Saturday, 24 March 2018

سنی مسلمان اور وہابی کے درمیان ایک دلچسپ گفتگو

سنی مسلمان اور وہابی کے درمیان ایک دلچسپ گفتگو

امت مسلمہ کی اکثریت نے انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو اللہ تعالیٰ کی عطاء سے اپنا مشکل کشاء اور حاجت روا مان لیا ہے اور بکثرت لوگ ان کے مزارات اور خود ان کے پاس بھی جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انہیں اس عقیدہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ان کے پاس جانا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنکی تم عبادت کرتے ہو وہ تو اپنے لئے بھی کچھ نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ وہ تمہارا بیڑا پار کریں اور پھر ایک طویل فہرست آیات کی پیش کر دی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک وہابی اور ایک سنی مسلمان کے درمیان دلچسپ گفتگو ملا حظہ فرمایئے ۔

وہابی : تم اپنے آپ کو بڑا مسلمان سمجھتے ہو لیکن جب دیکھو کبھی تم کسی مزار پر نظر آتے ہو تو کبھی کسی اپنے خود ساختہ بنائے ہوئے رہنما، پیشواء، پیر، فقیر کے پاس، تمہیں تو صرف اور صرف اللہ کے حضور حاضر ہوناچاہئے۔ ان قبروں، آستانوں اور پیروں، فقیروں کو چھوڑو ۔
سنی مسلمان : بھائی مسجد میں تو پانچ وقت کی حاضری ہوتی ہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا ہوں ۔

وہابی : تمہاری یہ تمام عبادتیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ تم قبروں اور آستانوں پر جا کر شرک کرتے ہو ۔
سنی مسلمان : بھائی! ہم شرک کیسے کرتے ہیں ذرا ہمیں سمجھائو تو سہی ۔

وہابی : پورے جوش میں! اللہ تعالیٰ نے قبروں، پیروں ، فقیروں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے ۔
سنی مسلمان : بھائی ! وہ کیسے ؟
وہابی : دیکھو بیشمار آیات ہیں ملاحظہ کرو مثلاً
ترجمہ:"فرما دیجئے کیا اللہ کے علاوہ تم ان کی عبادت کرتے ہو جو کہ تمہارے کسی ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں" (سورۃ المائدہ : آیت نمبر۷۶
اور جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں بھی ہے ۔
ترجمہ : جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر مددگار بنالئے ہیں ان کی مثال اس مکڑی کی طرح ہے کہ اس نے جالے کا گھر بنایا اور اس میں شک نہیں کہ اس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ کمزور ہے۔(سورۃ العنکبوت آیت نمبر۴۱)
اور اس کے علاوہ سورۃ الحج آیت نمبر۷۳، سورۃ الزمر آیت نمبر۳، سورۃ الاحقاف آیت نمبر۴ بھی پڑھ لو ۔
سنی مسلمان : بھائی! آپ نے اتنی آیات پیش کردیں اس سے تو یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ اس وقت کے عرب لوگ بھی اپنے اپنے پیروں، فقیروں اور قبروں پر جاتے ہونگے، کیونکہ بقول تمہارے ان آیات میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو وہاں جانے سے روک رہا ہے،بھلا یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اس زمانہ میں ایسا کرنے سے منع فرمارہا ہے وہ اس زمانہ کے مسلمان یعنی صحابہ کرام تھے یا کوئی اور لوگ ۔
وہابی : ارے توبہ کرو، وہ صحابہ کیسے ہوسکتے ہیں، بھلا صحابہ ایسا کام کیوں کرنے لگے۔ یہ کام کرنے والے لوگ تو اس زمانے کے مشرکین تھے ۔
سنی مسلمان : تو وہ مشرکین کیا قبروں اور آستانوں یا کسی پیر فقیر کے پاس جایا کرتے تھے، اگر وہ پیروں ، فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے تو ذرا ان پیروں، فقیروں کے نام تو بتا دو اور اگر وہ قبروں پر حاضری دیا کرتے تھے تو ان قبروں کی نشاندہی کر دو؟
وہابی : ارے وہ کسی قبر پر تو جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا تصور ہی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ کسی قبر والے کو زندہ سمجھ کر وہاں اس کی قبر کے پاس بیٹھیں اور اس سے مانگیں اور اس زمانہ میں تو کوئی پیر، فقیر تھے ہی نہیں کہ جن کے پاس یہ مشرکین جاتے ۔
سنی مسلمان : ارے بھائی! ذرا غور تو کرو کہ تم کہہ کیا رہے ہو، وہ آیات پڑھ پڑھ کر ہمیں قبروں اور پیروں کے پاس جانے سے روکتے ہو جو کہ اس سلسلہ میں نازل ہی نہیں ہوئی ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ ہیرے کی قیمت بجری بنانے والی فیکٹری میں جا کر پوچھی جائے کہ بتاؤہیرے کی کیا قیمت ہے۔ تو وہاں سے یہی جواب ملے گا کہ بھائی یہ تو بجری کی فیکٹری ہے، جوہری کی دکان نہیں۔ اگر ہیرے کی قیمت پوچھنی ہے تو کسی جوہری کی دکان پر جا کر پوچھو۔اے بھائی مسلمانوں کو اتنا بڑا دھوکہ تو نہ دو اور کلمہ گو مسلمانوں کو خواہ مخواہ جہنمی نہ بناؤ اور انہیں بلا وجہ مشرک قرار نہ دو! یہ تو ایسی بات ہے کہ شراب کی حرمت کی آیات پڑھ پڑھ کر صندل اور الائچی کے خوشبودار شربتوں کو حرام قرار دیا جانے لگے، بھائی وہ مشرکین اور انکے بت ہیں جبکہ یہاں تو مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے مقدس بندے ہیں۔ تم مسلمانوں کو مشرکین اور انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو بتوں پر قیاس نہ کرو، اس طرح تو مفہوم قرآن بدل کر رہ جائیگا اور پورا دین مسخ ہو جائیگا ۔

وہابی : ارے کیسی بات کہتے ہو، دیکھو جس طرح کہ ہندو جو بتوں کے پجاری ہیں وہ اپنے بتوں کو غسل دیا کرتے ہیں، یہ مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کو غسل دیتے ہیں ذرا مشرکوں اور ہندؤوں سے ان کی مشابہت تو دیکھو کتنی ہے، بالکل وہی مشرکانہ طور طریقے معلوم ہوتے ہیں ۔
سنی مسلمان : ارے بھائی! اگر مشابہت کی بات کرتے ہو تو اس طرح تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے۔
(الف) ہندؤوں کے نزدیک گنگا اور جمنا کا پانی متبرک ہے اور تمہارے نزدیک زم زم اور حوض کوثر کا پانی۔
(ب) ہندو پتھروں کو چوما کرتے ہیں اور تم حجر اسود کو۔
(ج) ہندو بتوں کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہیں اور تم بھی پتھروں کے بنے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہو۔(چشتی)

وہابی : ارے کیسی بات کرتے ہو بھائی!زم زم کے پانی کو تو اللہ تعالیٰ نے متبرک قرار دیا ہے۔
سنی مسلمان : بہر حال مشابہت تو پائی گئی ہے۔ اچھا تو یہ بتاؤ کہ خانہ کعبہ شریف کو غسل دینا اور بتوں کو غسل دینا، کیا ایک جیسا نہیں لگتا؟ یہ غسل کعبہ کا حکم کونسی آیت یا حدیث میں آیا ہے۔

وہابی : لاجواب ہوتے ہوئے! ارے توبہ کرو یہ خانہ کعبہ اور وہ بت ہیں، تمہاری باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں ۔
سنی مسلمان : اچھا یہ بتاؤ کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم یا خلفائے راشدین کے زمانہ میں غسل کعبہ ہوا کرتا تھا تو اس میں کس کس صحابی نے شرکت فرمائی تھی ؟

وہابی : ارے کیا بات کرتے ہو! ہم یہ بات مانتے ہیں کہ غسل کعبہ پہلے نہ ہوا کرتا تھا مگر اس کے کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے۔
سنی مسلمان : اے بھائی! ذرا سوچو تو سہی کیا کعبہ شریف کو غسل دینا بدعت نہ ہوا۔
وہابی : بدعت تو ہے مگر اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس لئے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ دین نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا نہیں ہے ۔
سنی مسلمان : اے بھائی! یہی تو ہم کہتے ہیں ہر وہ نیا کام جسے دین منع نہ کرے اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے اور اسے بدعت، بدعت کی رٹ لگا کر، ناجائز، حرام اور شرک و بدعت کہہ کر رد نہیں کر دینا چاہئے ۔

وہابی : لاجواب ہو کر بات بدلتے ہوئے ارے تم تو کہاں کی بات کہاں لے آئے ہو۔ بات تو ہو رہی تھی قبروں اور پیروں سے متعلق، یہ بتاؤکہ تم مقدس بندوں کے پاس جانے کو ضروری کیوں قرار دیتے ہو۔ اس کے جواز کے کیوں قائل ہو جبکہ ہم نے تمہیں کئی آیات پڑھ کر سنائی ہیں کہ ان کے پا س جانا جائز نہیں۔
سنی مسلمان : اے بھائی پھر تم وہی بات کررہے ہو جس کا ہم جواب دے آئے ہیں برائے مہربانی بتوں والی آیات پڑھ پڑھ کر انبیاء کرام اور اولیاء اللہ پر چسپاں نہ کرو یہ تو میں ابھی ثابت کروں گا کہ ہم انبیاء کرام اور اولیاء عظام کے پاس کیوں جاتے ہیں۔ مگر یہ تو بتاؤکہ بتوں والی آیات میں تم لوگ انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی شان کو تلاش کرتے ہو اور بتوں والی آیات کا حکم ان مقدس شخصیات پر لگاتے ہو یہ کتنا بڑا ظلم و ستم ظریفی ہے۔ اگر ان مقدس حضرات کی شان تلاش کرنی ہے تو وہ بتوں والی آیات میں نہ ملیں گی بلکہ ان آیات میں ملیں گی جو خود ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔

وہابی : ذرا تم خود ہی وہ آیات پیش کردو جن سے ان مقدس شخصیات اور بتوں کے درمیان فرق واضح ہو جائے تاکہ ہماری سمجھ میں بھی یہ بات آجائے کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو۔
سنی مسلمان : سرِدست تو اتنا عرض کروں گا کہ بتوں والی آیات میں تو رب العالمین کا یہی پیغام بار بار آرہا ہے کہ تم ان کے پاس مت جاؤ اور نہ ان سے کچھ مانگووہ تمہیں کچھ بھی نہیں دے سکیں گے مگر جب پیارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر آتا ہے تو سورۃ المنافقون میں یوں ارشاد ہوتا ہے ۔
جب اُن منافقین سے کہا جائے کہ (رسول کی بارگاہ میں) آؤ کہ وہ رسول تمہارے لئے دعائے مغفرت فرمائیں تو وہ (منافقین انکار کرتے ہوئے)اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں ۔ اور آپ نے انہیں دیکھا کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوتے اور وہ تکبر کرتے ہیں( کہ ہم رسول کے پاس اپنے گناہوں کو بخشوانے کیلئے کیوں جائیں تو اب آپ ان کا انجام بھی سماعت فرمائیں) کہ ان کیلئے برابر ہے کہ آپ ان کیلئے استغفار فرمائیں یا نہ فرمائیں اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔(سورۃ المنافقون۔ ۵،۶،چشتی)
دیکھو اے میرے بھائی! یہ فرق ہے انبیاء کرام اور بتوں میں، کہ بتوں کے پاس جانے سے انسان جہنمی اور مشرک ہو جاتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ اقدس میں حاضر نہ ہونے سے انسان جہنمی اور کافر ہوجاتا ہے، بتوں سے مانگے تو دوزخی ہو جائیگا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے اپنے لئے دعائے استغفار کرانے سے جنتی ہو جاتا ہے۔
دوسرا فرق : کہ بتوں کے پاس عقیدت و احترام کے ساتھ جانے سے بندہ گنہگارہو جاتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ اگر انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا تھا یعنی گناہ کربیٹھے تھے تو وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے اور انہوں نے اللہ سے معافی مانگی ہوتی اور رسول بھی ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی ہوتی اور رسول بھی ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول فرمانے والا اور انتہائی رحمت فرمانے والا پاتے (سورۃ النساء ۔۶۴)
دیکھو بھائی ! یہ فرق ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور بتوں میں کہ بتوں کے پاس جانے سے بندہ گنہگار ہوجاتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی وہ عظیم بارگاہ ہے کہ ان کے پاس حاضر ہونے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور مزید یہ کہ اللہ کی رحمت بھی برستی ہے۔(چشتی)

وہابی : ارے تم کیسی بات کرتے ہو! اس مسلمان کی بخشش تو اس بناء پر ہوئی تھی کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی بھلا اس میں رسول کا کیا تعلق ؟
سنی مسلمان : اے بھائی! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف استغفار کرنے کی بناء پر بخشا گیا تب یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو یوں کیوں فرمایا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں آجاؤ اور پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی تمہارے لئے دعا مغفرت فرمائیں تب جا کر تمہاری بخشش ہوگی اور جو بات تم کہہ رہے ہو اگر وہ درست ہوتی تو اللہ تعالیٰ بھی یوں فرماتا کہ رسول کے پاس نہ جانا ۔اگر گئے تو مشرک ہو جاؤ گے اور کبھی بھی بخشے نہ جاؤ گے بلکہ حجروں اور کمروں میں بند ہو کر محض اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت مانگو تب جا کر تمہاری بخشش ہوگی۔(چشتی)

وہابی : تو یہ بتاؤ کہ ابھی تم نے سورۃ المنافقوں کی آیت پڑھی ہے اور کہا ہے کہ ان منافقین کے لئے برابر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ان کیلئے استغفار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی استغفار ان کیلئے بخشش اور رحمت کا سبب بنتی تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی استغفار کی بناء پر ان کی بخشش کرنہ دیتا ؟
سنی مسلمان : بھائی! یہی بات تو سمجھنے کی ہے کہ یہ منافقین چونکہ خود تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے گناہوں کی معافی کیلئے دعا کرانا پسند نہیں کرتے تھے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ وہ منافقین خود تو غرور و نخوت کا مجسمہ بنے اکڑے کھڑے رہیں اور میرا حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ان کیلئے دعائے مغفرت فرمائے اور اس بناء پر انکی بخشش ہو جائے۔
ہاں! اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں گناہوں کی معافی کے طلبگار بن کر جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی دعا کی وجہ سے وہ یقینا بخشے جاتے جیسا کہ ابھی (سورۃ النساء آیت نمبر۶۴)میں گزرا ۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہے کہ اس آیت کریمہ میں محض اس بات کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ان کے لئے دعائے مغفرت فرما دیں تو دہ بخشے جائیں گے بلکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دعا کے طلبگار بنیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کریں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہمارے لئے دعائے مغفرت فرمائیں تب جا کر ان کی بخشش ہوگی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بتوں کو پکارو گے تو جہنم میں جاؤ گے مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو اپنی بخشش کیلئے پکارو گے تو جنتی بن جاؤ گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...