منافقین کا گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے علم مبارک پر طعن کرتے
منافقین کا ایک گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے علم مبارک پر طعن کرتے اور یہ کہتے دیکھو یہ نبی (علیہ السلام) آسمانی خبریں دیتا ہے مگر اونٹنی کے بارے میں نہیں جانتا۔ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک مقام پر رسول اللہ علیہ السلام نے آرام فرمایا۔ صبح کے وقت آپ علیہ السلام کی اونٹنی گم ہوگئی صحابہ تلاش میں نکلے وہاں ایک شخص زید بن الصیت تھا جو پہلے یہودی تھا بظاہر اسلام لایا مگر منافق تھا اس نے یہ کہنا شروع کردیا ۔
محمد یزعم انہ نبی و ھو یخبرکم عن خبرالسماء وھو لایدری این ناقتہ ؟
محمد علیہ السلام کا دعویٰ ہے میں نبی ہوں اور وہ تمہیں آسمانی خبریں دیتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اسکی اونٹنی کہاں ہے ؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہی جانتا ہوں جو مجھے میرا اللہ بتاتا ہے ۔ یعنی میں ذاتی طور پر کچھ نہیں جانتا مجھے اللہ تعالیٰ ہی بتاتا ہے۔ میرے رب نے مجھے اونٹنی کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے وہ فلاں جگہ ہے اور اسکی نکیل درخت کے ساتھ پھنس گئی ہے۔ صحابہ کو بھیجا اور وہاں سے اسے لے آئے۔ (بحوالہ سبل الھدیٰ والرشاد، 5، 449 ، چشتی)
یہ واقعہ احادیث اور تاریخ کی متعدد کتب میں آیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے علوم و غیوب بعطائے الٰہی پر شک کرنا اور ان کا طعن و تمسخر اڑانا صرف منافقین کا شیوہ تھا اور ہے۔ اور آج بھی اگر کوئی علم نبوت کا انکار کرتا ہے تو وہ انہیں منافقین کی پیروی کرتا ہے جن کا ذکر احادیث میں بیان ہوچکا ۔
منافقین علم نبوی پر طعن کے ساتھ ساتھ اسکا مذاق اڑاتے
امام بخاری نے (یا ایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء) کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا : کان قزم یسئالون رسول اللہ علیہ السلام استھزا فیقول الرجل من ابی و یقول الرجل تضل ناقتہ این ناقتی فانزل اللہ فیھم ھذہ الایۃ ۔
ترجمہ : کچھ لوگ رسول اللہ علیہ السلام سے بطور تمسخر و مذاق سوالات کرتے ہوئے پوچھتے بتائیں میرا والد کون ہے؟ اونٹنی گمشدہ کے بارے میں پوچھتے میری اونٹنی کہاں ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)
جبکہ بعض اوقات حضور علیہ السلام منبر پر تشریف فرما ہوکر اعلان فرماتے کسی نے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔ فواللہ لا تسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا ۔ ترجمہ : اللہ کی قسم تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اسی مقام پر کھڑے کھڑے بتاؤں گا ۔ بلکہ آپ علیہ السلام بار بار یہ اعلان فرماتے : سلونی سلونی ۔ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھ لو (بحوالہ بخاری 2/183)۔
اسی طرح امام بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ شارح بخاری شیخ مہلب کے حوالہ سے آپ کے خطبہ، اعلان، اور ناراضگی کا سبب ان الفاظ میں لکھتے ہیں : لانہ بلغہ ان قوماً من المنافقین یسالون منہ ویعجزونہ عن بعض مایسالونہ فتغیظ وقال لاتسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ۔
ترجمہ : کچھ منافقین کے بارے میں آپ علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ انہوں نے آپ علیہ السلام سے سوالات کیئے اور کہا یہ ہمارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہیں ، اس پر آپ ناراض ہوئے اور برسر منبر تشریف لاکر اعلان فرمایا مجھ سے پوچھو ، جو تم پوچھو گے میں اسکا جواب دوں گا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 /27)
یعنی منافقین کہتے تھے کہ نبی کریم علیہ السلام ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے اس طرح وہ آپ کے وسیع علم پر طنز کرتے تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ علم غیب کی بنا پر اعلان فرمایا کہ آؤ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔
اب صرف اتنا غور کیجے کہ آج کے دور کے منافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی اور یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خارجی اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔
ان کے نزدیک بھی شیطان کا علم (معاذاللہ) نبی علیہ السّلام کے علم سے زیادہ ہے اور یہ کہ نبی نبی علیہ السّلام کو تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں (بحوالہ تفویۃ الایمان، صراط مستقیم براھین وغیرہ) ۔ لہٰذا آپ خود فرق تلاش کریں کہ ماضی کے منکرین اور حال کے منکرین میں کیا فرق رہا ؟۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment