درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ اوّل ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
درود تاج : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ ترجمہ : اللہ نہایت رحمت والے بے حد رحم فرمانیوالے کے نام سے درود پڑھتا ہوں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ التَّاجِ وَ الْمِعْرَاجِ وَ الْبُرَاقِ وَالْعَلَمِoدَافِعِ الْبَلَآئِ وَالْوَبَآئِ وَ الْقَحْطِ وَ الْمَرَضِ وَ الْاَلَمِo
اے اللہ رحمت فرما ہمارے سردار اور ہمارے آقاا تاج و معراج والے‘ براق اور بلندی والے پر بلیات و وباء‘ قحط و مرض‘ دُکھ اور مصیبت کے دُور کرنیوالے پر
اِسْمُہٗ مَکْتُوْبٌ مَّرْفُوْعٌ مَّشْفُوْعٌ مَّنْقُوْشٌ فِی اللَّوْحِ وَالْقَلَمِoسَیِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِoِ
جن کا اسم گرامی لکھا ہوا ہے بلندہے اور اللہ کے نام کیساتھ جُڑا ہوا ہے لوح محفوظ اور قلم میں رنگ آمیزی کیا ہوا ہے‘ عرب اور عجم کے سردار
جِسْمُہٗ مُقَدَّسٌ مُّعَطَّرٖ مُّطَہَّرٌ مُّنَوَّرٌ فِی الْبَیْت وَالْحَرَمِoِ
جن کا جسم مبارک ہر عیب سے مبرا‘ خوشبو کا منبع‘ انتہائی پاکیزہ نور علی نور‘ اپنے گھر اور حرم میں(ان تمام احوال کے ساتھ آج بھی موجود ہے)
شَمْسِ الضُّحٰی بَدْرِ الدُّجٰی صَدْرِ الْعُلٰی نُوْرِ الْھُدٰی کَھْفِ الْوَرٰی مِصْبَاحِ الظُّلَمِo
صبح کے روشن اور خوشنما سورج‘ چودھویں رات کے چاند‘ بلندی کے ماخذ‘ ہدایت کے نور‘ مخلوق کی جائے پناہ ‘ تاریکیوں کے چراغ
جَمِیْلِ الشِّیَمِ ط شَفِیْعِ الْاُمَمِ ط صَاحِب الْجُوْدِ وَالْکَرَمِoوَاللّٰہُ عَاصِمُہٗ وَ جِبْرِیْلُ خَادِمُہٗ وَالْبُرَاقُ
بہترین خلق و عادات والے‘ امتوں کی شفاعت کرنیوالے‘ سخاوت اور کرم کے والی پر درود و سلام اور اللہ انکا محافظ ہے‘ جبرائیل امین خادم ہیں اور براق سواری ہے
مَرْکَبُہٗ وَالْمِعْرَاجُ سَفَرُہٗ وَسِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی مَقَامُہٗ وَقَابَ قَوْسَیْنِ مَطْلُوْبُہٗ
معراج ان کا سفر ہے سدرۃ المنتہیٰ ان کا مقام ہے اور قاب و قوسین(کمال قرب الہی) ان کا مطلوب ہے اور مطلوب یعنی کمال قرب الہی
وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُہٗ وَالْمَقْصُوْدُ مَوْجُوْدُہٗ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ شَفِیْعِ الْمُذْنِبِیْنَ
وہی مقصود ہے اور مقصود حاصل ہوچکا ہے تمام رسولوں کے سردار‘ تمام انبیاء کے بعد آنے والے‘ گنہگاروں کی شفاعت کرنیوالے‘
اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ رَ حْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ مُرَادِ الْمُشْتَاقِیْْنَ شَمْسِ الْعَارِفِیْنَ
مسافروں اور اجنبیوں کے غمگسار‘ تمام جہانوں پر رحم فرمانیوالے‘ عاشقوں کی راحت اور مُشتاقوں کی مراد‘ جملہ ہائے عارفوں کے سورج
سِرَاجِ السَّالِکِیْنَ مِصْبَاحِ الْمُقَرَّبِیْنَ مُحِبِّ الْفُقَرَآئِ وَالْغُرَبَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ سَیِّدِ الثَّقَلَیْنِ
سالکوں کے چراغ‘ مقربین کی شمع‘ فقیروں پردیسیوں اور مسکینوں سے محبت و الفت رکھنے والے‘ جنات اور انسانوں کے سردار
نَبِیِّ الْحَرَمَیْنِ اِمَامِ الْقِبْلَتَیْنِ وَسِیْلَتِنَا فِی الدَّ ارَیْنِ صَاحِبِ قَابَ قَوْسَیْنِ
حرم مکہ اور حرم مدینہ کے نبی‘ بیت المقدس اور خانہ کعبہ دونوں قبلوں کے امام‘ دنیا و آخرت میں ہمارے وسیلہ‘ قاب قوسین کی نوید والے
مَحْبُوْبِ رَبِّ الْمَشْرِقَیْنِ وَالْمَغْرِبَیْنِ جَدِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ مَوْلٰنَا وَ مَوْلَی الثَّقَلَیْنِ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَّمَدِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ
مشرقوں اور مغربوں کے رب کے حبیب‘ امام حسن اور امام حسین کے نانا‘ ہمارے آقا جملہ جن و انس کے والی‘ یعنی ابو القاسم محمد بن عبداللہ
نُوْرٍ مِّنْ نُّوْرِ اللّٰہِoیَآ اَیُّھَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِجَمَالِہٖ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
اللہ کے نور میں سے عظمت و رفعت والے نور پر درود و سلام ان کے نور جمال کے عاشقو‘ خوب صلوٰۃ و سلام بھیجو ان کی ذات والا صفات پر اور ان کے آل و اصحاب پر ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ابتدائیہ
٭ پھلواروی صاحب نے اپنے اس رسالے کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’درود تاج کی عبارت پر میں اور طالب علمانہ استفسارکرنے کی جسارت کررہا ہوں اور مجھے اپنی علمی بے بضاعتی کا اقرار بھی ہے‘‘ اسکے باوجود پورے رسالے کی عبارت میں کہیں بھی حقیقت کی جستجو کا شائبہ نظر نہیں آتااور طلب ہدایت کی کاوش دکھائی نہیں دیتی۔ انداز تحریر بتاتا ہے کہ استفسار کا اصل مقصد اپنے علم و فضل کا غلط تاثر دینا اور درود تاج اور اس جیسے دیگر وظائف کا مذاق اڑا کر صلحاء امت اور ان کے معمولات سے عامتہ المسلمین کو متنفر کرنا ہے۔ انہوں نے درود تاج کی عبارت کو ’’بے سروپا‘‘ اور’’بھونڈا‘‘ قراردیا ہے۔ الفاظ کا یہ انتخاب بتا رہا ہے کہ یہ محض طالب علمانہ استفسار نہیں ہے بلکہ انتہائی سوقیانہ اور غیر مہذب انداز میں مذاق اڑانا ہے۔ درحقیقت درود تاج کے الفاظ کو مشرکانہ قرار دے کر اپنے قلبی عناد کا مظاہرہ کیاگیا ہے۔
تخطئہ فی الواقع خطا کو مستلزم نہیں
٭ اسمیں شک نہیں کہ خطا خواہ کسی سے بھی سرزد ہو اسے صواب نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ضروری نہیں کہ جس چیز کو کوئی شخص خطا سمجھے وہ درحقیقت بھی خطا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ایک بات کسی کی رائے میں خطا ہو لیکن واقعہ اسکے خلاف ہو۔
٭ دیکھئے حدیبیہ میں جن شرائط پر صلح ہوئی مسلمان ان پر راضی نہ تھے بالخصوص سہیل بن عمرو کی یہ شرط کہ اے محمدﷺ ہمارا کوئی آدمی خواہ مسلمان ہو کر آپ کے پاس پہنچے آپ ﷺ اسے ضرور ہماری طرف واپس کردیں گے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا
سُبْحَانَ اللّٰہِ کَیْفَ یُرَدُّ اِلیَ الْمُشْرِکِیْنَ وَقَدْ جَاء مُسْلِماً
ترجمہ٭ سبحان اللہ! جو مسلمان ہوکر آیا وہ مشرکین کی طرف کیسے لوٹا یاجائے گا۔(صحیح بخاری ج اول ص۳۸۰)
٭ یہ شرط مسلمانوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ تھی۔ بخاری میں ہے
فَکَرِہَ الْمُوْمِنُوْنَ ڈٰلِکَ وَاٰمْتَعَضُوْا مِنْہُ
ترجمہ٭ مسلمانوں نے اس شرط کو نہایت ناپسند کیا اور اس سے غضب ناک ہوئے۔(صحیح بخاری ج اول ص ۳۷۴)
٭ سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل مسلمان ہوکر لوہے میں جکڑے ہوئے‘ بیڑیاں پہنے ہوئے‘ بڑی مشقت و تکلیف کی حالت میں کہ سے حضورﷺ کے پاس حدیبیہ پہنچے تھے اور ایمان کی خاطر انہوں نے مشرکین کی سخت ایذائیں برداشت کی تھیں مگر اس شرط کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھی واپس جانے کا حکم دیا۔ ابوجندل اس وقت آہ وزاری کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ
ترجمہ٭ مجھے اس حال میں مشرکین کی طرف واپس کیاجارہا ہے حالانکہ میں مسلمان ہوکر آیا ہوں ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے میں کیسے شدائد میں مبتلا ہوں۔(بخاری ج ۱ ص ۳۸۰)
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صاتب الرائے انسان کی نظر میں بھی مسلمانوں کے حق میں وہ شرائظ انتہائی ذلت کا موجب تھیں انہوں نے کہا
فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِیْ دِیْنِنَا
ترجمہ٭ جب ہم حق پر ہیں تو اپنے دین میں کیوں پست ہوں۔(صحیح بخاری ج اول ص ۳۸۰)
٭ جب حضورﷺ نے ان شرائط کو مان لیا تو سہیل بن حنیف جیسے عظیم و جلیل صحابی نے کہا
لَوْاَسْتَطِیْعُ اَنْ اَرُدَّ اَمْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ لَرَدَدْتُّہٗ
ترجمہ٭ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو رد کرنے کی طاقت رکھتا تو ضرور اسے رد کردیتا۔
٭ لیکن جب نتائج سامنے آئے تو انہیں کہنا پڑا
وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ
ترجمہ٭ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔(بخاری ج ۱ ص ۴۵۱ ج ۲ ص ۶۰۲)
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا
وَعَسٰی اَنْ تَکُرَہُوْا شَیْئاً وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وعَسٰی اَنْتُحِبُّوْا شَیْئاً وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ
ترجمہ٭ اور قریب ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور قریب ہے تم کسی چیزکو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر نہ ہو۔(پ۲ البقرہ آیت ۲۱۶)
٭ لہذا کسی چیز کو خطا سمجھنے سے لازم نہیں آتا کہ وہ فی الواقع بھی خطا ہو۔ رسالہ زیر نظر میں پھلواروی صاحب نے جن چیزوں کو غلطی قراردیا ہے وہ دراصل انکے اپنے ذہن کی غلطی ہے۔ اگر ایک بھینگے کو ایک کے دو اور دو کے چار دکھائی دیں تو یہ اسکی اپنی نظر کی غلطی ہوگی۔ اسیطرح اگر کوئی یک چشم دو طرفہ بازار میں سے گزرنے کے باوجود یہ کہے کہ شہر تو خوبصورت ہے مگر بازار ایک ہی طرف ہے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ بازار تو دونوں طرف ہے تیرا ہی ایک بازار بند ہے۔ پھلواروی صاحب کو درود تاج میں جو غلطیاں نظر آئیں۔ وہ ان کی اپنی ناسمجھی کا شاہکار ہیں۔ درود تاج ان اغلاط سے پاک ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کے تمام اعتراضات کا خلاصہ ان کے رسالہ کو سامنے رکھ کر ہم قارئین کرام کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان سب اعتراضات کے ترتیب وار جوابات حاضر ہیں۔ انہیں پڑھئے اور پھلواروی صاحب کی علمی لیاقت پر سردُھنیے۔
پہلا اعتراض اور اسکا جواب
’’اِسْمُہٗ مَشْفُوُعٌ‘‘
٭ پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ عربی میں ’’مَشْفُوُعٌ‘‘اسے کہتے ہیں جو مجنون ہو یا اسے نظر بد لگی ہو یا وہ طاق سے جنت کیا گیا ہو۔ یہ سارے معنی یہاں بے محل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ ’’ مَشْفُوُعٌ لَّہٗ‘‘ہو لیکن یہاں یہ معنی لینا بھی صحیح نہیں حضورﷺ ‘ شَافِعْ ہیں‘ شَفِیْعْ ہیں اور مُشَفَّعْ ہیں۔یعنی شفاعت کرنیوالے مقبول الشفاعت ہیں۔ ’’ مَشْفُوُعٌ لَّہٗ‘‘نہیں۔ نعوذ باللہ حضورﷺ کی کون شفاعت کرسکتا ہے۔ انتہٰی کلامخہٗ
٭ پھلواروی صاحب کا یہ اعتراض پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
٭ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔ انہوں نے لفظ مَشْفُوْعٌ سے حضورﷺ کی ذات پاک کے معنی سمجھ لئے حالانکہ درود تاج میں ذات مقدسہ کیلئے نہیں بلکہ لفظ مَشْفُوْعٌ حضورﷺ کے اسم مبارک کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ذات مقدسہ یقینا مَشْفُوْعٌ لَّہٗ نہیں۔ نہ حضورﷺ نظر بد لگے ہوئے ہیں۔ نہ ذات مقدسہ کے حق میں مجنون کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ معانی یہاں متصور ہی نہیں تو پھر ان کے ذکر کی یہاں کیا ضرورت پیش آئی؟ صاحب درود تاج نے رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کو نہیں بلکہ اسم مبارک کو مشفوع کہا ہے۔ جو اَلشَّفْعُ سے ماخوذ ہے۔ اَلشَّفْعُ کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف اسکی مثل کو ملانا اور طاق کو جفت کرنا ک کی سورہ والفجر میں ہے وَالشَّفِعُ وَالُوَتُرِ(پ۳۰) قسم ہے جفت کی اور قسم ہے طاق کی۔
٭ المنجد میں شَفَعَ شَفْعًا کے تحت مرقوم ہے۔اَلشَّیْیَٔ صَیَّرَہٗ شَفْعًا اَیٰ زَوْجًابِاَنْ یُّضِیْفَ اِلَیْہِ مِثْلَہٗ۔ انتہیٰ(المنجد ص ۳۹۵ طبع بیروت)یعنی شَفَعَ الشَّیْیَٔ کے معنی ہیں۔ اس نے شے کو شفع یعنی جفت کردیا۔ باایں طور کہ ایک شے کی طرف اس کی مثل کو ملا دیا۔
٭ اسی طرح اقرب الموارد میں ہے شَفَعَ ۔۔۔۔۔شَفْعًاَ صَیَّرَہٗ شَفْعًا اَیٰ زَوْجًااَیْ اَضَافَ اِلَی الْوَاحِدِثَانِیًا۔۔۔۔ یُقَالُ کَانَ وَتْرًا فَشَفَعَہٗ بِاٰخَرَ اَیْ قَرَنَہٗ بِہٖ۔ انتہٰی(اقرب الموارد ج۱ ص ۵۹۹) یعنی شَفَعَ شَفْعًا کے معنی ہیں اس نے کسی چیز کو شفع کردیا۔ یعنی اسے جفت بنادیا یعنی ایک کی طرف دوسرے کو ملا دیا۔اہل عرب کا مقولہ ہے کہ وہ طاق تھا اس نے دوسرے کو اسکے ساتھ ملا کر اسے جفت کردیا یعنی ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا دیا۔
٭ نیز’’تاج العروس‘‘میں ہے۔اَلشَّفْعُ خِلَافُ الْوَتْرِوَھُوَ الزَّوْجُ تَقُوْلُ کَانَ وَتُرًا فَشَفَعْتُہٗ شَفْعًا وَشَفَعَ الْوَنْرَمِنَ الْعَدَدِ شَفْیًا صَیَّرَہٗ زَوْجًا۔ یعنی شفع‘ وتر کے خلاف ہے اور شفع جفت کو کہتے ہیں۔ اہل عرب کا قول ہے کہ وہ طاق تھا‘ میں نے اسے جفت کردیا اور اس نے طاق عدد کو جفت بنا دیا۔(تاج العروس ج ۵ ص ۳۹۹)
٭ درود تاج میں لفظ’’مَشْفُوْعُ‘‘ اَلشَّفْعُ سے ماخوذ ہے اور اَلشَّفْعُ متعدی ہے۔اس کا اسم مفعول مَشْفُوْعٌ ہے جو مَقُرون اور جفت کے معنی میں ہے اور ’’اِسْمُہٗ مَشْفُوْعٌ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ شد نے کلمہ میں‘ اذان میں ‘ تکبیر میں اپنے اسم مبارک کے ساتھ اپنے حبیب ﷺ کا مبارک نام ملایا۔ یہ مقرون کے معنی ہیں اور اذان و اقامت میں اسے وتر یعنی طاق نہیں رکھا گیا۔ بلکہ اسے جفت بنا دیا۔ مؤذن اور مکبر اذان و تکبیر میں حضورﷺ کانام ایک بار نہیں بلکہ دو بار پکارتا ہے اور یہی طاق کو جفت بنانا ہے۔
٭ اسم الہی کے ساتھ حضورﷺ کے نام کا متصل ہونااوراذان و تکبیر میں حضورﷺ کے نام کا دوبار پکارنا اِسْمُہٗ مَشْفُوْعٌ کے معنی ہیں اور یہ بالکل واضح‘ برمحل اور مناسب ہیں۔ انہیں نامناسب اور بے محل قرار دینا کج فہمی اور نادانی ہے۔
٭ مخفی نہ رہے کہ امام قسطلانی نے حضورﷺ کے اسماء مبارکہ کے ضمن میں ارقام فرمایا ’’اَلْمُشَفَّعُ اَلْمَشْفُوْعُ‘‘(مواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۱۸۴ طبع بیروت) یعنی ’’مُشَفَّعٌ‘‘ اور’’مَشْفُوْعٌ‘‘ دونوں حضور اکرم ﷺ کے مبارک نام ہیں جس کے بعد صاحب درود تاج کی عبارت قطعًا بے غبار ہوگئی اور پھلواروی صاحب کی لا علمی بھی بے نقاب ہو کر سامنے آگئی ہے۔
پھلواروی صاحب کی ایک علمی خیانت
٭ پھلواروی صاحب یہ تو کہہ گئے کہ مَشْفُوْعٌ کے معنی مجنوں بھی ہیں جیسا کہ المنجد میں ہے۔ مگر اس حقیقت کو چھپا گئے کہ اس معنی کا ماخذ اَلشَّفْعُ نہیں علماء لغت میں سے کسی نے آج تک اَلشَّفْعُ کے تحت مَشْفُوْعٌ کے معنی مجنوں نہیں لکھے بلکہ اَلشُّفُعَۃُ کے مادہ پر کلام کرتے ہوئے اہل لغت نے لکھا ہے کہ اس لفظ اَلشُّفْعَۃُ کے شرعی معنی کے علاوہ ایک معنی ’’جنون‘‘ بھی ہیں دیکھئے اقرب الموارد میں ہے۔’’اَلشُّفْعَۃُ اَیْضًا اَلْجُنُوْنُ‘‘ یعنی لفظ شفعہ کے معنی جنون بھی ہیں۔(ج ۱ ص ۵۹۹)
٭ اور المنجد میں ہے اَلشُّفْعَۃُ جَمْعُمَا شُفَعٌ اَلجُنُوْنُ یعنی لفظ شفعہ کی جمع شُفَعٌ ہے اور اس کے معنی جنون بھی ہیں۔
٭ لسان العرب میں اَلشُّفْعَۃُ کے تحت مرقوم ہے وَیُقَالُ لِلْمَجُنُوْنِ مَشْفُوْعٌ و َ مَسْفُوْعٌ(بِالسِّیْنِ الْمُہْمَلَۃِ)(لسان العرب ج ۸ ص ۱۸۴)قاموس میں اَلشُّفْعَۃُ کے تحت لکھا ہے اَلشُّفْعَۃُ اَیْضْاُاَلْجُنُوْنُ اور اسی کے تحت ارقام فرمایا اَلْمَشْفُوْعُ اَلْمَجْنُوْنُ(قاموس ج ۳ ص ۴۶)
٭ ان عبارات سے واضح ہوگیا ہے کہ لفظ مَشْفُوْعٌ بمعنی مجنون کا ماخذ شَفْعٌ نہیں بلکہ وہ لفظ اَلشُّفْعَۃُ ہے جو جنون کے معنی میں آتا ہے درود تاج کے لفظ مَشْفُوْع کو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں جو لوگ اسے مجنون کے معنی پرحمل کرتے ہیں وہ خود مبتلائے جنون ہیں ایسے لوگوں نے اَلشَّفْعُ اور اَلشُّفْعَۃُ کے فرق کو بھی نہیں سمجھا پھر درود تاج کے سیاق میں اس امر کو بھی نظر انداز کردیا کہ اس کا سوق کلام رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف اور مدح و ثناء پر مشتمل ہے جس میں مجنون کے معنی کا تصور مجنون کے سوا کوئی عاقل نہیں کرسکتا۔(جاریہے)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment