شان اولیاء کرام علیہم الرّحمہ
اللہ تعالیٰ شان اولیاء کے بارے میں فرماتا ہے
اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ( یونس آیت۶۲)
ترجمہ : خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے۔
اللہ تعالیٰ نے نماز‘ روزہ‘ حج ‘ زکواۃ کے تمام مسائل بیان فرمائے لیکن کہیں لفظ ’’الا‘‘ نہیں فرمایا مگر جس وقت اولیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ذکر آیا تو لفظ’’الا‘‘ ابتداء میں لایا کیونکہ ہمارے ظاہراً معاملات رہن سہن میں ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون اللہ تعالیٰ کا ولی ہے اور کون نہیں۔ باوجود اس اختلاط کے ان حضرات کا وہ مرتبہ ہے کہ
لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ
ترجمہ : اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں پورا کرتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیَّا فَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ ۔ (بخاری شریف ج ۲ ص ، ۹۶۳، چشتی)
ترجمہ : جس نے میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے۔
معلوم ہوا یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ جنکے گستاخوں کیساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ فرمارہاہے اور جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کرے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتا۔
اب ہمیں اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ( یونس آیت۶۲) کا مطلب سمجھنا ضروری ہے۔کیا ان حضرات کو دنیا اور آخرت کا خوف نہیں؟ اگر کہیں کہ دنیا میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’اَلْقِھَا یٰا مُوْسٰی‘‘ یعنی اے موسی ٰاپنے عصا کو پھینکو۔ جب عصا کو پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گیا۔ جس سے حضرت موسی علیہ السلام ڈر گئے۔(کیونکہ یہ عصا اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر تھا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خُذْھَا وَلاَ تَخَفْ( ظہ آیت۲۱)
ترجمہ : اے موسی ! خوف مت کرو اسکو پکڑ لو۔
معلوم ہوا دنیا میں انبیاء کو خوف تھا اور وہ بھی مخلوق کا۔ کیونکہ اژدھا مخلوق ہے خالق نہیں۔ جب انبیاء کو اس دنیا میں مخلوق کا خوف ہے تو اولیاء کو بھی ضرور ہوگا کیونکہ انبیاء میں جہاں تک ولایت کا منصب نہ آئے نبوت کی تکمیل نہیں ہوسکتی اگر کہیں کہ آخرت میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے متعلق فرمایا : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ( ماہدہ آیت۱۰۹)
ترجمہ : جس دن اللہ تعالیٰ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیاجواب ملا ۔
یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رسولوں کو جمع کرکے فرمائیگا کہ تم اپنی امت سے کیاجواب دیئے گئے تو رسول کہیں گے : قَالُوْا لاَعِلْمَ لَنَا ۔ ( ماہدہ آیت۱۰۹)
ترجمہ : اے ہمارے مولا! ہمیں کوئی علم نہیں ۔
حالانکہ انکو علم ہے کہ واقعی ہم نے دنیا میں جاکر دعوت دی پھر بھی کہیں گے ہمیں علم نہیں۔ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کے جلال کا ظہور ہوگا اسی طرح عصا اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر تھا اور بیبت اور رعب چھا جائے گا۔ تو اس جلال کو دیکھ کررسل کرام علیہم السلام کہیں گئے کہ : لاَ عِلْمَ لَنَا ۔ ترجمہ : ہمیں علم نہیں ۔
یعنی ہمارا علم تیرے علم کے سامنے کالعدم ہے۔ تو جب ’’رسل‘‘ خوف سے یہ کہیں گے تو اولیاء اللہ پر بھی ضرور خوف ہوگا۔ اگر یہ کہیں کہ خالق کا خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ۔ ( الرحمن آیت۴۶)
ترجمہ : اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو اس کیلئے دو جنتیں ہیں ۔
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ سے خوف کیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ضروری ہے لہذا معنی یہ ہوگا کہ اولیاء اللہ کو خوف’’ضرر‘‘ نہیں ہوگا بلکہ خوف نفع ہوگا ۔
خوف ضرر اور خوف نفع کا فرق
خوف دو قسم کا ہے ایک خوف ضرر اور دوسرا خوف نفع۔ جو خوف منتج بر ضرر ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو دیتا ہے اور جو خوف منتج برنفع ہے وہ اپنے دوستوں کو دیتا ہے اور یہ خوف(خوف نفع) باری تعالیٰ کے قرب اور معرفت کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کا مقصد حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(سورۂ الذاریات) اور معرفت سے کوئی عبادت زائد ہو ہی نہیں سکتی۔ بلکہ عبادت معرفت کاہی نام ہے۔ جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنی محبت زیادہ ہوگی اور جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا قرب زیادہ ہوگا اور جتنا قرب زیادہ ہوگا اتنا خوف زیادہ ہوگا۔ لہذا جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنا خوف زیادہ ہوگا اسلئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
اِنَّ اَتْقَاکُمْ وَ اَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا ۔ (بخاری ص ۷)
ترجمہ : میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنیوالا اور اللہ کی معرفت والا ہوں۔
بہرکیف خوف نفع انبیاء و اولیاء کو ضرور ہے اور خوف ضرر۔ ان حضرات کو نہ اس دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی صفت مشبہ ہے۔ ولی اللہ تعالیٰ کا محب ہے اور محبت کے بھی منازل ہوتے ہیں جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی ولایت کا مرتبہ بلند ہوگا۔ ولی خدا کا عبد کامل اور محبوب کامل ہوتا ہے۔ ولی کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ حدیث قدسی ہے : لَایَزَاٰنُ عَبْدِ یْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرَبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا ۔ (بخاری شریف ص ۹۶۲ ج ۲ ، چشتی)
یعنی نوافل سے اتنا قرب حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور وہ اسکی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اورہاتھ ہوجاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکے پائوں ہوجاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ انسان خدا بن جاتا ہے یا خدا انسان میں حلول فرماتا ہے اگر مانیں کہ انسان خدا ہوگیا تو کفر آئیگا اور اگرمانیں کہ انسان میں خدا حلول کرگیا تو شرک آئیگا تو اس حدیث مقدسی کے یہ معنی نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ وہ مظہر خداہوگیا ہے۔ ایسا ہی جیسا کہ سورج کے سامنے آئینہ رکھ دیں تو وہ سورج آئینہ میں نظر آئیگا تو یہاں نہ سورج آئینہ میں آیا اور نہ سورج آئینہ بنا بلکہ آئینہ مظہر شمس بنا۔ اسیطرح ہزارہا آئینے سورج کے سامنے رکھ دیں تو سورج تمام میں نظر آئیگا تو وہ تمام آئینے مظہر شمس ہونگے۔ اسطرح بندہ بھی نوافل کے ذریعے اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ مظہر خدا بن جاتا ہے بعض لوگوں نے اس حدیث کا مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اسکا سننا‘ دیکھنا‘پکڑنا‘ چلنا خدا کی رضا کے بغیر اور خلاف شرع نہیں ہوگا جو کچھ بھی وہ کرتا ہے خدا کی رضا کے مطابق کرتا ہے۔ اسکا یہ مطلب صحیح نہیں اسلئے کہ حدیث میں ہے : حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الخ ۔ اس بندہ کو محبوب بنالیتا ہوں محبوب بنانے کے بعد میں اسکی سمع و بصر وغیرہ ہوتا ہوں ۔ اسکا یہ معنی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ محبوب بنانے کے بعد وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ قول و فعل خلاف شرع نہ کرنیکے بعد تو وہ محبوب بنتا ہے۔ پہلے محبوب بنے پھر خلاف شرع کام نہ کرے کیسے ممکن ہے؟ بلکہ وہ پہلے بھی اور بعد میں بھی خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ اگر مان لیں کہ وہ بندہ گناہ بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بھی ہوجاتا ہے اور پھر وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا تو لازم آئیگا کہ اللہ معاذ اللہ برائیوں کو پسند کرتا ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ کی پسند ہو وہ معصیت نہیں ہوسکتی لہذا نتیجہ نکلے گا کہ دنیا میں تمام انسان معصیت کرتے رہیں ۔ اگر یہ مطلب لیں تو تمام انبیا و رسل کا تشریف لانا معاذ اللہ عبث ہوگا۔ حالانکہ انبیاء ورسل تو معصیت سے بچانے کیلئے آئے ہیں تو معلوم ہوا معصیت سے کوئی محبوب نہیں ہوتا اسلئے انبیاء و رسل کا تشریف لانا عبث نہیں لہذا ماننا پڑے گا کہ جب تک بندہ برائیوں سے باز نہ آئے خدا کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا ۔
اب اس حدیث قدسی کا مطلب یہ ہوگا کہ جسکو امام فخری رازی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں ذکر فرمایا ہے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ : جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کرلیتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ نے کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَ بَصَرًا فرمایا ہے جب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نور اسکی سمع و بصر ہوجاتا ہے تووہ دور و نزدیک کی چیزوں کو سن لیتا اور دیکھ لیتا ہے ۔ فیض الباری شرح بخاری دیوبند کے شیخ الحدیث اٹھا کر دیکھ لیں اسمیں بھی یہی مرقوم ہے ۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ لوہے کو آگ میں ڈال دیں وہ لوہا آگ جیسا ہوجائے گا۔ نہ تو لوہا آگ بنا نہ آگ لوہا بنی لیکن آگ کے قرب سے اسمیں آگ کے اوصاف ظاہر ہونے لگے اسیطرح بندہ قرب الہی سے مظہر صفات خدا وندی ہوجاتا ہے نہ بندہ خدا بن جاتا ہے نہ خدا بندہ تعالیٰ اللہ عن ذالک علواً کبیرا۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے’’باذن اللہ‘‘ کرتا ہے۔ اور من دون اللہ کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ کو نہ مانا جائے وہی ’’من دون اللہ ‘‘ اور وہی شرک ہے اور جہاں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ کو مانا جائے وہاں ’’من دون اللہ‘‘ نہیں ہوتا بلکہ باذن اللہ ہوتا ہے۔ لہذا ہم من دون اللہ کی آیات کو مانتے ہیں آپ باذن اللہ کی آیات کو مان لیں۔ علاوہ ازیں’’من دون اللہ‘‘ میں ماتحت الاسباب کی قید لگانا اپنی طرف سے ہے کیونکہ یہ آیت مطلق ہے اور المطلق یجری علی اطلاقہ۔ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے لہذا یہ آیت ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب جمیع کو شامل ہے۔ معلوم ہوا جہاں باری تعالیٰ کا اذن ہوگا وہاں من دون اللہ نہیں ہوگا بلکہ اذن الہی ہوگا جیساکہ عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن نے گواہی دی :
وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ( آل عمران آیت ۴۹)
ترجمہ : اور میں شفایاب کرتاہوں مادر زاد اندھے اور برص والے کو اور میں جلاتاہوں مردے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ۔
محترم قارئین : معلوم ہوا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا۔ برص والوں کو صحیح کرنا مردوں کو زندہ کرنا۔ باذن اللہ ہوتو ’’من دون اللہ‘‘ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ ’’من دون اللہ‘‘ ہوتا تو یہاں بھی شرک ہوتا ۔ حالانکہ قرآن ہمیں توحید سکھاتا ہے اور شرک سے بچاتا ہے ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment