَشْتِمُنَا
فَاذْھَبْ فَمَابِکَ وَالْاَیَّامِ مِنْ عَجَبِ
ترجمہ٭ یعنی تو آج ہماری ہجو کرتا اور ہمیں گالیاں دیتا ہوا ہمارے پاس آیا ہے چلا جا تجھ پر اور ان ایام پر کوئی تعجب نہیں(ایسا ہوتا ہی رہتا ہے)
٭ اس شعر میں ’’بِکَ‘‘ کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ’’الایام‘‘ کا عطف ہوا ہے(ابن عقیل ج ۲ ص۲۳۹ں۲۴۰ طبع بیروت)
٭ ثابت ہوا کہ نظم و نثر دونوں میں اعادۂ جار کے بغیر اسم ظاہر کا عطف ضمیر مجرور پر کلام عرب میں مسموع ہے مخفی نہ رہے کہ حمزہ کی قرأت‘ قرا ء ات سبعہ متواترہ میں سے ہے۔ جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا۔قرآنی شہادت کے بعد اس کو غلط کہنا ایسی جسارت ہے جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
٭ اس قراء ت حمزہ میں ’’الارحام‘‘ کا عطف ضمیر مجرور پر متعین ہے کسی تاویل کا یہاں احتمال نہیں۔ اس آیت کے تحت تفسیر مظہری میں ہے
وَقَرَئَ حَمْزَۃُ بَالْجَرِّ عَطْفًا عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْرِ وَۃٰذِہِ اِلْآ یَۃُ دَلِیْلٌ لِلْکُوْفِیِّیْنَ عَلٰی جَوَازِ الْعَطْفِ عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْ رِمِنْ غَیْرِ اِعَادَۃِ الْجَارِّ فَاِنَّ الْقِرَائَ ۃَ مُتَوَاتِرَۃٌ
٭ حمزہ نے ’’تساء لون بہ والارحام‘‘ میں ’’الارحام‘‘ کو جر کیساتھ پڑھا جس میں (اعادۂ جار کے بغیر) ضمیر مجرور پر عطف واقع ہوا ہے اور یہ آیت کوفیین کے اس قول کی دلیل ہے کہ ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر عطف جائز ہے۔ کیونکہ حمزہ کی قرأت متواترہ ہے۔(انتہیٰ) (تفسیر مظہری سورۃ النساء ج۲ص۴۳ طبع حیدرآباد دکن)
٭ اور تفسیر روح المعانی میں علامہ سید محمود آلوسی حنفی بغدادی فرماتے ہیں
اِخْتَارَ اَبُوْحَیَّانٍ عَطْفَہٗ عَلیَ الضَّمِیْرِ الْمَجْرُوْرِ وَاِنْ لَّمَ یُعَدِ الْجَارُّ وَاَجَازَ ذٰلِکَ الْکُوْفِیُّوْنَ وَیُوْنُسُ وَالْاَخْفَشُ وَاَبُوْ عَلِیٍّ وَھُوَ شَائِعٌ فِیْ لِسَانِ الْعَرَبِ نَظْمًا وَنَثْرًا
٭ ابو حیان (صاحب تفسیر البحر المحیط) کے نزدیک اعادۂ جار کے بغیر ضمیر مجرور پر اسم ظاہر کا عطف مختار ہے اعادۂ جار کے بغیر یہ عطف کوفیین‘ یونس‘ اخفش اور ابو علی سب کے نزدیک جائز ہے اور اعادۂ جار کے بغیریہ عطف کلام عرب میں نظماً و نثراً شائع ہے۔(روح المعانی پ۲ ج۱ جز۲ص۱۰۹ طبع دیوبند)
٭ اس آیت کے علاوہ قرآن کی دیگر آیات مثلا ’’وَکُفرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ (البقرہ ۲۱۷) اور ’’قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْھِنَّ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘‘)النساء ۱۲۷)سے بھی اعادۂ جار کے بغیرضمیر مجرور پر اسم ظاہر کے عطف کے جواز پر استدلال کیاجاسکتا ہے اور کہاجاسکتا ہے کہ ’’وَالْمَسْجِدِ الْحَرَام‘‘ کا عطف اعادۂ جار کے بغیر’’ بہٖ‘‘کی ضمیر مجرور پر ہے اور ’’وَمَا یُتْلٰی‘‘ میں ’’مَا‘‘کا عطف ’’فِیْھِنَّ‘‘ کی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر ہورہا ہے لیکن ہم نے بحث کی طوالت سے بچنے کے لئے اختصار کے ساتھ ان آیات کے محض ذکر پر اکتفاء کیا۔ اس عطف کے جواز میں ابو حیان کا طویل کلام تفسیر ’’البحر المحیط ج۲ ص۱۴۷‘۱۴۸ج۳ص۱۵۷‘۱۵۸‘۱۵۹ طبع بیروت) پر ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ دیگر تفاسیر میں بھی ضمیر مجرور پر اعادۂ جار کے بغیر اسم ظاہر کے عطف کا جواز صراحت اور بسط کے ساتھ مرقوم ہے مثلاً تفسیر قرطبی ج ۳ جز۵ ص۴ں۵۔ تفسیر کبیرج۳پ۴ص۱۹۳۔ تفسیر الجلالین علی ہامش الصاوی ج۱ ص ۱۷۶۔ تفسیر الصاوی ج۱ ص ۱۷۶ وغیرہ۔
٭ قارئین کرام! غور فرمائیں کہ ہمارے دلائل کے سامنے پھلواروی صاحب کے قول کی کیا وقعت رہ گئی؟ اس تفصیل سے پھلواروی صاحب کے اس نظریے کے بطلان پر بھی مزید روشنی پڑ گئی کہ وہ قواعد نحویہ کو قطعی اور یقینی قرار دیتے ہیں۔ الحمدللہ ہم نے ثابت کر دیا کہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ ایسا درود ہے جسکی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ پھلواروی صاحب کا اسے غلط کہنا قطعاً غلط اور باطل محض ہے۔
چھتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
مسلمان کا مختصر درود
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلَیْماً‘‘ اس کی تعمیل میں مسلمان پڑھتے ہیں۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اسی کا اختصار ’’صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘ہے۔(انتہیٰ)
٭ قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں پھلواروی صاحب نے کس چابک دستی کیساتھ حضورﷺ کی آل کو درودسے خارج کردیا۔ میں عرض کروں گا کہ ارشاد باری کی تعمیل میں مسلمان حضور ﷺ کی آل کو درود سے خارج کرکے اسطرح نہیں پڑھتے جس طرح پھلواروی صاحب نے لکھا ہے بلکہ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکے ساتھ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدً بھی ضرور پڑھتے ہیں۔ ارشادباری کی تعمیل میں حضورﷺ نے درود کے جو الفاظ امت کو تلقین فرمائے ان میں ’’عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدً‘‘ کے الفاظ بھی شامل ہیں جیسا کہ متفق علیہ حدیث میں حضورﷺ کا یہ فرمان وارد ہے’’قُوْلُوْ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدً وَّ عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ تم ’’ اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ کہا کرو(مشکوۃ ص۸۶ طبع رشیدیہ دہلی)
٭ اگر کسی روایت میں آلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ نہیں تو اس کی بجائے ڈُرِّیَّتِہٖ کے الفاظ موجود ہیں(بخاری ‘ مسلم‘ مشکوۃ ص۸۶) اور ابو دائود کی روایت میں تو ذُرِّیَّتِہٖ کے ساتھ اَھْلِ بَیْتِہٖ کے الفاظ بھی وارد ہیں(مشکوۃص۸۷)
٭ اس لئے مسلمانوں کے درود کا اختصار بقول پھلواروی صاحب’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نہیں بلکہ اس کا اختصار’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ نسخ مروجہ میں لفظ آل کا ساقط کرنا ناسخین کا تصرف ہے جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں۔ پھلواروی صاحب نے حضورﷺ کی آل کو درود سے خارج کرکے آل محمد ﷺ سے معاذ اللہ بیزاری اور اپنے قلبی عناد کا مظاہرہ کیا ہے۔ العیاذباللہ۔
سینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ
٭ پھلواروی صاحب کا ایک عجیب استدلال ملاحظہ فرمائیے تحر یر فرماتے ہیں’’قرآن میں صحابہ کرام کیلئے آیا ہے لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام کیلئے صرف رَضیَ اللّٰہُ کہنا اور لکھنا ضروری ہے(انتہی ٰکلامہٗ)
٭ میں عرض کرونگا کہ اس آیت کریمہ میں مومنین اصحاب شجرہ صحابہ کرام سے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونیکا بیان ہے جو ان کی فضیلت کی دلیل قطعی ہے لیکن اس سے پھلواروی صاحب کا یہ قول کہاں ثابت ہوا کہ ’’صحابہ کیلئے صرف رَضِیَ اللّٰہُ کہنا اور لکھنا ضروری ہے‘‘
٭ یہاں دو باتیں قابل غور ہیں۔
۱٭ یہ کہ اس آیت کریمہ میں محض اصحاب شجرہ کا ذکر ہے پھر مطلقًا ہر صحابی کے حق میں ان کا یہ استدلال کیونکر صحیح ہوگا؟
۲٭ یہ کہ یہاں اصحاب شجرہ کی فضیلت بیان فرمانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے رَضِیَ اللّٰہُ فرمایا۔ ان کے ناموں کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ کہنے اور لکھنے کا اس آیت میں کوئی حکم نہیں۔ ایسی صورت میں اسماء صحابہ کے ساتھ رِضِیَ اللّٰہُ کہنے یا لکھنے کے ضروری ہونے پر پھلواروی صاحب کا یہ استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے؟
٭ صحابہ کرام کی خصوصی فضیلت عظمی کے پیش نظر ان کے اسماء گرامی کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ لکھنا تو ان علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے جو پھلواروی صاحب کی نظر میں کوئی خاص وقعت نہیں رکھتے ہم ان علماء کے مطابق بطور ادب و احترام حضرات صحابہ کرام کے اسماء گرامی کے ساتھ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ لکھتے ہیں اور اسے اپنے لئے باعث خیر و برکت و سعادت سمجھتے ہیں لیکن پھلواروی صاحب کا استدلال مذکور ہمارے نزدیک صحیح نہیں کیونکہ قرآن میں صرف اصحاب شجرہ کیلئے رَضِیَ اللّٰہُ کے الفاظ وارد نہیں ہوئے بلکہ صحابہ ہوں یا غیر صحابہ ان سب مومنین کے حق میں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے الفاظ قرآن میں وارد ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیُّۃِ‘‘(۳۰ البنیہ) پھر ان کے حق میں فرمایا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْنُ اس آیت میں اصحاب شجرہ ہونا تو درکنار صحابی ہونے کی بھی تخصیص نہیں بلکہ قیامت تک امت مسلمہ کے وہ تمام افراد جو مومنین کاملین اور صالحین ہیں سب اس میں شامل ہیں اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ سب کے حق میں وارد ہے۔ اگر پھلواروی صاحب کا استدلال صحیح ہو تو ہر مومن صالح کے نام کے ساتھ رَضِیّ اللّٰہُ عنہ کہنا اور لکھنا ضروری قرار پائے گا جس کے پھلواروی صاحب خود بھی قائل نہیں معلوم ہوا کہ ان کا یہ عجیب و غریب استدلال ان کے اپنے لئے بھی قطعاً ناقابل التفات ہے۔
اڑتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں یہ حدیث جو حدیث قدسی بھی بتائی جاتی ہے جہاں روایتہ ناقابل اعتبار ہے اپنی زبان کے لحاظ سے بھی نادرتس ہے۔
٭ پھلواروی صاحب ناحق طعن کررہے ہیں آج تک اس روایت کی صحت پر کسی نے اصرار نہیں کیا بعض علماء نے تو اسے موضوع بھی کہا ہے لیکن یہ حکم سند روایت کے اعتبار سے ہے جو صحت معنی کی نفی کو مستلزم نہیں دیکھئے ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلَاکَ قَالَ الصَّنْعَانِیُّ اِنَّہٗ مَرْفُوْعٌ کَذَا فِیْالْخُلَا صَۃَ لٰکِنْ مَّعْنَاہُ صَحِیْحٖ فَقَدْ رَوَی الدَّیْلَمِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا مَرْفُوْعًا اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَقَالَ یَامُحَمَّدُ لَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّۃَ وَلَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ النَّارَ وَ فِیْ رِوَایَۃِ ابْنِ عَسَاکِرَ لَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا(موضوعات کبیر ص۵۹ طبع مجتبائی)
٭ پھلواروی صاحب کا اس حدیث کو زبان کے اعتبار سے نا درست کہنا ہمارے نزدیک درست نہیں دیکھئے کافیہ میں ’’لَوْلَاکَ وَعَسَاکَ اِلٰی اٰخِرِھِمَا‘‘ یعنی ’’لولاک‘‘ کلام عرب میں آیا ہےﷺص۵۳) اور مشکل اعراب الک میں ہے’’اَجَازَ سِیْبَوَیْہِ لَوْلَاکُمْ‘‘ یعنی ’’لَوْلَاکُمْ‘‘کی ترکیب کو سیبویہ نے جائز کہا ہے(ص۲۱۰ج۲ طبع ایران)
٭ ثابت ہوا کہ یہ ترکیب اہل عرب سے مسموع ہے اور درست ہے۔پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد خواہ اسم ظاہر آئے یا اسم ضمیرآئے وہ بہرحال مرفوع ہوگا۔
٭ میں عرض کروں گا کہ ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد ضمیر مرفوع یا اسم مرفوع کے جائز اور مستعمل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں قرآن و حدیث اور محاورات عرب میں یہ استعمالات بکثرت وارد ہیں جسکی ایک دو مثالیں پھلواروی صاحب نے بھی لکھی ہیں لیکن ان مثالوں سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ لَوْلَاکَ کی ترکیب نا درست ہے اور وہ اہل عرب سے مسموع نہیں جبکہ ہم بھی اسکے ثبوت میں عبارتیں نقل کرچکے ہیں۔
٭ پھلواروی صاحب اہل لغت کے حوالے سے فرماتے ہیں ’’لَوْلَاہُ یا لَوْلَاکَ یا لَوْلَایَ بہت ہی کم سنا گیا ہے‘‘پھر فرماتے ہیں ’’ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس پیغمبر ﷺ کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتی جو افصح العرب و العجم ہے‘‘
٭ رہا یہ امر کہ پھلواروی صاحب قلت سماع کی وجہ سے اسے غیر فصیح قرار دے کر فرما رہے ہیں کہ ’’ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس پیغمبر ﷺ کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتی جو افصح العرب و العجم ہے‘‘ انتہائی حیرت انگیز‘ تعجب خیز بلکہ بیحد افسوسناک ہے اگر کسی ترکیب کا قلیل الاستعمال ہونا اس کی فصاحت کے خلاف ہوتو وَمَا اَنْسٰنِیْہُ اور بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ میں دونوں ترکیبیں غیر فصیح قرار پائیں گی کیونکہ اس قسم کی ترکیب میں ضمیر کا ضمہ ان آیتوں کے سوا قرآن میں کہیں استعمال نہیں ہوا نہ کسی حدیث میں اس کی مثال ملتی ہے نہ کبھی اہل عرب نے ایسی ضمیر میں ضمہ استعمال کیا۔ کیا پھلواروی صاحب یہاں بھی کہیں گے کہ ایسی شاذ اور غیر فصیح زبان ہرگز اس قرآن میں نہیں ہوسکتی جو اپنی فصاحت و بلاغت میں ایسا بے مثل ہے جس کی مثل ممکن ہی نہیں۔
٭ علاوہ ازیں بہت ہی قلیل الاستعمال ترکیب کی بعض مثالیں حدیث میں بھی پائی جاتی ہیں مثلا ایک حدیث میں آیا ہے’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ‘‘ (صحیح بخاری ج ۵ص۹۵ طبع بیروت)
٭ کون نہیں جانتا کہ اسمایٔ ستہ مکبرہ مفردہ جب غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان کا اعراب حالت رفعی میں واو‘ حالت نصبی میں الف اور حالت جری میں یا کے ساتھ ہوتا ہے قرآن و حدیث اور لغت عرب میں استعمال کثیر یہی ہے اس کے مطابق حدیث میں ’’اَنْتَ اَبُوْجَہْلٍ‘‘ ہونا چاہئے تھا مگر مستملی کے علاوہ بخاری کے تمام نسخوں میں ’’اَنْتَ اَبَا جَھْلٍ‘‘ مروی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے تحت فرمایا قولہٗ’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ کَذَا لِلْاَ کْثَرِ وَلِلْمُسْتَمِلِّی وَحْدَہٗ اَنْتَ اَبُوْجَھْلٍ وَالْاَ وَّلُ ھُوَ الْمُعْتَمَدُ‘‘ یعنی صرف مستملی کے نسخے میں ابوجہل ہے۔ اس کے علاوہ بخاری کے سب نسخوں میں ’’اَنْتَ اَبَاجَہْلٍ‘‘ روایت کیاگیا ہے اور یہی معتمد ہے(فتح الباری ج ۷ص۲۳۵ طبع مصر) اور ظاہر ہے کہ یہ استعمال قلیل ہے اس کی ایک مثال امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے قول ’’وَلَوْرَمَاہُ بِاَبَاقُبَیْسٍ‘‘ میں بھی پائی جاتی ہے ۔ اگر قلت استعمال کو کسی ترکیب کے عدم جواز اور اسکے غیر فصیح ہونے کی دلیل مان لیاجائے تو حدیث کی یہ ترکیب بھی ناجائز اور غیر فصیح ہوگی اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ کلام بھی غلط اور غیر فصیح قرارپائے گا اور یہ صراحتاً باطل ہے۔
٭ بحمداللہ روز روشن کیطرح واضح ہوگیا کہ پھلواروی صاحب کا طعن محض بیجا ہے اور صرف قلت استعمال کیوجہ سے کسی ترکیب کو نادرست اور غیر فصیح قرار دینا علم و دانش کی روشنی میں ہرگز درست نہیں۔ حدیث لَوْلَاکَ کے معنی بالکل صحیح ہیں اور اسکی صحت ترکیب قطعاً بے غبار ہے۔
انتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
’’فِی الدَیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘۔’’فِیْدِیْنِنَا وَدُنْیَانَا‘‘
٭ پھلواروی صاحب نے دلائل الخیرات سے حسب ذیل دعا نقل کی’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الْدِّدْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ حزب البحر سے بھی’’فِیْ دِیْنَنَاوَدُنْیَانَا‘‘ کے الفاظ نقل کئے۔ دعا کے ان الفاظ کو ترک دینا اور رہبانیت پر محمول کیا۔ دلائل الخیرات کے مؤلف یا ناقل کو نا عاقال قراردیا اور ان اکابرامت کے خلاف خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور اس دعا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا’’دنیا کے مقابلے میں آخرت ہے یعنی اس جہاں کی زندگی اور آنیوالے جہاں کی زندگی رہا دین تو وہ دنیا کے مقابلے میں یا دنیا سے الگ کوئی شے نہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بھی کوئی چیز نہیں۔ اسی موجودہ زندگی میں اور دنیا ہی کے اندر ہوتا ہے یہی دنیاوی زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے’’دین‘‘ دنیا سے ہٹ کر یا دنیا کو چھوڑ کر زندگی بسر کرنا کوئی دین نہیں‘‘(انتہیٰ)
٭ میں عرض کروں گا دلائل الخیرات یا حزب البحر میں دین اور دنیا کا لفظ تو ضرور آیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں آیا کہ دنیا سے ہٹ کر یا دنیا کو چھوڑ کر زندگی بسر کرنا دین ہے۔ نہ دلائل الخیرات اور حزب البحر میں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کی زندگی بسر کرنا دین نہیں۔
٭ رضائے الہی کے مطابق دنیاوی زندگی بسر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی دنیا کی ہر چیز رضائے الہی کے تابع کردیں دنیا تابع ہو اور رضاء الہی متبوع تابع متبوع کا ہمیشہ غیر ہوتا ہے۔ اگر دین و دنیا میں کوئی مغائرت ہی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا مفہوم ہی نہیں رہتا ہمیں جس چیز کو رضاء الہی کے تابع کرنا ہے وہی دنیا ہے اور رضاء الہی کے تابع کرنا دین ہے اور اپنے تشخص میں یہ دونوں چیزیں جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں خلاصہ یہ کہ ہمارا مال اور اور ہماری اولاد دنیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اَلْمَالُ وَالَبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘(پ۵۱ الکہف ۴۶) اور اپنے مال کو رضایٔ الہی کے مطابق خرچ کرنا اور رضاء الہی کے مطابق اولاد کی پرورش کرنا دین ہے۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ہم اپنی دنیا یعنی مال و اولاد کے حق میں تجھ سے عفو و عافیت کے طالب ہیں کہ وہ ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں اور جب تیری رضا کے مطابق ہم اپنا مال خرچ کریں اور اپنی اولاد کی تربیت کریں تو ہماری یہ نیکی بھی ضائع نہ ہونے پائے تاکہ آخرت میں ہم اس کے ثواب سے محروم نہ ہوجائیں۔ یہ مفہوم ہے’’فِیْ دِیْنَنِا وَدُنْیانَا‘‘ اور’’فِی الدِّ دْنِ وَالدُّنُیَا وَالْاٰخِرَۃِ کا۔
٭ بتائیے اس میں کون سی غلطی ہے؟ اسے غلطی کہنا دلائل الخیرات اور حزب البحر اور ان کا ورد کرنے والے صلحاء امت کے خلاف عناد ظاہر کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔
چالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
صلوۃ معکوس
٭ اسی ضمن میں پھلواروی نے رہبانیت کا ذکر کرتے ہوئے درپردہ حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا بھی مذاق اڑایا ہے وہ لکھتے ہیں ’’جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ فلاں بزرگ بارہ سال تک الٹے لٹکے رہے اور صلوۃ معکوس ادا کرتے رہے۔ استغفراللہ۔ اس قسم کی رہبانہ زندگی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ سب بزرگوں پر اتہام ہے اور اگر فی الواقع کسی نے ایسا کیا ہے تو اس نے صحیح کام نہیں کیا۔ وہ طہارت و وضو کیسے کرتا رہا۔ نماز کس طرح ادا کرتا رہا۔ جماعت میں کیونکر شریک ہوتا رہا بال بچوں یا پڑوسیوں کا کیا حق ادا کرتا رہا‘‘(ص۲۴)
٭ معلوم نہیں پھلواروی صاحب نے بارہ سال تک صلوۃ معکوس پڑھنے کا قصہ کہاں سے سن لیا واقعہ یہ ہے کہ حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے محض بطور ریاضت‘ اصلاح نفس کیلئے صرف چالیس رات‘ عشاء کے بعد سے صبح یعنی تہجد تک چند گھنٹوں کیلئے کنواں میں الٹا لٹکنے کی مشقت اختیار فرمائی(اخبار الاخیار فارسی ص۵۳ طبع مجتبائی۔ از شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی) جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ نفس کی سرکشی دور ہو اور وہ رضائے الہی کی خاطر مشقت و تکلیف برداشت کرنے کا عادی ہوجائے۔ اس موقع پر پھلواروی صاحب نے طہارت‘ وضو‘ نماز‘ جماعت‘ ادائیگی حقوق وغیرہ کا ذکر کے جو شکوک و شبہات وارد کئے ہیں سب بے محل اور لایعنی ہیں کیونکہ چند گھنٹے کی اس ریاضت کے دوران نہ کسی نماز کا وقت آتا تھا نہ رفع حاجت کی ضروریات پیش آنے کا کوئی موقع ہوتاتھا ظاہر ہے کہ جس کام میں رضائے الہی کے حضول کا مقصد شامل ہووہ توجہ الی اللہ سے خالی نہیں ہوسکتا۔
٭ مومن کی نماز خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ پر مشتمل ہوتی ہے اس مناسبت سے اس ریاضت کو اگر کسی نے ’’صلوۃ معکوس‘‘ سے تعبیر کردیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا یہ عمل ارکان صلوۃ پر مشتمل تھا بلکہ خشوع و خضوع اور خشیت الہیہ کی بنا پر اسے صلوۃ معکوس کہہ دیاگیا۔ یہ عمل کوئی عبادت مقصودہ نہ تھا جسکی بنا پر احداث فی الدین کا الزام حضرت بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر عائد کیاجاسکے۔ بلکہ ایک روحانی علاج تھا معالجین بطور علاج مریضوں کو اس قسم کی ورزش بتاتے ہیں کہ کچھ دیر پائوں اوپر اٹھائے رکھیں بتقاضائے کمال عبدیت مشقت برداشت کرنا خود حضورﷺ کا فعل مبارک ہے۔ رات کو کھڑے کھڑے حضورﷺ کے پائوں مبارک متورم ہوجاتے تھے۔(بخاری ۱ص ۱۵۲)
٭ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک غلطی سرزد ہوگئی تھی جس کا ازالہ صرف توبہ اور استغفار سے بھی ہوسکتا تھا مگر حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے نفس کی علطی کی سزا دینے کیلئے اپنے آپ کو زنجیر کے ساتھ ستون سے باند دیا ساتھ ہی یہ قسم بھی کھالی کہ میں نہ کچھ کھائوں گا نہ کچھ پیئوں گا تاوقتیکہ میری غلطی معاف نہ ہوجائے چنانچہ زنجیر کے ساتھ وہ مسلسل سات دن تک بندھے رہے پیشاب وغیرہ اور نماز کیلئے ان کی بیٹی ان کی زنجیر کھول دیتی تھی۔ فراغت کے بعد وہ پھر بدستور اپنے آپ کو زنجیر کے ساتھ ستون سے باندھ دیتے تھے سات دن تک نہ انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ جب انہیں نماز کیلئے کھولا گیا تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا للہ کی قسم میں خود اپنے آپ کو نہ کھولوں گا جب تک حضورﷺ تشریف لاکر مجھے نہ کھولیں حضورﷺ تشریف لائے اور انہیں اپنے دست مبارک سے کھولا(اسدالغابتہ فی معرفتہ الصحابہ ج ۵ص۲۸۴ں۲۸۵ طبع تہران) مگر ان کے مسلسل بندھے رہنے اور طویل مشقت پر رسول اللہ ﷺ نے ان پر انکار نہ فرمایا ثابت ہوا کہ اصلاح نفس کیلئے بطور علاج اس قسم کی مشقت اٹھانا اور تکلیف جھیلنا بلا شبہ جائز ہے۔
٭ قارئین پر واضح ہوگیا ہوگا کہ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ چلا معکوس شرعاً و عقلاً بے غبار ہے اور پھلواروی نے اس پر جو شکوک و شبہات وارد کئے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں۔(جاری ہے)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment