Thursday, 15 March 2018

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات حصّہ سوم

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات حصّہ سوم

شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 5 : یہ ہے کہ حضرت علی اورحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو جھوٹ ، دھوکے ، خیانت ، گناہ اور پیمان شکنی پر استوار جانتے تھے .اور ہمیشہ اس نظریئے پر باقی رہے ۔

اس اعتراض کا جواب : پہلی بات یہ ہے کہ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد فدک معاملہ ہے کہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہارے اس ملکیت میں خیانت کی ۔ یہاں خلافت کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے اور نہ ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقصد خلافت ہے ۔ یہ روایات تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ ہر جگہ ایک جیسے ہیں ہیں ہم ایک روایت پیش کر کہ اس کا مطلب یہاں لکھ دیتے ہیں ۔

روایات صحیح بخاری : صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات ، باب ٣ ، باب حبس نفقة الرّجل قوت سنتہ علی أھلہ ۔ اس باب میں یہ الفاظ ہیں : فقال عباس يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا‏ ۔ یعنی عباس رضہ نے کہا اے امیر المومنین میرے اور اس (علی رضہ) کے مابین فیصلہ کردیں : ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها أبو بكر يعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنتما حينئذ ـ وأقبل على علي وعباس ـ تزعمان أن أبا بكر كذا وكذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله يعلم أنه فيها صادق بار راشد تابع للحق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم توفى الله أبا بكر فقلت أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر،‏‏‏‏ فقبضتها سنتين أعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جئتماني وكلمتكما واحدة وأمركما جميع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جئتني تسألني نصيبك من ابن أخيك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأتى هذا يسألني نصيب امرأته من أبيها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقلت إن شئتما دفعته إليكما على أن عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل به فيها أبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبما عملت به فيها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منذ وليتها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإلا فلا تكلماني فيها فقلتما ادفعها إلينا بذلك‏.‏ فدفعتها إليكما بذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنشدكم بالله هل دفعتها إليهما ۔
ترجمہ : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور اللہ جنتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص، محتاط ونیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لئے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں ۔
اس میں الفاظ ہیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ فدک کے مسلئے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ سچے اور راست باز تھے ۔ اب دیکہیں کہ جب پہلے خود ہی حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ یہ مال فئی ہے ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا غلط کیا ۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوالیہ الفاظ ہیں کیوں کہ اس جائیداد پر حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما نے جھگڑا کیا تو ایک دوسرے کو بہت الفاظ کہے اس صورت حال کو دیکہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ تم لوگوں کا آپس میں یہ حال ہے ہھر تم لوگ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خطا کار سمجھتے ہوگے ۔ اس لئے انہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھا ۔ یہاں اس پورے قضیئے میں خلافت کا سرے سے ذکر ہیں نہیں تو یہ سوال کہاں پیدا ہوا کہ علی و عباس رضوان اللہ علہما سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافت دھوکہ اور خیانت جانتے تھے ۔ یہاں پورہ قصہ فدک کی آمدنی کا ہے ۔

اس بارے میں علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکہتے ہیں وقيل هي كلمة تقال في الغضب لا يراد بها حقيقتها ۔ یہ الفاظ اکثر غصہ میں بولے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ کیوں کہ حضرت عمر ، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہم کے آپس میں جھگڑے اور پھر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے غصے میں آکر کہنے لگے کہ کیا تم ابی بکر و مجھ رضی اللہ عنہما کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہو ؟ مطلب یہ ان سے سوال ہے ۔ باقی علی وہ عباس رضی اللہ عنہما ایسا سمجھتے تھے اس کا کہیں ذکر نہیں ۔ روزمرہ کی زندگی میں ایسا عام ہوتا ہے کہ آپ اپنے والد کو کچھ ایسا کہ دیتے ہیں تو وہ آپ سے کہتے ہیں کہ کیا تم سجمتے ہو کہ میں نے جھوٹ بولا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے والد نے جہوٹ بولا ۔

روایت صحیح مسلم : صحیح مسلم کی روایت بھی ویسی ہی ہے : جب حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے فدک کے معاملے میں جہگڑا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تمثیلن کہا کہ : چناچہ ابو عبداللہ محمد بن خلفہ ابی مالکی متوفی 828 اکمال اکمال العلم جلد ۵ ص 78 پر لکہتے ہیں کہ : یہاں پر حمزہ محذوف ہے اور اس کا ترجمہ ہوگا کہ کیا تم نے ابی بکر کو کاذب خائن اور کنہگار سجہا تھا اور یہ استفہام انکاری ہے یعنی جب تم اگرتم انہیں اور مجھے ایسا نہیں نہیں سمجھتے تو اس پر آپس میں بار بار جھگڑا کیوں کرتے ہ و۔

یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب ایک دفعہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث پیش کی ، اس کے بعد تم دونوں حضرات دوبارہ میرے پاس مجھ سے فیصلہ کروانے آئے ہو ، تو اس کا مطلب تو یہی بنتا ہے کہ تم دونوں نے انہیں جھوٹا سمجھا ۔ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کہ ہوسکتا ہے ہمارے لئے کوئی راہ نکل آئے ۔ معاذ اللہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جھوٹا نہیں سمجھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے اس طرح کہا کہ ایک بار جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے معاملہ واضح کر دیا ہے ، تو پھر مجھ سے دوبارہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔ پھر آگے سیدنا عمر رضہ فرماتے ہیں : والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفي أبو بكر وأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي أبي بكر فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق۔۔۔۔ فوليتها أن عليكما عهد الله أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذتماها بذلك قال أكذلك قالا نعم ۔
ترجمہ : یعنی حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا اللہ جانتا ہے کہ ابی بکر سچے اور ہدایت یافتہ اور حق کے پیرو تھے ان کی جب وفات ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ابی بکر کا ولی ہوا پھر کیا تم لوگ مجھے بھی کاذب خائن سمجھتے ہو اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں سچا اور ہدایت یافتہ اور حق کا پیرو ہوں تم لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا میں نے تمہیں اس شرط کے ساتھ دیا کہ تم اللہ اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے طریقے پر اسے عمل میں لاؤ کیا ایسا ہے انہوں (علی و عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا ہاں ایسا ہے ۔
یہاں حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما کی ہاں اس بات کا اقرا ر کر رہے ہیں کہ وہ حضرت ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سچا ہدایت یافتہ اور حق کا پیرو سمجھتے تھے ان کا مطالبہ بس یہ تھا کہ ان کے درمیاں یہ زمین تقسیم کی جائے اور وہ اس میں ویسا عمل کریں جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ۔

اب شیعہ حضرات یہاں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس طرح اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا ہے اہل سنت نے اس طرح عمر و ابی بکر رضی اللہ عنہما کا نہیں کیا ۔ ایسا نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تو کسی اور نے الزام لگایا کہ وہ چور ، خائن گناہ گار ہیں اور یہ الزام ان کے چچا نے ان پر لگائے جو ان کے گھر کے آدمی تھے تب ان کا اور عباس رضی اللہ عنہما کا دفاع کرنا ضروری ہے جب کہ حضرت عمر و ابی بکر رضی اللہ عنہما پر ایسا الزام کسی نے نہیں لگایا اور نہ علی و عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا کیا بلکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود کا کلام ہے جو ان کے جھگڑے کی وجہ سے غصہ میں بولے تھے ۔ اس لئے علماء نے کہا کہ یہ آپ نے غصہ میں بولے تھے اور پھر یہ ان کا سوالیہ انداز تھا ۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ پر الزام لگایا نہ ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ پر الزام لگایا ۔ آپ نے خود سوال کیا اور پھر اس کا جواب ہی خود دیا کہ نہ تو میں ایسا ہوں نہ ہی ابی بکر ایسے تھے پھر علی و عبا س رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا ایسا ہے تو انہوں نے کہا ہاں ایسا ہے ۔ بس بات ختم ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 6 : یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا (کلمتکما واحدة) لکھ دیا تاکہ یوں خلافت شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں اہل بیت پیغمبر علیہم السّلام کی منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں ؟
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب خمس ، نفقات ،اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت کو نقل توکیا لیکن اس میں تبدیلی کردی .کتاب نفقات میں لکھا ہے ( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : ( ثم ّ جئتمانی وکلمتکما واحدة )

اس اعتراض کا جواب : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدیثین علیہم الرّحمہ نے یہ الفاظ مختلف سندوں کے ساتھ نقل کئے ہیں ضروری نہیں کہ انہوں یہ الفاط حذف کر دئے ہوں ہر راوی کا کلام اپنا ہوتا ہے حدیث کا مفہوم و مقصد تو وہی رہتا ہے لیکن راوی کے بیان مختلف ہوتا ہے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی سندیں یہ ہیں : صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات : حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ۔

کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة : حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس النصري وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔

کتاب الفرائض : حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔

کتاب الخمس : حدثنا إسحاق بن محمد الفروي حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير ذكر لي ذكرا من ۔

كتاب المغازي » باب حديث بني النضير : حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ۔

یہاں تقریبا ہر سند ہی الگ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کو بیان کرنے میں جو فرق ہے وہ راویوں کی وجہ سے ہو ۔ اب اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگر یہ الفاط حدیث میں سے ختم کردئے ہیں تو انہوں نے اس کو راوی کا کلام ہی سمجہا ہوگا مثلا۔ ایک روایت راوی کے الفاظ کچھ اور ہونگے دوسری روایت میں دوسرے راوی کے الفاظ کچہ اور ہونگے اور پھر تیسری روایت میں راوی نے کذا کذا وغیرہ کہ کر الفاظ بیان کردئے ہونگے کیوں کہ بعض اوقات ہم ایسے کہ دیتے ہیں کہ اس نے ایسا ایسا کہا (اب اس ایسا ایسا کو پھر راویون نے اپنے اندازوں پر بیان کیا ہوگا کسی نےکہا ہوگا کہ چور ، خائن تو کسی نے کہا ہوگا غاصب وغیرہ)۔ تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھہا ہوگا کہ یہ راویوں کی ہی بیان کردہ باتیں ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا کسی کو صحیح معلوم نہیں اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہتے ہوئے یہ الفاط بیان نہیں کئے ہوں ۔ کیوں کہ انہیں راویوں کے مختلف اندازوں کو بیان کرنے کے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہنا ہی آسان لگا ہوگا ۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت متفق علیہ ہے ۔ یہی بات الماورزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم جلد اول ص 90 پر ان سے نقل کرتے ہیں کہ انہون نے کہا اسی وجہ بعض اہل علم نے اپنے نسخہ میں ان الفاظ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس کو راوی کا وہم قرار دیا ۔ جبکہ صحیح مسلم کی دو سندوں کے راوی الگ ہیں اس لئے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کرنے والے نے یہ الفاظ نہیں کہے ہوں اور صرف کذا و کذا کہا ہو ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...