ایک ایسی لذت جس سے جنت بھی محروم ہے
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الشہید لا یجد الم القتل الاکمایجد احد کم الم القراصۃ رواہ الترمذی والنسائی والدارمی ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا "شہید قتل کی تکلیف محسوس نہیں کرتا، لیکن صرف ایسی کہ جیسے تم میں سے کوئی شخص چٹکی (بھرنے) یا چیونٹی کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتا ہے" (مشکوٰۃ شریف جلد ثانی۵۹ ) اس حدیث کو ترمذی، دارمی اور نسائی نے روایت کیا ۔
الفاظ حدیث کا مفہوم بالکل واضح ہے یعنی اللہ کے نام پر قتل ہونے والا قتل کی شدید تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ جہاں تک ایمان اور عقیدہ کا تعلق ہے۔ مرد مومن بارگاہِ رسالت میں یہ کہہ کر جھک جاتا ہے کہ : عقل قرباں کن بہ پیش مصطفیٰ
لیکن تاوقتیکہ زبانِ رسالت کے ادا کئے ہوئے الفاظ کو عقل سلیم کے معیار پر دنیا کے روشن خیال اور صالح افراد کے ذہن نشین نہ کرادیا جائے۔ علم و عقل کی دنیا میں عظمت نبوت کا وزن صحیح قائم نہیں کیا جاسکتا۔
مقتول کا قتل کی تکلیف محسوس کرنا ایک ایسا فطری امر ہے جس کو واقعات کی روشنی میں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مقتولین کا قتل کے وقت کیا حال ہوتا ہے۔ ان کی چیخ و پکار، آہ وفغاں صاف اور واضح طور پر اس حقیقت کو بے نقاب کر رہی ہے کہ یہ لوگ شدید ترین تکالیف و آلام میں مبتلا ہیں، ایسی صورت میں ضروری ہے کہ حدیث شریف میں کامل غورو خوض کے بعد اس استبدادِ ظاہری کو دور کریں تاکہ زبانِ رسالت سے نکلے ہوئے الفاظ کے مرادی معنی اچھی طرح واضح ہوجائیں اور علم و عقل کی دنیا میں نبوت و رسالت کے وقار کو نافہموں کی طرف سے کوئی صدمہ نہ پہنچے۔
حدیث زیرِ بحث کے فہم کو آسان کرنے کے لئے ناظرین کرام کو بخاری شریف کی ایک حدیث کے مضمون کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں سے ارشاد فرمائے گا کہ میں تم کو تمام دنیا کی نعمتیں عطا فرماکر دنیا میں واپس بھیجتا ہوں۔ تم جنت چھوڑ کر دنیا میں واپس جانا چاہتے ہو؟ اس ارشاد کے جواب میں تمام جنتی دنیا میں جانے سے انکار کردیں گے لیکن شہید عرض کرے گا، مولا تعالیٰ! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے۔ اس لئے نہیں کہ دنیا اور اس کی نعمتیں نعمائے جنت سے بہتر ہیں، بلکہ صرف اس واسطے کہ دنیا میں پھر تیرے نام پر قتل کیا جاؤں، اور زندہ ہوکر پھر دنیا میں جاؤں اور پھر جامِ شہادت نوش کروں۔ مطلب یہ ہے کہ جنت میں سب کچھ ہے مگر ایک لذت ایسی ہے جو جنت میں بھی میسر نہیں۔ اور وہ تیرے نام پر سرکٹانے کی لذت ہے۔ غیر شہید چونکہ لذتِ شہادت سے واقف نہیں، اس لئے وہ سب انکار کردیں گے اور شہید اس مزہ سے آشنا ہوچکا ہے۔ اس لئے تمنا کرے گا۔
یہاں اس بات کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنت کی لذتوں کے سامنے سارے جہاں کی لذتیں ہیچ ہیں لیکن شہید پھر بھی یہی چاہے گا کہ میں ان سب کو چھوڑ کر شہادت کا مزہ حاصل کرنے کے لئے دنیا میں چلا جاؤں۔
اس سے اندازہ کیجئے کہ لذت شہادت کیسی ہوگی ؟
یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ جنت کی ہر چیز راحت و آرام پر مشتمل ہے اور قتل ہونا سراسر تکلیف و اذیت کا موجب ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ شہید راحت و آرام چھوڑ کر اذیت و مصیبت کی طرف جانا چاہے گا۔ یہ بات تو قانونِ فطرت کے خلاف ہے! لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عام قانون تو یہی ہے کہ تکلیف و مصیبت سے بچنے اور راحت و آرام حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر محبت کا قانون اس کے برعکس ہے۔ احساس محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر الم میں راحت پاتا ہے اور ہر درد میں لذت محسوس کرتا ہے، محبت کا مزاج اس کا شعور و ادراک سب کچھ جدا گانہ ہے۔ اس کے نزدیک موت میں حیات ہے، رنج میں راحت، لوٹنے، تڑپنے میں اسے مزہ آتا ہے، محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کانٹے کو پھول سمجھتی ہے اور نار کو گلزار، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ محب کی نگاہوں میں اس کے محبوب کا حسن و جمال سمایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے قلب و روح کی گہرائیوں بلکہ تمام روحانی نظام میں جلوہ ہائے محبوب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا دِماغ شرابِ الفت میں چور اور آنکھیں نشۂ محبت میںمخمور ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر کسی مریض کا آپریشن کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے کلوروفام سنگھاتا ہے۔ مریض اس کے نشہ میں ایسا بیہوش ہوتا ہے کہ اسے اپنے جسم کے کٹنے اور پھاڑے جانے کا کچھ احساس نہیں ہوتا۔
جب کلوروفام کے نشہ کا یہ حال ہے تو نشۂ شرابِ محبت کا کیا حال ہوگا۔ نشہ سونگھنے والے مریض کو جسم کے کاٹے جانے کا پتہ نہیں لگتا تو شرابِ الفت کے نشہ میں مخمور ہونے والوں کو سر کٹنے کا کیا احساس ہوسکتا ہے؟
یقین نہ ہو تو قرآن کریم میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصہ پڑھ لیجئے۔ زنانِ مصر نے جب یوسف علیہ السلام کا جمال دیکھا اور چھری سے پھل تراشنا چاہا تو پھل کاٹنے کی بجائے انہو ںنے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ ان عورتوں نے پھلوں کی بجائے اپنے ہاتھوں کو کاٹ لیا، لیکن انہیں اپنے ہاتھوں کے کٹنے کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ اگر انہیں احساس ہوتا تو فوراً کہتیں کہ ہمارے ہاتھ کٹ گئے۔ مگر اپنے ہاتھوں کے کٹنے کا ذِکر نہیں کرتیں بلکہ کہتی ہیں کہ حَاشَ لِلہِ مَاہٰذَا بَشَرًا اِنْ ہٰذَا اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمخدا کی قسم یہ بشر نہیں۔ یہ تو بزرگ فرشتہ ہے۔
جن کی نگاہوں میں یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کے جلوے تھے۔ انہیں ہاتھوں کے کٹنے کا پتہ نہ چلا تو جن کی نظروں میں جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جلوے سمائے ہوئے ہیں انہیں سر کٹنے کا کیا احساس ہوسکتا ہے؟
اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا :
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
معلوم ہوا کہ شہداء چونکہ شرابِ محبت محمدی کے نشہ میں مخمور ہوتے ہیں اور ان کی نگاہوں میں حسنِ مصطفائی کے جلوے سمائے ہوتے ہیں اس لئے انہیں الم قتل کا احساس نہیں ہوتا ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment