Thursday, 15 March 2018

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات

اہل تشیع کا اعتراض نمبر 1 : کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع تھا.تو کیا یہ درست ہے کہ حضرت علی اور ان کے ہمراہ صحابہ کرام نے بیعت نہیں کی تھی جبکہ ایسا اجماع جس میں وہ شریک نہ ہوں اس پر خدا وند متعال نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ امام ابن حزم فرماتے ہیں : (لعنة اللہ علی کلّ اجماع یخرج منہ علی بن أبی طالب ومن بحضرتہ من الصحابة ).( المحلّٰی ٩:٣٤٥)
اس اعتراض کا جواب : پہلی بات یہ کہ ابن حزم کی اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہے لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی رضی اللہ عنہ نہ ہوں یا جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی کی موجودگی نہ ہو ۔

اجماع کے واسطے ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی اس بات سے متفق ہو بلکہ جس کو غالب اکثریت اپنائے اسے اجماع ہی کہیں گے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نہج بلاغہ میں قول ہے : فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا ۔
ترجمہ : اگر مہاجرين و انصار رضی اللہ عنہم کسی کی امامت پر اجماع کرلیں اور اسے پیشوا قرار دے تو اللہ تعالی کی رضا بھی اس میں شامل ہے ۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر لیا تھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کی خلافت متفق علیہ تھی ۔

قول ابن حزم : وَلَعْنَةُ اللَّهِ على كل إجْمَاعٍ يَخْرُجُ عنه عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ ۔
ترجمہ : اللہ کی لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی رضی اللہ عنہ نہ ہوں یا جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی کی موجودگی نہ ہو ۔

اول : علامہ ابن حزم کے یہ الفاظ کسی حدیث یا روایت سے نہیں ہیں بلکہ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں جس کی حیثیت ایک عالم کے قول کی ہے جس اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ ان الفاظ سے استدلال لینا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع نہیں تھا یقنن جہالت ہی ہے ۔
دوم : ابن حزم نے یہ الفاظ فقہ پر بحث کرتے ہوئے کہے ہیں جس میں ان کا مطلب تھا کہ کسی بھی فقہی مسئلہ میں اگر علی رضی اللہ عنہ کے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے موقف کو سائیڈ کردیا جائے تو ایسا فقہی اجماع کسی کام کا نہیں ہے ۔ ان کا مقصد یقننا فقہاء پر لعنت بھیجنا نہیں تھا ۔ اتنی سی بات ہے اس میں کہیں پر بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ پھر ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر علی رضی اللہ عنہ راضی تھے ۔ پھر بھی رافضیوں کا شک دور کرنے کے لئے بیعت صدیق کا احوال لکھ دیتے ہیں :
حضرت علی کا صدیق کی بیعت کرنے کا احوال

ابن كثير في البداية والنهاية (6\693. في أحداث سنة 11 : وقد اتفق الصحابة –رضي الله عنهم– على بيعة الصديق في ذلك الوقت حتى علي بن أبي طالب والزبير بن العوام –رضي الله عنهما ۔
ترجمہ : ابن کثیر الدایہ میں نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ حضرت ابی بکر صدیق کی بیعت پر متفق ہوگئے اور تو اور اس وقت علی ابن ابی طالب اور زبیر بن العوام نے بھی بیعت کرلی ۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)


امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : حدثني عبيد الله بن عمر القواريري حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى حدثنا داود بن أبي هند عن أبي نضرة قال لما اجتمع الناس على أبي بكر رضي الله عنه فقال ما لي لا أرى عليا قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له يا علي قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ثم قال أبو بكر ما لي لا أرى الزبير قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال يا زبير قلت ابن عمة رسول الله وحواري رسول الله قال الزبير لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : ابی ندرہ سے روایت ہے کہ جب لوگ ابی بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر رہے تھے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں علی رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکہ رہا پھر انصار کا ایک آدمی گیا اور علی رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ آگئے صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اے علی رضی اللہ عنہ آپ کہ سکہتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور آپ ان کے عمزاد ہیں تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑھائیں آپ نے ہاتھ بڑھایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔ پھر صدیق نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں زبیر کو نہیں دیکہ رہا انصار کا ایک آدمی گیا اور انہیں بلا کہ لایا صدیق نے کہا اے زبیر تم کہہ سکتے ہو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کے بیٹے ہو زبیر نے کہا اے خلیفہ رسول اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہا یا اور زبیر نے بیعت کرلی ۔(رضی اللہ عنہم)

یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے اسناد قوی ہیں پھر اس حدیث کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مستدرک (حدیث نمبر 4457 ، چشتی) مین نقل کیا ہے ان کہنا ہے کہ یہ حدیث شیخین کے طریقہ پر صحیح ہے ۔ پھر بیہقی نے اپنی کتاب اعتقادات جلد 1 ص 349-350 میں اسے ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اس کا مضمون بھی ایسا ہی ہے اور بیہقی کی یہ حدیث صحیح ہے ۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن (2-563) میں قیس بن العبدی سے نقل کرتے ہیں کہ قیس کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کو بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا انہوں نے اللہ کی تعریف کی اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لوگوں کے لئے قربانیوں کا زکر کیا پھر اللہ نے انہیں موت دی تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنی چاہئے تو انہوں ان کی بیعت کی میں نے بھی ان کی بیعت کی اور ان سے وفاداری کی وہ (مسلمان) ان سے خوش تھے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اچھے کام کئے اور جہاد کیا یہاں تک اللہ نے ان کو موت دے دی ان پر اللہ کی رحمت ہو ۔
شیعہ کتب سے حوالے

شیعہ مجتہد محمد بن حسن نوبختی فرق الشیعہ ص 30 پر لکہتے ہیں : ان علیا علیہ اسلام لھما الامر ورضی بذلک و بایعھما طائعا غیر مکرہ و ترک حقھ لھما فنحن راضون کما رضی لھ، لا یحل لنا غیر ذلک ولایسع منا احد الا ذالک و ان ولایۃ ابی بکر صارت رشدا وھدی ، لتسلیم علی ورضاہ ۔
ترجمہ : کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماں برداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے ۔ پس ہم بھی اس پر راضی ہیں جیسے وہ راضی تھے ۔ اب ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ھم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (رضی اللہ عنہ) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ہونے کی وجہ سے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی ۔


شیعہ عالم شیخ علی البحرانی منار الہدی ص 685 پر لکہتے ہیں : وكما ينقشع السحاب، فمشيت عند ذلك إلى أبي بكر فبايعته ونهضت في تلك الأحداث حتى زاغ الباطل وزهق وكانت كلمة الله هي العليا ولو كره الكافرون (2) فتولى أبو بكر تلك الأمور وسدد وقارب واقتصد، وصحبته مناصحا وأطعته فيما أطاع الله فيه جاهدا ۔
ترجمہ : یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ھو جائے ، میں ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی ۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ) کھڑا ھوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے ۔ پس جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ ، چشتی) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشین) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی ۔


شیعہ مجتہد امالی ص 507 میں شیخ طوسی نقل کرتے ہیں : فبايعت أبا بكر كما بايعتموه، وكرهت أن أشق عصا المسلمين، وأن أفرق بين جماعتهم، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده، وأنتم تعلمون أني أولى الناس برسول الله (صلى الله عليه وآله) وبالناس من بعده، فبايعت عمر كما بايعتموه ۔
ترجمہ : پس میں نے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی اُسی طرح بیعت کی ، جس طرح تم لوگوں نے کی ۔ اور میں نے یہ ناپسند کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے مابین کوئی پھوٹ یا تفرقہ پیدا ہو ۔ پھر ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے (خلافت) عمر (رضی اللہ عنہ) کو سونپی ، اور (حالانکہ) تم جانتے ہو کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے بعد اُن کے قریب ہم تھے ۔ پس پھر میں نے بھی عمر (رضی اللہ عنہ ، چشتی) کی اُسی طرح بیعت کی جس طرح تم لوگوں نے کی ۔


مشہور شیعہ عالم مجتہد شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ ص 114 پر لکہتے ہیں : وروي عن الباقر عليه السلام قال: فلما وردت الكتب على أسامة انصرف بمن معه حتى دخل المدينة، فلما رأى اجتماع الخلق على أبي بكر انطلق إلى علي بن أبي طالب عليه السلام فقال له: ما هذا؟ قال له علي: هذا ما ترى. قال له أسامة: فهل بايعته؟ فقال: نعم يا أسامة .
ترجمہ : امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ھے : جب اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو (نبی (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ہیں ۔ تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا : یہ کیا ھے؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے کہا : یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔ اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے پوچھا : کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے ۔


مشہور شیعہ مجتہد محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42 پر لکہتے ہیں : لا اشکال فیہ : انھ علی علیہ السلام بایع مستدفعا للشر و فارا من الفتنہ ۔
ترجمہ : اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ ، چشتی) نے (ابوبکر کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو ۔

اس کے علاوہ دوسری کتب اور نہج البلاغہ وغیرہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا ذکر موجود ہے ۔

چناچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے سا تھ تھے انہوں نے بنا کسی جبر کے بیعت کرلی تھی اور انصار و مہاجرین نے تو پہلے ہی بیعت کر لی تھی ۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تھا تو ابن حزم کی اس بات کا اطلاق خلافت صدیق رضی اللہ عنہ پر نہیں ہوتا اور ابن حزم صحیح ہیں جس اجماع میں علی رضی اللہ عنہشامل نہ ہوں وہ اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔ شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے امام کی بات مان لیں اور جس طرح نوبختی نے لکہا ہے کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے راضی ہوگئے تھے وہ ان کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے ۔ اسی طرح موجودہ متعصب شیعہ بھی ہٹ دہرمی چھوڑ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کو ھادیہ خلافت مان لیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہل تشیع کا اعتراض نمبر 2 : کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پرمسلمانوں کا اجماع قائم ہوا بلکہ وہ تو فقط ایک شخص حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اشارے پر قائم ہوئی ۔ اور اگر یہ بات درست ہو تو کیا تمام مسلمانوں پر ایسے شخص کی اطاعت کرنا واجب ہے جو اس وقت خلیفہ مسلمین بھی نہ تھا بلکہ اسلامی ملک کا ایک عام باشندہ اور دوسرے مسلمانوں کے مانند ایک مسلمان تھا ؟ اور اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی اطاعت نہ کرے تو کیسے اس کا خون مباح ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ ایک فرد قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر حجت ہے ؟ جبکہ ہمارے بہت سے علماء جیسے ابویعلیٰ حنبلی متوفٰی ٤٥٨ھ کہتے ہیں : لاتنعقد الاّ بجمھور أھل العقد والحلّ من کلّ بلد لیکون الرّضا بہ عاما، والتّسلیم لامامتہ اجماعا .وھذا مذھب مدفوع ببیعة أبی بکر علی الخلافة باختیارمن حضرھا ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنھا.( الأحکام السلطانیة : ٣٣.)
قرطبی کہتے ہیں : ((فانّ عقدھا واحد من أھل الحلّ والعقد..)). جامع احکام القرآن ١: ٢٧٢)

اس اعتراض کا جواب
اول : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم منعقد ہو چکا تھا جس کا ثبوت ہم نے اس سے پہلے کی گئی پوسٹ دے دیا ہے ۔
دوم : ابو یعلی ، قرطبی وغیرہ کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بیعت وقت ضروری نہیں کہ پررے ملک کے لوگ ہیں بیعت کریں بس ہر جگہ سے اہل حال و عقد اگر بیعت میں شریک ہوں تو یہ امامت اجماع پر ہی ہے اور پھر عقلن بھی یہ محال ہے کہ پورے ملک سے سب کے سب بیعت کریں ۔ اور اجماع کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ امت کی غالب اکثریت جس چیز کو اپنائے وہ لازم ہوتی ہے اجماع کے لئے ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ پر تمام امت متفق ہو کیوں کہ ایسا نا ممکن ہے ۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت تمام مہاجرین و انصار اور امت کی غالب اکثریت نے تسلیم کر لی تھی ۔ اس لئے ان کی خلافت کو ماننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے نہ ماننے والا شخص اس امت سے خارج ہو جاتا ہے ۔
سوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا و نماز پڑھاتے تھے وہ کوئی عام باشندے کیسے ہوسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ کی حیات ظاہری میں امام بنتے ہیں اور امام حج بھی ۔ چناچہ وہ کوئی عام باشندے نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا تو ابی بکر رضی اللہ عنہ کیسے ہوسکتے ہیں ہاں وہ وقتی امام ضرور تھے جب انصار اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور آپ کو مستقل طور پر اپنا امام بنا لیا تو وہ خلیفہ بلا فصل بن گئے ۔ ان کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر نہیں قائم ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ان کی حمایت کی بلکہ انصار کے و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکمل مشورہ کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تو وہ اس پر راضی تھے ۔ اکیلے سیدنا عمر آپ کو خلیفہ کسیے بنا سکتے ہیں ۔
سیدنا فاروق اعظم و سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر کا نام خلافت کے لئے تجویز کیا جیسے انصار نے سیدنا سعد بن عبادہ کا نام تجویز کیا تھا ۔ جب انصار بھی سیدنا صدیق کی بیعت ہر راضی ہوگئے اور ان کے امیدوار نے ہاتھ اٹھا لیا پھر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اگر امید وار تھے انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیا جیسے نو بختی لکہتے ہیں انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تسلیم کرلیا وہ ان کے لئے دستبردار ہوگئے اور ابو بکر سے راضی تھی ۔ تو مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ بنی ہاشم نے بھی بیعت کرلی ۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب مسلمانوں نے اجماع کرلیا اس کی تفصیل ہم پہلے مضمون میں لکھ چکے ہیں جو لوگ غائب تھے یعنی اس وقت مدینہ میں نہ تھے یا دوسرے علاقون کے تھے تو انہوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت ان کے عمال یعنی گورنروں کے ذریعے کی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 3 : آپ کہتے ہیں : ابوبکر کی بیعت تمام مہاجرو انصار کے اجماع کے ذریعہ حاصل ہوئی ، لیکن عمر بن خطاب نے کہا ہے : تمام مہاجرین، ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے ، علی (علیہ السلام) ، زبیر اور ان کے چاہنے والے بھی موافق نہیں تھے۔ ” حین توفی اللہ نبیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان الانصار خالفونا ، و اجتمعوا باسرھم فی سقیفة بنی ساعدة و خالف عنا علی والزبیر و من معھما ۔ آپ کا دعوی صحیح ہے یا عمر بن خطاب کا دعوی صحیح ہے؟

اس اعتراض کا جواب : ہم اس بات کو اس سے قبل لکھے گئے مضامین میں ثابت کرچکے ہیں کہ تمام انصار و مہاجرین نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (رضی اللہ عنہم) کی بیعت کر لی تھی اور وہ سب کے سب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلافت کے کاموں میں لگ گئے تھے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت : یہ ایک طویل روایت ہے ہم اس کا ضروری حصّہ یہاں صحیح بخاری س کتاب الحدود باب رجم الحبلی ے نقل کردیتے ہیں : إِنَّمَا کَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَکْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ کَانَتْ کَذَلِکَ وَلَکِنَّ اللَّهَ وَقَی شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْکُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَکْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِي بَکْرٍ يَا أَبَا بَکْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی إِخْوَانِنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَکَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْنَا نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَکُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا يُوعَکُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَکَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِکُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَکْرٍ وَکُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی رِسْلِکَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَکَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّی سَکَتَ فَقَالَ مَا ذَکَرْتُمْ فِيکُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَکُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَکْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا کَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِکَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَی قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَکْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْکُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّی فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَکَ يَا أَبَا بَکْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ
ترجمہ : تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی اور پھر پوری ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن ﷲ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جیسی فضیلت ہو، جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے- اس خوف سے کہ وہ قتل کردیے جائیں گے جس وقت ﷲ نے اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر ہے– مگر انصار نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور حضرت علی وزبیر نے بھی ہماری مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکر کے پاس جمع ہوئے تو میں نے ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ہم لوگ اپنے انصار بھائیوں کے پاس چلیں، ہم لوگ انصار کے پاس جانے کے ارادے سے چلے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک بخت آدمی ہم سے ملے، ان دونوں نے وہ بیان کیا جس کی طرف وہ لوگ مائل تھی پھرانہوں نے پوچھا اے جماعت مہاجرین کہاں کا قصد ہے ہم نے کہا کہ اپنے انصار بھائیوں کے پاس جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قریب جاؤ تم اپنے امر کا فیصلہ کرو میں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس جائیں گے چناچہ ہم چلے یہاں تک کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو ان کے درمیان دیکھا کہ کمبل میں لپٹا ہوا ہے میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ سعد بن عبادہ، میں نے کہا کہ ان کو کیا ہوا لوگوں نے عرض کیا کہ ان کو بخار ہے ہم تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ان کا خطیب کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور ﷲ کی حمدوثناء کرنے لگا جس کا وہ سزاوار ہے- پھر کہا امابعد، ہم ﷲ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین وہ گروہ ہو کہ تمہاری قوم کے کچھ آدمی فقر کی حالت میں اس ارادہ سے نکلے کہ ہمیں ہماری جماعت کو جڑ سے جدا کردیں اور ہماری حکومت ہم سے لے لیں- جب وہ خاموش ہوا تو میں نے بولنا چاہا، میں نے ایک بات سوچی رکھی کہ جس کو میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا- اور میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا، جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی وہ مجھ سے زیادہ بردباراور باوقار تھے- خدا کی قسم جو بات میری سمجھ میں اچھی معلوم ہوتی تھی اسی طرح یا اس سے بہتر پیرایہ میں فی البدیہہ بیان کی یہاں تک کہ وہ چپ ہوگئے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے جو خوبیاں بیان کی ہیں تم ان کے اہل ہو لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش کے لئے مخصوص ہے یہ لوگ عرب میں نسب اور گھر کے لحاظ سے اوسط ہیں میں تمہارے لئے ان دو آدمیوں میں ایک سے راضی ہوں ان دونوں میں کسی سے بیعت کرلو، چناچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے (عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) مجھے اس کے علاوہ انکی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی، خدا کی قسم میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا، یا ﷲ مگر میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہم اس کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں اے قریش ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے شوروغل زیادہ ہوا اور آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ مجھے اختلاف کا خوف ہوا میں نے کہا اے ابوبکر اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر انصار نے ان سے بیعت کی ۔

اب یہ اعتراض کرنے ولا عقل کا دشمن ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے سے پہلے کا حال بتا رہے ہیں ظاہر اس وقت وہ خلیفہ نہیں تھے تو اس وقت اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔ یہ سراسر جھوٹ و کذب ہے کہ تمام مہاجرین رضی اللہ عنہم ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کہا بلکہ صرف حضرت علی و حضرت زبیر رضی اللہ عنہما اور کچھ اور لوگ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھےمخالف وہ بھی نہیں تھے انہیں جیسے پتا چلا بیعت کے لئے آگئے ۔ لیکن جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار نے اجماع کرلیا اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو تھے انہوں نے بھی بیعت کی ۔ تو عقل کے دشمن کیا یہ اجماع نہیں ہوا سب نے بیعت کی ۔ اس بات سے کس کو انکار ہے کہ انصار رضی اللہ عنہم نے اپنا خلیفہ چننے کے لئے ہی اجتماع کیا تھا اور پھر اس بات سے کس کو انکا ر ہے کہ سیدنا علی و زبیر رضی اللہ عنہما بھی الگ تھے لیکن جب ان سب لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو پھر یہ اجماع ہی ہوا نہ ۔ اب پتہ نہیں کہ شیعہ اجماع کسے کہتے ہیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 4 : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)
اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ ( مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں .(رضی اللہ عنہم)

اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔

بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت :

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔
ترجمہ : عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔

حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ 448)

اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔

باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔

شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کوحق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق ہر ہیں ۔
لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔۔۔۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 5 : یہ ہے کہ حضرت علی اورحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو جھوٹ ، دھوکے ، خیانت ، گناہ اور پیمان شکنی پر استوار جانتے تھے .اور ہمیشہ اس نظریئے پر باقی رہے ۔
اس اعتراض کا جواب : پہلی بات یہ ہے کہ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد فدک معاملہ ہے کہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہارے اس ملکیت میں خیانت کی ۔ یہاں خلافت کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے اور نہ ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقصد خلافت ہے ۔ یہ روایات تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ ہر جگہ ایک جیسے ہیں ہیں ہم ایک روایت پیش کر کہ اس کا مطلب یہاں لکھ دیتے ہیں ۔
روایات صحیح بخاری : صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات ، باب ٣ ، باب حبس نفقة الرّجل قوت سنتہ علی أھلہ ۔ اس باب میں یہ الفاظ ہیں : فقال عباس يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا‏ ۔ یعنی عباس رضہ نے کہا اے امیر المومنین میرے اور اس (علی رضہ) کے مابین فیصلہ کردیں : ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها أبو بكر يعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنتما حينئذ ـ وأقبل على علي وعباس ـ تزعمان أن أبا بكر كذا وكذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله يعلم أنه فيها صادق بار راشد تابع للحق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم توفى الله أبا بكر فقلت أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر،‏‏‏‏ فقبضتها سنتين أعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جئتماني وكلمتكما واحدة وأمركما جميع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جئتني تسألني نصيبك من ابن أخيك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأتى هذا يسألني نصيب امرأته من أبيها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقلت إن شئتما دفعته إليكما على أن عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل به فيها أبو بكر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبما عملت به فيها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منذ وليتها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإلا فلا تكلماني فيها فقلتما ادفعها إلينا بذلك‏.‏ فدفعتها إليكما بذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنشدكم بالله هل دفعتها إليهما ۔
ترجمہ : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور اللہ جنتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص، محتاط ونیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لئے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں ۔
اس میں الفاظ ہیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ فدک کے مسلئے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ سچے اور راست باز تھے ۔ اب دیکہیں کہ جب پہلے خود ہی حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ یہ مال فئی ہے ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا غلط کیا ۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوالیہ الفاظ ہیں کیوں کہ اس جائیداد پر حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما نے جھگڑا کیا تو ایک دوسرے کو بہت الفاظ کہے اس صورت حال کو دیکہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ تم لوگوں کا آپس میں یہ حال ہے ہھر تم لوگ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خطا کار سمجھتے ہوگے ۔ اس لئے انہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھا ۔ یہاں اس پورے قضیئے میں خلافت کا سرے سے ذکر ہیں نہیں تو یہ سوال کہاں پیدا ہوا کہ علی و عباس رضوان اللہ علہما سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافت دھوکہ اور خیانت جانتے تھے ۔ یہاں پورہ قصہ فدک کی آمدنی کا ہے ۔
اس بارے میں علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکہتے ہیں وقيل هي كلمة تقال في الغضب لا يراد بها حقيقتها ۔ یہ الفاظ اکثر غصہ میں بولے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ کیوں کہ حضرت عمر ، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہم کے آپس میں جھگڑے اور پھر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے غصے میں آکر کہنے لگے کہ کیا تم ابی بکر و مجھ رضی اللہ عنہما کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہو ؟ مطلب یہ ان سے سوال ہے ۔ باقی علی وہ عباس رضی اللہ عنہما ایسا سمجھتے تھے اس کا کہیں ذکر نہیں ۔ روزمرہ کی زندگی میں ایسا عام ہوتا ہے کہ آپ اپنے والد کو کچھ ایسا کہ دیتے ہیں تو وہ آپ سے کہتے ہیں کہ کیا تم سجمتے ہو کہ میں نے جھوٹ بولا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے والد نے جہوٹ بولا ۔
روایت صحیح مسلم : صحیح مسلم کی روایت بھی ویسی ہی ہے : جب حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے فدک کے معاملے میں جہگڑا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تمثیلن کہا کہ : چناچہ ابو عبداللہ محمد بن خلفہ ابی مالکی متوفی 828 اکمال اکمال العلم جلد ۵ ص 78 پر لکہتے ہیں کہ : یہاں پر حمزہ محذوف ہے اور اس کا ترجمہ ہوگا کہ کیا تم نے ابی بکر کو کاذب خائن اور کنہگار سجہا تھا اور یہ استفہام انکاری ہے یعنی جب تم اگرتم انہیں اور مجھے ایسا نہیں نہیں سمجھتے تو اس پر آپس میں بار بار جھگڑا کیوں کرتے ہ و۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب ایک دفعہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث پیش کی ، اس کے بعد تم دونوں حضرات دوبارہ میرے پاس مجھ سے فیصلہ کروانے آئے ہو ، تو اس کا مطلب تو یہی بنتا ہے کہ تم دونوں نے انہیں جھوٹا سمجھا ۔ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کہ ہوسکتا ہے ہمارے لئے کوئی راہ نکل آئے ۔ معاذ اللہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جھوٹا نہیں سمجھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے اس طرح کہا کہ ایک بار جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے معاملہ واضح کر دیا ہے ، تو پھر مجھ سے دوبارہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔ پھر آگے سیدنا عمر رضہ فرماتے ہیں : والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفي أبو بكر وأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي أبي بكر فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق۔۔۔۔ فوليتها أن عليكما عهد الله أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذتماها بذلك قال أكذلك قالا نعم ۔
ترجمہ : یعنی حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا اللہ جانتا ہے کہ ابی بکر سچے اور ہدایت یافتہ اور حق کے پیرو تھے ان کی جب وفات ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ابی بکر کا ولی ہوا پھر کیا تم لوگ مجھے بھی کاذب خائن سمجھتے ہو اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں سچا اور ہدایت یافتہ اور حق کا پیرو ہوں تم لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا میں نے تمہیں اس شرط کے ساتھ دیا کہ تم اللہ اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے طریقے پر اسے عمل میں لاؤ کیا ایسا ہے انہوں (علی و عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا ہاں ایسا ہے ۔
یہاں حضرات علی و عباس رضی اللہ عنہما کی ہاں اس بات کا اقرا ر کر رہے ہیں کہ وہ حضرت ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سچا ہدایت یافتہ اور حق کا پیرو سمجھتے تھے ان کا مطالبہ بس یہ تھا کہ ان کے درمیاں یہ زمین تقسیم کی جائے اور وہ اس میں ویسا عمل کریں جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ۔
اب شیعہ حضرات یہاں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس طرح اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا ہے اہل سنت نے اس طرح عمر و ابی بکر رضی اللہ عنہما کا نہیں کیا ۔ ایسا نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تو کسی اور نے الزام لگایا کہ وہ چور ، خائن گناہ گار ہیں اور یہ الزام ان کے چچا نے ان پر لگائے جو ان کے گھر کے آدمی تھے تب ان کا اور عباس رضی اللہ عنہما کا دفاع کرنا ضروری ہے جب کہ حضرت عمر و ابی بکر رضی اللہ عنہما پر ایسا الزام کسی نے نہیں لگایا اور نہ علی و عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا کیا بلکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود کا کلام ہے جو ان کے جھگڑے کی وجہ سے غصہ میں بولے تھے ۔ اس لئے علماء نے کہا کہ یہ آپ نے غصہ میں بولے تھے اور پھر یہ ان کا سوالیہ انداز تھا ۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ پر الزام لگایا نہ ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ پر الزام لگایا ۔ آپ نے خود سوال کیا اور پھر اس کا جواب ہی خود دیا کہ نہ تو میں ایسا ہوں نہ ہی ابی بکر ایسے تھے پھر علی و عبا س رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا ایسا ہے تو انہوں نے کہا ہاں ایسا ہے ۔ بس بات ختم ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
شیعہ حضرات کا اعتراض نمبر 6 : یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا (کلمتکما واحدة) لکھ دیا تاکہ یوں خلافت شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں اہل بیت پیغمبر علیہم السّلام کی منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں ؟
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب خمس ، نفقات ،اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت کو نقل توکیا لیکن اس میں تبدیلی کردی .کتاب نفقات میں لکھا ہے ( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : ( ثم ّ جئتمانی وکلمتکما واحدة )
اس اعتراض کا جواب : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدیثین علیہم الرّحمہ نے یہ الفاظ مختلف سندوں کے ساتھ نقل کئے ہیں ضروری نہیں کہ انہوں یہ الفاط حذف کر دئے ہوں ہر راوی کا کلام اپنا ہوتا ہے حدیث کا مفہوم و مقصد تو وہی رہتا ہے لیکن راوی کے بیان مختلف ہوتا ہے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی سندیں یہ ہیں : صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات : حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ۔
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة : حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس النصري وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔
کتاب الفرائض : حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔
کتاب الخمس : حدثنا إسحاق بن محمد الفروي حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير ذكر لي ذكرا من ۔
كتاب المغازي » باب حديث بني النضير : حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ۔
یہاں تقریبا ہر سند ہی الگ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کو بیان کرنے میں جو فرق ہے وہ راویوں کی وجہ سے ہو ۔ اب اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگر یہ الفاط حدیث میں سے ختم کردئے ہیں تو انہوں نے اس کو راوی کا کلام ہی سمجہا ہوگا مثلا۔ ایک روایت راوی کے الفاظ کچھ اور ہونگے دوسری روایت میں دوسرے راوی کے الفاظ کچہ اور ہونگے اور پھر تیسری روایت میں راوی نے کذا کذا وغیرہ کہ کر الفاظ بیان کردئے ہونگے کیوں کہ بعض اوقات ہم ایسے کہ دیتے ہیں کہ اس نے ایسا ایسا کہا (اب اس ایسا ایسا کو پھر راویون نے اپنے اندازوں پر بیان کیا ہوگا کسی نےکہا ہوگا کہ چور ، خائن تو کسی نے کہا ہوگا غاصب وغیرہ)۔ تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھہا ہوگا کہ یہ راویوں کی ہی بیان کردہ باتیں ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا کسی کو صحیح معلوم نہیں اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہتے ہوئے یہ الفاط بیان نہیں کئے ہوں ۔ کیوں کہ انہیں راویوں کے مختلف اندازوں کو بیان کرنے کے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہنا ہی آسان لگا ہوگا ۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت متفق علیہ ہے ۔ یہی بات الماورزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم جلد اول ص 90 پر ان سے نقل کرتے ہیں کہ انہون نے کہا اسی وجہ بعض اہل علم نے اپنے نسخہ میں ان الفاظ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس کو راوی کا وہم قرار دیا ۔ جبکہ صحیح مسلم کی دو سندوں کے راوی الگ ہیں اس لئے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کرنے والے نے یہ الفاظ نہیں کہے ہوں اور صرف کذا و کذا کہا ہو ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...