Friday 16 March 2018

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ ششم

0 comments

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ ششم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

نَادِعَلِیًّا
ایک بے بنیاد قصے کی تردید
٭ پھلواروی صاحب نے اس عنوان کے تحت صالحین امت بالخصوص سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف دلی نفرت اور بغض و عناد کا اظہار جس انداز سے کیا ہے۔ محتاج بیان نہیں ۔ اس کے پس منظر میں جو بے بنیاد قصہ روافض سے انہوں نے نقل کیا ہے ہم پر حجت نہیں کسی نے اس بے بنیاد واقعہ کو غزوہ خیبر سے متعلق کیا اور کسی نے غزوہ تبوک سے ہمارے نزدیک سرے سے یہ قصہ ہی من گھڑت ہے۔ لہذا اس کی بنیاد پر پھلواروی صاحب کا طعن و تشنیع بے محل‘ لا یعنی اور لغو ہے ہم اس وظیفہ کے متعلق اتنا جانتے ہیں کہ یہ بعض صالحین کے اوراد میں شامل ہے اور بس۔

ناد علی شعر نہیں
٭ ہمارے خیال میں یہ وظیفہ نظم نہیں بلکہ نثر ہے اسے شعر کہنا درست نہیں شعر اس کلام موزون‘ مقفی کو کہتے ہیں جو بقصد شعر کہاجائے۔ اگر کوئی کلام یا اس کا کوئی حصہ بلا قصد اتفاقاً موزوں ہوجائے تو اسے شعر نہیں کہاجاتا۔ آیتہ قرآنیہ کا ایک حصہ ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰؤُلَائِ تَقْتُلُوْن(البقرہ ۸۵) موزوں ہے مگر وہ کلام الہی ہے۔ قصدِ وزن اور شعریت سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔

پچیسواں اعتراض اور اسکا جواب
٭ پھلواروی صاحب نے اس وظیفہ کو شعر سمجھا اور اس بنیاد پر وزن اور قافیہ کا اعتراض اس پر جڑ دیا جو بِنَائُ الْفَاسِدعَلَ الْفَاسِد کا مصداق ہے جب وہ مانتے ہیں کہ اس میں نہ قافیہ کی رعایت ہے نہ وزن کی پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بنیاد پر وہ اسے شعر سمجھ رہے ہیں؟

چھبیسواں‘ ستائیسواں اور اٹھائیسواں اعتراض اور انکے جواب
چند بے محل اعتراضات کا اجمالی جواب
٭ حضورﷺ کا اپنے آپ کو مخاطب کرنا اور فتح خیبر کیلئے حضورﷺ کی نبوت کا کافی نہ ہونا اور حضورﷺ کا مدد کیلئے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کو پکارنا پھلواروی صاحب کے ایسے اعتراضات ہیں جنکی بنیاد وہی من گھڑت قصہ ہے جسکی ہم ابھی تکذیب کرچکے ہیں۔

انتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
نام اقدس لے کر خطاب کرنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’پھر دیکھئے کہ کس بد تمیزی سے حضورﷺ کو نام لے کر مخاطب کیاجارہا ہے۔ سارے قرآن میں کہیں حضورﷺ کو نام لے کرمخاطب نہیں کیاگیا ہے کسی صحیح حدیث قدسی میں نام لے کر مخاطب نہیں کیاگیا ہے‘‘
٭ یَا مُحَمَّدُ کے الفاظ کو بد تمیزی کہنا بجائے خود بدتمیزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بہ نفس نفیس ’’یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ قَدْتَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ‘‘ کے الفاظ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو تلقین فرمائے۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ قزوینی نے اپنی سنن میں روایت کیا اور کہا قَال اَبُوْ اِسْحٰقَ ہٰذَا حَدِیْثٌ صَحیْحٌ یعنی ابو اسحق نے فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔
٭ (ابن ماجہ ص۱۰۰ طبع اصح المطابع کراچی ص ۴۴۱‘۴۴۲ طبع بیروت ج ۱) یہاں یہ ملحوظ رہے کہ آیت کریمہ تَجْعَلُوْا دُعَائَ الرَّسُوْل بَیْنَکُمْ الآیتہ میں رسول اللہ ﷺ کو جس نداء اور خطاب کرنیکی ممانعت آئی ہے درحقیقت وہ ایسی نداء اور خطاب ہے جس کا عادۃ لوگوں میں رواج ہے جیسے عام طورپر کسی کو یَازَیْدُ ‘ یَا عَمْرُو کہہ کر پکارلیاجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اسطرح میرے رسول کو نہ پکارو۔
٭ مگر اورادو وظائف میں یَامُحَمَّدُ کے ساتھ حضورﷺ کو جو نداء کی جاتی ہے۔ وہ ہرگز اس نوعیت کی ندائے مروج و معتاد نہیں بلکہ یہاں تو تنہائی میں محض سر گوشی کے طور پر یَا مُحَمَّدُ کہہ کر حضورﷺکی روحانیت مقدسہ کو نداء کیساتھ اپنی طرف اسلئے متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ یَا مُحَمَّدُ کہنے والا حضورﷺ کو اپنے لئے تَوَجُّہْ اِلیٰ اللّٰہ کا وسیلہ بنائے۔
٭ لہذا اس نداء کو ندایٔ مروج اور خطابِ معتاد پر قیاس کرنا ہرگز صحیح نہیں تاہم اہل علم ایسے مواقع پر احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے یَامُحَمَّدُ کی بجائے یَارسُوْل اللّٰہ پڑھتے ہیں۔
٭ بہرنوع پھلواروی صاحب کا یَا مُحَمَّدُکہنے کو بے دھڑک بدتمیزی کہہ دینا سخت بدتمیزی ہے اور حدیث پاک پر صراحتہً طعن کرنا ہے (العاذ باللہ)

یَا مُحَمَّدُ کہنے کا ثبوت
٭ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یَا مُحَمَّدُ کہہ کر حضورﷺ کو مخاطب نہیں فرمایا لیکن یَا مُحَمَّدُ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حضورﷺ کو خطاب فرمانا احادیث صحیح میں وارد ہے۔ مُتِّفَقْ عَلَیْہِ حدیث میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَاْسَکَ‘‘ اے محمدﷺ اپنا سر اقدس اٹھائیے۔(مشکواۃ شریفص ۴۸۸ ۔۴۸۹ طبع رشیدیہ دہلی) اختصام ملائکہ کی مشہور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کیلئے لفظ یَا مُحَمَّدُ کے ساتھ اللہ کا خطاب وارد ہے۔ بروایت معاذین جبل رضی اللہ عنہ اس حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یَا مُحَمَّدُ سرکار فرماتے ہیں میں نے عرض کیا لَبَّیْکَ رَبِّ اے میرے رب میں حاضر ہوں۔(مشکواۃ ص۷۲)

تیسواں اعتراض اور اسکاجواب
نادعلی کو مشرکانہ وظیفہ کہنا
٭ رہا یہ امر کہ اس وظیفہ میں شرکیہ الفاظ ہیں تو یہ پھلواروی صاحب کی ناسمجھی ہے۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا مدد کرنا اذن الہی اور مشیت ایزدی کے تحت ہے بالا استقلال نہیں اور مدد اور عون کی اسناد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے جس کا مفاد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے توسل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس وظیفے کے الفاظ سے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے مستعاں حقیقی ہونے کا مفہوم پھلواروی صاحب کی اپنی فہم ہے جو درست نہیں آیت کریمہ اِیَّاک نَسْتَعِیْنُ کے تحت ہم نے اپنے تفسیری حواشی میں اس مسئلہ کی پوری وضاحت کردی ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔

اکتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
مرتب ناد علی کو بدبخت شاعر کہنا
٭ اس وظیفے کے مؤلف کو بد بخت شاعر کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور اس کے حق میں یہ کہنا کہ ’’بدبخت شاعر کو حضورﷺ کی طرف شرک منسوب کرتے بھی شرم نہ آئی‘‘ پھلواروی صاحب کے بے محل غیظ و غضب کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔
٭ ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ یہ وظیفہ شعر نہیں لہذا اس کی بنیاد پر اس کے مؤلف کو شاعر کہنا غلط ہے نہ اس نے اس وظیفہ کا کوئی کلمہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔ حضورﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے والا وہ بد بخت ہے جس نے یہ جھوٹا قصہ گھڑا۔
٭ پھلواروی صاحب کی تمام تر طعن و تشنیع کی بنیاد صرف وہی جھوٹا قصہ ہے جو کسی رافضی کے حوالے سے انہوں نے نقل کیا جس کا کوئی تعلق نہ وظیفے سے ہے نہ اس کے مؤلف سے۔

بتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
حسنین کریمین صحابی ہیں
٭ پھلواروی صاحب ملا باقر مجلسی کا ایک بیان نقل کرکے تحریر فرماتے ہیں ’’اس روایت سے واضح طورپر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جناب حسن رضی اللہ عنہ وفات نبوی کے وقت چار سال کے لگ بھگ تھے اور جناب حسین رضی اللہ عنہ ان سے بھی کوئی سال بھر چھوٹے تھے۔ دوسرے یہ کہ سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو شریک غزوہ خیبر ہونا صحیح نہیں‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ میں عرض کروں گا کہ ملا باقر مجلسی کا بیان یا اس کی منقولہ روایت ہمارے نزدیک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی۔ یہاں اس کا نقل کرنا ہی بے سود اور بے محل ہے۔ ہمارے علمائے محقیقین نے لکھا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی ولادت نصف رمضان 3ہجری میں ہوئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ قَالَ خَلِیْفَۃُ وَغَیْرُ وَاحِدٍ وُّلِدَللِنِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ سَنَۃَ(۳) یعنی خلیفہ اور ان کے علاوہ کئی علماء نے کہا کہ حضرت حسن نصف رمضان3ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے ابن حجر اسی مقام پر فرماچکے ہیں۔ رَوٰی عَنْ جَدِّہٖ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا رسول اللہ ﷺ سے روایت کی (تہذیب التہذیب ج۲ص۲۹۵‘۲۹۶ بیروت) امام ابن جوزی نے تقریباً دس احادیث کے رواۃ میں ان کانام لکھا (تلقیح فہوم الاثرص۱۸۷ طبع دہلی) اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں فرمایا’’قَالَ الزُّبَیْرُبْنُ بَکاَّرٍ وْلِدَ لِحَمْسِ لَیَالٍ کَلَوْنَ مِنْ شَعْبَانَ سَنَۃَ اَرْبَعٍ‘‘ یعنی زبیر بن بکار نے کہا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ چھ شعبان 4ہجری کو پیدا ہوئے(تہذیب التہذیب ج۲ ص ۳۴۵ طبع بیروت)اور امام ابن جوزی نے انہیں تقریباً سات احادیث کے رواۃ میں شمار کیا۔(تلقیح ص ۱۸۸)
٭ ثابت ہوا کہ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’جناب حسن رضی اللہ عنہ وفات نبوی کیوقت چار سال کے لگ بھگ تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان سے بھی کوئی سال بھر چھوٹے تھے قطعاً غلط اور دروغ بے فروغ ہے حقیقت یہ ہے کہ وفات نبوی کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر شریف تقریباً ساڑھے سات سال اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریباً ساڑھے چھ سال تھی۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کا احادیث روایت کرنا بھی اسی کا مو’ید ہے۔
٭ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمالیا کہ پھلواروی صاحب نے کس دلیری کے ساتھ حق کو چھپایا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت گھٹانے کی کیسی مذموم جسارت کی۔

حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور غزوہ خیبر
٭ اسی طرح حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں بھی ان کا یہ گھنائونا نظریہ قارئین کرام کے سامنے آگیا کہ ’’سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا شریک غزوہ خیبر ہونا صحیح نہیں‘‘ العیاذباللہ۔
٭ آج تک دنیا کے کسی مورخ نے غزوہ خیبر میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شرکت کی نفی نہیں کی۔ تمام کتب سیرت و تاریخ اور احدیث صحیحہ میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا غزوہ خیبر میں شریک ہونا بلکہ فاتح خیبر ہونا منقول اور مروی ہے۔ صحیحین کی متفق علیہ حدیث ہے
عَنْ سَلمَۃَ قَالَ کَانَ عَلِّیٌ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبَیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نِیْ خَیْبَرَوَکَانَ بِہٖ رَمَہٌ فَقَالَ اَنَا اَتَخَلَّفُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ اللَّیْلَۃِ الَّتِیْ فَتَحَھَا اللّٰہُ فِیْ صَبَا حِھَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ اَوْلَیَأْ خُذَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَوْقَالَ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَیْہِ فَاِذَانَحْنُ بِعَلِیٍّ وَمَانَرْجُوْہُ فَقَالُوْھٰذَا عَلِیٌّ فَاَعْطَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ھٰذَا عَلِیٌّ فَاَعْطَاہپ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔
ترجمہ٭ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ عزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ انہیں آشوب چشم کی تکلیف تھی۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ جائوں؟ چنانچہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم مدینہ سے چل کر خیبر پہنچے اور حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے۔ جب اس رات کی شام ہوئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کل یہ جھنڈا میں اسے دوں گا یا مجھ سے یہ جھنڈا وہ لے گا جو اللہ تعالیٰ اور رسول کا محبوب ہے یا (فرمایا) اللہ تعالیٰ اور رسول اسکے محبوب ہیں۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ اسی پر فتح فرما دے گا اچانک ہم نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا اور ہمیں انکی کوئی امید نہ تھی صحابہ نے عرض کیا حضورﷺ ! یہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ جھنڈا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خیبر فتح فرمایا۔ انتہیٰ(صحیح بخاری ج اول ص۵۲۵ صحیح مسلم جثانی ص۲۷۹ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ شاید قارئین کرام میں سے کسی کو یہ شبہ لاحق ہو کہ پھلواروی صاحب نے ملا باقر مجلسی اور روافض پر الزام قائم کرنے کیلئے ایسا لکھا ہے تو میں عرض کروں گا کہ الزام‘ مخاطب پر قائم کیاجاتا ہے پھلواروی صاحب کے مخاطب‘ روافض اور ملا باقر مجلسی نہیں پھر ان پر الزام قائم کرنے کے کیا معنی؟ درودتاج‘ دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیر جن اوراد و وظائف پر پھلواروی صاحب نے جواعتراضات کئے وہ بزرگان اہل سنت کے معمولات ہیں۔ اس لئے پھلواروی کے مخاطب روافض اور ملا باقر مجلسی نہیں بلکہ ہم غریبین ہیں۔ لہذا روافض یا ملا باقر مجلسی پر الزام قائم کرنے کا شبہ درست نہیں ہوسکتا۔
٭ علاوہ ازیں اس موقع پر اظہار حق ضروری تھا جو انہوں نے نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہی ان کے نزدیک حق ہے جو اہل حق کے نزدیک سراسر باطل اور ناقابل قبول ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کی یہ ساری کاوش اس غرض سے ہے کہ فضائل اہل بیت کے انکار اور ان کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے کیلئے کہیں سے انہیں کوئی سہارا مل جائے نہ معلوم کس قدر تگ و دو اور کدوکاوش کے بعد ملا باقر مجلسی کی یہ روایت ان کے ہاتھ آئی‘ جس کے بعد حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ دو باتیں ثابت کرنے کا بزعم خویش انہیں موقع میسر آیا جو اہل سنت کے لئے قابل قبول تو درکنار لائق التفات بھی نہیں۔

مَرْحَبْ یہودی کے قاتل
٭ دنیا جانتی ہے کہ یہود خیبر کے سب سے بڑے سردار مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ پھلواروی صاحب اس کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مزید براں طبری متوفی310ہجری کے بیان کے مطابق مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اور صحیح بھی یہی ہے۔ کیونکہ ان کے بھائی محمود بن مسلمہ کی خواہش پر حضور ﷺ نے انہی کو مرحب کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا اور انہی نے اسے قتل کیا۔ مرحب کے قتل کا کوئی تعلق سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نہیں۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا اختراع ہے‘‘ انتہیٰ کلامہٗ
٭ میں عرض کروں گا علم حدیث اور سیرت کی روشنی میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں دیکھئے امام مسلم متوفی261ہجری نے ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث روایت کی جس کا آخری حصہ حسب ذیل الفاظ میں ہے۔
وَخَرَجَ مَرْحَبُ فَقَالَ

قَدْعَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ
اِذَا الْحُرُوبُ اَقٰبَلَتْ تَّلَھَّبٗ
فَقَالَ عَلِیٌّ
اَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ اُمِّیْ حَیْدَرَہ کَلَیْثِ غَابَاٹٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ
اُدْنِیْھِمْ بالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ
قَالَ فَضَرَبَ رَأَسَ مَرْحَبٌ فَقَتَلَہٗ ثُمَّ کَانَ الْفَتْحُ عَلٰی یَدَیْدِ(صحیح مسلم شریف ج۳ ص۱۴۴۱ طبع بیروت)
ترجمہ٭ یہودیوں کا سب سے بڑا سردار مرحب رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا میدان جنگ میں نکلا۔ خیبر والے جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں۔ نہایت مضبوط ہتھیار بند‘ آزمودہ بہادر پہلوان۔ جب بھڑکتی ہوئی لڑائیاں سامنے آئیں۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کے مدمقابل ہوکر فرمایا۔ میں وہ علی ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا‘ بیانانوں کے خوفناک شیروں کی طرح‘ میں دشمنوں کو بڑی تیزی اور فراخی کے ساتھ قتل کرتا ہوں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کے سر پر کاری ضرب لگائی اور اسے قتل کردیا پھر خیبر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہاتھ پر فتح ہوگیا۔ انتھیٰ
٭ علامہ ابن کثیر نے فرمایا اس حدیث کو مسلم اوربیہقی نے روایت کیا بیہقی کے الفاظ حسب ذیل ہیں
قَالَ فَضَرَبَ مَرْحَبَ فَفَلَقَ رَأْسَہٗ فَقَتَلَہٗ وَکاَنَ الْفَتْحُ
ترجمہ٭ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کو ضرب کاری لگائی اس کا سر پھاڑ کر اسے قتل کردیا اور خیبر کی جنگ فتح ہوگئی۔(البدایہ و النہایہ جز چہارم ص۱۸۸ طبع مصر)یہی الفاظ مستدرک میں بھی ہیں۔(المستدرک للحاکم ج۳ ص۳۹ طبع بیروت) اسی طرح طبقات محمد بن سعد متوفی230ہجری میں ہے(ج۲ص۱۱۲ طبع بیروت)
٭ ابن کثیر نے بیہقی کی ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں
نَبَدَرَہٗ عَلِیٌّ بِضَرْبَۃٍ فَقَدَّالْحَجَرَ وَالْمِغْفَرَوَرَاّسَہٗ وَوَ قَعَ فِی الْاَضْرَاسِ وَاَخَذَ الْمَدِیْنَۃَ
ترجمہ٭ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مرحب کو ضرب لگانے میں جلدی کی تلوار کی ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے پتھر اور لوہے کے خود کو کاٹ کر رکھ دیا۔ تلوار اس کے سر میں پیوست کردی۔ جو اس کی ڈاڑھوں تک پہنچ گئی اورخیبر کے شہر کو فتح کرلیا۔(البدایہ و النہایہ جز۴ص۱۸۷)
٭ نیز علامہ ابن کثیر نے امام احمد کی بھی ایک روایت بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں’’عنْ عَلِیٍّ (ڑَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ( قَالَ لَمَّا قَتَلْتُ مَرْحَبَ جِئْتُ بِرَاّْسِہٖ اِلٰی رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّیَ اللّٰہپ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ یعنی امام احمد متوفی241ہجری نے فرمایا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے جب میں نے مرحب کو قتل کردیا تو اس کا سر لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔(البدایہ و النہایہ جز۴ص۱۸۸)
٭ طبری میں ہے’’فاخْتَلَفَ ھُوَ وَعَلِیُّ ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَہٗ عَلِیٌّ عَلٰی ھَامَتِہٖ حَتٰی عَضِّ السَّیْفُ مِنْھَابِاَضْرَاسِہٖ وَسَمِعَ اَھْلُ الْسَسْکَرِصَوْتَ ضَرْبَتِہٖ نَمَاتَتَائَ مَ اٰخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ لَہٗ وَلَھُمْ‘‘ مرحب اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپس میں ایک دوسرے پر دو ضربوں کے وار کئے پھر حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسکی کھوپڑی میں تلوار ماری حتی کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تلوار خارا شگاف نے کھوپڑی سے لے کر اسکی ڈاڑھوں تک مرحب کو چیر کر رکھ دیا لشکر والوں نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اس ضرب کی آواز سنی پچھلے لوگ ابھی حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم پر پہنچنے نہ پائے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور تمام مسلمانوں کیلئے خیبر کو فتح فرمادیا۔ (طبری ج ۲ جز۳ ص۹۳طبع بیروت) اور یہی طبری متوفی310ہجری اس کے ساتھ ایک اور روایت لائے ہیں۔’’فَبَدَرَہٗ عَلِیٌّ بِضَرْبۃٍ نَقَہَّ الْحَجَرَ وَالْمِغْفَرَ وَرَائْ سَہٗ حتیّٰ وَقَعَ فِی الْاَضْرَاسِ وَاَخَذَ الْمَدیْنۃَ‘‘ مرحب کو ضرب لگانے میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ نے جلدی کی تو پتھر اور لوہے کے خود اور اس کے سر کو کاٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ تلوار مرحب کی ڈاڑھوں تک پہنچ گئی۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسی وقت خیبر کا شہر فتح کرلیا۔(طبری ج۲ جز۳ ص۹۴ طبع بیروت)(جاری ہے)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔