قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ اوّل
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب کيف يقبض العلم، 1 / 50، الرقم / 100، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل، 4 / 2058، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في ذهاب العلم، 5 / 31، الرقم / 2652، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اجتناب الرأي والقياس، 1 / 20، الرقم / 52، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 455، الرقم / 5907، والدارمي في السنن، المقدمة، باب في ذهاب العلم، 1 / 89، الرقم / 239، وابن حبان في الصحيح، 10 / 432، الرقم / 4571، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 21، الرقم / 55.چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ مزید روایت کرتے ہیں کہ فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ ہو گا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ پورا دور اخلاقی برائیوں سے بھر جائے گا ۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّکُمْ حَدِيْثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يُحَدِّثُکُمْ بِهِ أَحَدٌ غَيْرِي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَکْثُرَ الْجَهْلُ وَيَکْثُرَ الزِّنَا وَيَکْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَکْثُرَ النِّسَاءُ.
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث ضرور بیان کروں گا جو میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی اور میرے سوا اس حدیث کو تم سے کوئی بیان بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اُٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا اور شراب پینے کی کثرت ہو جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے، عورتیں بڑھ جائیں گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب النکاح، باب يقل الرجال ويکثر النسائ، 5 / 2005، الرقم / 4933، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضته وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4 / 2056، الرقم / 2671، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في أشراط الساعة، 4 / 491، الرقم / 2205، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب أشراط الساعة، 2 / 1343، الرقم / 4045.چشتی)
حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ دونوں نے روایت کی کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا : إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَأَيَامًا يَنْزِلُ فِيْهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيْهَا الْعِلْمُ، وَيَکْثُرُ فِيْهَا الْهَرْجُ، وَالْهَرْجُ اَلْقَتْلُ.
ترجمہ : قیامت سے کچھ عرصہ پہلے کا زمانہ ایسا ہو گا کہ اُس میں (چہار سو) جہالت اُترے گی، علم اُٹھا لیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا اور ہرج قتل (و غارت) کو کہتے ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6 / 2590، الرقم / 6653-6654، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4 / 2056، الرقم / (10) 2672، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 389، الرقم / 3695، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الهرج والعبادة فيه، 4 / 489، الرقم / 2200، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، 2 / 1345، الرقم / 4050-4051.چشتی)
آقا علیہ السلام نے فرمایا : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ فَقِيْلَ: کَيْفَ يَکُوْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: الْهَرْجُ، اَلْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِي النَّارِ .
ترجمہ : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا دن نہ آجائے، جس میں نہ قاتل کو یہ علم ہو گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو یہ خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل کیا گیا۔ عرض کیا گیا: (یارسول اﷲ!) یہ کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بکثرت کشت و خون ہو گا، قاتل اور مقتول دونوں (اپنی بدنیتی اور ارادے کی وجہ سے) دوزخ میں ہوں گے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتی يمر الرجل بقبر الرجل فيتمنی أن يکون مکان الميت من البلاء، 4 / 2231، الرقم / 2908، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 371، الرقم / 7074، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 1 / 223، الرقم / 23.چشتی)
نہ قاتل کو معلوم ہو گا کہ میں اس کو قتل کیوں کر رہا ہوں، نہ مرنے والے کو پتہ ہو گا کہ مجھے قتل کیوں کیا گیا۔ نہ اس کے ورثاء کو پتہ ہو گا، اس کا مطلب اجرتی قاتل، پیسے دے کر قاتلوں کے ٹولے خریدے جائیں گے، اجرت پہ قاتل ہوں گے، دھڑوں کے دھڑے اور ملک میں، معاشرے میں، اسلامی دنیا میں، عوام میں بدامنی پھیلانے کے لیے قتل عام ہو جائے گا۔ یہ سارا سلسلہ آپ کے سامنے ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایک روز صحابہ کرام کی مجلس میں، اسے امام احمد بن حنبل نے، ابن ماجہ نے، ابن ابی شیبہ نے، طبرانی اور امام حاکم نے روایت کیا اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيْدٍ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا فَقَالَ: ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی يَقْرَئُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا يَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا.
ترجمہ : حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز (یعنی قیامت) کا تذکرہ کیا اور فرمایا: یہ اُس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! علم کیسے جاتا رہے گا جبکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، میں تو تجھے مدینہ کے فقیہ تر لوگوں میں سے سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اُن کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے (اسی بد عملی اور زبانی جمع خرچ کے نتیجہ میں یہ اُمت بھی وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، بس قیل و قال باقی رہ جائے گا)۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 160، الرقم / 17508، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، 2 / 1344، الرقم / 4048، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 145، الرقم / 30199، والحاکم في المستدرک، 3 / 681، الرقم / 6500، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 265، الرقم / 5291، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 4 / 54، الرقم / 1999، وذکره الکناني في مصباح الوجاجة، 4 / 194، الرقم / 8241.چشتی)
آپ نے بیان کیا اس طرح کہ ایک زمانہ آئے گا کہ دنیا سے علم اٹھا لیا جائے گا، اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!
وَکَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟
ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا آپ کی امت سے جبکہ ہمارے اندر قرآن موجود ہے، ہم خود بھی پڑھتے ہیں اور یہ قرآن اپنی اولادوں کو پڑھاتے ہیں، پھر ہماری اولادیں اپنی اولادوں کو پڑھائیں گی اور اس طرح قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا، تو جب یہ سلسلہ جاری رہے گا تو قرآن مجید کے ہوتے ہوئے علم کیسے اٹھ جائے گا ؟
اس سوال کے جواب میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِيَادُ.
فرمایا : زیاد! تیری ماں تجھے گم کر دے .
إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ.
میں یہ سمجھتا تھا کہ تو شہر مدینہ کے بڑے سمجھدار لوگوں میں سے ہے اور تو نے عجیب سوال کیا، آقا علیہ السلام نے فرمایا : أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی يَقْرَئُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا يَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا.
فرمایا : کیا بات کرتے ہو، کیا یہ یہود اور نصری ان میں تورات موجود نہیں؟ کیا ان میں انجیل موجود نہیں؟ اور وہ اس زمانے سے لے کے آج تک تورا اور انجیل اللہ کی کتابوں کو پڑھتے نہیں آ رہے؟ کیا وہ خود نہیں پڑھتے؟ کیا اپنی اولادوں کو نہیں پڑھاتے ؟ ان کی اولادیں آگے نہیں پڑھاتی آئیں ؟
نسل در نسل وہ بھی تو پڑھتے آئے ہیں ۔ مگر وہ گمراہ ہو گئے، ان کا علم اٹھا لیا گیا، کیوں؟ اس لیے کہ وہ خالی پڑھتے ہیں مگر جو پیغام تورات و انجیل نے دیا تھا اس پہ کوئی عمل نہیں کرتے۔ جب میری امت قرآن کو فقط پڑھے گی، قرآن کو فقط سنے گی، قرآن کو فقط چومے گی، قرآن کو فقط بیٹیوں کے جہیز میں دے گی، قرآن کو فقط غلاف میں ڈال کر برکت کے لیے رکھے گی، قرآن پر صرف قسمیں کہائے گی اور ان کا کوئی حقیقی تعلق قرآن سے نہیں رہ جائے گا اور قرآن کے پیغام کو نہیں سمجھیں گے اور قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے اور قرآن ان کی زندگی میں نہیں اترے گا تو پھر قرآن کے امت میں موجود ہونے سے انہیں کوئی عملی نفع نہیں پہنچے گا۔ وہ علم ان سے اٹھ جائے گا چونکہ ان کا تعلق قرآن کے علم سے عملاً کٹ چکا ہو گا۔ وہ امت اس وحی کی برکات سے محروم ہو چکی ہو گی، قرآن ان کے لیے صرف قیل و قال کے لیے رہ جائے گا، صرف تقریروں کے لیے رہ جائے گا، صرف مناظروں کے لیے رہ جائے گا، فتوی بازوں کے لیے رہ جائے گا مگر قرآن کی روح لوگوں کے دلوں سے، سینوں سے، زندگیوں سے نکل جائے گی۔ بولیے کیا آج ہم اس مقام تک نہیں پہنچ گئے؟ پہنچ گئے ۔(جاری ہے)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment