درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ دوم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
لفظ مشفوع کلام علماء میں
٭ صرف یہ نہیں بلکہ پھلواروی صاحب کے حاشیہ برداروں کا دعوی ہے کہ مَشْفُوْعٌ کا لفظ مجنون کے سوا اور کسی معنی میں کسی نے استعمال نہیں کیا حالانکہ انکا یہ قول خود پھلواروی صاحب کے قول کی تکذیب کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ تسلیم فرما چکے ہیں کہ ’’طاق سے جفت کیا ہوا بھی مَشْفُوْعٌ کے معنی ہیں‘‘ تاہم مزید وضاحت کیلئے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ لفظ مَشْفُوْعٌ مقرون کے معنی میں مستعمل ہوا ہے دیکھئے آیت کریمہ سَنُعَذِّ بُھُمْ مَّرَّ تَیْنِ کے تحت روح المعانی میں گیارہویں پارے کے ص ۱۱ پر مرقوم ہے’’وَلََعَلَّ تَکْرِیْرِ عَذَابِھِمْ لِمَا فِیْھِمْ مِنَ الْکُفْرِ الْمَشْفُوْع بِالنِّفَاق ‘‘یعنی منافقین کے عذاب کے مقرر ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا کفر ان کے نفاق کے ساتھ مقرون ہے۔
٭ یہاں مَشْفُوْعْ مقرون کے معنی میں ہے۔ اسے مجنون کے معنی میں وہی سمجھے گا جو خود مجنون ہوگا یہ بات بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کہہ دے کہ حق شُفعہ جنون کے سوا کچھ نہیں اور جب اس سے پوچھا جائے تو لغت کی کتاب کا حوالہ دے دے کہ یہاں شُفعہ کے معنی جنون لکھے ہیں۔کیا کسی عاقل کے نزدیک یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے؟
٭ قارئین کرام نے دیکھ لیا کہ پھلواروی صاحب درود تاج کے جملے کے ایک جزء کو بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب
مَنْقُوْشٖ فِی اللَّوْحِ وَ الْقَلَمِ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’پھر نام مبارک (اِسْمُہٗ)کا منقوش فی اللوح ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن منقوش فی العلم ہونا نرالی سی بات ہے اگر مَنْقُوْشٌ فِی اللَّوْحِ بِالْقَلَمِ ہوتا پھر بھی بات واضح ہوجاتی‘‘(انتہیٰ)
٭ پھلواروی صاحب نے یہاں بھی ٹھوکر کھائی کہ اس لوح وقلم کا قیاس دنیا کی قلم اور تختی پر کرلیا اسلئے وہ فرمارہے ہیں کہ ’’نام مبارک اِسْمُہٗ کا منقوش وی اللوح ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن منقوش فی القلم ہونا نرالی سی بات ہے‘‘
٭ الحمد للہ! لوح میں اسم مبارک کا منقوش ہونا آپ کی سمجھ میں آگیا البتہ قلم میں منقوش ہونا صرف اسلئے آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ نے قیاس مع الفارق سے کام لے کر یہ سوچا کہ قلم لکھنا ہے۔ اس پر لکھا نہیں جاتا مگر آپ کی یہ سوچ اس عالم بالا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں لوح و قلم تو درکنار ساق عرش پر بھی رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک منقوش ہے جبکہ حضورﷺ کے اسم مبارک کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی ہے۔
کَانَ مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭ اس حدیث کو طبرانی‘ حاکم ‘ ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا حوالہ کیلئے دیکھئے(تفسیر فتح العزیزپ۱ص۱۸۳ طبع نولکشور۔ روح المعانی ج۱ جز۱ ص۲۳۷۔ روح البیان ج۱ ص ۱۱۳طبع بیروت خلاصتہ التفاسیر ج۱ص۲۹طبع انوار محمدی لکھنؤ) اسیطرح درنشور میں بھی ہے(بحوالہ خلاصتہ التفاسیر) ایسی صورت میں حضورﷺ کے اسم گرامی کے قلم میں منقوش ہونے کو نرالی سی بات کہنا بجائے خود نرالی سی بات ہے۔
٭ علاوہ ازیں یہاں بھی قلم پر نام منقوش ہونے کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں پھر اسکو نرالا سمجھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اسم مبارک کا لوح میں مکتوب ہونا حضورﷺ کیلئے کوئی وجہ فضیلت نہیں۔ لوح میں تو ہرچیز مکتوب ہے حضورﷺ کی فضیلت عظمی اور اہم ترین خصوصیت تو یہ ہے کہ نشان عظمت کے طورپر صرف لوح پر نہیں‘ قلم پر بھی اسم مبارک مثبت و منقوش ہے بلکہ سیاق عرش پر بھی حضورﷺ کا نام مبارک لکھا ہوا ہے۔ یہ حضورﷺ کی اس رفعت شان کی ایک جھلک ہے جس کا بیان شد نے وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَ کَ میں فرمایااگر پھلواروی صاحب اس کا انکار کریں توہمارے نزدیک ان کا یہ انکار پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا جبکہ آیت قرآنیہ اور اس کی مطابقت میں حدیث مذکور بھی حبیب کبریا علیہ التحیتہ والثناء کی عظمت و رفعت شان کا اعلان کر رہی ہے۔صاحب درودتاج نے حضورﷺ کے اسم مبارک کے منقوش فی اللوح والقلم ہونے کا ذکر اسی نشان عظمت و رفعت کے طورپر کیا ہے جسے پھلواروی صاحب نہیں سمجھ سکے۔
تیسرا اعتراض اور اسکا جواب
سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی مَقَامُہٗ
٭ تیسرا اعتراض کرتے ہوئے پھلواروی صاحب لکھتے ہیں ’’ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی مَقَامُہ‘‘واقعہ یہ ہے کہ سدرۃ المنتھٰی جبریل کا مقام ہے جہاں جاکر وہ ٹھہر گئے اور آگے نہ جاسکے۔ حضورﷺ کی یہ گذرگاہ تھی۔ مقام نہ تھا۔انتہی کلامہٗ
٭ محترم نے اس جملے کو سمجھنے میں بھی غلطی کی حقیقت یہ ہے کہ سدرہ المنتہیٰ کے مقام جبریل ہونے کے جو معنی ہیں وہ یہاں مراد نہیں بلکہ یہاں حضورﷺ کی خصوصی رفعت شان کا بیان مقصود ہے وہ یہ کہ سدرۃ المنتہیٰ تک کوئی بشر نہیں پہنچا مگر حضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ کے ساتھ وہاں پہنچے۔
٭ ’’مَقَامَہٗ‘‘ سے یہاں صرف پہنچنے کی جگہ مرا دہے۔ ’’مَقَامُ اِبْرَاھِیْمَ‘‘کا ذکر ک میں وارد ہے اور صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے منر شریف کو اپنا’’مقام‘‘ فرمایا۔ حدیث کے الفاظ ہیں مادُمْتُ فِیْ مَقَامِیْ ھٰذَا(بخاری ج ۱ ص۷۷ مسلم ج۲ ص۲۶۳) جس کے معنی پہنچنے اور کھڑے ہونے کی جگہ کے سوا کچھ نہیں۔ درود تاج کے اس جملے میں مَقَامُہٗ کایہی مفہوم ہے مقام جبریل پر مقام مصطفی ﷺ کا قیاس ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت مصطفی ﷺ کا قیاس جبریل پر۔
چوتھا اعتراض اور اس کا جواب
قَابَ قَوْسَیْنِ کا اعراب
٭ پھلواروی صاحب کا یہ فرمانا بھی غلط ہے کہ یہاں ’’قَابَ‘‘کو مرفوع پڑھنا چاہئیے۔انتہیٰ
٭ انہوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ قرآن کے الفاظ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کو بطور حکایت درودتاج میں شامل کیاگیا ہے اور درودتاج میں ’’قَابَ‘‘کا نصب اعراب حکائی ہے۔ اعراب حکائی کی بحث میں صاحب معجم النحو نے لکھا ہے۔اَلْحِکَایَۃُ لُغَۃً اَلخمُمَا ثَلَۃُ وَاصْطِلَا حًا اِیْرَادُ اللَّفْظِ الْمَسْمُوْعِ عَلٰی ھَیْئَتِہٖ کَمَنْ مُّحَمَّدًا اِذَا قِیْلَ رَائَ یْتُ مُحَمَّدًا‘‘یعنی ’’حکایت‘‘ لغتہً مماثلت ہے اور اصطلاح میں کسی لفظ مسموع کو اس کی ہیئت پر وارد کرنا’’حکایت‘‘ ہے۔ جیسے مَنْ مُّحَمَّدًا؟ جب کہا جائے رَأَیْتُ مُحَمَّدًا(ص۱۷۶طبع مصر)
٭ آیت قرآنیہ میں لفظ’’قَابَ‘‘نصب کے ساتھ مسموع ہے۔ اس کی ہیئت پر درود تاج میں حکایتہ وارد کیاگیا۔ کس اہل علم کے نزدیک اعراب حکائی ناجائز ہے؟
پا نچواں اعتراض اور اسکا جواب
قَابَ قَوْسَیْنِ کا معنی
٭ اس کے بعد وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کو حضورﷺ کا مطلوب و مقصودکہہ دینا اس وقت تک محل نظر رہے گا۔ جب تک کتاب اللہ‘ سنت رسول اللہ ﷺ سے اس کی تصدیق نہ ہوجائے‘‘(انتہیٰ)
٭ میں عرض کردوں گا کہ اسے محل نظر کہنا خود محل نظر ہے۔ شائد قَابَ قَوْسَیْنِ کے مرادی معنی پھلواروی صاحب نے سمجھے۔ اس سے مراد کمال قرب الہی ہے اور یہ کمال قرب اپنے حسب حال ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے کتاب و سنت کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ بندے کو کمال قرب نصیب ہوجوکمال عہدیت کا معیار ہے۔ ک میں بے شمار مقامات پر یہ مضمون وارد ہے مثلاوَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُونَoاُولٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَo(پ۲۷ الواقعہ ۱۰۔۱۱) اور جو سبقت کرنیوالے ہیں وہ تو سبقت ہی کرنیوالے ہیں۔ وہی شد کے مقرب ہیں۔اور بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَ لّٰے حَتّٰی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوٓاَدْنٰیاورجَبّارربّ العزّۃ
٭ قریب ہوا۔ پھر اور زیادہ قریب ہوا‘ یہاں تک کہ وہ اس(عبد مقدس) سے دوکمانوں کی مقدار تھا یا اس سے زیادہ قریب۔(بخاری ج ۲ص۱۱۲۰)
٭ اب تو پھلواروی صاحب سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘کے معنی کمال قرب ہیں جو یقینا حضورﷺ کامطلوب و مقصود ہے۔
چھٹا اعتراض اور اسکا جواب
درودتاج کی عربیت بے غبار ہے
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’علاوہ ازیں یہ پوری عبارت ہی عجمی قسم کی عربی عبارت ہے’’مَوجودہٗ‘‘کی ترکیب اضافی کچھ عجیب سی ہے۔ ’’مقصودہٗ‘‘اس کا موجود ہے کیا مطلب ہوا؟‘‘(انتہیٰ)
٭ اس عبارت کو عربی عبارت کہہ کر بلا دلیل عجمی قسم کی عربی عبارت کہنا ہماری فہم سے بالا تر ہے۔
وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُہٗ کا مطلب
٭ جس عبارت کے معنی انہوں نے پوچھے ہیں وہ اپنے معنی میں بالکل واضح ہے کہ ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘یعنی کمال قرب حضورﷺ کا مطلوب ہے اور مطلوب وہی چیز ہوتی ہے جو کسی کا مقصود ہو۔ حضورﷺ کا مقصود ایسا نہیں جسے حضورﷺ نے نہ پایا ہو بلکہ وہ پایا ہوا ہے۔ لہذا’’مَوجُوْدُہٗ‘‘کی ترکیب کو عجیب سی ترکیب کہنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔
ساتواں اعتراض اور اسکا جواب
اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ
٭ پھلواروی صاحب نے ’’اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ‘‘ پر بھی اعتراض کیا ہے‘ فرماتے ہیں’’کس عربی دان کو نہیں معلوم کہ ’’غَرِیْبٌ‘‘کی جمع ’’غُرَبَائُ‘‘ہے نہ کہ غَرِیْبِیْن آگے خود ہی اس درود کے مصنف نے ’’مُحِبِّ الْفُقَرَائِ والْغُرَبَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ‘‘لکھا ہے‘‘(انتہیٰ)
٭ یہ اعتراض بھی ان کی علمی کمزوری کا نتیجہ ہے انہوں نے اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کردیا کہ فَعِیْلٌ کے ہم وزن جس صیغے کی جمع سالم نہیں آتی وہ وہی صیغہ ہے جو مفعول کے معنی میں ہو۔ جاربروی شرح شافیہ میں ہے۔ثُمَّ مُذَکَّرُھٰذٰا الْجَمْعِ لَا یُجْمَعُ بِالْوَاوِوَالنُّوْنِ فَرْقًا بَیْنَدٗ وَبَیْنَ فَعِیْلِ بِمَعْنٰی فَاعِلٍ کَکَرِیْمٍ یعنی فعل بمعنی مفعول کی جمع سالم نہیں آتی تاکہ فعل بمعنی مفعول اور فعل بمعنی فاعل کے درمیان امتیاز باقی رہے جیسے کَرِیْمٌ۔(انتہیٰ)(جاربردی ص ۹۸ طبع سیٹم پریس لاہور) یعنی کَرِیْمٌ چونکہ فاعل کے معنی میں ہے اس لئے یہ اس قانون کے ماتحت نہیں بلکہ اس کی جمع کَرِیْمُوْنَ آتی ہے‘ جیسا کہ رضی شرح شافیہ میں ہے۔وَالَّذِیْ بِمَعْنَے الْفَاعِلِ یُجْمَعُ فَلَمْ یُجْمَعِ الَّذِیْ بِمَعْنَے الْمَفْیُوْلِ جَمْعَ السَّلَامَۃِ فَرْقًا بَیْنَھُمَا یعنی فَعِیْل کے وزن پر جو صیغہ فاعل کے معنی میں آئے اس کی جمع سالم آتی ہے۔ جیسے رَحِیْمٌ کی جمع رَحِیْمُوْنَ اوررَحِیْمَۃٌ کی جمع رَحِیْماتٌ اور کَرِیْمٌ کی جمع کَریْمُوْنَ اورکَرِیْمَۃٌ کی جمع کَرِیْمَاتٌ ہے تو فعل کے وزن پر جو صیغہ کہ مفعول کے معنی میں ہو اس کی جمع سالم نہیں آتی تاکہ دونوں کے درمیان فرق باقی رہے۔ (انتہیٰ) (رضی شرح شافیہ ص۱۴۸ ج ۲ طبع بیروت)۔ لفظ غَرِیْبٌ فعل کے وزن پر صرف فاعل کے معنی میں آتا ہے لہذا اس کی جمع غَرِیْبِیْنَ اسی طرح جائز ہے جس طرح رَحِیْمٌ اورکَرِیْمٌ کی جمع کَرِیْمُوْنَ جائز ہے۔
٭ صاحب درود تاج نے غَرِیْبِیْنَ کے بعد غُرَبَاء کا لفظ وارد کرکے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ اس کی جمع سالم اور مکسر دونوں جائز ہیں۔ جیسے رَحِیْمٌ اورکَرِیْمٌ کی جمع سالم اور جمع مکسر یعنی رُحَمَائُ اور کُرَمَائُ دونوں بلاشبہ جائز ہیں۔
لفظ غَرِیْبِیْنَ کا استعمال
٭ امام لغت حدیث علامہ محمد طاہر نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’مجمع بحارالانوار‘‘کے مقدمہ میں اپنے مآخذ کا ذکر کرتے ہوئے کتاب ’’ناظر عین الغریبین‘‘کا ذکر فرمایا اور غَرِیْبِیْنَ کی مناسبت سے حرف غ اس کیلئے رمز قرار دیا اور متعدد مقامات پر ’’ناظر عین الغریبین‘‘ سے حدیث کے مطالب و فوائد اخذ کئے۔ علامہ محمد طاہر جو کچھ نھایہ سے اخذ کرتے ہیں بعض اوقات اسکے ساتھ ان فوائد کو بھی شامل کردیتے ہیں جو ناظر عین الغریبین سے اخذ فرماتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ موصوف نے آغاز کتاب میں فرمایا۔وَاَضُمُّ اِلٰی ذٰلِکَ مَا فِیْ نَاظِرِ عَیْنِ الْغَرِیْبِیْنَ مِنَ الفَوَائِدِ۔(مجمع بحارالانوار ج۱ص۳ طبع نولکشور)یہ کتاب میری نظر سے نہیں گذری لیکن اس کے ملتقطات اور فوائد ماخوذہ عظیم و جلیل کتاب ہے جس کے نام ’’ناظر عین الغریبین‘‘ لغت حدیث میں ہے کہ اہل علم نے لفظ غَرِیْبِیْن استعمال کیا ہے۔پھلواروی صاحب نے لفظ غریبین کو غلط قرار دے کر اپنی لا علمی کا مظاہرہ فرمایا۔
٭ علاوہ ازیں اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ جات اور علماء صرف و نحو کی واضح عبارت سے قطع نظر بھی کرلیا جائے۔ تب بھی لفظ غریبین کے استعمال کو غلط کہنا صحیح نہیں کیونکہ اس قسم کا استعمال آخر کلمات میں رعایت تناسب کی صورت میں بلاشبہ جائز ہے۔ ایسے استعمال کی مثال ک میں سورۃ دھر میں ’’سَلَا سِلاً‘‘ اور ’’تَوَارِ یْرًا‘‘ کو تنوین کیساتھ پڑھنا ہے۔ جو خلاف قاعدہ ہے اور اہل عرب کے استعمالات اور محاورات کے خلاف ہے کیونکہ یہ دونوں لفظ غیر منصرف ہیں اور غیر منصرف پر تنوین جائز نہیں۔ مگر علماء نے سجع یا فاصلہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ متصلاً استعمال ہونے والے کلمات کے آخر میں تناسب کی رعایت کی بناء پر بلاشبہ اسے جائز کہا۔(ملحضًا)(النحو الوافی ج ۴ ص ۲۷۰ں۲۷۱) سَلَا سِلًا(بالتنوین) نافع‘ کسائی ‘ ابوبکر اور ہشام کی قرات ہے(تفسیر مظہری ج۱۰ ص۱۴۹) اور قَوَارِیْرًا(بالتنوین) ابن کثیر کی قرات ہے(مظہری ج۱۰ص۱۵۷) یہ دونوں قراتیں مرعات تناسب کی وجہ سے جائز ہیں۔ قرات متواترہ کی بناء پر ان کے جائز ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ درودتاج میں لفظ غَرِیْبِیْن بھی بصورت سجع کلمات متجاورہ کے آخر میں تناسب کی رعایت کی بناء پر بلا شبہ جائز ہے بلکہ حسب تصریح صاحب النحو الوافی ج ۴ ص ۲۷۰‘ آخر کلمات کا یہ تناسب مخاطب کی سمع کو لذت بخشتا ہے اور سننے والے کے کان کو شیرینی فراہم کرتا ہے تقویت معنی میں نہایت موثر ہے۔ قاری اور سامع دونوں کی روح میں ان کلمات کو پیوست کردیتا ہے۔(انتہیٰ)
٭ پورا درود تاج اسی نوعیت کا ہے بالخصوص انہی کلمات متجاورہ مختومہ بالسجع کو ایک مرتبہ اسی خیال سے پڑھیں اور اندازہ فرمائیں کہ مراعات تناسب نے ان کلمات کو کس قدر موثر کردیا ہے بشرط محبت آپ یقینا محسوس کرینگے کہ دل کی گہرائیوں میں یہ کلمات اترتے جلے جارہے ہیں۔ سامعہ لطف اندوز ہے اور روح کو غذا میسر ہورہی ہے۔ درود تاج کے وہ کلمات مبارکہ حسب ذیل ہیں۔
سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ شَفِیْعِ الْمُذْنِبِیْنَ اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ رَ حْمَۃٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ مُرَادِ الْمُشْتَاقِیْْنَ شَمْسِ الْعَارِفِیْنَ سِرَاجِ السَّالِکِیْنَ مِصْبَاحِ الْمُقَرَّبِیْنَ
٭ اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ آخر کلمات میں رعایت تناسب کا حکم النحوالوافی میں غیر منصرف سے متعلق ہے اور ہمارے پیش نظر لفظ غَرِیْبِیْنَ ہے تواسکا ازالہ یہ ہے کہ خلاف قاعدہ اور محاورات اہل عرب کے خلاف ہونے میں غیر منصرف پر تنوین داخل کرنا اور بزعم فاضل مخاطب غَرِیْبٌ کی جمع غَرِیْبِیْنَ لانا دونوں یکساں ہے۔ لہذا آخر کلمات میں رعایت تناسب کا حکم بھی دونوں کیلئے یکساں ہوگا۔
آٹھواں اعتراض اور اسکا جواب
لفظ غَرِیْب کا معنی
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ درود تاج میں ’’دونوں جگہ لفظ غریب کا وہ مفہوم لیاگیا ہے جو ہماری اردو زبان میں ہے یعنی محتاج‘ بے مایہ‘‘(انتہیٰ)
٭ ان کا یہ دعوی محض بلا دلیل ہے۔ درودتاج میں اِنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنِ اور مُحِبِّ الْفُقَرَائِ دونوں جگہ پر لفظ غِرِیْب سے اجنبی مراد ہے‘ اجنبی اور پردیسی کا کوئی انیس اور محب نہیں ہوتا۔ رسول کریم ﷺ ہر پردیسی اور اجنبی کے انیس اور محب ہیں۔ اَنِیْسِ الْغَرِیْبِیْنَ اور مُحِبِّ الْفُقَرَائِِ وَالْغُرَبَائِ کا یہی مفہوم ہے‘ انیس اور محب اس مفہوم کیلئے واضح قرینہ ہیں۔
٭ شاید پھلواروی صاحب نے غُرَبَائِ کے ساتھ فَُِرَائِ اور مَسَاکِیْن کے الفاظ دیکھ کریہ سمجھ لیا کہ فقراء اور مساکین محتاج ہوتے ہیں۔ اسلئے غُرَبَائِ سے بھی محتاج لوگ مراد ہیں مگر انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ لفظ فُقَرَاء کا معطوف ہے اور مَسَاکِیْن کا معطوف علیہ۔ عطف مغایرت کو چاہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دونوں میں سے کسی ایک جگہ بھی لفظ غَرِیْب کا مفہوم محتاج و بے مایہ نہیں لیاگیا بلکہ دونوں جگہ وہ اجنبی ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے پھلواروی صاحب کا یہ اعتراض ۔ راصل اظہار عناد کے سوا کچھ نہیں۔
نواں اعتراض اور اسکا جواب
رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ
٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے الفاظ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ میں لفظ عاشقین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے ’’محبت ایک لطیف میلان قلب کا نام ہے مگر عشق محض زورِ گندم ہوتا ہے جس کا سارا تعلق حسن و شباب سے ہے‘ مولانا روم نے صحیح کہا ہے
عشق نہ بود آنکہ در مردم بود
ایں خمار از خوردن گندم بود
٭ لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے‘‘(انتہیٰ)(جاری ہے)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment