آل سعود و آل نجد کا آثار نبوی اور آثار صحابہ و اہلبیت کو مٹانا : شجرۃ الرضوان کاٹنے کی روایت کی آڑ لے کر آثار اسلامی مٹانے پر آلِ نجد کو جواب
ہجرت کے بعد چھ سال تک مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کو مکہ نہ جا سکے ۔ 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے کے لیئے مدینے سے روانہ ہوئے ۔ قریش نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو حج نہ کرنے دیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا ۔ اور اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا مقصد جنگ کرنا نہیں ۔ ہم حج کرنے آئے ہیں ۔ لیکن قریش مکہ کے ساتھ تمام بات چیت بے سود ثابت ہوئی ۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا کہ وہ قریش سے بات چیت کریں ۔ تاکہ وہ مسلمانوں کا مدعا بیان کریں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تین دن تک مذاکرات کرتے رہے کہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان غمی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ قریش نے حضرت عثمان کو مکے میں روک لیا ۔ اس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں حضرت عثمان کو شہید نہ کر دیا گیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب حضرت عثمان کے شہید ہونے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کرام سے بیعت لی صحابہ کرم نے بڑے جوش و جزبے کے ساتھ بیعت کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر حضرت عثمان کی طرف سے بیعت لی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیعت کے وقت ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں قریش مکہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کی صورت حال سے باخبر رہتے تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے حضرت عثمان کے خون کا بدلہہ لینے کی قسم کھائی ہے ۔ تو وہ خوف زدہ ہوگئے انھوں نے حضرت عثمان کو واپس مسلمانوں میں پہنچا دیا بلکہ اپنا ایک سفیر سہیل ابن عمرو کو بھی صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجا اس نے خاصی طویل گفتگو کی اور ایک معاہدے کے تحت صلح ہو گئی اس بیعت کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام جانثاروں سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمان کا قصاص نہیں لیں گے اس جگہ سے نہیں ہلیں گے ۔ مرتے دم تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیں گے ۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں اور وہ درخت شجرۃ الرضوان کہلاتا ہے ۔ قرآن پاک کو سورۃ الفتح میں اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے ۔
ترجمہ : (اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیٹھے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا اور جو ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا سورۃ الفتح:18اس بیعت کو اس لیے بیعت رضوان کہا جاتا ہے ۔
روایات میں اس درخت کا نام ’’سمرہ‘‘ بتایا گیا ہے جس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کیکر کا درخت ‘‘کیا ہے - بعض روایات کے مطابق یہ ببول کا درخت تھا اس درخت کے بارے میں ایک روایت یہ مشہور ہے کہ بعض لوگ اس سے برکت حاصل کر نے کے لیے اس کے پاس نماز پڑھنے لگے، جب یہ خبر امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو آپ نے ان لوگوں کو سرزنش فرمائی اور اس درخت کو کٹوانے کا حکم فرمایا لہٰذا آپ کے حکم سے وہ درخت کاٹ دیا گیا ، انبیا و صالحین کے آثار وتبرکات سے برکت حاصل کرنے کے سلسلہ میں جب بھی بحث ہوتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اس روایت کو بڑی شدومد سے پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے کہ اگر انبیا کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی شریعت میں ذرا بھی گنجائش ہوتی تو حضرت عمر اس مبارک درخت کو ہرگز نہ کٹواتے،تبرک بالآثار کے رد میں سب سے پہلے حافظ ابن تیمیہ نے اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا، لکھتے ہیں :وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ، چشتی)
محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-حافظ ابن تیمیہ کے معتقدین و متبعین بغیر تحقیق کے محض ان کی ’’تقلید ‘‘ میں اس روایت کو آج تک بطور دلیل پیش کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمیں اس روایت پر چند وجوہ سے تأمل ہے-
صحاح ستہ سمیت حدیث کی اکثر مشہورومعتبر کتب میں اس روایت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے بلکہ یہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض بھی ہے (جس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے) ،یہ روایت صرف دو کتابوں میں موجود ہے ایک طبقات ابن سعد دوسرے مصنف ابن ابی شیبہ (الطبقات الکبری لابن سعد:ج۲ ص۱۰۰۔دار صادر بیروت (سن ندارد)و مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۱۵۰مکتبۃ الرشد ریاض ۱۴۰۹ھ)
ان دونوں حضرات نے اس کو نافع مولی ابن عمر سے بطریق ابن عون روایت کیا ہے ، یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب سے نافع مولی ابن عمر کی ملاقات اور سماع دونوں ثابت نہیں ہیں لہٰذا نافع اگر کسی درمیانی واسطے کے بغیر براہ راست حضرت عمر سے روایت کریں تو اصطلاح میں ایسی روایت کو ’’منقطع ‘‘کہا جائے گا ، دوسری بات یہ کہ حافظ ابن تیمیہ نے محمد بن وضاح کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ روایت کس کتاب میں ہے اور اس کی سند کیا ہے، البتہ جہاں تک خود محمد بن وضاح کا سوال ہے تو ان کے بارے میں حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے حافظ ابن الفرضی کا یہ قول نقل کیا ہے :قال ابن الفرضی لہ اخطاء کثیرہ واشیاء یصحفہا وکان لا علم لہ بالفقہ ولا بالعربیہ - محمد بن وضاح کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ:انہ کان یکثر الرد للحدیث فیقول لیس ہذا من کلام النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہو ثابت من کلامہ (لسان المیزان ج۵ ص۴۱۶مؤسسۃالاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۴۰۶ھ ومیزان الاعتدال فی نقد الرجال ج۶ص۳۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت الطبعۃ الا ولی ۱۹۹۵ء، چشتی)
اگرچہ حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے ابن وضاح کو ’’صدوق ‘‘ کہا ہے مگر ساتھ ہی ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابن معین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ابن معین امام شافعی کو ’’ثقہ‘‘ نہیں مانتے،حالانکہ ابن معین کا دامن اس الزام سے پاک ہے، شاید اسی لیے حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:ابن و ضاح لیس بثقۃ ۔ ابن وضاح ثقہ نہیں ہیں - (الرواۃ الثقات للذہبی ص۹:دار البشائر الاسلامیہ بیروت الطبعۃ الاولی)
اب ہم بخاری و مسلم کی ان روایات کی طرف توجہ کرتے ہیںجو اس مشہور روایت کے معارض ہیں،امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیاکہ کون سا تھاہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ)کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے - (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ، چشتی)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا - (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ)
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا - (صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ، چشتی)
اس روایت کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب استحباب مبایعۃالامام الجیش عند ارادۃ القتل وبیان بیعۃ الرضوان تحت الشجرہ)
طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ جن میں درخت کٹوانے والی روایت ہے ان میں بھی حضرت سعید بن مسیب کی مذکورہ روایت موجو د ہے،بلکہ طبقات ابن سعد میں نافع مولی ابن عمر سے ایک روایت یہ بھی ذکر کی گئی ہے:اخبرنا علی بن محمد عن جویریۃ بن اسماء عن نافع قال خرج قوم من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد ذلک باعوام فما عرف احد منہم الشجرۃواختلفوا فیہاقال ابن عمرکانت رحمۃ من اللّٰہ ۔ ( طبقات ابن سعد:ج۲ ص۱۰۵ ،دارصادر بیروت ، چشتی)
ہمیں علی بن محمد نے خبر دی، وہ جویریہ سے روایت کرتے ہیںوہ نافع سے روایت کرتے ہیں کہ نافع نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت (اس واقعہ کے) کچھ سال بعد وہاں گئی تو ان میں سے کوئی بھی اس درخت کو نہیں پہچان سکا، اس درخت کے محل وقوع کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہواتو ابن عمر نے فرمایا کہ وہ درخت اللہ کی طرف سے رحمت تھا -
ضیاء الامت پیر کرم شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخمیس کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں خود حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے درخت کو نہ پہچاننے کی بات کی گئی ہے، روایت یہ ہے:ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مر بذلک المقام بعد ذہاب الشجرۃفقال این کانت فجعل بعضہم یقول ہہنا وبعضہم یقول ہہنافلما کثر اختلافہ قال سیروا فقد ذہبت الشجرۃ ۔ (ضیاء النبی ج۴ ص۱۶۵)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ درخت کے غائب ہونے کے بعد وہاں سے گزرے،آپ نے پوچھاوہ درخت کس جگہ تھا؟کسی نے کہا اس جگہ تھا کسی نے کہا اس جگہ تھاجب اس درخت کی جگہ کے بارے میں لوگوں کا اختلاف بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ آگے چلو وہ درخت غائب کر دیا گیا -
تاریخ الخمیس پیش نظر نہیں ہے، اس لیے اس روایت کی صحت و ضعف کے سلسلہ میں میں کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا-بہر حال بخاری ،مسلم،طبقات ابن سعد اور تاریخ الخمیس وغیرہ کی مذکورہ روایتوں کی روشنی میں چند باتیں سامنے آتی ہیں :
(1) بیعت رضوان کے اگلے سال حضرت مسیب نے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس درخت کو تلاش کرنا چاہا مگران کو وہ درخت نہیں مل سکا -
(2) کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت عمرکی معیت میں چند صحابہ کے ساتھ بھی پیش آیا -
(3) پھر کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت ابن عمر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی پیش آیا -
(4) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اس قسم کے متبرک مقامات کی تلاش میں رہا کرتے تھا -
(5) بخاری شریف کی پہلی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے درخت کو لوگوں نے غلطی سے بیعت رضوان والا درخت سمجھ لیا تھااور وہاں آکر نمازیں پڑھا کرتے تھے-
ان نکات سے یقینی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک سال بعد ہی اس درخت کا محل وقوع اختلاف رائے کا شکار ہو گیا تھا اورایک روایت کے مطابق وہ کسی مصلحت خداوندی کے تحت نظروں سے اوجھل کر دیا گیا تھا تو خلافت فاروقی میں اس کو کٹوانے والی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت جس میں درخت کٹوانے کی نسبت حضرت عمر کی طرف کی گئی ہے وہ منقطع ہونے کے علاوہ صحیحین کی روایت سے معارض بھی ہے اس لیئے ہمیں یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت کاٹنے کا حکم دیا تھا اور اگر بر سبیل تنزل ابن سعد کی روایت تسلیم کر لی جائے تو پھر بخاری شریف کی روایت کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے کسی دوسرے درخت کو غلطی سے بیعت رضوان والا درخت گمان کرلیا تھا اس لیئے حضرت عمر نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ نقلی درخت کو لوگ اصلی نہ سمجھنے لگیں -
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درخت کو کیوں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی کردیا گیا ؟
اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت کا صحیح علم اسی ذات کے پاس ہے جس نے اس کو پوشیدہ فرمایا یعنی اللہ تبارک و تعالٰی ، البتہ شارح مسلم امام النووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی یہ حکمت تحریر فرمائی ہے : قال العلماء سبب خفائہا ان لا یفتتن الناس بہا لما جری تحتہا من الخیر ونزول الرضوان والسکینہ وغیرہ ذلک ظاہرۃ معلومۃ لخیف تعظیم الاعراب والجہال ایاہا لہا فکان خفائہا رحمۃ من اللہ تعالٰی۔
ترجمہ : علما نے فرمایا ہے کہ اس کے مخفی ہونے میں حکمت یہ تھی کہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑجائیں کیوں کہ اس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور سکینہ نازل ہوا تھا،یہ بات ظاہر اور معلوم تھی اندیشہ ہوا کہ دیہاتی اور ناواقف لوگ اس کی تعظیم کریں گے پس اس کا مخفی ہونا بھی اللہ کی رحمت تھا ۔ (شرح مسلم لنووی:ج۱۳ص۵، دار احیا ء التراث العربی بیروت،الطبعۃ الثانیہ۱۳۹۲)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی کے سامنے میری حیثیت ’’صفر محض‘‘ سے بھی کم ہے اس کے باوجود میری ناقص فہم میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر درخت کے مخفی ہونے کی یہی حکمت ہے (یعنی جہال کی تعظیم کا اندیشہ) تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صرف یہی ایک درخت نہیں تھا جہاں یہ اندیشہ ہو بلکہ غار حرا سے لے کر منبر رسول اور قبر اطہر تک بے شمار ایسے متبرک اور مقدس مقامات موجود تھے جہاں مذکورہ اندیشہ ہو سکتا تھا تو پھر آخر وہ سارے مقامات کیوں نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے ؟ ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment