Friday, 16 March 2018

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ پنجم

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ پنجم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

با ئیسواں اعتراض اور اسکا جواب
درودتاج ہر طرح کی غلطی سے مبرا ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’درودتاج اگر الہامی بھی ثابت کردیاجائے تو اس کی لسانی غلطی‘ غلطی ہی رہے گی اور لغوی غلطی کی طرح اعتقادی غلطی بھی غلطی کہی جائے گی۔ محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں‘‘(انتہیٰ)
٭ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مضبوط دلائل کی روشنی میں ہم نے واضح کردیا کہ درودتاج میں کوئی لسانی غلطی نہیں۔ رہی اعتقادی غلطی تو درودتاج اس سے بھی پاک ہے۔ دراصل پھلواروی صاحب کے دل میں ’’دَاِفعِ الْبِلَائِ وَالْوَبَائِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْاَلَمِ‘‘کے الفاظ کانٹے کی طرح چُبھ رہے ہیں۔ جنہیں اب تک وہ الہامی سمجھتے رہے‘ مگر بقول ان کے ’’من بعد ماجائَ نی من العلم‘‘ اچانک وہ انہیں مشرکانہ سمجھنے لگے مگر یہ بھی علم کی بجائے ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔
٭ کوئی مسلمان حضورﷺ کودافع حقیقی نہیں سمجھتا۔ دافع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ رسول کریم ﷺ محض وسیلہ اور واسطہ ہونے کی حیثیت سے دافع مجازی ہیں بایں طورکہ حضورﷺ دفع عذاب کا سبب ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ
ترجمہ٭ یعنی آپ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو عذاب نہیں دے گا۔(الانفال)
٭ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ دفع عذاب کا وسیلہ ہیں نیز فرمایا
وَمَ کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
ترجمہ٭ اللہ تعالیٰ لوگوں کے استغفار کی وجہ سے بھی انہیں عذاب نہیں دے گا۔(الانفال)
٭ استغفار بھی حضور ﷺ ہی سے ملا۔ اس لئے جب تک مومنین کا استغفار ہے حضور ﷺ کا وسیلہ برقرار ہے۔ مدینہ دارالہجرۃ بننے سے پہلے ۔ یَثْرِبْ کہلاتا تھا۔ یثرب کا ماخذ ثَرْبْ ہے یا تَثْرِیْبُ۔ ثرب کے معنی ہیں فساد۔ وہاں کی ہر چیز فاسد تھی جو وہاں آتا ‘ زہریلے بخار اور شدید امراض میں مبتلا ہوجاتا تھا اگر اتفاقاً کوئی وہاں پہنچ جاتا تو لوگ اسے ملامت کرتے کہ تو یہاں بیماریوں اور زہریلے بخاروں میں مبتلا ہونے آیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب وہاں ہجرت کرکے پہنچے انہیں شدید ترین بخار لاحق ہوا وہ بیماری کی حالت میں مکے کو یاد کرکے روتے تھے۔ جب حضور ﷺ وہاں تشریف لائے اور حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا یہ حال دیکھا تو حضور ﷺ نے دعا فرمائی اور حضورﷺ کے مبارک قدموں کی برکت سے مدینہ کی بیماریاں دور ہوئیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
غُبَارُالْمَدِیْنَۃِ شِفَائٌ مِّنَ الْجُذَامِ
ترجمہ٭ مدینے کا غبار جذام سے شفاء ہے۔(الوفاء لابن الجوزی ج۱ ص۲۵۳ وفاء الوفا ج۱ ص۶۷)
٭ حضورﷺ کے طفیل مدینے کی مٹی جذام کیلئے شفاء ہوگئی۔
٭ رسول اللہ ﷺ کے طفیل‘ بلاء‘ وباء‘ قحط‘ مرض اور اَلَمْ کے دفع ہونے کی صداقت پر مندرجہ ذیل احادیث شاہد عدل ہیں۔
٭ جب حضورﷺ مدینے تشریف لائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ دونوں کو سخت بخار ہوگیا ۔ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی میں نے حضورﷺ کوبتایا حضور ﷺ نے دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ اَوْاَشَدَّ حُبًّا وَصَحِّحْھَا وَ بَارِکَ لَنَ فِیْ صَاعِھَا وَمُدِّھَا وَانْقُلْ حُمَّا ھَا نَا جْعَلْھَا بِالْجُحْفَۃِ
ترجمہ٭ یا اللہ مکے کی طرح مدینے کو ہمارا محبوب بنا دے بلکہ مکے سے زیادہ اور مدینے کی آب و ہوا ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کی صاع اور مُد یعنی غلہ اور پھلوں میں ہمارے لئے برکت فرما اور مدینے کی بیماریاں (یہود کی بستی) حُجفہ کی طرف منتقل کر دے۔(بخاری ج۱ ص۵۵۹)
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا میں نے ایک سیاہ فام پراگندہ سر عورت کو خواب میں دیکھا جو مدینے سے نکل کر حُجفہ میں پہنچ گئی
فَاَوَّلْتُ اَنَّ وَبَائَ الْمَدِیْنَۃِ نُقَلَ اِلَیْھَا
ترجمہ٭ میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ مدینے کی وباء حُجفہ کی طرف چلی گئی۔(بخاری ج۲ ص۱۰۴۲)
٭ یزیدبن ابی عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پندلی میں تلوار کی ضرب کا نشان دیکھا اس نشان کے متعلق میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا کہ یہ تلوار کی اس ضرب کا نشان ہے جو مجھے خیبر میں لگی تھی یہ ایسی ضرب تھی کہ لوگ کہنے لگے بس سلمہ اب شہید ہوئے۔ میں حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضور ﷺ نے اس میں تین مرتبہ پھونکا اس وقت سے اب تک مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔(بخاری ج۲ ص ۶۰۵ مشکوۃ ص۵۳۳)
٭ حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ ابو رافع یہودی کو قتل کرکے زینے سے نیچے اتر رہے تھے کہ اچانک گر اور انکی پنڈلی ٹوٹ گئی وہ فرماتے ہیں۔میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ دیا۔ سرکار ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا فرمایا فَمَسَحَھَا فَکَاَنَّمَا لَمْ اَشْتَکِھَا قَطُّ اپنا پائوں پھیلائو۔ میں نے اپنا پائوں پھیلا دیا۔ حضور ﷺ نے میری پندلی پر مبارک ہاتھ پھیر دیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی تکلیف کبھی پہنچی ہی نہ تھی۔(بخاری ج ۲ ص ۵۷۷)
٭ مسلم شریف میں ایک طویل حدیث وارد ہے جس کے آخری حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضورﷺ کا جُبہ مبارک نکالا اور فرمایا کَانَ النَبِیُّ ا یَلْبَسُھَا فَخَحْنُ تَغْسِلُھَا لِلْمَرْضٰی لِئَسْتَشْفِیَ بِھَا حضور ﷺ اسے پہنتے تھے اور ہم اس جبے کو پانی سے دھو لیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے اپنے بیماروں کیلئے شفا حاصل کریں۔(مسلم شریف ج۲ ص ۱۹۰)
٭ صحیحین و دیگر کتب احادیث میں باسانید کثیرہ یہ مضمون وارد ہے کہ عہد رسالت میں مدینے میں قحط پڑا۔ خطبہ جمعہ کے موقع پر حضور ﷺ سے باران رحمت کی دعا کیلئے عرض کیاگیا۔ حضورﷺ نے دعا فرمائی اور فورا ہی باران رحمت شروع ہوگئی اور اس کثرت سے بارش ہوئی کہ اگلے جمعہ کے موقع پر حضور ﷺ سے عرض کیاگیا کہ اب تو بارش کی وجہ سے لوگوں کے مکان گرنے لگے ہیں آپ ﷺ دعا فرمائیں کہ بارش رک جائے حضور ﷺ مسکرائے اور آسمان کی طرف اپنے دونوں مبارک ہاتھ اٹھا کر چاروں طرف اشارہ فرمایا اور دعا فرمائی ’’اَلّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا‘‘ حضورﷺ کے اشارے کے ساتھ بادل پھٹتا گیا اور صاف آسمان گول دائرے کی طرح نظر آنے لگا۔مدینہ میں بارش رک گئی۔ آس پاس جاری رہی(بخاری ج ۱ ص ۱۴۰‘۱۴۱‘۵۰۶)قحط دفع ہوا اور خشک سالی خوشحالی میں بدل گئی۔
٭ سلیمان بن عمرو بن احوص ازدی اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمارکرتے دیکھا رمی جمار فرما کر حضور ﷺ آگے بڑھے ایک عورت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی عرض کی حضورﷺ میرا بیٹا فاتر العقل ہے حضورﷺاس کیلئے دعا فرمائیں حضور ﷺ نے اس سے فرمایا پانی لے آ وہ ایک پتھر کے برتن میں حضور ﷺ کے پاس پانی لے آئی حضور ﷺ نے اسمیں لعاب دہن ڈالا اور اپنا چہرہ انور اسمیں دھویا پھر اسمیں دعا فرمائی پھر فرمایا یہ پانی لے جا ’’فَاغُسِلِیْہِ بِاٖء وَاسْتَشْفِی اللّٰہَ عَزَّوجَلَّ‘‘ اس پانی سے اسے غسل دے اور اللہ تعالیٰ سے شفاء طلب کر اس حدیث کی روایت کرنے والی صحابیہ سلیمان بن عمروبن احوص رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اس عورت سے کہا میرے اس بیمار بچے کیلئے اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دے وہ فرماتی ہیں میں نے اپنی انگلیوں سے تھوڑا سا پانی لے کر اپنے بیمار بیٹے کے بدن پر مل دیا چنانچہ وہ اعلی درجہ کا تندرست ہوگیا فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کے بیٹے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا وہ بہترین صحت کے ساتھ صحت یاب ہوگیا۔(مسند احمد ج۶ص۳۷۹ طبع بیروت)
٭ قارئین کرام نے آیت قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرما لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بلاء و وباء‘ قحط و مرض اور اَلَم کے دفع ہونے کا سبب بنایا۔ دافع حقیقی محض اللہ تعالیٰ ہے۔رسول اللہ ﷺ کمال عبدیت کے باعث عون الہی کا مظہر اتم و اکمل ہیں۔ اسی اعتبار سے درودتاج میں حضورﷺ کو ’’دَافِعِ الْبَلَائِ وَالْوَبَائِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالْاَلَمِ‘‘ کہا گیا جس میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ بلکہ یہ کمال عبدیت کا وہ بلند مقام ہے جس کی تفصیل کتاب و سنت کے مطابق نادِ علی کی بحث میں آرہی ہے۔

عوامی مقبولیت
٭ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ’’محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں’’ اس مقام پر قطعاً نامناسب ہے حقیقت یہ ہے کہ درودتاج محض عوام میں مقبول نہیں بلکہ خواص میں بھی مقبول ہے جسکی دلیل یہ ہے کہ پھلواروی صاحب کے مرکز عقیدت نے اسکی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے اپنی کتاب ’’صلوۃ و سلام‘‘ میں وہ واقعہ لکھا جسے پھلواروی صاحب من گھڑت اور ظنی کہہ رہے ہیں مگر وہ انکے لکھنے کا انکار نہ کرسکے جس سے صاف ظاہر ہے کہ پھلواروی صاحب کے والد بزرگوار جو طبقہ خواص سے ہیں ۔ درودتاج ان کے نزدیک مقبول ہے اور وہ اس کی مقبولیت کے قائل ہیں۔ اس کے باوجود پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’محض عوامی مقبولیت کسی چیز کی صحت کی ضمانت نہیں‘‘ گویا اپنے پیر و مرشد اور مرکز عقیدت کو خواص سے خارج کرکے عوام میں شامل کردینا ہے جو کسی’’خلف رشید‘‘ مرید صادق اور بے حد عقیدت رکھنے والے کے شایان شان نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ یہ اپنے مرشد کی عظمت کو بری طرح مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

تیئسواں اعتراض اور اسکا جواب
’’یَا اللّٰہ‘‘ کی ترکیب صحیح ہے
٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے علاوہ صلحاء امت اور بزرگان دین کے دیگر معمولات اور وظائف پھر بھی ایسے ہی لا یعنی اور لچر اعتراض کئے ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں ’’یا‘‘ عربی لفظ ہے اور اللہ بھی عربی لفظ ہے لیکن’’یا اللہ‘‘ کوئی عربی لفظ نہیں ۔ یہ نہ قرآن میں نہ حدیث میں اور نہ عربی لٹریچر میں۔ جب اے اللہ کہنا مقصود ہوتو اللہ پر نداء کا ’’یا ‘‘نہیں لاتے بلکہ ایسے موقع پر اَللَّھُمَّ کہتے ہیں پس جب وظیفے میں آپ ’’یا اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھیں بس سمجھ لیں کہ یہ کسی ایسے عجمی عربی دان کا لکھا ہوا ہے جو عربی زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں کا زیادہ فہم نہیں رکھتا۔ اب اس پر خواب‘ کشف اور برکات و تاثیرات کے کتنے ہی حاشیے چڑھائے جائیں غلطی‘ غلطی ہی رہے گی۔ درستی نہیں ہوجائے گی۔ انتہیٰ

فیوض اولیاء سے تنفیر کی سازش
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب نے کشف و کرامات اور روحانی فیوض و برکات کا مذاق اڑانے کیلئے واقعہ کے نام سے ایک مضحکہ خیز قصہ لکھ دیا۔ انداز تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی اصلیت قلبی عناد ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ آگرے میں سیدنا ابو العلی رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک مرجع خواص و عوام اور ایسی مشہور و معروف زیارت گاہ ہے کہ جس کے متعلق عقل سلیم تسلیم ہی نہیں کرتی کہ ان کے مزار پر حاضری کے قصد سے جانے والا ملا شوستری کی قبر پر جاکھڑا ہو۔ یہ سارا قصہ محض اس لئے تصنیف کیاگیا ہے کہ پڑھنے والے‘ بزرگان دین کی مزارات پر حاضری اور فیوض و برکات کے حصول کو محض ایک اضحو کہ سمجھ کر اس سے متنفر ہوجائیں۔ بقول پھلواروی صاحب اگر ان امور کی حمایت اور موافقت میں کشف و الہام اور خواب گھڑے جاسکتے ہیں تو میں عرض کروں گا کہ کیا ان امور کی مخالفت میں اس نوعیت کے قصوں سے حاشیہ آرائی نہیں کی جاسکتی؟
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ ’’یا‘‘ اور لفظ ’’اللہ‘‘ دونوں عربی ہیں مگر یا اللہ کوئی عربی لفظ نہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے اگر قرآن و حدیث میں ’’یََااَللّٰہُ‘‘ کا لفظ وارد نہیں ہوا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عربی زبان ہی سے خارج ہوجائے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ کسی لفظ کا قرآن و حدیث میں وارد نہ ہونا اس کے غلط یا غیر عربی ہونے کو مستلزم نہیں اور یہ بات بالکل بدیہی ہے ۔ پھلواروی صاحب ’’یَا اَللّٰہ‘‘کو غلط قرار دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ عربی لٹریچر میں بھی کہیں اس کا وجود نہیں۔ ان شاء اللہ ہم عنقریب ثابت کریں گے کہ ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کی ترکیب خالص عربی ہے اور یہ خالص عربی زبان کا کلمہ ہے۔ عرب کے لوگ ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کہتے تھے دیکھئے تفسیر بیضاوی میں ہے ’’وَاللّٰہپ اَصلْلُہٗ فَحُذِفَتِ الْھَمْزَۃُ وَعُوِّضَ عَنخھَا اْلاَلِفُ وَاللَّامُ وَلِذٰلِکَ قَیْلَ یَااَللّٰہُ بَالْقَطْعِ‘‘ یعنی لفظ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کی اصل ’’اِلٰہٌ‘‘ ہے۔ ’’اِلٰہٌ‘‘ کا ہمزہ حذف کرکے الف لام اسکے عوض میں لایاگیا۔ اسی لئے ’’ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ بالقطع کہا گیا(تفسیر بیضاوی علے ھامش شیخ زادہ ج۱ ص ۲۱ں۲۲ طبع ترکی) یعنی اس ہمزہ کو ہمزہ وصلی کی طرح ساقط نہیں گیا بلکہ ہمزہ قطعی قرار دے کر اس کے تلفظ کو برقرار رکھاگیا۔
٭ بیضاوی کے بعد کافیہ کی عبارت بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ علامہ ابن حاجب فرماتے ہیں قَالُوْا یَا اَللّٰہُ خَاصَّۃً (کافیہ بحث توابع المنادی) ملا جامی نے اسکی شرح میں فرمایا ہے لفظ ’’اَللّٰہ‘‘اصل میں ’’الہ‘‘ تھا۔ الہ کا ہمزہ حذف کرکے الف لام اسکے عوض میں لایاگیا جو اس کیلئے لازم ہے اور ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کہاگیا لفظ ’’ اَللّٰہ‘‘ کے سوا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس کے الف لام میں عوض اور لزوم دونوں باتیں پائی جائیں۔ کسی جگہ عوض ہے تو لزوم نہیں جیسے اَلنَّاسُ اور کہیں لزوم ہے تو عوض نہیں جیسے اَلنَّجْمُ یہ خاصہ لفظ ’’ اَللّٰہ‘‘ کا ہے کہ اسکا الف لام عوض میں بھی ہے اور وہ اس کیلئے لازم بھی ہے اسیلئے خصوصیت کیساتھ بالقطع ’’یَااَللّٰہُ‘‘ کہا جاتا ہے۔(شرح جامی ص ۱۱۰۔۱۱۱ طبع پشاور)
٭ پھلواروی صاحب عربی زبان میں ’’یَا اَللّٰہ‘‘ کا لفظ پائے جانے کے منکر ہیں۔ حالانکہ اہل عرب جب اَلّٰھُمَّ کی میم کو ساقط کردیتے تھے تو کہتے تھے ’’یَا اَللّٰہ اِغْفِرْلِی‘‘ (لسان العرب ج۱۳ ص۴۷۰ طبع بیروت) بلکہ یَللّٰہُ بھی بعض اہل عرب سے ثابت ہے(جو شاذ ہے) لسان العرب میں ہے قَال الْکِسَائِ یُّ اَلْعَرَبُ تَقُوْلُ یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلِی وَیَللّٰہُ اغْفِرْلِیْ(لسان العرب ج۱۳ ص۴۷۰ طبع بیروت)۔ آخر میں امام لنحاۃ ابو بشر عمر وبن عثمان سیبویہ کا ارشاد بھی سن لیجئے وہ فرماتے ہیں
وَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَا یَجُوْزُلَکَ اَنْتُنَادِیَ اسْمًا فِیْہِ اِلْالِفُ وَاللَّامُ اَلْبَتَّ ۃَ اِلَّا اَنَّھُمْ قَدْقَالُوْایَااَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا وَذٰلِہَ مِہْ قِبَلِ اَنَّہُ اسْمٌ یَلْزَمُہُ الٰاَلِفُ واللَّامُ لَائُفَارِقَانِہٖ وَکَثُرَنِیْ کَلَا مِہِمٌ
ترجمہ٭ جان لو کہ جس اسم پر الف لام ہو(بلا فصل)اسے ندا کرنا قطعاً جائز نہیں بجز اس کے کہ اہل عرب نے ’’ یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا‘‘ کہا ہے(اے اللہ ہمیں بخش دے) یہ صرف اس لئے کہ لفظ ’’ اَللّٰہُ‘‘ ایسا اسم ہے جس کیلئے الف لام لازم ہے کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہ استعمال ان کے کلام میں بہت کثیر ہے(کتاب سیبویہ ج۲ ص۱۹۵ طبع بیروت)
٭ ان تمام عبارات سے ثابت ہوا کہ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ عربی لفظ ہے اور یہ صحیح ہے اسے غلط کہنا قطعاً غلط ہے۔ اہل عرب اَلّٰھُمَّ کے علاوہ ’’یَا اَللّٰہ‘‘ بھی کہتے تھے ان کا مقولہ ’’یَا اَللّٰہُ اغْفِرْلَنَا‘‘ اس کا شاہد ہے اور استعمال ان کے کلام میں کثیر ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کی علمی بے مائیگی پر افسوس ہوتا ہے ’’کتاب سیبویہ‘‘ تو درکنا وہ فنون کی متداول کتابوں سے بھی واقف نہیں۔ ایسا نہ لسان العرب کا دیکھنا انہیں نصیب ہوا۔ فواحسرتاہ۔

چوبیسواں اعتراض اور اسکا جواب
معرف باللام پردخول حرف نداء
٭ پھلواروی صاحب کہتے ہیں’’اگر لفظ معرف باللام ہو تو یٰاَیَُھَا آئے گا‘‘ جیسے ’’یٰاَ ایُّھَاالنَّبِیُّ‘‘ (اس کے بعد فرماتے ہیں) ’’صرف اللہ ایک ایسا لفظ ہے جس پر نہ ’’یَا‘‘ آتا ہے نہ ’’اِیُّھَا‘‘ آتا ہے۔ اللہ جب منادی ہو تو اس کے آخر میں م آجاتا ہے یعنی اَللّٰھُمَّ ہوجاتا ہے‘‘(ص۱۸)
٭ پھلواروی صاحب نے اس عبارت میں اپنی علمی بے مائیگی اور ناسمجھی کا مظاہرہ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ جس اسم پر الف لام ہو جیسے اَلرََّحُلُ ‘ النَّبِیُّ‘‘ وغیرہ اس کو نداء کرنے کیلئے اَیُّھَا کا فاصلہ لانا پڑے گا۔ جیسے یٰاَ یُّھَالرَْجُلُ۔ یٰاَ یُّھَاالنَّبِیُّ(شرح جامی وغیرہ کتب نحو) بجز لفظ اللہ کے کہ اس کی نداء میں اَیُّھَا کے بغیر اَللّٰہُ کہا جائے گا۔ یا اس کے آخر میں میم مشددہ مفتوحہ شامل کرکے اَللّٰھُمَّ کہہ کر نداء کی جائے گی۔ یہ دونوں جائز ہیں۔ اہل عرب کے کلام میں مستعمل ہیں جس کا تفصیلی بیان دلائل کے ساتھ ہم ابھی ہدیہ قارئین کرچکے ہیں۔(جاری ہے)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...