رجب کے کونڈے ایصال ثواب اور جائز ہیں : ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
کونڈوں کی اصل ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے جواز پر بےشمار دلائل ہیں۔ یہ ایصالِ ثواب امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاتا ہے جوکہ جائز ہے۔ 22 رجب کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط۔ ہمارے ہاں بعض جہلاء نے کونڈوں کے بارے میں جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
22 رجب کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں۔ فقہائے اسلام فرماتے ہیں:
الاصل فی هذا الاباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او صدقه او غيرها عند اهل السنه والجماعه، لما روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و الاخر عن امته ممن اقربو حدانية الله تعالیٰ.(فتح القدير، ج : 3، ص : 65)
اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے۔
ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔ کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں، اس جگہ کھائیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے۔ جو چاہے کھائے۔ مسلم، غیر مسلم سب کو دیں، ثواب مل جائے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں اس دن یعنی بائیس(22) رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے اور اہلِ تشیع دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہیں۔ یہ الزام چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے:
اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔
دوم کسی کے مرنے پر کوئی مخالف حلوہ پوری پکا کر ختم نہیں دلواتا اور ایصال ثواب نہیں کرتا۔ پھر شیعہ کیا پاگل ہیں کہ اپنے مخالف کا ختم دلاتے اور ایصال ثواب کرتے ہیں۔
سوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال تک حکومت کر کے، آسودگی کی زندگی بسر کر کے، اپنے اہل و عیال میں طبعی موت کی صورت میں فوت ہوئے۔ اس میں دشمن کی خوشی کی کیا بات ہو گی؟ اس پر مخالفین کا بغلیں بجانا چہ معنی دارد؟ کیا کبھی انہوں نے معاذ اللہ نہ مرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وفات پر خوشیاں منائی جائیں۔
چہارم ہم نے کسی شیعہ کو کبھی خوشیاں مناتے نہیں دیکھا، ختم دلانا اور بات ہے۔
آیئے رجب کے کونڈوں کے متعلق مزید جانتے ہیں : مٹی کے برتن میں میٹھی چیز تیار کرکے اس پر فاتحہ کرکے اس کا ثواب حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کو ایصال کرنا کونڈے کی نیاز کہلاتی ہے۔
عرصہ دراز سے مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ 22 رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے کھیر، پوری پکاکر اس پر فاتحہ پڑھ کر مسلمانوں کو کھلایا جاتا ہے۔
اس کی کوئی پابندی نہیں (سونے اور چاندی کے برتن کے علاوہ) کسی بھی برتن میں کھلا سکتے ہیں۔ مٹی کے برتن کی کوئی قید نہیں۔
اس نیاز کو گھر سے باہر بھی اپنے عزیزوں، رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں میں بھیج سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ گھر سے باہر اس نیاز کو نہیں لے جاسکتے۔ گھر ہی میں کھلانی چاہئے، غلط فہمی ہے۔
کونڈوں کی نیاز 22 رجب المرجب کو ہی کرنا ضروری نہیں۔ یہ ایصال ثواب ہے۔ کسی بھی ماہ میں کسی بھی تاریخ کو کرسکتے ہیں۔
نذر و نیاز ایک مستحب عمل ہے۔ کریں تو ثواب، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ لہذا یہ فرض وواجب نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔
انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں۔القرآن: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر اﷲ O (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ: درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر اﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو۔
القرآن: حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر اﷲ بہ O (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ: حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔
ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘سے کیا مراد ہے:
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر اﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔
مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا
مسلمان اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔
ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا
الحدیث: ترجمہ… سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپﷺ نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)
صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں:اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی اﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر اﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو (تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)
الحدیث: ترجمہ… حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔ اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اﷲ تعالیٰ! اسے قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے آل محمدﷺ کی طرف سے اور امت محمدﷺ کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی (بحوالہ: ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)
الحدیث: ترجمہ… حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضورﷺ کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔
(بحوالہ: ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر اﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا‘‘ (بحوالہ: تفسیرات احمدیہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں(بحوالہ : تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39)آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے(بحوالہ: فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)
مسلک اہلسنت، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :
1… اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے۔(انفاس العارفین (اردو) حضورﷺ کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
2… الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث: مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ حضور کریمﷺ کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔ میں نے سید عالم نور مجسمﷺ کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضورﷺ مسرور و شادماں ہیں‘‘ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40، کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)
3… شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں۔ تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں۔ اسی طرح روز پڑھتے رہیں (الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
4 … شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں۔ یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔ (ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی اﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
5… شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں۔ اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں، جائز ہگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے (زبدۃ النصائح) (فتاویٰ رضویہ (جدید)، جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
سرور کونینﷺ کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے۔
حدیث شریف: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم اہلسنت و جماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔عقلی دلیل: 18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں؟ نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے۔
عقلی دلیل: شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیںجبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں۔ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں۔ ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں؟ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں؟ نہیں، ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے کہ ہماری نیت شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کی ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ مورخین کے نزدیک 15 رجب المرجب ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ 22 رجب المرجب ہے؟ اس کا جواب : جس طرح حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں مختلف اقوال ہیں۔ کسی کے نزدیک 22 رجب، کسی کے نزدیک 24 رجب اور کسی کے نزدیک 26 رجب ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ 22 رجب المرجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا یوم وصال ہے پھر تو ہمارے لئے اور بھی فیوض و برکات حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ اس طرح کہ جب ہم 22 رجب المرجب کو نذرونیاز پر فاتحہ پڑھیں گے تو اس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بھی ایصال کردیں گے۔
بعض جگہ یہ رواج ہے کہ گھر کی چند خواتین ایک جگہ جمع ہوکر ’’لکڑ ہارے کی کہانی، داستان عجیب، دس بیبیوں کی کہانی، جناب سیدہ کی کہانی اور شہزادے کا سر نامی من گھڑت قصے اور کہانیاں پڑھ کر سناتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب کہانیاں ہی ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے تو سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کرکے بھی نیاز تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کو واقعی سچے واقعات سنانے ہیں تو علمائے اہلسنت کی کتابوں سے پڑھ کر سنائیں تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
معراج کی رات دیدار باری تعالیٰ : حدیث شریف= حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا۔ حضورﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، کیا اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا۔ تم پر افسوس ہے۔ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو۔ رسول پاکﷺ نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا (ترمذی، جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1205، ص 518، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حدیث شریف: حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ارشاد باری تعالیٰ ’’ولقد راہ نزلتہ اخری‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اﷲ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (ترمذی جلد دوم، ابواب تفسیر القرآن، حدیث 1206، ص 519، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)
حدیث شریف: حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائناتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا (بحوالہ: مسند احمد از کتاب دیدار الٰہی)
اس حدیث کے بارے میں امام سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث شریف: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونینﷺ فرماتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی (ابن عساکر)
اسلامی عقیدہ: حضورﷺ کے خصائص سے معراج ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک بلکہ بالائی عرش رات کے ایک خفیف حصہ میں مع جسم شریف کے تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و ملک کو کبھی نہ حاصل ہوا، نہ ہوگا اور جمال الٰہی اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کلام الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوٰت والارض کو بالتفضیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا (بہار شریعت، حصہ اول)
شب معراج اور ستائیس رجب کی فضیلت
شب معراج کو اﷲ تعالیٰ کے محبوبﷺ سے نسبت ہے۔ اس لئے اس رات اور اس دن کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ عبادت و ریاضت ہر رات میں باعث ثواب ہے مگر متبرک اور مقدس راتوں میں عبادات کی فضیلت نہایت مختلف ہے۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا۔ رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت کرنے والوں کو سو سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے (بحوالہ: احیاء العلوم، مصنف: امام غزالی علیہ الرحمہ، جلد اول، ص 546، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
روایت: امام بیہقی علیہ الرحمہ نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات بہت ہی افضل اور برتر ہے جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات عبادت کی تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال تک عبادت کی۔ یہ افضل رات رجب شریف کی ستائیسویں شب ہے (بحوالہ: ماثبت من السنہ، مصنف: شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ، ص 171)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment