نذر ونیاز کی شرعی حیثیت
اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں ۔
انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی ۔
نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں : القرآن: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر اﷲ O (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ : درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر اﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو ۔
القرآن : حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر اﷲ بہ O (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ : حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ۔
ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے کیا مراد ہے:
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر اﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔
مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا
مسلمان اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے ۔
ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا
سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے ۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا ۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)
صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں : اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی اﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر اﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو ۔ (تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔ اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔ اے اﷲ تعالیٰ ! اسے قبول فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے اور امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی (بحوالہ: ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حضرت حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی ۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔ (بحوالہ: ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)
حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر اﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا‘‘ (بحوالہ: تفسیرات احمدیہ،چشتی)
تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘
ترجمہ : اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں ۔ (تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39)
آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘ ۔
یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے ۔
(بحوالہ: فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)
مسلک اہلسنت، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :
اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے۔(انفاس العارفین (اردو) حضورﷺ کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)
الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث: مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ حضور کریمﷺ کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔ میں نے سید عالم نور مجسمﷺ کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضورﷺ مسرور و شادماں ہیں‘‘ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40، کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں۔ تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں۔ اسی طرح روز پڑھتے رہیں (الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں۔ یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔ (ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی اﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں۔ اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں، جائز ہگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے (زبدۃ النصائح) (فتاویٰ رضویہ (جدید)، جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment