Friday 16 March 2018

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ چہارم

0 comments
درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ چہارم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

پندرھواں اعتراض اور اسکاجواب
نام مخفی رکھنے کی توجیہ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں میں ابھی تک درودتاج کے اصل مصنف کا نام معلوم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا غالباً نام مخفی رکھنے ہی میں مصلحت ہوگی تاکہ خوش عقیدہ لوگوں میں آسانی سے مقبول ہوکر رائج ہوجائے۔ انتہیٰ
٭ پھلواروی صاحب اپنی ناکامی کی جھنجلاہت میں ایسے برسے کہ گویا ان کے کان میں کسی نے کہہ دیا کہ درودتاج کے مؤلف نے خود اپنا نام مخفی رکھا ہے۔ بالفرض ایسا ہو بھی تو ان کے حق میں اس سویٔ ظن کا کیا جواز ہے کہ انہوں نے خوش عقیدہ لوگوں میں اسے رائج اور مقبول بنانے کیلئے اپنا نام مخفی رکھا ہے کیا ان کے حق میں بحیثیت مومن ہونے کے یہ حسن ظن درست نہیں کہ محض ریا اور سُمعہ سے بچنے کیلئے اپنا نام چھپایا ہو؟ کیسی عجیب بات ہے کہ کسی مؤلف کا نام معلوم نہ ہوسکے تو یہ سمجھ لیاجائے کہ اپنی تالیف کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے مؤلف نے اپنا نام مخفی رکھا ہے درودتاج تو چند سطورپر مشتمل ہے فنون عربیہ میں کئی ایسی کتابیں مروج و مقبول ہیں مثلا میزان الصرف‘ شرہ مائتہ عامل‘ پنج گنج وغیرہ جن کے مؤلفین کے نام آج تک متعین ہوکر عام طورپر سب اہل علم کو معلوم نہ ہوسکے تو کیا بقول پھلواروی صاحب یہی کہاجائے گا کہ ان لوگوں نے خوش عقیدہ عوام میں اپنی تالیفات کو مقبول اور مروج کرنے کیلئے اپنے ناموں کو مخفی رکھا؟ ذرا سوچئے! یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے۔

سولہواں اعتراض اور اسکا جواب
وظائف اولیاء کی زبان کو گھٹیا کہنا
٭ فرماتے ہیں’’ایسے ایسے کئی وظائف عوام میں رائج ہوگئے ہیں جن کا نہ سر ہے پیر۔ ان کی عربی زبان بھی نہایت گھٹیا قسم کی ہے بلکہ بعض وظائف تو سراسر مشرکانہ قسم کے ہیں‘‘ انتہیٰ
٭ میں عرض کروں گا کہ درود تاج اور اس جیسے وظائف صلحاء امت کو گھٹیا قسم کی زبان کہنا انتہائی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ ہے جیسا کہ ہمارے جوابات سے واضح ہے بقیہ وضاحت عنقریب آرہی ہے بیشک جبلا عوام میں بکثرت بے سروپا مشرکانہ وظائف و عملیات رائن ہیں جو سحر‘ جادو اور ٹونہ کے اقسام سے ہیں صلحاء امت نے نہ انہیں کبھی قبول کیا نہ وہ قبول کرنے کے لائق ہیں لیکن درود تاج اور اس جیسے وظائف اولیاء کرام کو ان سے کیا نسبت؟
٭ وہ تو علماء و صلحا ء امت کے مقبول اور پسندیدہ معمولات میں سے ہیں خود پھلواروی صاحب کے بزرگوار اور پیرو مرشد بھی درودتاج کی کمال عظمت اور مقبولیت کے قائل ہیں ان کے اپنے پمفلٹ میں یہ مضمون موجود ہے کہ خسروی صاحب نے ایک خط کے ذریعے ان سے پوچھا مولانا قاری شاہ سلیمان صاحب پھلواروی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’صلوۃ وسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ سید ابو الحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے درود تاج نبی کریم ﷺ اس درود کیلئے منظوری عطا فرمائیے کہ یہ ایصال ثواب کے وقت ختم میں پڑھا جایا کرے۔ حضورﷺ نے منظور فرمالیا۔ انتہی کلامہ ص۱۳
٭ پھلواروی صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں غلطی بہر حال غلطی ہے خواہ کسی سے اس کا صدور ہو حضرت قبلہ مولانا شاہ سلیمان پھلواروی میرے مرشد بھی ہیں اور پدر بزرگوار بھی مجھے ان سے بے حد عقیدت ہے لیکن ایسی اندھی عقیدت بھی نہیں کہ انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنے لگوں۔ انتہیٰ کلامہٗ ۱۴

پھلواروی صاحب کا اپنے مرشد کو مشرک بتانا
٭ پھلواروی صاحب نے اس جواب میں اپنے ’’خلف رشید‘‘ مرید صادق اور بے حد عقیدت مند ہونیکا جو مظاہرہ کیا ہے اسکی مثال نہیں بیشک انکے پدربزرگوار معصوم عن الخطاء نہیں لیکن خطاء کے مدارج ہیں جس خطاء کا صدور ایک مبتدی طالب علم سے بھی متصور نہ ہو پھلواروی صاحب کا اس میں اپنے پدر بزرگوار صاحب فضل و کمال‘ مرکز عقیدت‘ مرشد کامل کو عمر بھر مبتلا سمجھنا مقام حیرت نہیں تو کیا ہے؟
٭ یہی نہیں بلکہ عمر بھر انہیں درود تاج کے مشرکانہ ہونیکا بھی علم نہ ہوا۔ گویا وہ شرک و توحید میں بھی امتیاز نہ کرسکے بلکہ ایک غلط سلط مشرکانہ کلام کا بارگاہ رسالت میں مقبول و منظور ہونا بھی انہوں نے تسلیم کرلیا حتی کہ اپنی کتاب’’صلوۃ وسلام‘‘ میں بلا نکیر اسے درج کردیا۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است

٭ پھلواروی صاحب نے درودتاج کے علاوہ صالحین امت کے دیگر کئی معمولات کی بھی سخت مذمت کی ہے اور انہیں مشرکانہ قراردیا ہے اور ان کا مذاق اڑا کر عامتہ المسلمین کی نظروں میں انہیں بے وقعت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
٭ مگر یاد رہے کہ ان کی عظمت و مقبولیت کو نقصان پہنچانا پھلواروی صاحب کے بس کا روگ نہیں

اگر گیتی سراسر باد گیرد
چراغ قدسیاں ہرگز نہ میرد

سترھواں اعتراض اور اس کا جواب
وظائف اولیاء کو خلاف قرآن و سنت کہنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’ان وظائف کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل توحید کو قرآنی دعائوں اور ماثورہ ادعیہ سے ہٹا دیا جائے‘‘
٭ میں عرض کروں گا یہ کوئی نئی بات نہیں منکرین حدیث بھی یہی کہا کرتے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ گھڑنے کا مقصد یہی ہے کہ اہل قرآن کو قرآن سے ہٹا دیاجائے۔

اٹھارہویں اعتراض کا جواب
یٰاَ ایُّھَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِ جَمَالِہٖ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کس مبتدی طالب علم کو یہ نہیں معلوم کہ مشتاق کا صلہ ’’اِلیٰ‘‘ ہوتا ہے ’’ب‘‘ نہیں ہوتا۔ اتنی بھونڈی بھونڈی غلطیاں کوئی اہل علم نہیں کرسکتا۔
٭ یہ اعتراض پھلواروی صاحب کی لا علمی پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ’’اَلْمُشْتَاقُوْنَ‘‘ ’’اَلْعَاشِقُوْنَ‘‘ کے معنی کو متضمن ہے اور ’’عشق‘‘ کا صلہ ’’ب‘‘ آتا ہے’’اِلیٰ‘‘نہیں آتا۔ قاموس میں ہے عَشِقَ بِہٖ ج ۳ ص ۲۶۵ نیز تاج العروس ج۷ ص ۱۳ اور اقرب الموارد ج۲ ص ۷۸۶ میں بھی عشق کا صلہ ’’ب‘‘ مذکورہ ہے شاید پھلواروی صاحب اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جب کوئی لفظ کسی دوسرے لفظ کے معنی کو متضمن ہو تو اس کے صلہ میں وہی حرف آئے گا جو اس دوسرے لفظ کے صلہ میں آتا ہے۔ قرآن وحدیث میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّ فَثُ اِلیٰ نِسَا ئِکُمْ‘‘ (پ۲ البقرہ) کس مبتدی طالب علم کو معلوم نہیں کہ رَفَثَ کا صلہ ’’بن‘‘ آتا ہے ’’الیٰ‘‘نہیں آتا۔
٭ لسان العرب میں ہے ’’وَقَدْ رَفَثَ بِھَا‘‘(ج۲ص۱۵۴)چونکہ آیت کریمہ میں لفظ اِنْضیائٌ کے معنی کو متضمن ہے جس کا صلہ اِلٰی آتا ہے۔ لسان العرب میں ہے اَفْضَیْتُ اِلَی الْمَرْأَۃِ (جلد ۲ ص۱۵۴) اس لئے آیت کریمہ میں لفظ رفث کا صلہ اِلٰی وارد ہوا۔
٭ کیا پھلواروی صاحب قرآن و حدیث کے الفاظ کو بھی معاذ اللہ بھونڈی غلطیاں قرار دیں گے؟ اگر نہیں تو انہوں نے ’’مشتاقون‘‘ کے صلہ کو جو بھونڈی غلطی قرار دیا ہے تسلیم کرلیں کہ درودتاج کی بجائے یہ ان کی اپنی بھونڈی غلطی ہے۔
٭ الحمدللہ ہم نے درودتاج سے متعلق ان کے ہر اعتراض کا جواب مکمل و مدلل لکھ دیا اور ساتھ ہی پھلواروی صاحب کے اعتراضات بھی انہی کے الفاظ میں نقل کردیئے ہیں۔
٭ قارئین کرام سے التماس ہے کہ تعصب سے بالا تر رہ کر عدل و انصاف کی روشنی میں فیصلہ فرمالیں کہ پھلواروی صاحب کے سوالات میں طالب علمانہ استفسار ہے یا دلی تعصب و عناد کا اظہار؟
٭ ہمارے جوابات کی روشنی میں آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ پھلواروی صاحب نے درود تاج میں جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے وہ اغلاط نہیں بلکہ پھلواروی صاحب کی لا علمی اور متعصبانہ ذہنیت کا شاہکار ہیں۔

انیسواں اعتراض اور اس کا جواب
غلطی کا انکشاف
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’یہ کوئی ضروری نہیں کہ آج اگر کوئی بات کسی پر منکشف ہوئی ہو تو لازماً گذشتہ بزرگوں پر بھی منکشف ہوچکی ہو خود میں بھی اب تک درودتاج کو ایک آسمانی اور الہامی قسم کی چیز سمجھتا تھا لیکن جب حقیقت حال منکشف ہو کر سامنے آگئی تو (من بعد ماجاء نی من العلم) اپنے قدیم خیال پر جمے رہنے کا کوئی جواز نظر نہیں آیا‘‘ انتہیی کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ درودتاج میں غلطیاں موجود ہونے کے باوجود اگر میرے مرشد اور پدربزرگوار اور مرکز عقیدت شاہ سلیمان صاحب پھلواروی پر وہ منکشف نہیں ہوئیں اور مجھ پر ان کا انکشاف ہوگیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟’’یہ کوئی ضروری نہیں کہ آج اگر کوئی بات کسی پر منکشف ہوئی ہو تو لازماً گذشتہ بزرگوں پر بھی منکشف ہوچکی ہو‘‘
٭ میں عرض کروں گا کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آج اگر کسی کلام میں کوئی غلطی نکالے تو لازماً گذشتہ بزرگوں نے بھی اسے غلطی کہا ہو؟ ممکن ہے کہ اس کلام کو غور و فکر سے دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود بھی گذشتہ بزرگوں کے نزدیک وہ چیز غلطی نہ ہو جسے آج کوئی شخص غلطی کہہ رہا ہے؟ امور غیبیہ اور حقائق غامضہ خفیہ اور مسائل دقیقہ کے بارے میں تو پھلواروی صاحب کی یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جاسکتی ہے کہ ان میں سے کوئی غیبی حقیقت یا بہت باریک و دقیق ‘ پوشیدہ بات گذشتہ بزرگوں پر منکشف نہ ہوئی ہو اور بعد میں بذریعہ الہام یا غورو خوض کرنے سے کسی پر اس کا انکشاف ہوجائے لیکن جو بات ابتدائی طالب علم اور معمولی عربی دان بھی جانتا ہو وہ گذشتہ علماء راسخین اور بزرگان دین پر مخفی رہے اور مدتوں بعد کسی پر اس کا انکشاف ہو۔ قابل فہم نہیں۔ پھلواروی صاحب جن کے سامنے درودتاج رہا اور وہ اب تک اسے آسمانی اور الہامی چیز سمجھتے رہے کیاوہ اپنی عمر کے اس طویل زمانے میں ایک معمولی عربی دان اور مبتدی طالب علم کی استعداد بھی نہ رکھتے تھے کہ درودتاج کی بھونڈی بھونڈی غلطیاں بھی انہیں نظر نہیں آئیں اور اب اچانک ان کے پاس نہ معلوم کہاں سے ایسا علم آ گیا کہ درودتاج کی غلطیاں ان پر منکشف ہوگئیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے قدیم خیال پر جمے رہنے کا کوئی جواز نظر نہ آیا۔
٭ ناظرین غور فرمائیں کہ پھلواروی صاحب کی یہ بات کہاں تک قابل فہم ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس سارے کلام میں محض سخن سازی سے کام لیا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

بیسواں اعتراض اور اس کا جواب
غلط انتساب
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’غلط انتساب کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ کسی چیز کو مقبول بنانے کیلئے کسی مقبول شخصیت کی طرف منسوب کردینے کا رواج کوئی نیا نہیں بہت قدیم ہے۔ روحانی اشارات‘ کشف اور خواب وغیرہ اس مقصد کیلئے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ موثر قصے بھی تصنیف کر لئے جاتے ہیں‘‘(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ پھلواروی صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے گذارش ہے کہ صلحا امت کے وظائف اور درودتاج آپ کے نزدیک مشرکانہ اور غلط سلط ہیں سب کا مقصد آپ کے نزدیک یہی ہے کہ اہل توحید کو قرآن اور ادعیئہ مأ ثورہ سے ہٹایا جائے مگر اسی درودتاج کی مقبولیت کے ثبوت میں یہ قصہ آپ کے پدربزرگوار‘ مرشد کامل اور مرکز عقیدت نے اپنی کتاب’’صلوۃ و سلام‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔ آپ اس قصے کو جھوٹا اور من گھڑت بتا رہے ہیں۔ لاکھ دفعہ آپ اسے جھوٹا اور من گھڑت کہیں مگر اتنی بات بتا دیجئے کہ مشرکانہ ‘ غلط سلط اور قرآن و حدیث سے ہٹانے والے درودتاج کی مقبولیت کے ثبوت میں اس قصے کو لکھنے والا‘ مرشد کامل اور مرکز عقیدت ہوسکتا ہے؟ آپ کا صرف یہ کہہ دینا کہ میں انہیں معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتا ‘ کافی نہیں۔ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کی یہ خطا کس نوعیت کی ہے؟ کیا مشرکانہ کلام کی تائید عقیدہ توحید کے منافی نہیں؟ شرک کو آپ توحید کی نقیض نہیں مانتے؟ شرکیہ کلام کی فضیلت و مقبولیت ثابت کرنا بھی شرک ہے گویا آپ نے اپنے مرکز عقید ت کو خطاء شرک سے محفوظ نہیں سمجھا۔ قرآن سے ہٹانے والے کلام کی مقبولیت وفضیلت کا اثبات قرآن سے بغاوت ہے جس کا مرتکب گویا آپ نے اپنے پدر بزرگوار‘ مرکز عقیدت اور مرشد کامل کو ٹھہرایا آپ کیلئے اس الزام سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ نے جو خطاء اپنے مرکز عقیدت سے منسوب کی ہے۔ آپ اس سے رجوع فرمائیں۔ورنہ اس خطاء کے وبال سے آپ کا محفوظ رہنا بھی ممکن نہیں کیونکہ اس عظیم خطا وار سے عقیدت رکھنا بھی خطاء عظیم ہے۔

اکیسواں اعتراض اور اسکا جواب
قوا عدِ صرف و نحو قطعی نہیں
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’عربی قواعد صرف و نحو ظنی نہیں یعنی ہیں اگر ان قواعد کو ظنی مانا جائے تو قرآن و حدیث کی زبان ہی ظنی اور مشکوک ہوجاتی ہے‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے جن قواعد کو وہ یقینی کہہ رہے ہیں اہل فن کے شدید اختلافات ان میں پائے جاتے ہیں نحو کی کوئی چھوٹی بڑی کتاب ایسی نہیں جس میں یہ اختلاف مذکور نہ ہوں۔ آئمۂِ فن کے اقوال مختلفہ بالخصوص ان مسائل میں بصرین اور کوفین کے اختلافات کثیرہ سے فن کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ علامہ ابن خلدون نے بھی وضاحت کیساتھ ان کا ذکر کیا ہے فن نحو پر کلام کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون نے اس فن کے علماء بالخصوص بصرین‘ کوفین کے نحوی اختلافات کا ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں
ثُمَّ طَالَ الْکَلَامُ فِیْ ھٰذِہِ الصَّنَا عَۃِ وَحَدَثَ الْخِلَافُ بَیْنَ اَھُلِہَا فِی الْکُوْفَۃِ وَالْبَصْرَۃِ الْمِصْرَیْنِ الْقَدِیْمَیْنِ لِلْعَرَبِ
ترجمہ٭ پھر اس فن میں ان کا کلام بہت طویل ہوگیا‘کوفہ اور بصرہ کے ان علماء کے درمیان مسائل فن میں اختلافات پیدا ہوئے یہ دونوں شہر عرب کے قدیم شہروں میں سے ہیں۔(مقدمہ ابن خلدون ص۵۴۷ طبع بیروت باب ۶ فصل۳۷)
٭ کون نہیں جانتا کہ یقینی امور اختلاف کے شائبہ سے پاک ہوتے ہیں۔ دو اور دو کا چار ہونا یقینی ہے کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ پھلواروی صاحب اگر ان اختلافات سے باخبر ہوتے تو قواعد صرف و نحو کو یقینی کہنے کی کبھی جسارت نہ فرماتے۔
٭ رہا ان کا یہ کہنا کہ ’’اگر ان قواعد کو ظنی مانا جائے تو قرآن و حدیث کی زبان ہی ظنی اور مشکوک ہوجاتی ہے‘‘ پھلواروی صاحب کی لا علمی پر مبنی ہے قرآن کی زبان عین قرآن ہے جس کا محافظ خود شد ہے ارشاد ہوا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ
ترجمہ٭ ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(الحجر ۹ ع۱)
٭ قرآن کا ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت و سکون قطعی اور یقینی ہے۔ ساتواں متواتر قراتیں یقینی اور قطعی ہیں محض تعدد کی وجہ سے انہیں مختلفہ کہاجاتا ہے جیسے قرآن کی آیتوں اور سورتوں کو ایات مختلفہ و سُوَرِ مختلفہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کے صحیح اور یقینی ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جس کی دلیل ان کا تواتر ہے۔ اہل علم سے مخفی نہیں کہ تواتر مفید یقین ہوتا ہے۔
٭ ثابت ہوا کہ قرآن کی زبان کا یقینی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔ اس کے یقینی ہونے کو صرف و نحو کے ایسے قواعد پر مبنی کہنا جو اختلاف کثیر کی وجہ سے خود ظنی ہیں قرآن اور اس کی زبان کو ظنی قرار دینے کے مترادف ہے ‘ پھلواروی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن و حدیث قواعد کے تابع نہیں بلکہ صرف و نحو کے قواعد قرآن و حدیث کے تابع ہیں متبوع اصل ہوتا ہے اور تابع اس کی فرع ‘ فرع کا وجود ہمیشہ اصل کے بعد ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی زبان پہلے سے موجود تھی صرف و نحو کے قواعد نزول قرآن کے مدتوں بعد وضع کئے گئے۔
٭ علامہ ابن خلدون کہتے ہیں کہ جب اسلام آگیا اور مسلمانان عرب فتوحات کیلئے عجم کی طرف بڑھے اور انکے اختلاط کے باعث یہ خطرہ انہیں لاحق ہوا کہ عرب کا فطری لسانی ملکہ عجم سے متاثر ہوکر ختم ہوجائے گا بلکہ قرآن کے سمجھنے میں بھی سخت دشواری پیش آئے گی اس وقت اہل علم نے کلام عرب کو سامنے رکھ کر نحو کے ابتدائی قواعد وضع کئے مثلا ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے اور مفعول منصوب علم نحو میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے مشورہ سے ان کی خلافت کے اواخر میں ابوالاسووالدئلی نے قلم اٹھایا(ملحضاً) (مقدمہ ابن خلدون عربی ص ۵۴۶ طبع بیروت باب۲ فصل۳۷) خلاصہ یہ کہ اس علم نحو کے ابتدائی قواعد کی تدوین کا آغاز رسول اللہﷺ کی وفات کے تقریبا تیس پینتیس سال بعد عمل میں آیا جس پر پھلواروی صاحب قرآن و حدیث کی زبان کے یقینی ہونے کا انحصار فرمارہے ہیں۔
٭ قارئین! غور فرمائیں کہ پھلواروی صاحب کی یہ بات کس قدر غلط‘ بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔(جاری ہے)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔