نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ہے
معراج کی رات دیدار باری تعالیٰ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ۔ (کتاب السنہ صفحہ 189 امام الوہابیہ شیخ ناصر البانی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔منکرین کیا کہتے ہیں اس حدیث اور ناصر البانی کے بارے میں ؟؟؟)
حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ، کیا اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا ۔ تم پر افسوس ہے ۔ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا (ترمذی، جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1205، ص 518، مطبوعہ فرید بک لاہور، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ارشاد باری تعالیٰ ’’ولقد راہ نزلتہ اخری‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اﷲ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (ترمذی جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1206، ص 519، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا ۔ (بحوالہ: مسند احمد از کتاب دیدار الٰہی) ۔ اس حدیث کے بارے میں امام سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی (ابن عساکر ، چشتی)
محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادة، ابوقلابہ، خالد بن لجلاج، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رب میرے پاس نہایت اچھی صورت میں آیا اور فرمایا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) میں نے عرض کیا یا رب حاضر ہوں اور تیری فرمانبرداری کے لئے مستعد ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مقربین فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اے رب ! مجھے علم نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور مشرق ومغرب کے درمیان جو کچھ ہے سب کچھ جان لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پوچھا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) میں نے عرض کیا یا رب حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مقرب فرشتے کس چیز کے متعلق جھگڑتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا درجات اور کفارات میں، مساجد کی طرف (باجماعت نماز کے لئے) پیدل چلنے میں، تکلیف کے باوجود اچھی طرح وضو کرنے میں۔ جو ان چیزوں کی حفاظت کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندہ رہے گا اور خیر پر ہی اس کو موت آئے گی اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک رہے گا گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے ۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1182 حدیث قدسی)
مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ام المومنین یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کا کیا جواب دیا جائے؟ آپ نے فر مایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اس قول سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے خود فر مایا : رأیتُ ربی تبارک وتعالی۔میں نے اپنے رب تبارک وتعالی کو دیکھا ۔(مسند احمد ،حدیث :۲۶۷۸) اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا جواب دیں گے۔اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بہت بڑا ہے ۔ (فتح الباری ،جلد۸؍ص:۴۹۲)
عن ابن عباس ،ماکذب الفواد مارای و لقد راہ نزلۃ اخری‘قال راہ بفوادہ مرتین۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب معنی قول اللہ عزوجل ’ ولقد رأہ نزلۃ اخریٰ ‘ وھل رأی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ربّہ لیلۃ الاسراء ، حدیث:۱۷۶)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ان آیات کی تفسیر میں فر ماتے ہیں کہ :حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔عکرمہ(آپ کے شاگرد)کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ :کیا اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں ہے’ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار ‘ کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔آپ نے فرمایا : افسوس تم سمجھے نہیں ۔یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اس نور کے ساتھ تجلی فر مائے جو اس کا نور ہے ۔حضور نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔(جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۹)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: نور ُ ُ اِنّی اُراہٗ۔وہ سراپا نور ہے بے شک میں نے اسے دیکھا۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )
حضرت عبد اللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا :اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے میں ضرور پوچھتا۔انہوں نے کہا تم کس چیز کے بارے میںپو چھتے ؟کہا:میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پوچھتا ،کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا :میں نے اس کے بارے میں پو چھ لیا ہے۔قال رأ یتُ نوراََ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا :میں نے دیکھا وہ نور ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )
شعبی کہتے ہیں کہ میدان عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب سے ملاقات کی اور ان سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا ،تو کعب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا یہاں تک پہاڑ گونج اٹھے،پھر حضرت ابن عباس نے فر مایا :میں بنو ہاشم ہوں (یعنی آپ میرا سوال نہ ٹالیں )تو حضرت کعب نے فر مایا:اللہ تعالی نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا ۔حضرت موسی علیہ السلام نے دو مرتبہ کلام کیا ،اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ تعالی کو دو بار دیکھا ۔ (جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۸)
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:رایت ربی تبارک وتعالی،کہ میں نے اپنے رب تبارک وتعالی کو دیکھا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،جلد:۱؍ص:۲۹۰،تحت مسند عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حدیث:۲۶۲۳،۲۶۷۸)
اسلامی عقیدہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خصائص سے معراج ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک بلکہ بالائی عرش رات کے ایک خفیف حصہ میں مع جسم شریف کے تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و ملک کو کبھی نہ حاصل ہوا ، نہ ہوگا اور جمال الٰہی اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کلام الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوٰت والارض کو بالتفضیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا ۔ (بہار شریعت،اول)
عارف الربانی شیخ امین الکردی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ضوء السراج فی فضل رجب وقصۃ المعراج،شائع کردہ مطبعۃ السعادۃ بجوار محافظۃ مصر میں لکھتے ہیں : صوفیاءکرام کا وہ بابرکت گروہ جنہیں بارگاہ قدس میں باریابی حاصل ہے وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نےا پنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ صحابہ کرام تابعین اور متقدمین ومتاخرین علماء بھی اسی پر متفق ہیں۔ امام نووی مسلم شریف کی شرح میں رقمطراز ہیں؛"اکثر علماء کے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کا دیدار سرکی آنکھوں سے کیا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی اسی کی تائید کررہی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ، عکرمہ ،حسن، ربیع بن سلیمان ؒ اور مفسرین کی ایک جماعت کا مسلک بھی یہی ہے۔ حضرت عکرمہ ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں (ان اللہ تعالیٰ اصطفیٰ ابراھیم بالخُلۃ واصطفیٰ محمداً بالرویۃ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خلت (دوستی) کیلیئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے دیدار کے لیئے چُن لیا۔ " حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور دیدار کو موسیٰ اور محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کے درمیان تقسیم کردیاہے۔ بس موسیٰ ؑ نے دومرتبہ اپنے رب سے کلام کیا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دومرتبہ اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔"
امام قرطبی نے سورۃ الانعام کی تفسیر میں لکھا ہے ابن عباس اور ابی کعب رضی اللہ عنہ ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم بنو ہاشم !کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ اپنے رب کو دیکھا ہے پھر فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے خلت (دوستی) حضرت ابرہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لئے ، کلام حضرت موسی ؑ کے لیئے اور دیدارِ الٰہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیئے"۔ اس پر حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے (اس زور سے) نعرہء تکبیر بلند کیا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی سے واپس آتے ہوئے ہربار اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔" اہل علم میں سے کسی کا فرمان ہے موسی علیہ السلام بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی بارگاہ میں واپس جانے کے لیئے کہتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ شبِ معراج رُخِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو انوار جگمگا رہے تھے موسیٰ علیہ السلام اس روشنی سے حصہ حاصل کرنا چاہتے تھےاگرچہ ظاہر ی طور پر تو (امت کے لیئے) تخفیف طلب کرنے کے لیئے اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیئے کہتے تھے۔
محققین فرماتے ہیں جب موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا اور انہیں دیدار الٰہی نصیب نہ ہوسکا تو شوقِ الٰہی کا اضطراب باقی رہاپھر جب انہیں یقین ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیدارِ الٰہی عطا ہوگیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیئے شرف کے دروازے وا ہوچکے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ یا اللہ! جس نے تمہیں دیکھا مجھے اُس کا دیدار عطا فرمادے۔وفائی نے کیا خوب کہا ہے: موسیٰ علیہ السلام کے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹانے میں ) راز یہ تھا تاکہ مشاہدہ الٰہی کے نور سے حصہ حاصل کریں۔جمال الٰہی کی رونق چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر چمک رہی تھی ۔ اللہ اللہ بار بار کی دید سے حسنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کہنا۔
ایک اور (صاحب درد) کا فرمان ہے جب حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مقام ِ قرب پر تشریف فرماہوئے تو آپ کو محبت کے جام پیش کیئے گئےپھر جب آپ واپس آئے تو (ماکذب الفواد ماراٰی) کا چاند آپ کی پیشانی پر جگمگا رہا تھا (فاوحیٰ الیٰ عبدہ مآ اوحیٰ) کی خوشخبری نے آپ کے دل اور سماعت کو سرور سے معمور کردیا تھا۔ (اس حال میں) جب آپ موسیٰ علیہ السلام کے قریب سے گزرے انہوں نے بزبان حال ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا اے (محبوب کے) محلہ سے آنے والے، میرے یار کی گفتگو سنانے والے، مجھے کچھ سنا کہ آ ج میرے کان میری آنکھوں کی نیابت کررہے ہیں، (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کی گفتگو سے دیدار کا شوق بھی پورا ہوجائے گا۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا جواب دیا ہوگا شاعر کا خیال ہے ، ترجمہ اشعار: میں تنہائی میں اپنے حبیب کے پاس رہا ہوں ہمارے درمیان ایک ایسا راز ہے جو نسیمِ مست خرام سے بھی نازک ہے۔ (میںنے) اس کی دید سے نگاہوں کے کٹورے بھر لیئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے شہرت دوام حاصل ہوگئی ہے۔"
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔"میں بھی وہی کہتا ہوں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آپ نے اس بات کو کئی بار کہا یہاں تک کہ آپ کی سانس ٹوٹ گئی ۔
ایک اور صاحب محبت کہتےہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس حالت کو جان لیا اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ میرے بندوں کی طرف پیغامبر ہیں اگر آپ یہاں رہیں گے تو فریضہ ء رسالت نہیں ادا ہوسکے گا، جائیں زمین پر میرے بندوں تک میرا پیغام پہنچادیں۔ آپ جب بھی نماز پڑھیں گے میں آپ کو اپنا دیدار عطا کروں گا۔ " اسی وجہ سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ) میرے آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اس سے پہلے بھی حدیث صحیح سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ خبر الامۃ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں کہ مشکل مسائل میں اُن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف رجوع کیا اور سوال بھیجا ! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔
ابواسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی سوال کیا جو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ آپ نے جواب میں فرمایا ۔ "ہاں "۔"
ابوالحسن علی بن اسمٰعیل اشعری اور آپ کے شاگردوں کی ایک جماعت کا کہنا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس طرح کے فرامین حدیث پاک کی رہنمائی کے بغیر نہیں کہے جاسکتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (لاتدرکہ الابصار) آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ، کو دلیل بنا کر دیدار کا انکار کیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نےیہ وضاحت نہیں کی کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا ہومیں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا"۔ اگر نفئی روئیت پر کوئی حدیث ہوتی تو وہ ضرور بیان کرتیں ۔ انہوں نے مذکورہ آیت سے استنباط کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ احاطہ واقعی ممکن نہیں لیکن احاطہ کی نفی سے دیدار کی نفی نہیں کی جاسکتی "۔
ایک دوسری روایت ہے کہ شب معراج آپ کا جسم مبارک زمین سے غائب نہیں ہوا یہ حدیث "موضوع" ہے ۔ حضرت ابوالعباس بن سریج شافی فرماتے ہیں۔ "یہ حدیث جھوٹی ہے جو حدیث صحیح کے رد کے لیئے گھڑی گئی ہے۔"
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا فرمان عدم روئیت کے اقوال ،اثباتِ روئیت کے اقوال کے برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ تو اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں، یا بہت چھوٹی عمر ہوگی۔
قائدہ یہ ہے کہ اگر دو حدیثیں ہوں ایک مثبت اور ایک حدیث نافی تو مثبت حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ معمر بن راشد تو فرماتے ہیں ۔ (ما عائشۃ عندنا باعلم من ابی عباس ) ۔ یعنی۔ "ہمارے نزدیک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ جاننے والی نہیں ۔
المختصر ، حق بات یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔"(اختتام ترجمہ)
اہم نکتہ : محترم قارئین آپ نے پڑھا کہ صحابہ سے لے کر، تابعین تک، اور تابعین سے لے کر تمام سلف اور خلف ، سب کا یہی عقیدہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ باری تعالیٰ کا دیدار کیا اور وہ بھی کسی عالمِ خواب میں نہیں بلکہ اپنے سر کی آنکھوں سے یعنی اپنی فیزیکل آنکھوں سے یہ دیدار ہوا۔ یہاں پر تمام نام نہاد سلفیوں کی قلعی کھل جاتی ہے جو کہ اہلسنت وجماعت پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ سلف کے خلاف ہیں۔ جبکہ اپنے ڈھائی تین سو سالہ دھرم کے عقیدے کو نام نہاد سلفیت کی آڑ میں نافذ کرکے امت میں تفریق ڈالتے ہیں۔ آقائے دوجہاں کی شب ِ معراج کی مشہوری ہی اسی وجہ سے ہے۔ ورنہ اس میں اور دیگر سفر میں کوئی فرق نہ رہتا۔ بدقسمتی ہے ہمارے لوگوں کی کہ وہ لوگ ان کے منبر پر بیٹھے شیاطین سے درس لے کر خود کو عالم فاضل تو سمجھ لیتے ہیں لیکن جب بات اصل تحقیق پر آتی ہے تو آپ کو یہ خوارج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ کیونکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ اسلام کا نام مجبوری میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ مکمل طور پرانکار کردیں گے تو مسلمانوں نے ان کو بھی قادیانی بنا دینا ہے، جو یہ چاہتے نہیں، لیکن، اسلام کے اصل پیغام کو ان کا تاریک باطن قبول کرنے کو تیار نہیں اسی وجہ سے فرقہ پرستی کرتے ہوئے، اور لوگوں کو صریحاً دھوکا دیتے ہوئے کبھی وہابی، کبھی دیوبندی تو کبھی سلفی ، اہلحدیث کے نام سے جھوٹی اور غلط تعلیمات دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب دلائل پر بات آتی ہے تو یہ لوگ ایسے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اللہ ہم سب کو ان کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے اور ان قرن الشیاطین کے سب سے بڑے فتنے سے اُمت کو اپنی حفاظت میں مامون رکھے بحق و بحرمت نبی دوجہاں رحمتہ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم ۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو حق کو تسلیم کرنے اور اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ۔ (کتاب السنہ صفحہ 189 امام الوہابیہ شیخ ناصر البانی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔منکرین کیا کہتے ہیں اس حدیث اور ناصر البانی کے بارے میں ؟؟؟)
حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ، کیا اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا ۔ تم پر افسوس ہے ۔ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا (ترمذی، جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1205، ص 518، مطبوعہ فرید بک لاہور، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ارشاد باری تعالیٰ ’’ولقد راہ نزلتہ اخری‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اﷲ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (ترمذی جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1206، ص 519، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا ۔ (بحوالہ: مسند احمد از کتاب دیدار الٰہی) ۔ اس حدیث کے بارے میں امام سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی (ابن عساکر ، چشتی)
محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادة، ابوقلابہ، خالد بن لجلاج، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رب میرے پاس نہایت اچھی صورت میں آیا اور فرمایا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) میں نے عرض کیا یا رب حاضر ہوں اور تیری فرمانبرداری کے لئے مستعد ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مقربین فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اے رب ! مجھے علم نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور مشرق ومغرب کے درمیان جو کچھ ہے سب کچھ جان لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پوچھا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) میں نے عرض کیا یا رب حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مقرب فرشتے کس چیز کے متعلق جھگڑتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا درجات اور کفارات میں، مساجد کی طرف (باجماعت نماز کے لئے) پیدل چلنے میں، تکلیف کے باوجود اچھی طرح وضو کرنے میں۔ جو ان چیزوں کی حفاظت کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندہ رہے گا اور خیر پر ہی اس کو موت آئے گی اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک رہے گا گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے ۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1182 حدیث قدسی)
مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ام المومنین یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کا کیا جواب دیا جائے؟ آپ نے فر مایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اس قول سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے خود فر مایا : رأیتُ ربی تبارک وتعالی۔میں نے اپنے رب تبارک وتعالی کو دیکھا ۔(مسند احمد ،حدیث :۲۶۷۸) اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا جواب دیں گے۔اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے بہت بڑا ہے ۔ (فتح الباری ،جلد۸؍ص:۴۹۲)
عن ابن عباس ،ماکذب الفواد مارای و لقد راہ نزلۃ اخری‘قال راہ بفوادہ مرتین۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب معنی قول اللہ عزوجل ’ ولقد رأہ نزلۃ اخریٰ ‘ وھل رأی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ربّہ لیلۃ الاسراء ، حدیث:۱۷۶)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ان آیات کی تفسیر میں فر ماتے ہیں کہ :حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔عکرمہ(آپ کے شاگرد)کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ :کیا اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں ہے’ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار ‘ کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔آپ نے فرمایا : افسوس تم سمجھے نہیں ۔یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اس نور کے ساتھ تجلی فر مائے جو اس کا نور ہے ۔حضور نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔(جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۹)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: نور ُ ُ اِنّی اُراہٗ۔وہ سراپا نور ہے بے شک میں نے اسے دیکھا۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )
حضرت عبد اللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا :اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے میں ضرور پوچھتا۔انہوں نے کہا تم کس چیز کے بارے میںپو چھتے ؟کہا:میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پوچھتا ،کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا :میں نے اس کے بارے میں پو چھ لیا ہے۔قال رأ یتُ نوراََ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا :میں نے دیکھا وہ نور ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب فی قولہ علیہ السلام ’ نور انی اراہ ،و فی قولہ :رأیت نوراََ ، حدیث: ۱۷۸ )
شعبی کہتے ہیں کہ میدان عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب سے ملاقات کی اور ان سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا ،تو کعب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا یہاں تک پہاڑ گونج اٹھے،پھر حضرت ابن عباس نے فر مایا :میں بنو ہاشم ہوں (یعنی آپ میرا سوال نہ ٹالیں )تو حضرت کعب نے فر مایا:اللہ تعالی نے اپنے دیدار اور اپنے کلام کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کر دیا ۔حضرت موسی علیہ السلام نے دو مرتبہ کلام کیا ،اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ تعالی کو دو بار دیکھا ۔ (جامع ترمذی،کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم،باب ومن سورۃ النجم ، حدیث:۳۲۷۸)
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:رایت ربی تبارک وتعالی،کہ میں نے اپنے رب تبارک وتعالی کو دیکھا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،جلد:۱؍ص:۲۹۰،تحت مسند عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حدیث:۲۶۲۳،۲۶۷۸)
اسلامی عقیدہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خصائص سے معراج ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک بلکہ بالائی عرش رات کے ایک خفیف حصہ میں مع جسم شریف کے تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و ملک کو کبھی نہ حاصل ہوا ، نہ ہوگا اور جمال الٰہی اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کلام الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوٰت والارض کو بالتفضیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا ۔ (بہار شریعت،اول)
عارف الربانی شیخ امین الکردی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ضوء السراج فی فضل رجب وقصۃ المعراج،شائع کردہ مطبعۃ السعادۃ بجوار محافظۃ مصر میں لکھتے ہیں : صوفیاءکرام کا وہ بابرکت گروہ جنہیں بارگاہ قدس میں باریابی حاصل ہے وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نےا پنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ صحابہ کرام تابعین اور متقدمین ومتاخرین علماء بھی اسی پر متفق ہیں۔ امام نووی مسلم شریف کی شرح میں رقمطراز ہیں؛"اکثر علماء کے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کا دیدار سرکی آنکھوں سے کیا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی اسی کی تائید کررہی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ، عکرمہ ،حسن، ربیع بن سلیمان ؒ اور مفسرین کی ایک جماعت کا مسلک بھی یہی ہے۔ حضرت عکرمہ ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں (ان اللہ تعالیٰ اصطفیٰ ابراھیم بالخُلۃ واصطفیٰ محمداً بالرویۃ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خلت (دوستی) کیلیئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے دیدار کے لیئے چُن لیا۔ " حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور دیدار کو موسیٰ اور محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کے درمیان تقسیم کردیاہے۔ بس موسیٰ ؑ نے دومرتبہ اپنے رب سے کلام کیا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دومرتبہ اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔"
امام قرطبی نے سورۃ الانعام کی تفسیر میں لکھا ہے ابن عباس اور ابی کعب رضی اللہ عنہ ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم بنو ہاشم !کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ اپنے رب کو دیکھا ہے پھر فرمایا کہ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے خلت (دوستی) حضرت ابرہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لئے ، کلام حضرت موسی ؑ کے لیئے اور دیدارِ الٰہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیئے"۔ اس پر حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے (اس زور سے) نعرہء تکبیر بلند کیا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی سے واپس آتے ہوئے ہربار اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔" اہل علم میں سے کسی کا فرمان ہے موسی علیہ السلام بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی بارگاہ میں واپس جانے کے لیئے کہتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ شبِ معراج رُخِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو انوار جگمگا رہے تھے موسیٰ علیہ السلام اس روشنی سے حصہ حاصل کرنا چاہتے تھےاگرچہ ظاہر ی طور پر تو (امت کے لیئے) تخفیف طلب کرنے کے لیئے اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیئے کہتے تھے۔
محققین فرماتے ہیں جب موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا اور انہیں دیدار الٰہی نصیب نہ ہوسکا تو شوقِ الٰہی کا اضطراب باقی رہاپھر جب انہیں یقین ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیدارِ الٰہی عطا ہوگیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیئے شرف کے دروازے وا ہوچکے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ یا اللہ! جس نے تمہیں دیکھا مجھے اُس کا دیدار عطا فرمادے۔وفائی نے کیا خوب کہا ہے: موسیٰ علیہ السلام کے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹانے میں ) راز یہ تھا تاکہ مشاہدہ الٰہی کے نور سے حصہ حاصل کریں۔جمال الٰہی کی رونق چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر چمک رہی تھی ۔ اللہ اللہ بار بار کی دید سے حسنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کہنا۔
ایک اور (صاحب درد) کا فرمان ہے جب حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مقام ِ قرب پر تشریف فرماہوئے تو آپ کو محبت کے جام پیش کیئے گئےپھر جب آپ واپس آئے تو (ماکذب الفواد ماراٰی) کا چاند آپ کی پیشانی پر جگمگا رہا تھا (فاوحیٰ الیٰ عبدہ مآ اوحیٰ) کی خوشخبری نے آپ کے دل اور سماعت کو سرور سے معمور کردیا تھا۔ (اس حال میں) جب آپ موسیٰ علیہ السلام کے قریب سے گزرے انہوں نے بزبان حال ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا اے (محبوب کے) محلہ سے آنے والے، میرے یار کی گفتگو سنانے والے، مجھے کچھ سنا کہ آ ج میرے کان میری آنکھوں کی نیابت کررہے ہیں، (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کی گفتگو سے دیدار کا شوق بھی پورا ہوجائے گا۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا جواب دیا ہوگا شاعر کا خیال ہے ، ترجمہ اشعار: میں تنہائی میں اپنے حبیب کے پاس رہا ہوں ہمارے درمیان ایک ایسا راز ہے جو نسیمِ مست خرام سے بھی نازک ہے۔ (میںنے) اس کی دید سے نگاہوں کے کٹورے بھر لیئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے شہرت دوام حاصل ہوگئی ہے۔"
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔"میں بھی وہی کہتا ہوں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آپ نے اس بات کو کئی بار کہا یہاں تک کہ آپ کی سانس ٹوٹ گئی ۔
ایک اور صاحب محبت کہتےہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس حالت کو جان لیا اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ میرے بندوں کی طرف پیغامبر ہیں اگر آپ یہاں رہیں گے تو فریضہ ء رسالت نہیں ادا ہوسکے گا، جائیں زمین پر میرے بندوں تک میرا پیغام پہنچادیں۔ آپ جب بھی نماز پڑھیں گے میں آپ کو اپنا دیدار عطا کروں گا۔ " اسی وجہ سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ) میرے آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اس سے پہلے بھی حدیث صحیح سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا۔ خبر الامۃ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں کہ مشکل مسائل میں اُن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف رجوع کیا اور سوال بھیجا ! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔
ابواسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی سوال کیا جو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ آپ نے جواب میں فرمایا ۔ "ہاں "۔"
ابوالحسن علی بن اسمٰعیل اشعری اور آپ کے شاگردوں کی ایک جماعت کا کہنا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس طرح کے فرامین حدیث پاک کی رہنمائی کے بغیر نہیں کہے جاسکتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (لاتدرکہ الابصار) آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ، کو دلیل بنا کر دیدار کا انکار کیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نےیہ وضاحت نہیں کی کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا ہومیں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا"۔ اگر نفئی روئیت پر کوئی حدیث ہوتی تو وہ ضرور بیان کرتیں ۔ انہوں نے مذکورہ آیت سے استنباط کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ احاطہ واقعی ممکن نہیں لیکن احاطہ کی نفی سے دیدار کی نفی نہیں کی جاسکتی "۔
ایک دوسری روایت ہے کہ شب معراج آپ کا جسم مبارک زمین سے غائب نہیں ہوا یہ حدیث "موضوع" ہے ۔ حضرت ابوالعباس بن سریج شافی فرماتے ہیں۔ "یہ حدیث جھوٹی ہے جو حدیث صحیح کے رد کے لیئے گھڑی گئی ہے۔"
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا فرمان عدم روئیت کے اقوال ،اثباتِ روئیت کے اقوال کے برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ تو اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں، یا بہت چھوٹی عمر ہوگی۔
قائدہ یہ ہے کہ اگر دو حدیثیں ہوں ایک مثبت اور ایک حدیث نافی تو مثبت حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ معمر بن راشد تو فرماتے ہیں ۔ (ما عائشۃ عندنا باعلم من ابی عباس ) ۔ یعنی۔ "ہمارے نزدیک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ جاننے والی نہیں ۔
المختصر ، حق بات یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔"(اختتام ترجمہ)
اہم نکتہ : محترم قارئین آپ نے پڑھا کہ صحابہ سے لے کر، تابعین تک، اور تابعین سے لے کر تمام سلف اور خلف ، سب کا یہی عقیدہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِ باری تعالیٰ کا دیدار کیا اور وہ بھی کسی عالمِ خواب میں نہیں بلکہ اپنے سر کی آنکھوں سے یعنی اپنی فیزیکل آنکھوں سے یہ دیدار ہوا۔ یہاں پر تمام نام نہاد سلفیوں کی قلعی کھل جاتی ہے جو کہ اہلسنت وجماعت پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ سلف کے خلاف ہیں۔ جبکہ اپنے ڈھائی تین سو سالہ دھرم کے عقیدے کو نام نہاد سلفیت کی آڑ میں نافذ کرکے امت میں تفریق ڈالتے ہیں۔ آقائے دوجہاں کی شب ِ معراج کی مشہوری ہی اسی وجہ سے ہے۔ ورنہ اس میں اور دیگر سفر میں کوئی فرق نہ رہتا۔ بدقسمتی ہے ہمارے لوگوں کی کہ وہ لوگ ان کے منبر پر بیٹھے شیاطین سے درس لے کر خود کو عالم فاضل تو سمجھ لیتے ہیں لیکن جب بات اصل تحقیق پر آتی ہے تو آپ کو یہ خوارج کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ کیونکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ اسلام کا نام مجبوری میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ مکمل طور پرانکار کردیں گے تو مسلمانوں نے ان کو بھی قادیانی بنا دینا ہے، جو یہ چاہتے نہیں، لیکن، اسلام کے اصل پیغام کو ان کا تاریک باطن قبول کرنے کو تیار نہیں اسی وجہ سے فرقہ پرستی کرتے ہوئے، اور لوگوں کو صریحاً دھوکا دیتے ہوئے کبھی وہابی، کبھی دیوبندی تو کبھی سلفی ، اہلحدیث کے نام سے جھوٹی اور غلط تعلیمات دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب دلائل پر بات آتی ہے تو یہ لوگ ایسے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اللہ ہم سب کو ان کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے اور ان قرن الشیاطین کے سب سے بڑے فتنے سے اُمت کو اپنی حفاظت میں مامون رکھے بحق و بحرمت نبی دوجہاں رحمتہ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم ۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو حق کو تسلیم کرنے اور اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment