Saturday, 31 March 2018

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ سوم

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ سوم

محترم قارئین کرام : اس موضوع کے پہلے دو مضامین آپ پڑھ چکے ہیں اس سلسلہ کا تیسرا حصّہ پیش خدمت ہے پڑھیئے اور فتنوں سے بچیئے :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما يُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: مِنْ اِقْتِرَابِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوْضَعَ الأَخْيَارُ وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ وَيُقْرَأَ بِالْقَوْمِ، اَلْمَثْنَاةُ لَيْسَ فِيْهِمْ أَحَدٌ يُنْکِرُهَا. قِيْلَ: وَمَا الْمَثْنَاةُ؟ قَالَ: مَا اکْتُتِبَتْ سِوٰی کِتَابِ اﷲِ .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قربِ قیامت (کی نشانیوں) میں سے یہ بھی ہے کہ (سوسائٹی میں) اشرار (یعنی برے لوگوں) کا رتبہ بلند اور اَخیار (نیکو کاروں) کا رتبہ گرا دیا جائے گا اور قیل و قال (یعنی بحث و مناظرہ) عام ہو جائے گا اور عمل پر تالے پڑ جائیں گے۔ لوگوں میں مثناۃ پڑھی جائے گی اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس کا انکار (یعنی اس کے خلاف آواز بلند) نہیں کرے گا۔ عرض کیا گیا: مَثْنَاۃ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب (اور اُس کی تعلیمات) کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہو گا وہ مثناۃ ہے (اور اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جائے گی گویا قرآنی تعلیمات کی کھلی مخالفت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی) ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 597، الرقم / 8660، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 326.چشتی)
عبداللہ بن عمرو بن العاص مزید فرماتے ہیں، امام حاکم کی روایت فرمایا: کہ ان میں ایک علامت یہ بھی ہو گی کہ : أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوْضَعَ الأَخْيَارُ، جتنے شریر، کمینے، گھٹیا، بدمعاش، کرپٹ لوگ ہیں ان کی سوسائٹی میں عزت ہو جائے گی۔ وہ بڑے کہلائیں گے، تُرْفَعَ، وہ سوسائٹی میں بڑے لوگ کہلائیں گے اور جتنے اخیار، نیک، متقی اور دیندار ہوں گے وہ چھوٹے لوگ کہلائیں گے۔ بڑائی اور چھوٹے پن کا، عزت و کمینگی کا پیمانہ بدل جائے گا، پہلے دور تھے عزت دین میں تھی، عزت دینداری میں تھی، عزت نیکی میں تھی، عزت تقوی میں تھی، عزت امانت و دیانت میں تھی ، عزت علم و عمل میں تھی۔ فرمایا: وہ زمانہ آئے گا کہ جس کے پاس دین ہو گا وہ معاشرے میں معزز نہیں ہو گا ۔
علم والا معزز نہیں ہو گا ۔ بڑے بڑے علم کی ڈگریاں لے کر اَن پڑھ ایم این اے، این پی اے کے دروازے پر دھکے کھائے گا چھوٹی چھوٹی نوکری کے لیے۔ اَن پڑھ لوگ معزز ہوں گے، پڑھے لکھے لوگ گھٹیا ہوں گے۔ کردار والے لوگ بے کار سمجھے جائیں گے۔ غنڈے، کرپٹ، بدمعاش جنہیں لوگوں کو ہراساں کرنے کا نام ہے، لوٹ مار کی دولت سے جو مضبوط ہو گئے وہ سوسائٹی میں بڑے عزت والے کہلائیں گے، یہ آقا علیہ السلام نے پیمانہ استعمال کیا۔ اور پھر فرمایا : وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ ۔ پھر یہ دور آ جائے گا کہ قول (وعدے) بڑے ہوں گے، اعلانات بڑے ہوں گے مگر ان میں سے کسی وعدے پر عمل نہیں ہو گا۔ باتیں ہی باتیں ہوں گی، عمل سوسائٹی سے ختم ہو جائے گا، عمل نہیں رہے گا ۔

آقا علیہ السلام نے ایک بات اور بڑی اہم بتائی : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا .
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لو، جو (فتنے) اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے، ایک شخص صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا اور معمولی سی دنیاوی منفعت کے عوض اپنی متاعِ ایمان فروخت کر ڈالے گا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الحث علی المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن، 1 / 110، الرقم / 118، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 303، الرقم / 8017، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن کقطع الليل المظلم، 4 / 487، الرقم / 2195، وابن حبان في الصحيحِ، 15 / 96، الرقم / 6704، وأبو يعلی في المسند، 11 / 396، الرقم / 6515، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 156، الرقم / 2774.چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، آقا علیہ السلام نے فرمایا : بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا .
امام مسلم، امام احمد بن حنبل، ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا اس حدیث کو۔ فرمایا : لوگو! فتنوں کے چھا جانے سے پہلے پہلے اعمال صالح کر لو، اعمال کی اصلاح کر لو، اچھے اعمال کی طرف آ جاؤ، میرے آقا نے فرمایا: ایک دور وہ آئے گا کہ کوئی شخص صبح اٹھے گا تو مومن ہو گا، شام کو کافر ہو جائے گا اور کبھی شام ہو گی تو مومن ہو گا، اگلی صبح کافر ہو جائے گا، بڑی حیرت کی بات تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز صبح و شام اس کا دین بدلے گا؟ صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر؟ یہ کیسے ہو گا؟ کیا کلمہ چھوڑ دے گا، کیا کلمے کو ماننا چھوڑ دے گا، کیا سنت نبوی کا انکاری ہو جائے گا؟ کیا دین کو اٹھا کے پھینک دے گا؟ صبح و شام کبھی مومن، کبھی کافر یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں کہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں گے، ایسا نہیں کہ قرآن کا کھلا انکار کر دیں گے، ایسا نہیں کہ میری نبوت و رسالت کے کھلے انکاری ہو جائیں گے ۔ نہیں ۔ فرمایا : يَبِيْعُ دِيْنَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا ، صبح جو مومن تھا شام کو کافر اس لیے ہو جائے گا کہ دن میں کوئی مفاد ملے گا، کوئی لائسنس ملے گا، ایجنسی ملے گی، کوٹہ ملے گا، رشوت ملے گی، مال ملے گا، کروڑوں کا کمیشن ملے گا، دنیا کے مفاد کی غرض سے میرا دین بیچ دے گا، کلمہ نہیں چھوڑے گا مگر دنیا کے عوض دین بیچ کر شام کو کافر ہو کے سوئے گا۔ اور کبھی شام کو مومن تھا صبح اٹھتے ہی کوئی کرپشن کرے گا اور دین بیچ دے گا۔ تو گویا دنیا کے عوض دین کو بیچنے کا عمل میری سوسائٹی کے بڑے بڑے لوگوں سے چھوٹے لوگوں تک عام ہو جائے گا۔ لہذا رشوت لے لے کر دین بیچے گا اور کافر ہو جائے گا، تو آقا علیہ السلام نے عملًا اس کوکفر قرار دیا۔
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صبح و شام کیسے کافر ہوتا پھرے گا وہ شخص؟ فرمایا : يَبِيْعُ أَقْوَامٌ دِيْنَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا قَلِيْلٍ.
ترجمہ : کئی لوگ دنیاوی عزت کی خاطر اپنا دین بہت تھوڑی دنیاوی متاع کے عوض فروخت کر ڈالیں گے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 303، الرقم / 8017، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن کقطع الليل المظلم، 4 / 487، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 459، الرقم / 37216، والحاکم في المستدرک، 4 / 485، الرقم / 8355، وابن راهويه في المسند، 1 / 401، الرقم / 441، وأبو يعلی في المسند، 7 / 252، الرقم / 4260.چشتی)

يَبِيْعُ أَقْوَامٌ دِيْنَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا قَلِيْلٍ . گھٹیا اور قلیل دنیا کے مفاد کی خاطر جماعتیں، دھڑے لوگ میری امت کے، میرے معاشرے کے اندر اپنا دین دنیوی مفاد کے پیچھے بیچیں گے اور دین بیچنے کی وجہ سے کافروں جیسے ہو جائیں گے۔ ایمان سے محروم ہو جائیں گ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ فرمایا : يَبِيْعُ أَقْوَامٌ أَخْـلَاقَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا يَسِيْرٍ . کئی لوگ دنیا کی عزت کی خاطر اپنے اَخلاق بہت تھوڑی دنیاوی متاع کے عوض بیچ ڈالیں گے ۔ (أخرجه الطيالسي في المسند، 1 / 108، الرقم / 803، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 10 / 171، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 1 / 260، الرقم / 50، والهندي في کنز العمال، 14 / 103، الرقم / 38512.چشتی)

تھوڑی سی دنیا اور تھوڑا تھوڑا دنیا کا مفاد کمانے کے لیے لوگ اپنا اخلاق بیچ دیں گے، اپنی عزت بیچ دیں گے، کردار بیچ دیں گے، ناموس بیچ دیں گے۔ کیا ہے؟ کوئی کروڑوں کے عوض دین بیچ رہا ہے، کوئی اربوں کے عوض دین بیچ رہا ہے۔ جو جتنی بڑی سیٹ پر بیٹھا ہے اتنی بڑی قیمت دنیا کی لے کر دین اور ایمان بیچ رہا ہے۔ اس سے چھوٹے ہیں جو وہ کروڑوں کا لے لے کر دین بیچ کے کافرہو رہے ہیں، اس سے چھوٹے ہیں تو ملین لے کر دین بیچ رہے ہیں، اس سے نیچے ہیں لاکھوں روپے لے کر دین بیچ رہے ہیں، اس سے نیچے ہیں تو چند ہزار ٹکے لے کر دین بیچ رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو چند ہزار لے کر کسی کے خلاف جھوٹے فتوے دے کر دین بیچ رہے ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَيَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْـلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا يُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ .
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایک وقت ایسا بھی آئے گا) کہ دنیا میں برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو چڑیوں کی طرح جلد باز، بے عقل اور درندہ صفت ہوں گے، وہ نہ تو کسی نیک کام کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برے کام کو برائی ۔
(أخرجه مسلم فس الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في خروج الدجال ومکثه في الأرض، 4 / 2258-2259، الرقم / 2940، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 166، الرقم / 6555، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 501، الرقم / 11629، وابن حبان في الصحيح، 16 / 349-350، الرقم / 7353.چشتی)

فرمایا : فَيَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْـلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا يُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا. ایسا دور آئے گا کہ برے لوگوں کا راج ہو جائے گا، برے لوگوں کا قبضہ ہو گا، باقی رہ جائیں گے اور چڑیوں کی طرح جلد باز ہوں گے، بے عقل ہوں گے، بے شعور ہوں گے، حق سے اندھے ہوں گے اور درندہ صفت ہوں گے، ظالم، اور نہ وہ کسی نیکی کے کام کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برے کام کو برائی سمجھیں گے، اتنے بے حیا ہو جائیں گے، دین سے اتنے دور ہو جائیں گے۔ اب ایسے لوگوں کے پیچھے اگر علماء اور دیندار لگ جائیں اور ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوں تھوڑے تھوڑے دنیوی مفاد کی خاطر تو انہوں نے کیا کمایا۔ وہ تاجدار کائنات کو کیا چہرہ دکھائیں گے ؟

آقا علیہ السلام نے مزید ارشاد فرمایا : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلٰی دِيْنِهِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ . لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگاروں سے مٹھی بھر لے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 / 526، الرقم / 2260.چشتی)

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جامع ترمذی کی حدیث فرمایا : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلٰی دِيْنِهِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ . لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے لوگ، جو دین پر قائم ہوں گے استقامت کے ساتھ ان کی مثال ایسی ہو جائے گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگارے اپنی مٹھی میں بھر لے، دین پر قائم رہنا اس سوسائٹی میں، دین و ایمان پر قائم رہنا، سچائی پر قائم رہنا، دیانت پر قائم رہنا اس سوسائٹی میں جہاں راج ہی سارا جھوٹ، مکر، فریب، پیسے، بددیانتی اور خیانت کا ہے، لوٹ مار کا ہے۔ فرمایا: ایسے ماحول میں میرے دین پر قائم رہنے والے اتنی مشکل زندگی گزاریں گے کہ جیسے انگاروں کا، انگاروں کو جیسے کوئی اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے ۔ مگر اللہ پاک ان کو اجر کیا دے گا ؟ یہ بات سمجھنے والی ہے ۔

عَنْ مَعْقَلِ بْنِ يَسَارٍ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَة إِلَيَّ . ترجمہ : حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فتنوں کے زمانہ میں عبادت کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہوگا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب فضل العبادة في الهرج، 4 / 2268، الرقم / 2948، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الوُقوف عند الشُّبُهات، 2 / 1319، الرقم / 3985، والطيالسي في المسند، 1 / 126، الرقم / 931، وابن حميد في المسند، 1 / 153، الرقم / 402، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 212، الرقم / 488، 490،چشتی)

وفي رواية عنه: قَالَ: الْعَمَلُ فِي الْهَرْجِ کَهِجْرَة إِلَيَّ . ترجمہ : : ایک روایت میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زمانہ فتن میں نیک عمل کرنے کا اجر میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہے ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 25، الرقم / 20313، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 212، الرقم / 489،چشتی)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا ضُيِعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: کَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: یا رسول اﷲ! امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: جب اُمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانة، 5 / 2382، الرقم / 6131، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم / 8714، وابن حبان في الصحيح، 1 / 307، الرقم / 104، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 10 / 118، الرقم / 20150، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 335، الرقم / 1322، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 4 / 768، الرقم / 381.چشتی)

جب اقتدار، حکومت، شرافت، قیادت، سیادت، امانت، جب امور نا اہل لوگوں کے سپرد ہو جانے لگیں، جب قوم اہل لوگوں کو چھوڑ کر نا اہل لوگوں کو منتخب کرنے لگے، ان کو امانتیں دینے لگے تو میرے آقا نے فرمایا: پھر قیامت اور عذاب الہی کا انتظار کرنا ۔

وقال الحافظ ابن حجر في ’’الفتح‘‘: وَالْمُرَادُ مِنَ الأَمْرِ، جِنْسُ الأُمُوْرِ الَّتِي تَتَعَلَّقُ بِالدِّيْنِ کَالْخِـلَافَةِ وَالإِمَارَةِ وَالْقَضَاءِ وَالِافْتَاءِ وَغَيْرِ ذٰلِکَ . ترجمہ : حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں بیان کرتے ہیں: ’اَمر‘ سے مراد وہ تمام اُمور ہیں جن کا تعلق (بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طور پر) دین سے ہو، جیسے حکومت و سلطنت (صدارت، وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ علیا، گورنری اور عمومی وزارتیں)، عدلیہ اور شرعی افتاء وغیرہ ۔ (العسقلاني في فتح الباري، 11 / 334، الرقم / 6131.) ۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد (وَالْمُرَادُ مِنَ الأَمْرِ) کہ امر نا اہل لوگوں کے سپرد کئے جائیں تو سمجھو عذاب آئے گا۔ فرمایا: اس کا تعلق دین کے تمام امور سے ہے ( کَالْخِـلَافَةِ) یعنی حکمران منتخب کرنا بھی اسی امانت کا حصہ ہے، (وَالإِمَارَةِ) قیادت اور سربراہی منتخب کرنا بھی اس امانت کا حصہ ہے، (وَالْقَضَاءِ) عدلیہ کے جو مناصب ہیں اونچے، عدالتیں (چھوٹی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک تما م عدالتوں) کی کرسیوں اور مناصب بھی نا اہل لوگوں کے پاس جائیں وہ بھی اس کا حصہ ہے (وَالِافْتَاءِ) اور فتوی دینے والوں کا منصب بھی نا اہل لوگوں کے پاس جائے، مذہبی منصب بھی امانت کا حصہ ہے۔ گویا آقا علیہ السلام نے فرمایا : جب معاشرے کے لوگ حکومت اور اقتدار کی امانت کرپٹ لوگوں کے ہاتھ دینے لگیں اور اہل لوگوں کو نہ دیں تو سمجھو وہ عذاب کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ جب لوگ سیاسی اور سماجی قیادت نا اہل، کرپٹ لوگوں کو دینے لگیں سمجھو عذاب الہی آ رہا ہے، جب عدلیہ کے مناصب پر، عدلیہ کی کرسیوں پر بددیانت، خائن، نالائق، جھوٹے، مکار اور بے ایمان قسم کے شخص جا کے بیٹھ جائیں اور یہ منصب قضا جب نا اہلوں کے ہاتھ میں چلا جائے سمجھو سوسائٹی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب مذہبی پیشوا فتوی دینے والے جب وہ نا اہل ، بے کار، جھوٹے، مکار اور دین فروش لوگوں کے پاس یہ منصب چلے جائیں۔ سمجھو سوسائٹی پر اللہ کا عذاب آ رہا ہے ۔ تو گویا فرمایا : کسی قسم کا بھی امر اگر نا اہل لوگوں کو سوسائٹی دینے لگے تو سمجھو کہ اللہ کا عذاب آئے گا۔ لوگ برے حالات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ (جاری ہے)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...