Friday, 23 March 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا اور روایت حضرت عائشہ رضی اللہ کا تحقیقی جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا اور روایت حضرت عائشہ رضی اللہ کا تحقیقی جواب

امت مسلمہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شب معراج سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالی کا دیدار کیا۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس عقیدے کے خلاف، بخاری کی ایک روایت لکھ کر ہورڈنگ کی شکل میں چوراہے پر لگادی که تین جھوٹے؟؟؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے!!!۔
جو شخص تم سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا وہ جھوٹا ہے!
جو شخص تم سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے!
جو شخص تم سے کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ جھوٹا ہے!
چونکہ یہ رجب کا مہینہ ہے اور شب معراج قریب ہے اس لئے لوگوں میں ایک اضطراب پیدا ہوگیا کہ کیا واقعی حدیث میں ایسا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے معراج کی شب بھی اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا۔ جمعہ کے خطاب کے دوران ہی ایک عزیز نے مجھے اس ہورڈنگ کا فوٹو لاکر دیا، لیکن خطاب کا وقت ختم ہوچکا تھا اور میں معاملہ سمجھ بھی نہ سکا تھا کہ یہ روایت میرے سامنے کس غرض سے پیش کی گئی ہے، اس لئے میں نے اس پر کوئی گفتگو نہیں کی۔ نماز جمعہ کے بعد عزیزوں نے بتایا کہ یہ ایک ہورڈنگ کا فوٹو ہے جو غیر مقلدوں کی جانب سے ایک علاقہ میں لگائی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ معراج کی شب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خدا کو نہیں دیکھا اور یہ حقیقت بخاری میں بیان کی گئی ہے۔ اس لئے دیدار کا اعتقاد رکھنے والے غلطی پر ہیں اور ان کا یہ اعتقاد حدیث کے خلاف ہے۔
اس ہورڈنگ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوگئی اور حقیقت جاننے کے لئے میرے پاس بھی لوگ سوال لے کر آنے لگے۔ پھر ہمارے احباب نے اصرار کیا کہ اس بے چینی کے ازالہ کے لئے آپ فوری طور پر ایک مضمون لکھ دیں تاکہ صحیح بات لوگوں کو معلوم ہوجائے اور بے چینی کا خاتمہ ہوجائے۔
اس پر عرض یہ ہے کہ کسی حدیث کو اس کی تفصیلات کے بغیر یونہی لکھ کر لگا دینا یہ دین کی کوئی خدمت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کی شرمناک کوشش ہے۔ خصوصاً ایسی روایت جس کا مفہوم خود دوسری حدیثوں کے خلاف ہو اسے بغیر تفصیلات کے بیان کرنا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
بخاری کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت بیان کی گئی ہے اس میں صحابہ کرام کا شدید اختلاف ہے اور اس روایت کے موقف کو جمہور نے اختیار نہیں کیا ہے۔ اب ایسی روایت کو اس کی تفصیلات کے بغیر مشتہر کرنا مسلمانوں کو تردد میں مبتلا کرنے کا سبب ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ مسلمانوں کا اعتقاد اس روایت کے خلاف ہو۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام انبیاء و رسل سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ لیکن بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ’’جس نے کہا کہ میں حضرت یونس بن متیٰ سے افضل ہوں اس نے جھوٹ کہا۔ ‘‘
اب آپ ہی انصاف سے بتائیے کہ ایسی حالت میں جبکہ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب نبیوں اور رسولوں سے افضل ہیں، اگر میںیہ روایت لکھ کر چوراہے پر لگادوں تو مسلمانوں میں بے چینی پھیلے گی یا نہیں؟ حدیث کی کتابوں میں ایسا بہت مواد ہے کہ اسے اگر اس کی تفصیلات جانے بغیر کوئی پڑھے گا تو گمراہ ہوجائے گا۔ مشہور محدث حضرت امام اعمش رضی اللہ عنہ نے اسی لئے فرمایا تھا کہ ’’الاحادیث مضلۃ الا للفقہاء‘‘ کہ حدیثیں گمراہ کردیتی ہیں مگر اس کے سمجھنے والے (فقہاء) ہی محفوظ رہتے ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ان کا حال یہی ہے کہ نہ تو وہ قرآن و حدیث کی زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی شرعی اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، اردو بولنے کا بھی شعور نہیں ہے لیکن بخاری و مسلم کا ترجمہ پڑھ کر ائمہ اربعہ پر تنقید شروع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو علامہ سمجھنے لگتے ہیں، غرور کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عامل حدیث اور سارے مسلمانوں کو بدعتی اور مشرک سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے بے شمار افراد میرے رابطہ میں آچکے ہیں۔
ایک غیر مقلد نے میرے سامنے کہا کہ بخاری اور مسلم میں جو روایتیں ہیں اس پر ہمیں عمل کرنا چاہیئے باقی ساری حدیثیں اعتبار کے لائق نہیں ہیں، اور جس امام کا فتویٰ بخاری کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر مارکر ہمیں بخاری کی حدیثوں پر عمل کرنا چاہیئے۔ میں نے فوراً اس سے سوال کیا کہ بخاری کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے، کیا آپ کا یہ عقیدہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟ کیا اللہ تعالی نے کوئی وحی نازل فرمائی ہے کہ بخاری حدیث کی سب سے صحیح کتاب ہے؟ یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کوئی حدیث ہے کہ دو سو سال کے بعد جب بخاری نامی کتاب لکھی جائے تو اسے سب سے صحیح کتاب کا درجہ دینا۔ اس نے فوراً کہا کہ ساری امت کے علماء کا اس پر اتفاق ہے۔ میں نے کہا کہ آپ علماء و فقہاء کے اتفاق کو کہاں مانتے ہیں؟ آپ تو ہر امر میں قرآن و حدیث سے دلیل مانگتے ہیں تو بخاری کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے اسے بھی قرآن و حدیث سے ثابت کیجئے اور رہی علماء کے اتفاق کی بات تو جس طرح سے تین صدیوں کے بعد علماء کا اتفاق ہوا کہ بخاری سب سے صحیح کتاب ہے، اسی طرح ائمہ اربعہ کی تقلید پر بھی علماء امت کا اتفاق ہوا۔ آپ ایک اتفاق کو مانتے ہیں، ایک کو نہیں۔ اس کا کیا جواب ہے؟ یقین جانئے میرے اس سوال پر ان کے پاس ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔
اسی طرح ایک غیر مقلد میرے پاس آیا۔ تو میں نے کہا کیا آپ اہل حدیث ہیں؟ تو اس نے اثبات میں جواب دیا، پھر میں نے کہا کہ آپ قرآن و حدیث کو خود پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں یا اردو ترجمہ اور اہل حدیث مولویوں کے محتاج ہیں۔ تو اس نے کہا کہ مجھے عربی نہیں آتی مگر صحاح ستہ کا ترجمہ پڑھ کر دین سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا کہ جو ترجمہ پڑھ کر آپ دین سمجھتے ہیں وہ ترجمہ صحیح ہے اس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ہے تو پھر وہ بغل جھانکنے لگا اور وہی کہنے لگا کہ علماء پر اعتماد کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہی تو تقلید کی حقیقت ہے کہ قرآن و احادیث کو سمجھنے کے سلسلے میں ائمہ اور فقہاء پر اعتماد کیا جائے۔ تو مقلد آپ بھی ہوئے اور ہم بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم تابعین کی تقلید کرتے ہیں اور آپ موجودہ دور کے مولویوں کی۔
یہ ایک بہت ہی خطرناک رجحان ہے جو اس دور میں پروان چڑھ رہا ہے کہ ہر ایراغیرا حدیث کا ترجمہ لے کر بیٹھ جاتا ہے اور جو معنی و مفہوم اسے سمجھ میں آتا ہے اسے وہ دین سمجھ لیتا ہے اور اپنے آپ کو وہ عامل حدیث سمجھتا ہے۔ اس فرقہ کے اکثر افراد انتہائی جری، بیباک اور گستاخ ہوتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کو صرف ۱۷؍ حدیثیں یاد تھیں۔
مذکورہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت بھی چوراہے پر لگانے کا مقصد یہی ہے کہ جاہل لوگوں نے اردو ترجمہ پڑھ کر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکو معراج میں اللہ تعالی کا دیدار نہیں ہوا تھا۔ اس لئے اب وہ اس روایت کو لکھ کر چوراہے پر لگائیں گے۔ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیں گے کہ تم لوگ حدیث سے نابلد ہو اور تم سمجھتے ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خدا کا دیدار ہوا، اور بخاری کی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔
بہرحال مسلمانوں کو ایک اصولی بات بتانا چاہوں گا کہ اس دور میں ہر فرقہ ہاتھ میں قرآن و حدیث لے کر آتا ہے، یہاں تک کہ قادیانی فرقہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث ہی سے دلائل پیش کرتا ہے۔ اس لئے کسی کے ہاتھ میں قرآن و حدیث دیکھ کر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے ہدایت پانے والا ہے یا گمراہ ہونے والا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے صاف طور پر فرمادیا کہ
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا۝۰ۙ وَّیَہْدِىْ بِہٖ کَثِیْرًا۝۰ۭ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۶ )
اسی قرآن سے اللہ بہت لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔
لہذا جب کوئی فرقہ آپ کے سامنے قرآن لے کر آئے تو آپ یہ دیکھئے کہ وہ فرقہ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے والا ہے یا گمراہ ہونے والاہے۔ اسی طرح جب کوئی حدیث بیان کرکے اس سے کوئی انوکھی بات آپ کو سنائے تو اس سے آپ یہ پوچھئے کہ اس حدیث کا آپ نے جو معنی اور مفہوم سمجھا ہے کیا وہی معنی اور مفہوم ماضی میں فقہاء و محدثین نے سمجھا ہے۔
اگر کوئی شخص حدیث کی ایسی تشریح کرے جو ہمارے اسلاف کی بیان کی ہوئی تشریح کے خلاف ہو تو ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ صحیح بخاری کی شرح امت کے کئی علماء نے کی ہے۔ مثلاً ابن حجر عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘، علامہ بدرالدین عینی نے ’’عمدۃ القاری‘‘، علامہ قسطلانی نے ’’ارشادالساری‘‘ وغیرہ لکھی ہیں۔ اور صحیح مسلم کی شرح امام محی الدین ابن زکریا بن شرف النووی الشافعی نے لکھی ہے۔ لہذا بخاری و مسلم کی حدیثوں کو سمجھنے کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور یہ وہ شروح ہیں جن پر اہل سنت بھی اعتماد کرتے ہیں اور غیر مقلدین بھی۔ سب کے نزدیک یہ کتابیں انتہائی معتبر و مستند ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت کی تشریح :

سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتادوں کہ ’’بخاری‘‘، ’کتاب التفسیر‘، اور ’حدیث نمبر ۴۸۵۵‘ دیکھ کر آپ کو یہ دھوکہ نہ ہوجائے کہ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کررہی ہیں بلکہ یہ ام المومنین کی اپنی رائے ہے۔ جس کا استنبا ط وہ قرآن سے کر رہی ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے جسے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا ہے، بلکہ ام المومنین اپنا موقف بیان کررہی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ معراج کی شب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ہے یا نہیں؟ اس میں صحابہ کرام و تابعین کا اختلاف رہا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنھما وغیرہ اس کے قائل ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معراج کی شب دیدار الہی کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت ابوذر، حضرت انس، حضرت کعب احبار، حضرت حسن بصری، زہری، معمر، رضی اللہ تعالی عنہم وغیرہ اس کے قائل ہیں کہ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیدار الہی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ پھر کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ قلب سے دیدار ہوا اور کچھ لوگ اس کے کہ آپ نے ظاہری آنکھوں سے دیدار کیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پوری روایت بخاری میں یوں ہے ۔ حدثنا وکیع، عن اسماعیل بن ابی خالد، عن عامر، عن مسروق قال: قلت لعائشۃ رضی اللہ عنھا: یا امتاہ، ہل رأی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربہ؟ فقالت: لقد قف شعری مما قلت، این انت من ثلاث، من حدثکھن فقد کذب : من حدثک ان محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رأی ربہ فقد کذب، ثم قرأت: ( لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر) الانعام : ۱۰۳)۔ ( وما کان لبشران یکلمہ اللہ الا وحیا اومن ورآی حجاب) (الشوری: ۵۱) ۔ ومن حدثک انہ یعلم مافی غد فقد کذب ، ثم قرأت: (وما تدری نفس ماذا تکسب غدا) (لقمان: ۳۴) ۔ ومن حدثک انہ کتم فقد کذب، ثم قرات: (یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک) (المائدۃ:۶۸ ) ولکنہ رأی جبریل علیہ السلام فی صورتہ مرتین۔ ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، حدیث ۴۸۵۵)
ترجمہ: مسروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ ، امی جان،کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ اس بات سے تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے جو تم نے کہی ہے، اگر کوئی تم میں سے ان تین باتوں میں سے کہے تو اس نے جھوٹ بولا۔ جو تمہیں بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے جھوٹ کہا، پھر انہوں نے آیت پڑھی ( لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر) الانعام : ۱۰۳) آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں، وہی ہے نہایت باطن خبردار۔ (سورہ الانعام۔ آیت ۱۰۳) اور کوئی آدمی نہیں پہچانتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے گا، مگر وحی کے طور پر یا یہ کہ وہ بشر پردۂ عظمت کے پیچھے ہو (سورہ الزخرف۔ آیت ۵۱)۔ اور جو تم سے یہ کہے کہ کل کی بات جانتا ہے تو اس نے جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ انہ یعلم مافی غد اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی۔ (سورہ لقمان) اور جو کوئی تمہیں یہ بتائے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کوئی بات چھپائی تو اس نے جھوٹ بولا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک) (المائدۃ: ۶۸) بات دراصل یوں ہے کہ آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو دو دفعہ اصلی شکل و صورت میں دیکھا۔
اس روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ام المومنین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی روایت نقل نہیں فرمائی بلکہ وہ ان تینوں امور میں اپنا موقف بیان کررہی ہیں اور وہ موقف ان کے نزدیک قرآن کی کن آیتوں سے ثابت ہوتا ہے وہ آیتیں بھی بیان کردیں۔ بہرحال روایت میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قول نقل فرمارہی ہیں۔ لہذا یہ ماننا ہوگا کہ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا موقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو دیدار الہی کے شدت سے قائل ہیں۔
اس امر میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف تھا، اسے بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ۔
وقد اختلف السلف فی رویۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربہ فذھبت عائشۃ وابن مسعود الی انکارھا، واختلف عن ابی ذر۔ وذھب جماعۃ الی اثباتھا، (فتح الباری ، جلد ۹ ، ص ۵۶۵۲، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
یعنی سلف نے اس بات پر اختلاف کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا یا نہیں؟ حضرت عائشہ اور ابن مسعود نے انکار کیا ہے اور ابوذر اور ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
امام نووی شافعی علیہ الرحمہ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
قال قاضی عیاض رحمہ اللہ اختلف السلف والخلف ہل رأی نبینا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربہ لیلۃ الاسرأ۔ (شرح صحیح مسلم، جلد ا، ص ۳۸۲، المکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلف اور خلف نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے معراج کی شب اپنے رب کو دیکھا ہے یا نہیں؟

حافظ ابن حجر عسقلانی اور امام نووی شافعی کے مذکورہ بیان سے آپ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہوگی کہ دیدارِ باری تعالی کے مسئلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف تھا، اب ایسی حالت میںکیا ضروری ہے کہ کسی ایک ہی موقف کا پرچار کیا جائے، وہ بھی اجنبی موقف۔ اجنبی موقف میں نے اس لئے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف سے لوگ واقف نہیں ہیں اور حضرت عبدللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے معراج کی شب دیدار کیا ہے، امت میں بہت مشہور و معروف ہے، اور مسلمان اس مسئلہ میں یہی اعتقاد بھی رکھتے ہیں۔ اب اس اعتقاد کے خلاف کوئی نئی بات لوگوں کے سامنے آتی ہے تو اس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔

دیدار الہی کے ثبوت میں حدیثیں

معراج کی شب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے، اس کی صراحت کرنے والی روایتیں ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابوذر روایت کرتے ہیں۔
(۱) عن ابی ذر قال سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ھل رأیت ربک؟ قال: نورانی اراہ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان، حدیث نمبر ۲۹۱)
ترجمہ:حضرت ابو ذر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ وہ نور ہی نور ہے، میں نے اسے دیکھا۔

(۲) عن عبداللہ بن شقیق قال: قلت لابی ذر لو رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لسالتہ فقال عن أی شیء کنت تسالہ؟ قال: کنت اسالہ ھل رأیت ربک؟ قال ابو ذر قد سالت فقال: رأیت نورا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان، حدیث نمبر ۲۹۲)
ترجمہ: حضرت ابوذر نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے نور دیکھا ہے۔
مسلم شریف کی ان دونوں حدیثوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ اور اس کی کیفیت بھی آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی۔ اگر حقیقت وہ ہوتی جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرمارہی ہیں تو حضرت ابوذر کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انکار فرمادیتے۔ لیکن آپ نے اثبات میں جواب دیا اور دیکھنے کی کیفیت بھی بیان فرمادی۔

(۳) علامہ بدرالدین عینی اپنی شرح عمدۃ القاری میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں۔
حکی عبدالرزاق عن معمر عن الحسن انہ حلف ان محمداً رأی ربہ،
(عمدۃ القاری۔ جلد ۱۹، ص ۲۸۵، دارالکتب علمیہ، بیروت)
ترجمہ: حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھا کے فرماتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

(۴) علامہ عینی ایک دوسری روایت ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔
واخرج ابن خزیمۃ عن عروۃ بن الزبیر اثباتھا
(عمدۃ القاری۔ جلد ۱۹، ص ۲۸۵، دارالکتب علمیہ، بیروت)
ترجمہ: ابن خزیمہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس بات کے قائل ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

(۵) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت علامہ عینی ان لفظوں میں نقل فرماتے ہیں
وروی ابن خزیمۃ باسناد قوی عن انس۔ قال رأی محمد ربہ
(عمدۃ القاری۔ جلد ۱۹، ص ۲۸۵، دارالکتب علمیہ، بیروت)
ترجمہ: ابن خزیمہ نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا۔

(۶) حافظ ابن حجر عسقلانی، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ان لفظوں میں نقل فرماتے ہیں
اخرجہ النسائی باسناد صحیح و صححہ الحاکم ایضاً من طریق عکرمۃ عن ابن عباس، قال: اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسی والرؤیۃ لمحمد؟
(فتح الباری ، جلد ۹ ، ص ۵۶۵۲، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: امام نسائی نے اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عکرمہ کے واسطے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ آپ کہا کرتے تھے، تم لوگ اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت کا مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے، اور کلام کا شرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے اور دیدار کا شرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے ہو۔

(۷) امام مسلم اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت یوں نقل فرماتے ہیں:
عن ابن عباس قال ’’ماکذب الفوأد مارأی‘‘۔ ’’ولقد رأہ نزلۃ اخری‘‘۔ قال رأہ بفوادہ مرتین۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص ۶۱، حدیث ۲۸۵)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان آیات کے بارے میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ کیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مسئلہ میں حدیثیں بھی بیان کیں اور قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے بھی اس مسئلہ کی توضیح فرمائی۔

(۸) امام نووی شافعی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت یوں بیان فرمائی:
والا صل فی الباب حدیث ابن عباس حبر الامۃ والمرجوع الیہ فی المعضلات۔ وقد راجعہ ابن عمر رضی اللہ عنھم فی ھذہ المسئلۃ وراسلہ ھل رأی محمد (ﷺ)ربہ؟ فأخبرہ انہ رآہ۔
(شرح مسلم، کتاب الایمان، ص ۳۸۳، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: صحابہ کرام مشکل مسائل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس مسئلہ میں بھی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رجوع کیا اور ان سے سوال کیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ ہاں، دیکھا ہے۔
امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں دیدارِ الہی پر انتہائی تحقیقی بحث کی ہے اور بہت ساری روایتوں کی بنیاد پر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تائید فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
واذا صحت الروایات عن ابن عباس فی اثبات الرؤیۃ وجب المصیر الی اثباتھا فانھا لیست مما یدرک بالعقل، ویؤخذ بالظن، وانما یتلقی بالسماع۔ ولا یستجیز احد ان یظن بابن عباس انہ تکلم فی ھذہ المسئلۃ بالظن والا جتھاد۔ وقد قال معمر بن راشد حین ذکر اختلاف عائشہ وابن عباس: ما عائشۃ عندنا بأعلم من ابن عباس۔ ثم ان ابن عباس اثبت شیئاً نفاہ والمثبت مقدم علی النافی۔
(شرح مسلم، کتاب الایمان، ص ۳۸۳۔ ۳۸۴، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب صحیح روایات ثبوت کو پہنچ گئیں کہ انہوں نے ایسا کہا ہے، تو اب ہم یہ گمان نہیں کرسکتے کہ آپ نے اتنی بڑی بات محض قیاس اور ظن کی بنیاد پر کہی ہوگی۔ یقیناً انہوں نے کسی مرفوع حدیث کی بنیاد پر یہ بات کہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک چیز کو ثابت کررہے ہیں اور دوسرے حضرات نفی کررہے ہیں تو قاعدہ یہ ہے کہ مثبت (ثابت کرنے والے) کا قول نافی (نفی کرنے والے) پر مقدم ہوتا ہے۔
اس کے بعد امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس موضوع پر اپنی بحث کا خلاصہ لکھتے ہوئے امت کا موقف یوں بیان کرتے ہیں۔
فالحاصل ان الراجح عند اکثر العلماء ان رسول اللہ ﷺ رأی ربہ بعینیی رأسہ لیلۃ الاسراء لحدیث ابن عباس وغیرہ مما تقدم۔ واثبات ھذ لایأخذونہ الا بالسماع من رسول اللہ ﷺ ھذا مما لاینبغی ان یتشکک فیہ۔
(شرح مسلم، کتاب الایمان، ص ۳۸۴، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: الحاصل اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معراج کی شب اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس امر میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
امام نووی شافعی رضی اللہ عنہ نے بالکل واضح انداز میں یہ بیان کردیا کہ امت کے اکثر علماء کا موقف یہی ہے کہ حضور ﷺ نے معراج کی شب باری تعالی کا دیدار کیا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ فرمایا، اس کے بارے میں اسلاف کی کیا رائے ہے۔ تو امام ابن حجر عسقلانی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
الامام احمد فروی الخلاف فی (( کتاب السنۃ)) عن المروزی قلت لاحمد انھم یقولون: ان عائشۃ قالت: ’’ من زعم ان محمداً رأی ربہ فقد اعظم علی اللہ الفریۃ)) فبای شیء یدفع قولھا؟ قال: بقول النبی ﷺ رایت ربی قول النبی ﷺ اکبر من قولھا۔
(فتح الباری ، جلد ۹ ، ص ۵۶۵۳، مکتبۃ العصریہ، بیروت)
ترجمہ: مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کا کیا جواب دیا جائے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے ساتھ کہ ’’رأیت ربی۔‘‘ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا جواب دیں گے، اور نبی اکرم ﷺ کا قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بہت بڑا ہے۔
مذکورہ بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ رائے خود قول رسول ﷺ کے خلاف ہے اور اس کا جواب امام احمد بن حنبل کے دور میں بھی دیا جارہا تھا۔ لہذا غیر مقلدوں کی طرف سے اس روایت کی تشہیر پر ہم اہل سنت بھی اسی طرح سے جواب دے رہے ہیں کہ ’’رأیت ربی۔‘‘ کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ :
اگر آپ کے دماغ کی سطح پر یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی صحابیہ ہیں اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی صحابی ہیں۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات کو چھوڑ کر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے موقف کو اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیدار الہی کے سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے کوئی روایت بیان نہیں فرمائی ہے بلکہ قرآنی آیتوں سے استدلال فرمایا ہے۔ اس کے برعکس حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھمانے نبی اکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے۔ لہذا جس امر میں فرمان رسول ﷺ سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کوئی استدلال قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس بات کو اور آسان کردوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف ان کا قرآن سے استنباط کیا ہوا موقف ہے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف صراحۃً حدیث سے ثابت ہے۔ حضور ﷺ نے دیدار کیا یا نہیں؟ جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود یہ حقیقت بیان کردی ’’رأیت ربی‘‘ ’’میں نے اپنے رب کو دیکھا‘‘ تو اب اس حقیقت کے انکار کے لئے استدلال و استنباط کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی لئے علماء امت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کو اختیار نہیں فرمایا، جس کی صراحت امام نووی شافعی رضی اللہ عنہ نے بھی کردی ہے۔

کیا حضور ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے ہیں؟

غیرمقلدین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت بیان کی ہے اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ
’’جو شخص تم سے کہے کہ محمد ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے!‘‘
اس پر عرض یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ ہے کہ ذاتی طور پر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں جانتے، یہاں نفی صرف ذاتی طور پر جاننے کی ہے۔ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی عطا سے بھی حضور ﷺ نہیں جانتے۔ اس لئے کہ مسلم شریف کی حدیث ہے، آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنگ بدر کے وقوع سے ایک روز پہلے ہی بتادیا تھا کہ کل کون کون مارا جائے گا۔ اور اس کی لاش بدر کے کس گوشہ میں پڑی ہوگی۔ چنانچہ امام مسلم رضی اللہ عنہ یہ روایت لائے ہیں:

فقال اِنَّ رسولَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یُرِینا مَصَارِعَ اھلِ بدر بالامسِ یقولُ : ھذا مَصْرَعُ فُلانٍ غَداً اِنْ شائَ اللہ قال : فقال عمرُ فوالذی بَعَثَہ بالحَقِّ مااَخْطَئْوا الحُدُو دَ الّتی حَدَّ رسولُ اللّٰہِ ﷺ
(صحیح مسلم ،حدیث (۲۸۷۳)ص ۸۰۵، دارالسلام ۔ سنن نسائی ، کتاب الجنائز ، ۱۱۷، ارواح المومنین ، حدیث ۲۷۴، ص ۲۳۱ ، بیت الافکار بیروت لبنان)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ہم کو لڑائی سے ایک دن پہلے بدر والوں کے گرنے کی جگہ دکھا رہے تھے آپ فرمارہے تھے یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے ، کل یہاں فلاں گرے گا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا جو حدیں آپ نے بیان کی تھیں ہر ایک کافر انہیں حدوں پر مرا پڑا تھا (ذرہ برابر بھی آگے پیچھے نہ تھا)۔
یہاں بھی حدیث میں غداً کا لفظ موجود ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ جنگ کے بعد ہم نے دیکھا کہ حضور ﷺ نے جس کافر کے مرنے کی پیشین گوئی فرمائی تھی وہ مرا بھی، اور اس کی لاش اس نشان سے ایک انچ بھی ادھر اُدھر نہیں ہوئی جس کی آپ ﷺ نے نشاندہی کی تھی۔
یہ وضاحت میں نے اس لئے کردی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جو دو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں دونوں کا ازالہ ہوجائے۔
بہرحال مذکورہ روایتوں سے آپ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ معراج کی شب نبی اکرم ﷺ نے اللہ تبارک و تعالی کا دیدار اپنے سر کی آنکھوں سے کیا ،اس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کچھ لوگ ایسے واضح امر میں بھی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے حدیثوں کو کس طرح سے توڑ مروڑ کو پیش کرتے ہیں۔ امید ہے آئندہ آپ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ اسی کے ساتھ آپ کے اندر یہ شعور بھی بیدار ہوگیا ہوگا کہ حدیث کے حوالے سے جب کوئی انوکھی بات کی جائے تو کس کس پہلو سے اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)










No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...