Friday 23 March 2018

درس قرآن موضوع آیت اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ سورہ نور

0 comments
درس قرآن موضوع آیت اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ سورہ نور

اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصْبَاحٌ ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَیَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثٰلَ لِلنَّاسِ ؕ وَاللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙسورہ نور آیت نمبر 35﴾
ترجمہ : اللّٰہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللّٰہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللّٰہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے اور اللّٰہ سب کچھ جانتا ہے ۔

اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ : اللّٰہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے ۔ نور اللّٰہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کے اس حصے کے معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا ہادی ہے تو زمین و آسمان والے اس کے نور سے حق کی راہ پاتے ہیں اور اس کی ہدایت سے گمراہی کی حیرت سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا : ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو منور فرمانے والا ہے اور اُس نے آسمانوں کو فرشتوںسے اور زمین کو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے منور کیا ۔ (تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳/۳۵۳۔ ، چشتی)

مَثَلُ نُوْرِہٖ: اس کے نور کی مثال ۔ بعض مفسرین کے نزدیک اللّٰہ تعالیٰ کے نور سے مؤمن کے دل کی وہ نورانیت مراد ہے جس سے وہ ہدایت پاتا اور راہ یاب ہوتا ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے اس نور کی مثال ہے جو اس نے مؤمن کو عطا فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس نور سے قرآن مراد لیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ اس نور سے مراد سیّد ِکائنات، افضلِ موجودات، رحمت ِعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔

نور کی مثال کے مختلف معانی

اہلِ علم نے اس آیت میں بیان کی گئی مثال کے کئی معنی بیان فرمائے ہیں،ان میں سے دو معنی درج ذیل ہیں :
(1) نور سے مراد ہدایت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایت انتہائی ظہور میں ہے کہ عالَمِ محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس ہو، اس فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی بہتر اور پاک صاف زیتون سے روشن ہوتا کہ اس کی روشنی نہایت اعلیٰ اور صاف ہو ۔

(2) یہ سید المرسلین، محمد ِمصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نورکی مثال ہے۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ اس آیت کے معنی بیان کرو۔ انہوں نے فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مثال بیان فرمائی ۔ روشندان (یعنی طاق) تو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ شریف ہے اور فانوس، قلبِ مبارک اور چراغ، نبوت ہے جوکہ شجر ِنبوت سے روشن ہے اور اس نورِ محمدی کی روشنی کمالِ ظہور میںاس مرتبہ پر ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نبی ہونے کا بیان بھی نہ فرمائیں جب بھی خَلْق پر ظاہر ہوجائے ۔
اور حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ روشندان تو دو عالَم کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ مبارک ہے اور فانوس قلب ِاَطہر اور چراغ وہ نور جو اللّٰہ تعالیٰ نے اس میں رکھا کہ شرقی ہے نہ غربی نہ یہودی، نہ نصرانی، ایک شجرئہ مبارکہ سے روشن ہے، وہ شجر ہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے دل کے نور پر نورِ محمدی، نور پر نور ہے۔
حضرت محمد بن کعب قرظی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ روشن دان اور فانوس تو حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور چراغ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور شجرۂ مبارکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کہ اکثر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کی نسل سے ہیں اور شرقی وغربی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہ یہودی تھے نہ عیسائی، کیونکہ یہود ی مغرب کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور عیسائی مشرق کی طرف۔ قریب ہے کہ محمد ِمصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مَحاسِن و کمالات نزولِ وحی سے پہلے ہی مخلوق پر ظاہر ہو جائیں۔ نور پر نور یہ کہ نبی کی نسل سے نبی ہیں اور نور ِمحمدی نورِ ابراہیمی پر ہے ۔ (تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳/۳۵۴، چشتی) اس مثال کی تشریح میں ان کے علاوہ اور بھی بہت اَقوال ہیں ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کا خلاصہ ایک شعر میں سمو دیا، چنانچہ فرماتے ہیں :
شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا ۔۔۔۔ تیری صورت کے لئے اترا ہے سورہ نور کا

مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ : برکت والے درخت زیتون سے۔} زیتون کا درخت انتہائی برکت والاہے کیونکہ اس میں بہت سارے فوائد ہیں، جیسے اس کا روغن جس کو زَیت کہتے ہیںانتہائی صاف اور پاکیزہ روشنی دیتا ہے۔سر میں بھی لگایا جاتا ہے اور سالن کی جگہ روٹی سے بھی کھایا جاتا ہے۔ دنیا کے اور کسی تیل میں یہ وصف نہیں۔ زیتون کے درخت کے پتے نہیں گرتے۔ یہ درخت نہ سرد ملک میں واقع ہے نہ گرم ملک میںبلکہ ان کے درمیان ملک شام ہے کہ نہ اُسے گرمی سے نقصان پہنچے نہ سردی سے اور وہ نہایت عمدہ و اعلیٰ ہے اور اس کے پھل انتہائی مُعْتَدِل ہیں ۔ (تفسیر خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳/۳۵۳-۳۵۴، چشتی)

زیتون سے متعلق حضرت ابو اسید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو یہ مبارک درخت ہے ۔ (ترمذی، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی اکل الزیت، ۳/۳۳۷، الحدیث: ، ۱۸۵۹ ، چشتی)

ملحدین کا اعتراض : بہت سے مسلمان یہ خیال کرتے ہیں کہ "" میرا رب نور ہے "" جب کہ اللہ پاک نے اس آیت میں انسانوں کو اللہ پاک کے لیے مثالیں گھڑنے سے منع فرمایا ہے۔۔۔۔ اللہ پاک نور ہے یا نہیں ۔۔۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔ اور نہ اللہ پاک نے انسانوں کو بتایا ہے کہ وہ نور ہے۔۔۔۔ چنانچہ اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اللہ پاک کو نور نہ کہے اور نہ ہی اللہ پاک کے لیے مثالیں گھڑیں ۔۔۔ اللہ پاک نے قرآن میں نور کے ساتھ مثال دی مگر وہ ایک مثال ہے اور اللہ پاک خود کے لیے کہہ سکتا ہے مگر اللہ پاک نے انسانوں کو مثالیں گھڑنے سے منع فرمایا ہے ۔

اس اعتراض کا جواب : اس آیت کریمہ سے غلط مفہوم اخذ کیا گیاہے ۔ اللہ کےلیئے مثال گھڑنا الگ چیز ہے اوراس کی اپنی بیان کردہ بات تسلیم کرنا دوسری چیز ہے ۔ ﴿اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ [النور: 35] یہ ہم نے مثال نہیں گھڑی اللہ کی بیان کردہ حقیقت ہے ۔ ان حقائق سے کوئی مسلمان کیسے انکار کرسکتا ہے ؟ اس اعتراض میں سراسر دین سے لاعلمی اور جہالت ہے ۔ فَلَا تَضْرِبُوا لِلّٰهِ الْأَمْثَالَ (النحل:74) میں اللہ کےلیے خودساختہ مثالوں اور تشبیہوں سے روکا گیا ہے نہ کہ ان مثالوں سے جو اللہ نے اپنے لیئے خود بیان کی ہیں چنانچہ ارشادِ باری ہے،لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (النحل:60) بری مثال تو ان لوگوں کے لئے ہےجو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اللہ کے لئے تو بلندتر مثال ہے اور وہ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔اللہ تو نور ہے لیکن اس نور کو ہم کسی اور نور سےتشبیہ نہیں دے سکتے اورنہ کسی کے نور کو اللہ کے نور سے تشبیہ دے سکتے ہیں ۔

نورچارقسم کا ہوتا ہے

(1) مخلوق کانور جیسے فرشتے، روشن چیزوں کا نور جیسے سورج، چاند، ستاروں اور چراغ یا برقی قمقموں کا نور۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ایسے نور کے بغیر انسان ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا ۔

(2) آنکھ کا نور جس کی عدم موجودگی میں روشن چیزوں کا نور بے کار ہوتا ہے۔ سورج نکلا ہوا ہو تب بھی آنکھ کے اندھے کو کوئی چیز نہیں آتی ۔

(4) وحی یا علم دین کانور جس کی عدم موجودگی میں انسان ہدایت کے نور سے استفادہ نہیں کرسکتا جس طرح ایک اندھا سورج کی روشنی میں بھی ظاہری اشیاء کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح دل کے اندھے کے لئے تعلیمات الٰہیہ بے کار ثابت ہوتی ہیں ۔

(4) خالق کانور جسے اللہ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا۔جیسا کہ اوپر دی گئی آیتِ قرآنی سے واضح ہے ۔ مزید تائید رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درج ذیل فرمان سے بھی ہوجاتی ہے۔ : عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ : نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ ۔ (صحیح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانَ، بَابٌ فِي قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» ، وَفِي قَوْلِهِ: «رَأَيْتُ نُورًا»(178) ۔ ترجمہ : حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔ جب اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی فرما دیا کہ’’ اللہ نور ہے‘‘ تو پھر اس سے بڑھ کر مزید کس شہادت کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔