Thursday, 29 March 2018

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ دوم

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ دوم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَی صَدِيْقَهُ وَأَقْصَی أَبَاهُ، وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ، وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَالِکَ رِيْحًا حَمْرَائَ وَزَلْزَلَة وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْکُهُ فَتَتَابَعَ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا، غیر دینی کاموں کے لیے علم حاصل کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی، اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، قبیلے کا بدکار شخص اُن کا سردار بن بیٹھے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر (یعنی حکمران) بن جائے گا اور آدمی کی عزت محض اُس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا، (کھلے عام اور کثرت سے) شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد والے لوگ، پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کریں گے، اُس وقت سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو۔ یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامة حلول المسخ والخسف، 4 / 495، الرقم / 2211، 2210، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 150، الرقم / 469، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 3 / 683684، الرقم / 320، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 5، الرقم / 4544.چشتی)

آقا علیہ السلام نے فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ فرمایا: ایک زمانہ وہ آئے گا، آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک زمانہ وہ آئے گا جب میری امت میں لوگ، حکمران اور لیڈر محصولات کو یعنی Taxes کی آمدنی کو، آپ آقا علیہ السلام کے علم کا اندازہ کیجئے، علم نبوت کا اندازہ کیجئے،
إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا.
Taxes کی آمدنی کو، محصولات کو جب لوگ ذاتی دولت سمجھ کر کھانے لگ جائیں گے۔ قوم ٹیکس دے گی، خزانے میں ٹیکس کا سرمایہ جمع ہو گا اور حکمران بددیانت، خائن، حرام خور ہوں گے، وہ ذاتی دولت کی طرح اس کو ہڑپ کر جائیں گے، وہ زمانہ آئے گا ۔ اور اس طرح فرمایا :
وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا.
اور امانت کو مال غنیمت سمجھ کے کھایا جائے گا۔
وہ امانت جو قوم کی امانت ہے۔ آپ کا مال ہے، اگر پاکستان ہے تو اٹھارہ کروڑ غریبوں کا مال ہے، آپ کی امانت ہے۔ حکمران جب برسر اقتدار آئیں گے تو قوم کی امانت کو مال غنیمت، لوٹا ہوا مال جنگ کا سمجھ کے کھا جائیں گے،
وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا
اور معاشرے کے لوگ زکاۃ کو تاوان سمجھیں گے، زکاۃ دینے سے کترائیں گے، اسے چٹی سمجھیں گے، جرمانہ سمجھیں گے، تاوان سمجھیں گے، گنتی کریں گے کہ کم زکاۃ دینی پڑے۔ آپ دیکھتے آئیے میرے آقا کا ایک ایک کلمہ کانوں سے سنتے آئیے اور دلوں میں جھانک کر اپنے اور اس معاشرے کے احوال کا تجزیہ کرتے چلے آئیے۔ پندرہ سو سال پہلے میرے آقا نے فرمایا: اللہ کی عزت کی قسم یوں لگتا ہے کہ آج کا زمانہ، پردے اٹھ گئے تھے، مصطفی علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارے احوال کو دیکھ رہے تھے۔
ہمارے اعمال کو دیکھ رہے تھے، ہماری قلبی کیفیات کو دیکھ رہے تھے، ہماری خیانتوں کو، بددیانتی کو دیکھ رہے تھے، ہماری لوٹ مار، کرپشن کو دیکھ رہے تھے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہ میرے کلمات نہیں ہیں یہ آقا علیہ السلام کے فرمودات ہیں۔
جامع ترمذی اور طبرانی کی حدیث ہے فرمایا : زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا، وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ، اور علم دین کا حاصل کرنے سے لوگ کترائیں گے اور دنیوی علم کی طرف رغبت بڑھ جائے گی۔ سمجھیں کہ علم دین کے حاصل کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔ سوسائٹی میں دینی علم کی قدروقیمت نہیں رہے گی، دینی علم کے لیے لوگوں کی رغبت نہیں رہے گی، کیا بنانا ہے، کیا کرنا ہے مولوی بنا کر، کیا کرے گا مولوی بنے گا، امام و خطیب بنے گا، نہ کوئی پیسہ نہ ٹکا نہ عزت نہ کوئی طاقت۔ علم دین کی قدر سوسائٹی میں ختم ہو جائے گی۔
دین کو لوگ نیچا دیکھیں گے، علم دین کو بے قدر دیکھیں گے اور دنیوی علم کی رغبت بڑھ جائے گی، اہمیت بڑھ جائے گی اور پھر ارشاد فرمایا: پھر ایسا وقت آئے گا کہ لوگ بیوی کی اطاعت کریں گے اور ماں باپ کی بات نہیں مانیں گے، ایسا وقت آئے گا کہ اولاد اپنے دوستوں سے زیادہ محبت کرے گی باپ کو دور رکھے گی، راز کی بات دوست سے کرے گا بیٹا باپ کو نہیں بتائے گا، باپ سے دور ہو جائے گا دوستوں کے قریب ہو گا۔ آج جھانک کر اپنی اولادوں کے احوال پہ غور کرو، آج کے اکثر باپوں کو یہ شکوہ نہیں ہے اپنی اولاد سے؟ اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی۔
وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ.
جھگڑے ہوں گے مسجدوں میں، فساد ہوں گے، آوازیں بلند ہوں گی اور پھر خاص چیز جو ارشاد فرمائی، فرمایا:
وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ.
پھر وہ دور آئے گا کہ مختلف طبقات اور برادریوں میں جو فاسق، فاجر، شرابی، بدکار، رسہ گیر، غنڈے، کرپٹ لوگ ہوں گے وہ ان برادریوں اور علاقوں کے لیڈر بن جائیں گے۔ وہ ان کے سربراہ بن جائیں گے اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ.
اور پھر وہ لوگ جو اپنے کردار میں گھٹیا ہوں گے، جن کے کردار میں نہ دین ہو گا نہ امانت ہو گی نہ دیانت ہو گی، خائن ہوں گے، جھوٹے ہوں گے، بدکردار ہوں گے، لٹیرے ہوں گے، بدکردار ہوں کے، کردار میں گھٹیا لوگ فرمایا: وہ قوم کے حکمران، لیڈر بن جائیں گے۔
قوم نیک کردار والوں کو لیڈر منتخب نہیں کرے گی، قوم اچھے متقی لوگوں کو اپنا رہبر نہیں بنائے گی۔ گھٹیا، کمینے، جھوٹے، خائن، لٹیرے، کرپٹ ان کو لیڈر بنایا جائے گا۔ اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ.
پھر طاقتور لوگوں سے لوگ ڈریں گے، ان کی عزت کریں گے، ان کے کردار کی وجہ سے نہیں ان کے شر کے خوف سے کہ نقصان پہنچے گا۔ تھانے میں لے جائیں گے، جیل بھجوا دیں گے، ڈاکہ ڈلوا دیں گے، غنڈہ گردی کروائیں گے، ان کے شر کے خوف سے ان وڈیروں کی عزت کی جائے گی، ان کے کردار کی وجہ سے نہیں۔ اللہ کی عزت کی قسم کھا کر کہیے، ایک ایک لفظ اپنی آنکھوں کے ساتھ آپ اس معاشرے میں سچا ہوتا نہیں دیکھ رہے؟ سب کچھ یہ نہیں ہو رہا؟ کیا یہ میرے الفاظ ہیں؟ کیا یہ میرے کلمات ہیں؟ بھئی احادیث نبوی ہیں۔ پندرہ صدیاں پہلے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا تھا۔
اور فرمایا: پھر گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ہر طرف، ہر مجلس میں عام ہو جائے گا، اب کوئی شادی ہوتی ہے ان کاموں کے بغیر؟ سوسائٹی کو بالکل فحاشی و عریانی، بے حیائی کا گہوارہ بنا دیا گیا اور آقا علیہ السلام نے فرمایا : وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ، شرابیں سر عام پی جانے لگیں گی، گھر گھر پی جائیں گی شرابیں۔ کیا شہروں، دیہاتوں میں ہر طرف شراب عام نہیں ہو گئی؟ یہ سب کچھ کیسے ہے؟ کہ جب قوم کے لیڈر ایسے ہوں گے تو پھر نیچے تک پوری قوم اخلاقی طور پہ برباد ہو جائے گی۔ ان برائیوں کو جب روکنے والا کوئی نہیں ہو گا جس کے پاس طاقت ہے تو یہ برائیاں اس معاشرے کا نظام بن جائیں گی۔ تو آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب ایسا زمانہ آ جائے تو انتظار کرو طرح طرح کے آسمانی عذاب لگاتار اس قوم پر اتریں گے اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی، جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو گرتے ہوئے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے اس طرح اللہ کے عذاب اس سوسائٹی پر یکے بعد دیگرے اترنے لگ جائیں گے۔ اس قوم پر عذاب یکے بعد دیگرے اتر رہے ہیں۔

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُجْعَلَ کِتَابُ اﷲِ عَارًا وَيَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا حَتّٰی يُنْقَصَ الْعِلْمُ وَيُهْرَمَ الزَّمَانُ وَيُنْقَصَ عُمَرَ الْبَشَرِ وَيُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ وَيُؤْتَمِنُ التُّهَمَاءُ وَيُتَّهَمُ الأَمْنَاءُ وَيُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَيُکَذِّبَ الصَّادِقُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ، قَالُوْا: مَا الْهَرْجُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ وَحَتّٰی تُبْنَی الْغُرُفُ فَتَطَاوَلُ وَحَتّٰی تَحْزَنَ ذَوَاتَ الأَوْلَادِ وَتَفْرَحَ الْعَوَاقِرُ وَيُظْهَرَ الْبَغْيُّ وَالْحَسَدُ وَالشُّحُ وَيُغِيْضَ الْعِلْمُ غَيْضًا وَيُفِيْضَ الْجَهْلُ فَيْضًا وَيَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَالشِّتَاءُ قَيْضًا وَحَتّٰی يُجْهَرَ بِالْفَحْشَاءِ وَتَزُوْلُ الأَرْضُ زَوَالًا.(أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21 / 274.چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اﷲ کی کتاب (پر عمل کرنے) کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، انسان کی عمر کم ہو جائے گی، ماہ و سال اور غلہ و ثمرات میں (بے برکتی اور) کمی رونما ہو گی، ناقابل اعتماد لوگوں کو امین اور امانت دار لوگوں کو ناقابل اعتماد سمجھا جائے گا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا قرار دیا جائے گا، ھرج عام ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتل، قتل۔ اور یہاں تک کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور ان پر فخر کیا جائے گا، یہاں تک کہ صاحب اولاد عورتیں غمزدہ ہوں گی اور بے اولاد خوش ہوں گی، ظلم، حسد اور لالچ کا دور دورہ ہو گا، علم کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے اور جہالت کا سیلاب اُمنڈ آئے گا، اولاد غم و غصہ کا موجب ہو گی اور موسم سرما میں گرمی ہو گی۔ یہاں تک کہ بدکاری اعلانیہ ہونے لگے گی۔ ان حالات میں زمین کی طنابیں کھینچ دی جائیں گی۔

فرمایا : آخری زمانے میں ایک وقت آئے گا
حَتّٰی يُجْعَلَ کِتَابُ اﷲِ عَارًا
کہ اللہ کی کتاب قرآن کا ذکر کرنا، اس کا علم، اس کی دعوت، اس کی تبلیغ، اس کا درس، اس کی مجلس، اس پر عمل، اس کو لوگ باعث عار سمجھیں گے،
وَيَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا،
اور مسلمان ملکوں میں اسلام اجنبی نظر آئے گا، مسلمان معاشروں میں اسلام اجنبی نظر آئے گا۔ اور پھر فرمایا: علم گھٹتا چلا جائے گا،
وَيُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ،
اور پھر یہ جو برکتیں ہیں، ثمرات میں، غلہ میں، ان میں بے برکتی ہو جائے گی،
وَيُؤْتَمِنُ التُّهَمَاءُ،
اور جو لوگ بدنام ہیں، خائن اور کرپٹ ہیں، جو اصل میں تہمت کے لائق ہیں انہیں قومی امانت سونپی جائے گی۔
وَيُتَّهَمُ الأَمْنَاءُ،
اور جو لوگ امانتدار ہوں گے، نیک و متقی ہوں گے، صداقت و امانت والے ہوں گے انہیں تہمت دی جائے گی، ان پرالزام لگائے جائیں گے،
وَيُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَيُکَذِّبَ الصَّادِقُ،
جو جھوٹے ہیں انہیں سچا قرار دیا جائے گا، یہ میڈیا کیا کر رہا ہے؟ پیسے کا کھیل ہے، جھوٹوں کو سچا بنا کر کروڑوں لوگوں کے سامنے دکھایا جا رہا ہے اور جو سچے ہیں انہیں جھوٹا بنا کر دکھایا جائے گا، آقا علیہ السلام نے فرمایا: یہ زمانہ آئے گا، وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ، اور قتل و غارت گری عام ہو جائے گی۔
قَالُوْا: مَا الْهَرْجُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟
یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟
فرمایا: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ، ہر طرف قتل ہی قتل، خون ہی خون بہانا، دہشتگردی عام ہو جائے گی اس دور میں۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا : پھر نافرمانی، سرکشی، حسد، بخیلی یہ سب کچھ عام ہو جائے گا، علم کے چشمے سوکھنے لگ جائیں گے اور جہالت کا سیلاب آ جائے گا پورے معاشرے میں، حتی کہ اولاد ایسی ہو جائے گی کہ اولاد ماں باپ کے لیے دکھ اور غم و غصہ کا سبب بن جائے گی اور بدکاریاں معاشرے میں علی الاعلان ہونے لگ جائیں گی، فرمایا: جب ایسا زمانہ آ جائے تو انتظار کرو، زمین کی تنابیں کھینچ لی جائیں گی۔ طرح طرح کے عذاب زمین اور اہل زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

آقا علیہ السلام نے یہ بھی ارشاد فرمایاب : حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: لَا يَأْتِي عَلَيْکُمْ عَامٌ إِلاَّ وَهُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِي کَانَ قَبْلَهُ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَاماً أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ وَلَا أَمِيْرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيْرٍ، وَلٰـکِنْ عُلَمَاؤُکُمْ وَخِيَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ يَذْهَبُوْنَ، ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا وَيَجِيئُ قَوْمٌ يَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْيِهِمْ.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم پر ہر آئندہ سال پہلے سے برا آئے گا میری مراد یہ نہیں کہ پہلا سال دوسرے سال سے غلہ کی فراوانی میں اچھا ہوگا یا ایک امیر دوسرے امیر سے بہتر ہو گا، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تمہارے علماء صالحین اور فقیہ ایک ایک کر کے اُٹھتے جائیں گے اور تم اُن کا بدل نہیں پاؤ گے اور (قحط الرجال کے اس زمانہ میں) بعض ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی مسائل کو محض اپنی ذاتی قیاس آرائی سے حل کریں گے ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب تغير الزمان وما يحدث فيه، 1 / 76، الرقم / 188.چشتی)

دارمی میں ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ شر غالب آ جائے گا اور پہلے زمانے کے مقابلے میں شر کہیں زیادہ غالب اور عام ہو گا اور اس کا مطلب آقا علیہ السلام نے فرمایا :
عُلَمَاؤُکُمْ وَخِيَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ يَذْهَبُوْنَ،
کہ علمائے حق چلے جائیں گے، سوسائٹی سے کم ہو جائیں گے۔ نیک، صالح، متقی لوگوں کی کمی ہوتی جائے گی، دین کا اصل فہم اور بصیرت رکھنے والے فقہاء کم ہوتے چلے جائیں گے۔
ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا،

پھر ان کا بدل تمہیں نہیں ملے گا، جو جگہ خالی ہو گی اس جگہ کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
وَيَجِيئُ قَوْمٌ يَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْيِهِمْ.
جب قرآن و حدیث کے کامل علماء، فقہاء، ربانیین، عرفاء جب نہیں رہیں گے تو پھر ایسے لوگ چھا جائیں گے معاشرے میں جو قرآن و سنت کی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنی عقل سے، دانش سے، ذاتی رائے سے لوگوں کو دین کی تشریح کر کے بتائیں گے اور لوگ ان کی باتوں پہ چلیں گے۔ دین ہٹا دیا جائے گا اور لوگوں کی ذاتی رائے اور اپنی ذاتی عقل کو غالب کر لیا جائے گا۔ دین کی تشریح و تعبیر ذاتی رائے سے ہو گی، کیا ایسا ہو رہا ہے کہ نہیں؟ ہر شخص کہتا ہے میری رائے میں یہ ہے، میں یہ سمجھتا ہوں، میرے خیال میں یہ ہے۔ ارے نادان تیری رائے کی حیثیت کیا ہے دین میں؟ ارے بدبخت تیرے خیال اور قیاس کی حیثیت کیا ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب لوگ دین کا فیصلہ اپنی ذاتی رائے اور قیاس سے کرنے لگیں اور قرآن و حدیث و سنت کو ترک کر دیں، سمجھو گمراہی چھا گئی ہے معاشرے میں اور حق چلا گیا ہے۔ یہ دور فتن ہے۔ اس کو عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا اور امام دارمی نے اس کی تخریج کی۔

آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایان : عَنْ مُعَاذٍ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِيَةِ أَعْدَاءُ السَّرِيْرَةِ فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَکَيْفَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ.
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے طبقات اور گروہ ہوں گے جو ظاہری طور پر (ایک دوسرے کے لیے) خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے اور اندر سے ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے (شدید نفرت رکھنے کے باوجود صرف) خوف اور لالچ کی وجہ سے (بظاہر دوستی وخیر خواہی کا مظاہرہ کریں گے)۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 235، الرقم / 22108، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 341، الرقم / 1456، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 102، وذکره الديلمي في مسند الفردوس، 5 / 452، الرقم / 8713.چشتی)

حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : يَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِيَةِ أَعْدَاء السَّرِيْرَةِ،
آخری زمانے میں ایسی جماعتیں پیدا ہوں گی، (أَقْوَامٌ) پارٹیز، جماعتیں، ایسے گروہ، ایسے طبقات پیدا ہو جائیں گے جو حقیقت میں تو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، عداوت ہو گی، نفرت ہو گی، مگر اوپر سے ملے ہوئے ہوں گے، جڑے ہوں گے، صحابہ کرام نے پوچھا : فَکَيْفَ يَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ آقا ایسے کس طرح ممکن ہے، کہ دلوں میں تو وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں اور اوپر سے کیسے دوست ہوں گے؟
قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ.
وہ مفادات ان کو جوڑ دیں گے۔ سیاسی مفادات، اقتدار، لالچ، پیسہ، لوٹ مار یہ جو ظاہری دنیا کے مفادات ہیں وہ دلوں کے دشمنوں کو اوپر دوست بنا دیں گے، وہ جڑ جائیں گے، اندر سے گالیاں دیں گے چھپے بندوں اوپر سے چونکہ لوٹ مار کامن ایجنڈا ہے اس لیے جوڑ جائیں گے۔
آج کا سار نظام تاجدار کائنات کی اس حدیث پاک کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لوگوں کے منشور آپس میں نہیں ملتے، خیالات آپس میں نہیں ملتے، رائے نہیں ملتی، فکر نہیں ملتی، پھر ایک دوسرے سے نفرت ہے، دشمن ہیں، گالیاں دیتے ہیں، تنہا بیٹھتے ہیں مگر اسلام آباد میں بیٹھ کے اسمبلی میں ایک ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں میں ایک ہوتے ہیں، کیونکہ گٹھ جوڑ ہے کرپشن پر، گٹھ جوڑ ہے حکومت و اقتدار پر، گٹھ جوڑ ہے مفادات پر یا گٹھ جوڑ ہے خوف پر کہ کہیں نقصان نہ پہنچا دیں، آقا علیہ السلام نے فرمایا: اندر سے دشمن ہوں گے، اوپر سے دوست ہو جائیں گے۔
ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ
یا دنیا کا مفاد انہیں اوپر سے جوڑے گا یا ایک دوسرے کا خوف و خطرہ ایک دوسرے سے جوڑے گا۔ آپ اندازہ کیجئے آقا علیہ السلام نے کونسی چیز ایسی ہے جو چھوڑ دی، جس کا پورا رنگ اور نقشہ آج ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔
محترم قارئین : بات سمجھنے والی ہے دین فقط مسجدوں میں آ کے نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے، میری بات یاد رکھ لیں، دین صرف ماہ رمضان المبارک میں فقط روزے رکھ لینے کا نام نہیں ہے۔ دین صرف حج اور عمرے پر چلے جانے کا نام نہیں ہے۔ اگر دین آپ کے قلب و باطن میں نہیں اترا، اگر دین آپ کے فکر اور سوچ میں نہیں اترا، اگر دین آپ کے سینوں میں آباد نہیں، اگر دین آپ کی زندگی پر نافذ نہیں ہے اور آپ کے ظاہر و باطن کے احوال دین کے تابع نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دین آپ سے دور اور آپ دین سے دور۔ ہم دین کی رسموں پرمطمئن ہو گئے ہیں اور دین کے جو حقیقت ہے اس سے کلیتاً دور ہو چکے ہیں۔ اگر دین کی حقیقت کو راسخ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے ذہن اتنے پراگندہ و فرسودہ ہو گئے، کہا جاتا ہے کہ یہ تو سیاست ہو گئی ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ مساجد میں اکٹھے ہوں گے اور باجماعت نمازیں پڑھیں گے، لیکن ان میں کوئی ایک بھی (صحیح) مؤمن نہیں ہوگا ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم / 30355، وأيضًا، 7 / 505، الرقم / 37586، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 172، والفريابي في صفة المنافق / 80، الرقم / 108-110، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 441، الرقم / 8680، والمقدسي في ذخيرة الحفاظ، 5 / 2767، الرقم / 6469، وذکره السيوطي في الدر المنثور، 7 / 473، والهندي في کنز العمال، 11 / 77، الرقم / 31109.چشتی)

آقا علیہ السلام نے فرمایا: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
ترجمہ : آقا علیہ السلام نے فرمایا: ایک زمانہ میری امت پر ایسا آئے گا کہ بڑی تعداد میں لوگ مسجدوں میں جمع ہوں گے اور نمازیں پڑھیں گے مگر ان میں مومن ایک بھی نہیں ہو گا۔ مسجدوں میں آئیں گے، نماز پڑھیں گے مگر ان نماز پڑھنے والوں میں سے ایماندار کوئی نہیں ہو گا۔ تو اگر فقط رسم نماز ادا کرنے کا نام دین ہوتا، اگر فقط مساجد میں آ جانے اور جمع ہو جانے کا نام دین ہوتا تو آقا علیہ السلام یہ نہ فرماتے:
وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ، ان نماز پڑھنے والوں میں اور مسجدوں میں جمع ہونے والوں میں کوئی مومن نہیں۔اس حدیث کو روایت کیا ہے امام ابن ابی شیبہ نے، اس حدیث کو روایت کیا امام حاکم، امام طحاوی، امام فریابی، امام دیلمی، امام مقدسی نے اور امام حاکم نے کہا:هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ،یہ صحیح الاسناد حدیث ہے۔

پھر دوسری روایت اور یہ بھی حدیث صحیح ہے امام حاکم اور امام آجری نے روایت کی۔ فرمای ا: يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ، لَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
ترجمہ : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) مساجد میں اکٹھے ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم / 8365، والآجري في کتاب الشريعة، 2 / 601-602، الرقم / 236-237.چشتی)

اسی طرح تیسری روایت میں یہ لفظ فرمایا : لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُوْنَ فِي مَسَاجِدِهِمْ، مَا فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
ترجمہ : لوگوں پر ضرور بالضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) اپنی مساجد میں جمع ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا ۔ (أخرجه الآجري في کتاب الشريعة، 2 / 602-603، الرقم / 238.چشتی)

اب یہاں سوچنے کی بات ہے کہ مسجدوں میں بھی آ رہے ہیں، جمع بھی مسجدوں میں ہو رہے ہیں، نماز بھی پڑھ رہے ہیں مگر آقا علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی ایمان کی حقیقت کو جاننے والا ہے؟ تو پتہ چلا دین فقط رسم کا نام نہیں اور نماز رسماً پڑھ لینے کا نام نہیں، فقط جمعہ، عید کے دن مساجدوں کو بھر دینے کا نام نہیں۔ کیوں فرمایا کہ ان میں مومن ایک بھی نہیں ہو گا، وجہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے مگر ان کے دلوں میں منافقت ہو گی، ان کے اندر بداعتقادی ہو گی، ان کے اندر دنیا پرستی ہو گی، ان کے کردار میں دھوکہ دیہی ہو گی، وہ کرپٹ ہوں گے، وہ ظالم ہوں گے، وہ خونخوار ہوں گے، وہ مسلمانوں کا خون چوسنے والے ہوں گے۔ مسلمانوں کی امانت میں خیانت کرنے والے ہوں گے۔ قوم سے جھوٹ بولنے والے ہوں گے، ان کے اندر سے جب حقیقی دین نکل گیا ہو گا۔ دین جس کردار کا تقاضا کرتا ہے، جب وہ اس کردار سے خالی ہوں گے، دین جس امانت و صداقت کا تقاضا کرتا ہے جب ان کی زندگیوں میں امانت و صداقت نہ رہے گی۔ دین قوم اور لوگوں کے ساتھ جس عدل و انصاف کا تقاضا کرتا ہے جب ان کی زندگیوں سے عدل و انصاف نہیں رہے گا، دین جس وعدہ کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے جب وہ وعدہ خلاف ہو جائیں گے۔ لوگوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالیں گے اور لوگوں کے مال لوٹ کر امیر کبیر ہوتے چلے جائیں گے، جب ان کے اندر خونخوار بھیڑئیے کا عمل کار فرما ہو گا تو فرمایا وہ بھلے مسجدوں کو بھر دیں نماز سے مگر ایک شخص بھی ایمان والا نہیں ہو گا۔ یہ گارنٹی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود عطا کر دی۔
محترم قارئین : یہ دور اتنی جہالت و لا علمی اور اتنی بے شعوری کا دور ہے کہ لوگوں کے اندر دین کا صحیح فہم نہیں رہا، دین کی صحیح معرفت نہیں رہی ۔ اس حقیقی دین کو اپنی زندگیوں میں زندہ کرو، اس حقیقی ایمان کو اپنے شعور، علم و فکر میں اور عمل، سیرت و کردار میں جاگزیں کرو۔ چلتا پھرتا دین تمہاری زندگیوں میں نظر آئے، تب تاجدار کائنات کی نگاہ میں مومن بنو گے۔ ہمارا معاشرہ منافقت کی آماجگاہ ہے، کفر سے بدتر ہو چکا ہے، کافروں سے بدتر مسلمانوں کا حال ہو چکا ہے۔ جھوٹ میں، مکر میں، فریب میں، ظلم و بددیانتی میں، خیانت میں، رشتہ داروں سے زیادتی کرنے میں، پڑوسیوں سے زیادتی کرنے میں، غریبوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے میں ہم ہر لحاظ سے بدتر ہو چکے ہیں، کفار سے بھی زیادہ اور دعوی کرتے ہیں مسلمان ہیں، مسلمانوں کے لیڈر ہیں، مسلمانوں کے نمائندے ہیں۔ میرے آقا نے فرمایا: اگر کردار میں دین نہ ہو تو بھلے تم مسجدوں کو بھر دو نماز کے سجدوں سے، پھر بھی تم میں ایک شخص بھی مومن نہیں ہو گا۔ ایمان دعوؤں سے نہیں آتا ایمان حقیقی کردار سے آتا ہے۔

پھر آقا علیہ السلام نے ارشادر فرمایا، عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں، امام طبرانی نے اس حدیث کو روایت کیا، بڑا عظیم، بڑا جامع اور ایمان افروز مضمون ہے : عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه فِي رِوَايَة طَوِيْلَةٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا. أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَأَنْ يَکُوْنَ الْمَطْرُ قَيْظًا وَأَنْ تَفِيْضَ الأَشْرَارُ فَيْضًا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ يُکَذَّبَ الصَّادِقُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ يُخَوَّنَ الأَمِيْنُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْهَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکُوْنَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيْلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَائُ بِالنِّسَائِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْيَا وَيُخْرَبُ عِمْرَانُهَا،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَکْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَی.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولاد (نافرمانی کے سبب والدین کے لیے) غم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا،
’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن (نیک اور دیانت دار آدمی) اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اُن کے منبر عالی شان ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ (معاشرے میں) پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 229، الرقم / 10556، وأيضًا في المعجم الأوسط، 5 / 127، الرقم / 4861.چشتی)
طویل روایت میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں کہ میں نے آقا علیہ السلام سے پوچھا: یا رسول اللہ! ہمیں قرب قیامت کے اس دور فتن کی کچھ علامتیں بیان فرمائیں۔ تو آقا علیہ السلام نے فتنوں کے اس دور کی علامتیں بیان کرنا شروع کیں اور ہر جملے میں فرماتے رہے يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود اس دور کی علامت یہ ہے۔ فرمایا: اس دور کی علامت یہ ہے أَنْ يُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ يُکَذَّبَ الصَّادِقُ، اس دور کے دو فتنے ہوں گے، جب اللہ کا عذاب لگاتار اس قوم پر اترے گا، اس کی ایک علامت یہ ہے کہ اس سوسائٹی میں ایسا زمانہ، ایسا دور، ایسا نظام آ جائے گا کہ سچوں کو جھوٹا کہا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنا کے دکھایا جائے گا۔

اپنے ایمان سے کہیے کہ یہ اس سوسائٹی میں ہو رہا ہے کہ نہیں۔ پھر فرمایا :
يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود اس دور کی دوسری علامت یہ ہے:
أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ يُخَوَّنَ الأَمِيْنُ، کہ جو لوگ کرپٹ ہوں گے، یہ میرے آقا کے کلمات ہیں، جو خائن ہوں گے قوم امانتیں ان کے سپرد کرے گی، انہیں امانت اقتدار، امانت شرافت دی جائے گی اور جو سچے امانتدار ہوں گے انہیں خائن سمجھا جائے گا۔
پھر فرمایا : يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، پھر اس دور کی ایک علامت یہ ہے : أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ ، فرمایا : کہ بیگانوں سے لوگ تعلق جوڑیں گے، دور کے لوگوں سے تعلق جوڑیں گے اور خونی رشتوں سے تعلق توڑیں گے۔ بہت سے لوگ آپ کو نظر آئیں گے کہ جو خونی رشتے ہیں، جن کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے، بھلائی کرنی چاہیے، احسان کرنا چاہیے ان سے جھگڑا کرتے ہیں۔ اس نے میرے ساتھ یہ کیا، اس نے یہ کیا حسد کیا، میری شادی پر نہیں آیا، مجھے یہ کہا تو اپنے خونی رشتوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ناراض ہو کے رشتے توڑتے ہیں اور دور کے لوگوں سے رشتے جوڑتے ہیں۔ فرمایا: اس دور کی ایک علامت یہ ہو گی ۔
پھر فرمایا : يَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، اے ابن مسعود! ایک علامت یہ بھی ہوگی : أَنْ يَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْهَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا، فرمايا: ہر قبیلے اور ہر برادری اور ہر علاقے میں جو فاسق و فاجر، بدمعاش اور بدکردار لوگ ہیں انہیں قیادت دی جائے گی، انہیں لیڈر بنایا جائے گ ۔ اور آگے فرمایا : وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُهَا اور تاجروں کی انجمنیں بنیں گی، بازاروں کی کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے سربراہ بھی فاجر، بدمعاش لوگ ہوں گے۔ دوکاندار بازاروں کے بدمعاشوں کے ڈر سے اپنے انجنوں کے لیڈروں، ان بدمعاشوں کو، چوروں، غنڈوں کو بنا دیں گے۔ جیسے معاشرے کے دوسرے لوگ مفادات کی وجہ سے یا خوف و ہراس کو وجہ سے غنڈوں اور کرپٹ لوگوں کو اپنا لیڈر بنا دیں گے۔ تو مارکیٹوں، بازاروں میں بھی بدمعاشوں اور غنڈوں کو سربراہ بنا دیا جائے گا۔ سب کچھ یہ ہو رہا ہے کہ نہیں ؟
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا : ابن مسعود ایک علامت اور بھی ہے : أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ، کہ اس زمانے میں مسجدوں کو بڑا خوبصورت بنایا جائے گا، سنوارا جائے گا، سجایا جائے گا، مگر دل برباد اور ویران ہو جائیں گے۔ مسجدیں بڑی خوبصورت بنیں مگر وہ مسجدیں دلوں کو آباد کرنے کے لیے ہیں وہاں دل ویران ہو جائیں گے۔ یعنی ان مسجدوں سے ایمان کا نور نہیں ملے گا، ان مسجدوں سے دین کی ہدایت نہیں ملے گی، ان مسجدوں سے دل کی رونق نہیں ملے گی۔ ہماری کوشش کیا ہے کہ اس دور میں دلوں کی لٹی ہوئی دولت واپس آئے، چھن گئے ہیں جو نور ایمان وہ پلٹ کر سینوں میں واپس آئیں۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ اس دور میں یہ بھی ہو گا کہ مسجدیں جگہ جگہ، محلے محلے میں بن جائیں گی، خوبصورت بھی ہوں گی، زیادہ بھی ہوں گی، ممبر مسجدوں کے بڑی اونچے اونچے ہوں گے مگر وہاں سے ہدایت و روشنی نظر نہیں آئے گی۔ پھر فرمایا: یہ بھی اس کی علامت ہو گی کہ گانے بجانے کا سامان اور اہتمام سوسائٹی میں بڑا عام ہو جائے گا اور ہر طرف ہر محفل میں شراب پی جائے گی۔ شراب کا پینا اور شراب کا چلنا سوسائٹی میں کلچر بن جائے گا، عزت کی علامت بن جائے گا، استغفروا اللہ العظیم۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا :وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ طرح طرح کی کئی قسموں کی شراب بن جائے گی، آپ پچاس قسموں کے نام گن سکتے ہیں اور ہر کوئی اپنی جیب اور طاقت کے مطابق شراب پیئے گا، وہ زمانہ آئے گا اور پھر فرمایا: پولیس مین بہت ہو جائیں گے سوسائٹی میں اور چغلی لگانے والے جاسوس بڑھ جائیں گے، کوئی بات کی جھٹ کوئی سپاہی جاسوسی کرنے والے ایجنسیوں کو پہنچا دیں گے اور اس طرح تہمت لگانے والے، طعنہ دینے والے بڑھ جائیں گے۔ ہر شخص کے لیے سوسائٹی میں خوف و ہراس کا عالم ہو گا۔ اور آقا علیہ السلام نے فرمایا: ابن مسعود ایک علامت یہ بھی ہو گی کہ سوسائٹی میں کثرت کے ساتھ بدکاری کی اولاد پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کسی کو پتہ نہیں ہو گا کہ حقیقت میں یہ بیٹا کس کا ہے، اتنی بدکاری عام ہو گی۔ اب آپ اندازہ کیجئے کہ آقا علیہ السلام نے جو احوال بیان فرمائے اس زمانے میں پورا نقشہ ہمارے احوال کا کھینچا ہے کہ نہیں کھینچا ؟ کیا ہم اسی فتنوں کے دور میں داخل ہو گئے کہ نہیں ؟ ہماری انفرادی زندگی کے، عائلی زندگی کے، معاشرتی زندگی کے، معاشی اور سیاسی زندگی کے سارے احوال من و عن لفظ بلفظ وہی ہو گئے کہ نہیں جو آقا علیہ السلام نے فرمائے ۔ پھر کرنا کیا ہے، اس کے نقصانات سے بچنا کیسے ہے ؟ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے گی تو اگلا مضمون ان شاء اللہ وہ بھی آقا علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں شروع کریں گے ۔ کہ آقا علیہ السلام نے کیا تدبیر عطا کی حدیث نبوی میں، سنت مصطفی کیا تعلیم دیتے ہیں ، اپنی امت کو کیا راستہ بتایا ہے ان نقصانات سے بچنے کا۔(جاری ہے)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...