امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حنیفہ پر اعراض کا جواب
محترم قارئینِ کرام : حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام نعمان ہے ، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم رضی اللہ عنہ ہے ۔ آج کل بعض جہلا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نام اور لقب دونوں پر اعتراض کرتے ہیں ،ان مخالفین کے عام طور پر دو بڑے اعتراضات سامنے آتے ہیں : ⏬
1 : حنیفہ امام صاحب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ہے اور کہتے ہیں یہ کتنا کمزور مذہب ہے ، جس میں نسبت لڑکی کی طرف کی جا رہی ہو ۔
2 : دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سب سے بڑے امام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں آپ لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم رضی اللہ عنہ کیوں کہتے ہیں ۔
اس اعتراض کا جواب : ان لوگوں کے ان اعتراضات کو دیکھ کر ان کی جہالت کا پتہ چل جاتا ہے ، ان لوگوں کو نہ ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہے ، نہ ان لوگوں کا عربیت سے کوئی تعلق ہے ، اگر ان لوگوں کو ہمارے امام کی تاریخ کا علم ہوتا یا ان کا عربیت سے کچھ تعلق ہوتا تو اس قسم کے اعتراضات کبھی نہ کرتے ۔ اہلِ عرب دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اورکوفہ کی جامع مسجد میں وقف کی چار سو دواتیں طلبہ کےلیے ہمیشہ وقف رہتی تھیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا حلقۂ درس وسیع تھا اور آپ کے ہر شاگرد کے پاس علیحدہ دوات رہتی تھی ، لہٰذا آپ کو ابوحنیفہ کہا گیا ۔
صاحبِ ملت حنیفہ ، یعنی ادیان باطلہ سے اعراض کر کے حق کی طرف پورے طور پر مائل رہنے والا ۔
ماءِ مستعمل کو آپ نے طہارت میں استعمال کرنے کےلیے جائز قرار نہیں دیا تو آپ کے متبعین نے ٹوٹیوں کا استعمال شروع کیا ، چونکہ ٹوٹی کو حنیفہ کہتے ہیں لہٰذا آپ کا نام ابوحنیفہ پڑ گیا ۔ (سوانح امام اعظم ابو حنیفہ مولانا ابو الحسن زید فاروقی صفحہ نمبر ۶۰،چشتی)
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا ، جس کا نام حماد تھا ، اس کے علاوہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا نہ کوئی بیٹا تھا نہ کوئی بیٹی ۔ یہ کتنا بڑا الزام ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام حنیفہ تھا ، جس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو ماننے والے ان کی نسبت لڑکی کی طرف کر رہے ہیں ؟ اگلی بات یہ ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حنیفہ کیوں ہے ؟ تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ کنیت دو قسم کی ہوتی ہے ۔ 1 ۔ کنیت نسبی ۔ 2 ۔ کنیت وصفی ۔ کنیت نسبی کا معنیٰ یہ ہے کہ باپ کی بیٹے کی طرف نسبت کیے جانے کی وجہ سے وہ باپ کی کنیت ہو جاتی ہے ، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ہے تو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے کا نام قاسم تھا ، پس قاسم کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیت ابو القاسم نسبی ہے ۔
اور دوسری قسم کنیت وصفی اس کا معنی یہ ہے کہ یہ کنیت اولاد کی طرف نسبت کی وجہ سے نہیں ہوتی ، بلکہ کسی مخصوص وصف کی وجہ سے ہوتی ہے جو صرف اسی شخص میں نمایاں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ وصف اس شخص کی کنیت کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ، اب کنیت وصفی کو بھی مثال سے سمجھ لیں ، جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا نام عبدالله بن ابی قحافہ ہے ابوبکر ان کی کنیت ہے ان کے بیٹے کا نام بکر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو ابوبکر کہا جاتا ہو بلکہ بکر عربی زبان میں پہل کرنے والے کو کہتے ہیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے ان کی تصدیق کر نے والے حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ تھے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولت مانگی تو ساری دولت دینے میں حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ نے پہل کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کنواری لڑکی نکاح کےلیے مانگی تو پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ گئے تو ہجرت میں پہل حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوء احد میں گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصلی پر کھڑے ہونے میں پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مزار تشریف لے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار میں سب سے پہل عبد اللہ بن ابی قحافہ نے کی یہاں تک کے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں جائیں گے تو ان کے ساتھ سب سے پہلے جانے والا عبد اللہ بن ابی قحافہ ہی ہو گا ، غرض یہ کہ ہر کام میں پہل کی ، اسی لیے ان کی کنیت ابو بکر پڑ گئی ، اس وجہ سے نہیں کہ ان کے بیٹے کا نام بکر تھا ، بلکہ ان کی اس صفت کی وجہ سے کہ ہر کام میں وہ پہل کرتے تھے ۔
اسی طرح حضرت علی رضی الله عنہ کی کنیت ابو تراب ہے ۔ تراب ان کے بیٹے کا نام نہیں تھا تو ان کی کنیت ابو تراب کیسے پڑ گئی ؟ وہ اس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے گئے ، دروازے پر دستک دی اور فرمایا علی ہیں ؟ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا موجود نہیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ حضرت علی مسجد میں مٹی پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم مبارک کو مٹی لگی ہوئی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قم یا ابا تراب ! اے مٹی والے اٹھ جا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو کہا ابو التراب۔ تراب نہ حضرت علی کے بیٹے کا نام ہے اور نہ بیٹی کا تو یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی ۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا نام عبد الرحمن بن صخر ہے ، ابو ہریرہ ان کی کنیت ہے ، ایک مرتبہ آپ رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کی آستین کا دامن کھلا ہوا تھا ، جس میں بلی کا بچہ تھا ، عربی زبان میں ہریرہ بلی کے بچے کو کہاجاتا ہے تو ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صخر کی کنیت بن گئی اب یہ کنیت وصفی ہوئی نہ کہ نسبی اسی طرح ابو حنیفہ بھی کنیت وصفی ہے نہ کہ نسبی اب امام میں آخر وہ کو نسا وصف تھا جس کی بنیاد پر انہیں ابو حنیفہ کہا جاتا ہے ، وہ یہ کہ حنیفہ کا ایک معنی عربی زبان میں دوات کے ہیں اور امام صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر وقت قلم ودوات لے کر امام صاحب کے علوم کو مرتب کرتے تھے ، اتنے علوم مرتب کیے کہ ان کی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی اور حنیفہ کا ایک معنی خالص کا آتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ”واتبع ملة ابراہیم حنیفا“ ابراہیم علیہ السلام خالص دین والے تھے ، باطل سے بالکل الگ تھے ، امام اعظم نے اس شریعت کو مرتب کیا ، جو بالکل خالص ہے ، اسی وجہ سے کنیت ابو حنیفہ بن گئی ، ابو حنیفہ کا معنی ہوا دین خالص کو مرتب کرنے والا اور جو لوگ کہتے ہیں حنیفہ امام اعظم کی بیٹی کا نام ہے تو ان کے پاس نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ عربیت کا ۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی ہی نہیں ایک ہی بیٹا تھا جسے اپنے شیخ حماد رحمہ اللہ کے ہم نام رکھا ۔ اگر کوئی ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ میں حنیفہ سے مراد امام صاحب رضی اللہ عنہ کی بیٹی لیتا ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ میں کیا بکر ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام ہے ابو ہریرہ میں کیا حضرت ابو ہریرہ کی بیٹی ہریرہ تھی ، کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کہا جاتا ہے تو کیا تراب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی بیٹا تھا ہرگز نہیں ۔
کنیت دو طرح کی ہوتی ہیں : ایک نسبی ایک وصفی ۔ دوسری نسبی : ⏬
اگر اپنی اولاد کی طرح نسبت ہو تو کنیت نسبی کہلاتی ہے ۔ اگر کسی وصف کی طرف ہو تو وصفی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کنیت کی وجہ بکر کے معنی پہل کرنا ، موسم کا پہلا پھل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر چیزوں میں پہل کرنے والے تھے ایمان لانے میں مال خرچ کرنے میں وغیرہ پہلے ایمان لانے والے اسلام کا پہلا پھل کہا جاسکتا ہے ۔ لوگ عبد اللہ بن ابو قحافہ نہیں جانتے ابوبکر سب جانتے ہیں ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ معنیٰ لفظی بلی کا باپ بلی کے بچہ کو آستین میں لے کر آئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا : ابوہریرہ بلی والے ۔ یہ جملہ حضرت عبدالرحمن بن صخرہ کو پسند آیا اور لوگ عبد الرحمن بن صخرہ کوئی نہیں جانتا ابو ہریرہ سب جانتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یا ابی تراب اے مٹی والے ، اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہما کا نام ہے نعمان بن ثابت مگر وصف سے مشہور ہوئے ۔ حنیفہ کا ایک معنی دوات ابو حنیفہ دوات والا امام صاحب نے اتنا لکھا کہ نام ہی ہو گیا دوات والا یعنی ابو حنیفہ ، حنیفہ کا دوسرا معنی خالص دین امام صاحب نے قرآن و حدیث سے پورے دین کو سب سے پہلے لکھوایا اسی بنا پر کہا گیا ابو حنیفہ خالص دین لکھوانےوالا ۔ ان کنیة ابوحنیفہ مونث حنیف وھوالناسک اوالمسلم لان الحنیف المیل.والمسلم مائل الی الدین المحق قیل سبب تکنیة بذالک ملازمتہ للدواة حنفیة بلغة العراق وقيل كانت له بنت تسمي بذالك ورد بانه لايعلم له ولد ذكز ولا انثي غير حماد ۔ (خیرات الحسان صفحہ نمبر ۴۵،چشتی)
ایک اہم نکتہ : ابو بکر کا نام ، جو کہ عبد اللہ ہے ، لوگ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کی کنیت ابو بکر کو جانتے ہیں۔ اسی طرح امام اعظم ابو حنیفہ کا نام نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہے جسے لوگ نہیں جانتے ، بلکہ ان کی کنیت یعنی ابو حنیفہ کو نام سے زیادہ جانتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مشن ابو بکر کا تھا اور ایک مشن ابو حنیفہ کا تھا ، ابو بکر کا مشن دین پھیلانا تھا اور ابو حنیفہ کا مشن دین لکھوانا تھا ، اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان دونوں کا مشن اتنا پسند آیا کہ ان کا نام عبداللہ اور نعمان پردہ خفا میں چلا گیا اور ان کا مشن قیامت تک زندہ رہا ، اس نکتہ کے ذکر کرنے کے بعد امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مخالف ابو حنیفہ کہہ کر مخالفت کرے گا ، ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا مخالف ابو بکر کہہ کر مخالفت کرے گا: تھوڑی سی تو شرم کرنی چاہیے ، ابو حنیفہ بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہوا ؟ ابو بکر بھی کہتے ہو مخالفت بھی کرتے ہو ؟ اس کا مطلب تو ایسے ہے جیسا کہ اللہ کے نبی کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کی بار بار تعریف کی گئی ہے اب جو کہتا ہے میں محمد کو نہیں مانتا یا جو محمد سے مخالفت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس شخص کو نہیں مانتا جس کی تعریف خود رب ذوالجلال نے کی ہے ، اسی طرح جو ابو حنیفہ کی مخالفت کرتا ہے اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ جس نے دین خالص کو مرتب کیا میں اس کو نہیں مانتا اور اس کی مخالفت کرتا ہوں ۔
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب : آپ حنفی لوگ ابو حنیفہ کو امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں کہتے ہو ؟
اس کا جواب فقیر چشتی چند مثالوں سے دینا چاہتا ہے ، وہ یہ کہ سب سے بڑے صدیق یعنی سچے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو پھر ابو بکر صدیق اکبر کیوں کہا جاتا ہے ؟ اسی طرح سب سے بڑے فاروق یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو پھر عمررضی الله عنہ کو فاروق کیوں کہتے ہو ؟ سب سے بڑا بہادر تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو پھر حضرت علی کو حید ر کرار کیوں کہتے ہو ؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ابو حنیفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بڑے امام ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ فقہاء میں سب سے بڑے امام ابو حنیفہ ہیں ، اسی طرح صدیق اکبر صحابہ کی جماعت میں ابو بکر ہیں اور فاروق بین الحق و الباطل عمر ہیں ۔بڑے بہادر صحابی حضرت علی ہیں اور انبیاء کی جماعت کے سب سے بڑے امام اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، آج کے غیر مقلد ین کانفرنسیں کرتے ہیں اور اس کا نام رکھتے ہیں امام اعظم رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور کہتے ہیں کہ امام اعظم اللہ کے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ حنفی مسلک والے ابو حنیفہ کو امام اعظم کہتے ہیں ، یہ حنفی شرک فی الرسالت کرتے ہیں ، یہ مشرک ہیں ، اب بیچارے ان پڑھ کے پاس دلیل نہیں ہوتی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ واقع میں یہ توصحیح بات کرتے ہیں ، حنفیوں کی یہ بات تو بالکل غلط ہے اور اسی لیے وہ غیر مقلدین کے چنگل میں پھنستے ہیں ، یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ غیر مقلد دلیل کم دیتے ہیں اور ڈھکوسلے زیادہ چھوڑتے ہیں ، دلیل اور ڈھکوسلہ سمجھانے کےلیے فقیر ایک مثال ذکر کرنا چاہتا ہے ، وہ یہ کہ ایک بابا جی گھوڑا گاڑی چلا رہے تھے مین روڈ پر اور ان کے پیچھے F.S.C کا ایک اسٹوڈنٹ بائیک پہ آرہا تھا اچانک باباجی نے گھوڑا گاڑی کو دائیں طرف موڑ دیا ، دونوں ٹکرا گئے ، اس نوجوان کو غصہ آگیا اور اس نے بابا جی سے کہا ۔ اگر آپ کو گھوڑا گاڑی موڑنی تھی تو کم از کم اشارہ تو دیتے ؟ ! باباجی کہنے لگے آپ کو یہ اتنا بڑا روڈ نظر نہیں آرہا تھا جو میرے پیچھے آ گئے تو نوجوان خاموش ہو گیا ؟ کیوں کہ کالج میں اسٹوڈنٹ نے اصول پڑھے ، ڈھکوسلے نہیں پڑھے اسی طرح آج کے ان پڑھ یا کالج کے اسٹوڈنٹ وغیرہ غیر مقلد ین کے ڈھکوسلوں کی وجہ سے دلیل نہ ہونے کی صورت میں خاموش ہو جاتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حنفیوں کے پاس دلائل نہیں ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ وہ ڈھوکوسلے چھوڑتے ہیں اور ہمارے پاس ڈھکوسلے نہیں ، بلکہ دلائل ہیں ، اگر غیر مقلد ین دلیل کی بنیاد پر بات کریں تو قریب ہے کہ سارے غیر مقلدین حنفی بن جائیں ، لیکن وہ ایسا کرتے نہیں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے : ⏬
واذ أتتک مذمتی من ناقص
فھی الشھادة لی بأنی کامل
ترجمہ : اگر کسی ناقص العقل کی جانب سے میری مذمت آپ کے پاس پہنچے تو یہی کافی ہے میری حقیقت جاننے کے لیئے کہ میں کامل ہوں ۔
امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو امام اعظم کا یہ لقب دینے والے وہ علماء جو حنفی نہیں ہیں کیونکہ اگر اس بارے میں حنفی علماء کی تحریریں لی جاتیں تو غیر مقلدین کہتے کہ انہوں نے محبت میں غلو کیا ہے اور حنفی ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو امام اعظم لکھ دیا ہے : ⏬
سمعانی نے انساب میں امام شافعی کے ذکر میں لکھا ہے : لعلہ مات فی یومھا الامام الاعظم ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ الوافی بالوفیات میں ہے ۔
ابوحنیفہ جماعۃ منہم الامام الاعظم صاحب المذہب اسمہ النعمانتاریخ الدولۃ الرسولیہ جوابوالحسن علی بن حسن الخزرجی الزبیدی الیمنی متوفی812کی تصنیف ہے اس میں وہ لکھتے ہیں القاضی موفق الدین علی بن عثمان المطیب قاضیا علی مذہب الامام الاعظم رحمہ اللہ ۔
حافظ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف تذکرۃ الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ابوحنیفہ الامام الاعظم ،فقیہ العراق،نعمان بن ثابت بن زوطاالتیمی ۔(تذکرۃ الحفاظ/جلد 2،چشتی)
مشہور محدث محمد بن رستم بن قباد الحارثی البدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھاہے۔ النعمان بن ثابت الکوفی الامام الاعظم احمد الائمۃ الاربعۃ المتبوعین ۔
محمد علی بن محمد علان بن ابراہیم الصدیقی العلوی الشافعی اپنی کتاب الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النوویہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الامام ابوحنیفہ ہوالامام الاعظم والعلم المفرد المکرم امام الائمۃ عبدالوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الکبریٰ میں امام ابوحنیفہ سے مخالفین کے پھیلائے گئے شبہات کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
فاولھم تبریا من کل رای یخالف ظاہرالشریعۃ الامام الاعظم ابوحنیفہ النعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، خلاف مایضیفہ الیہ بعض المتعصبین ویافضحۃ یوم القیامۃ من الامام
ایسا نہیں ہے کہ صرف امام ابوحنیفہ کو ہی لوگوں نے امام اعظم کے لقب سے پکاراہو ۔
ابن قیم نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کہانونیہ میں کہاہے۔
ھذاالذی نصت علیہ اَئمہ ال اسلام اہل العلم والعرفان
وہوالذی قصدالبخاری الرضی لکن تقاصر قاصر الاذہان
عن فھمہ کتقاصر الافہام عن قول الامام الاعظم الشیبانی
اب پتہ نہیں امام اعظم کے لقب پر یہ سوچنے والے کہ امام اعظم تورسول پاک ہیں اس بارے میں کیاکہیں گے۔ہمیں بھی جواب کا انتظار رہے گا۔
امام اعظم کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ۔
اس بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ فقہ میں کوئی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشارک اورہم رتبہ نہیں ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ الناس عیال علی فقہ ابی حنیفہ ۔ انہی سے یہ دوسرا قول بھی منقول ہے کہ جو فقہ میں رسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ابوحنیفہ کی فقہ کی جانب توجہ کرے ۔ ویسے دیکھا جائے تو ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہونے کی وجہ اورامام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورامام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے یہ بات متحقق ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے دوامام امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جیسا کہ علی طنطاوی نے ذکر یات میں ذکر کیا ہے : قال الشيخ علي الطنطاوي رحمہ اللہ في كتابه الذكريات الجزء السابع ص 118 ، الشافعي قرا على محمد (يقصد ابن الحسن) كتبہ الفقہيۃ فكان شبہ تلميذ لہ واحمد تلميذ الشافعي فمن ھنا كان ابو حنيفہ الامام الاعظم انتھى كلامہ رحمہ اللہ ۔
لیکن اس کے علاوہ بھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے امام اعظم سے متصف ہونے کی دوسری وجوہات بھی ہیں جن کو علماء نے ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے ایک توجیہ تویہ ہے کہ حنیفہ نے صاحبین یعنی امام ابوبوسف اورامام محمد بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے امام ابوحنیفہ کو ممتاز اور جداگانہ تشخص کیلئے ان کو امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب دیا ۔ جیسا کہ علماء احناف پر لکھی گئی کتابوں سے واضح ہوتا ہے ۔
مسانیدِ امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کی تعداد انتیس (29) ہے ۔ ذیل میں امامِ اعظم سے مروی اِن انتیس مسانید کے نام درج کیے جا رہے ہیں : ⏬
1۔ مسند امام حماد رحمہ اللہ بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ (متوفی 176ھ)
2۔ مسند امام قاضی ابو یوسف یعقوب رحمہ اللہ بن ابراہیم انصاری (متوفی 182ھ)
3/4۔ مسند و آثار امام محمد رحمہ اللہ بن حسن شیبانی (متوفی 189ھ)
5۔ مسند امام حسن رحمہ اللہ بن زیاد اللؤلؤی (متوفی 204ھ)
6۔ مسند امام محمد رحمہ اللہ بن مخلد الدوری (متوفی 331ھ)
7۔ مسند امام حافظ احمد رحمہ اللہ بن محمد بن سعید المعروف ابنِ عقدہ (متوفی 332ھ)
8۔ مسند امام ابو القاسم عبد اﷲ رحمہ اللہ بن محمد ابن ابی العوام سعدی (متوفی 335ھ)
9۔ مسند امام عمر رحمہ اللہ بن حسن اشنانی (متوفی 339ھ)
10۔ مسند امام ابو محمد عبد اﷲ رحمہ اللہ بن محمد بن یعقوب حارثی بخاری (متوفی 340ھ)
11۔ مسند امام حافظ ابو احمد عبد اﷲ رحمہ اللہ بن عدی جرجانی (متوفی 365ھ)
12۔ مسند امام ابو الحسین محمد رحمہ اللہ بن مظفر بن موسیٰ (متوفی 379ھ)
13۔ مسند امام طلحہ رحمہ اللہ بن محمد بن جعفر (متوفی 380ھ)
14۔ مسند امام محمد رحمہ اللہ بن ابراہیم بن علی بن زاذان اصبھانی مقری (متوفی 381ھ)
15۔ مسند امام ابو الحسن علی رحمہ اللہ بن عمر بن احمد بغدادی المعروف دار قطنی (متوفی 385ھ)
16۔ مسند امام ابو الحفص عمر رحمہ اللہ بن احمد بن عثمان المعروف ابنِ شاہین (متوفی 385ھ)
17۔ مسند امام ابو عبد اللہ محمد رحمہ اللہ بن اسحاق بن محمد بن یحییٰ بن مندہ (متوفی 395ھ)
18۔ مسند امام حافظ ابو نعیم احمد رحمہ اللہ بن عبد اﷲ اصبھانی (متوفی 430ھ)
19۔ مسند امام حافظ ابو بکر احمد رحمہ اللہ بن محمد بن خالد خلی کلاعی (متوفی 432ھ)
20۔ مسند امام ابو الحسن علی رحمہ اللہ بن محمد بن حبیب بصری ماوردی شافعی (متوفی 450ھ)
21۔ مسند امام ابو بکر احمد رحمہ اللہ بن علی خطیب بغدادی (متوفی 463ھ)
22۔ مسند امام ابو اسماعیل عبد اللہ رحمہ اللہ بن محمد انصاری ہروی (متوفی 481ھ)
23۔ مسند امام حافظ ابو عبد اﷲ محمد رحمہ اللہ بن حسین بن محمد بن خسرو بلخی (متوفی 522ھ)
24۔ مسند امام ابو بکر محمد رحمہ اللہ بن عبد الباقی بن محمد انصاری (متوفی 535ھ)
25۔ مسند امام ابو القاسم علی رحمہ اللہ بن حسن بن ھبۃ اللہ ابنِ عساکر دمشقی (متوفی 571ھ)
26۔ مسند امام علی رحمہ اللہ بن احمد بن مکی رازی (متوفی 598ھ)
27۔ مسند امام ابو علی حسن رحمہ اللہ بن محمد بن محمد بکری (متوفی 656ھ)
28۔ مسند امام شمس الدین محمد رحمہ اللہ بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (متوفی 902ھ)
29۔ مسند امام ابو المھدی عیسیٰ رحمہ اللہ بن محمد بن احمد جعفری ثعالبی (متوفی 1082ھ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment