Saturday 24 March 2018

اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (سورہ نورآیت نمبر 35) لفظ نور کے معانی

0 comments
اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (سورہ نورآیت نمبر 35) لفظ نور کے معانی

اس موضوع پر تفصیل سے ہم ان شاء اللہ پھر لکھیں سردست یہ مختصر مضمون پیش خدمت ہے شاید کسی گم کردہ راہ کو ہدایت نصیب ہو جائے :

یہ صحیح ہے کہ ﷲ تعالیٰ طبعیاتی نور سے پاک ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ لفظِ نور سے جہاں طبعیاتی نور مراد نہ ہو وہاں تمثیل وتشبیہ متعین ہوجائے ؟ کیا مصدر مبنی للفاعل نہیں ہوا کرتا ؟ اور کیا اس طرح نور بمعنی منور نہیں ہوسکتا ؟ کیا مجازمرسل کے طور پر لفظِ نورکا استعمال ممکن نہیں ؟ افسوس معترضین نے اپنے جنون کے جوش میں خدائے قدوس کی بے مثلی کی شان کو بھی نسیاً منسیا کردیا اور ان کے ذھن میں نور کے صرف ایک طبعیاتی معنی خلش پیدا کررہے ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ لفظِ نور کتنے معنی میں مستعمل ہے اور ﷲ تعالیٰ کے لئے لفظ نور کا استعمال تمثیل وتشبیہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں رکھتا، آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ لفظِ نور کے مندرجہ ذیل معانی کتب لغت وتفاسیر میں مرقوم ہیں :
(۱) النور فی اللغۃ الضیاء۔ "نور لغت میں روشنی کو کہتے ہیں"
(۲) قالت الفلاسفۃ النور اجسام صغار تنفصل عن المضیء وتتصل بالمستضیء۔
فلاسفہ نے کہا "نور" ایسے چھوٹے چھوٹے اجسام ہیں جو (کسی) روشن چیز سے جدا ہوکر روشنی حاصل کرنے والے سے متصل ہوجاتے ہیں۔
(۳) النور عرض من الکیفیات المحسوسۃ۔
نور کیفیاتِ محسوسہ میں سے ایک عرض ہے۔
(۴) النور غنی عن التعریف کسائر المحسوسات۔
نور باقی محسوسات کی طرح تعریف سے مستغنی ہے۔
(۵) النور کمال اوّل للشفاف من حیث انہٗ شفاف۔
نور کمال اوّل ہے کسی شفاف چیز کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ شفاف ہے۔
(۶) النور کیفیۃ لا یتوقف الابصار بھا علی الابصار بشیء اٰخر تعریف بما ھو اخفیٰ۔
نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا دیکھنا کسی دوسری چیز کے دیکھنے پر موقوف نہیں۔
(۷) النور نفس ظہور اللون۔
نور، کسی چیز کے نفس ظہورِ رنگ کو کہتے ہیں۔
(۸) النور مغائر النفس ظہور اللون۔
نور، نفسِ ظہورِ رنگ کے(ساتھ بعض اوصاف میں مشترک ہونے کے باوجود اس کے) مغائر کوکہتے ہیں۔
(۹) النور الظاہر بذاتہٖ والمظہر لغیرہ۔
نور ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات سے ظاہر ہو اور اپنے غیر کو ظاہر کرنے والی ہو۔
(۱۰) النور نور عقلی۔
نور، عقلی روشنی کو بھی کہتے ہیں (علم وہدایت، ایمان وعرفان وغیرہ تمام انوارِ عقلیہ اس میں شامل ہیں)
(۱۱) النور نور نفسی۔
نور کے معنی نور نفسی بھی آتے ہیں۔
(۱۲) النور نور جسمی۔
نور، جسمی روشنی کو بھی کہا جاتا ہے۔
(۱۳) النور موجد۔
نور، موجد(ایجاد کنندہ) کو بھی کہتے ہیں۔
(۱۴) النور الظہور بنفسہٖ والاظہار لغیرہ۔
نور، خود بخود ظاہر ہونے اور اپنے غیر کو ظاہر کرنے کے(لازمی) معنی میں بھی آتا ہے۔
(۱۵) النور منزہ من کل عیب ومن ذٰلک قولھم امرأۃ نوارای بریئۃ من الریبۃ بالفحشاء۔
نور کے معنی"ہر عیب سے منزہ" ہیں اور اسی سے عرب کا مقولہ ہے "اِمرأۃ نوار" یعنی یہ عورت بے حیائی کے کاموں کے شک وشبہ سے پاک ہے۔
(۱۶) النور منور۔
نور کے معنی روشن کرنے والے کے بھی آتے ہیں۔
(۱۷) نور نوّرَ ماضی بد لیل والارض بالنصب۔
آیت کریمہ "اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ" میں نور فعل ماضی ہے جس کے معنی ہیں روشن کردیا، اس کی تائید اسی آیت میں (ایک قرأت کے مطابق) "وَالْاَرْضَ" کے نصب سے ہوتی ہے۔
ان تمام معنی کا ماخذ روح المعانی کے حسب ذیل اقتباسات ہیں:
روح المعانی پ ۱۸، ص ۱۴۴ (مطبوعہ بیروت، ص۱۵۹) پر "اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ" کے تحت مرقوم ہے۔
النور فی اللغۃ علی ما قال ابن سکیت الضیاء۔
نور" لغت میں ابن سکیت کے قول کے موافق ضیاء(روشنی) ہے"۔
واعلم ان الفلاسفۃ اختلفوا فی حقیقۃ النور فمنھم من زعم انہ اجسام صغار تنفصل عن المضیء وتتصل بالمستضیء۔ (تفسیر روح المعانی،پ ۱۸،ص۱۴۵)
جاننا چاہئے کہ فلاسفہ نے نور کی حقیقت میں اختلاف کیا اور ان میں سے بعض نے گمان کیا کہ نور چھوٹے چھوٹے اجسام ہیں جو کسی روشن چیز سے جدا ہوکر روشنی حاصل کرنے والی چیز سے متصل ہو جاتے ہیں۔
(تفسیر روح المعانی،پ ۱۸، ص۱۴۵۔مطبوعہ بیروت، ص۱۶۰)
وذھب بعضھم الی انہ عرض من الکیفیات المحسوسۃ وقالوا ھو غنی عن التعریف کسائر المحسوسات وتعریفہ بانہ کمال اول للشفاف من حیث انہ شفاف او بانہ کیفیۃ لا یتوقف الابصار بہا علی الابصار بشی اٰخر تعریف بما ھو اخفی وکان المراد بہ التنبیہ علی بعض خواصہ ومن ھٰٓؤ لاء من قال انہ نفس ظہور اللون ومنھم من قال بمغائر تھما۔
(تفسیر روح المعانی،ص ۱۴۵۔مطبوعہ بیروت، ص۱۶۱)
بعض فلاسفہ اس طرف گئے کہ نور عرض ہے اور کیفیات محسوسہ میں سے ہے، اور انہوں نے کہا کہ وہ تعریف سے بے نیاز ہے، جیسے باقی محسوسات تعریف سے بے نیاز ہیں، اور اس کی یہ تعریف کہ وہ کمال اوّل ہے کسی شفاف چیز کا اس حیثیت سے کہ وہ شفاف ہے یا وہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کا دیکھنا کسی دوسری شے کے دیکھنے پر موقوف نہیں، نور کی یہ تعریف ایسی چیز کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ خفی اور پوشیدہ ہے (حالانکہ تعریف اجلیٰ اور اطہر کے ساتھ ہونی چاہئے) یہ تعریف دراصل تعریف نہیں بلکہ نور کے خواص میں سے اس کی بعض خاصیتوں پر تنبیہ ہے، اور ان ہی لوگوں میں سے بعض نے کہا کہ وہ نور، رنگ کے نفس ظہور کا نام ہے، اور بعض نے اُن دونوں کی مغایرت کا قول کیا ۔ (تفسیر روح المعانی، پ۱۸، ص ۱۴۵)
ولھم فی النور اطلاق اٰخر وھم الظاھر بذاتہ والمظہر لغیرہ وقالوا ھو بھٰذا المعنی مساو للوجود بل نفسہ فیکون حقیقۃ بسیطۃ کالموجود منقسمًا کانقسامہ فمنہ نور واجب لذاتہ قاھر علی ماسواہ ومنہ انوار عقلیۃ ونفسیۃ وجسمیۃ والواجب تعالٰی نور الانوار۔ الخ
(تفسیر روح المعانی،ص ۱۴۷۔مطبوعہ بیروت، ص۱۶۳)
اور فلاسفہ کے لئے نور میں ایک اور اطلاق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ نور ایسی چیز ہے جو خود اپنی ذات سے ظاہر ہو، اور اپنے غیر کو ظاہر کرنے والی ہو، اور انہوں نے کہا کہ وہ اس معنی میں"وجود" کا مساوی ہے بلکہ نفس وجود ہے تو اس صورت میں نور وجود کی طرح حقیقت بسیط ہوگا اور وجود کی طرح اس کی بھی تقسیم ہوگی تو اس میں سے ایک نور واجب لذات کا ہے جو اپنے ماسوا پر غالب ہے اور اس میں سے انوار عقلیہ ہیں اور بعض اس میں سے انوار نفسیہ اور جسمیہ ہیں اور واجب تعالیٰ نورالانوار ہے۔ الخ ۔ (تفسیر روح المعانی،، ص۱۴۷)
اذا علمت ھذا فاعلم ان اطلاق النور علی ﷲ سبحانہ وتعالٰی بالمعنی اللغوی والحکمی السابق غیر صحیح لکمال تنزھہ جل وعلا عن الجسمیۃ والکیفیۃ ولوازمھما واطلاقہ علیہ سبحانہ بالمعنی المذکور وھو الظاھر بذاتہ والمظھر لغیرہ قد جوزہ جماعۃ منھم حجۃ الاسلام الغزالی (تفسیر روح المعانی،پ۱۸،ص۱۴۷)
جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اَب جاننا چاہئے کہ ﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ پر لفظ نور کا اطلاق باعتبار معنی لغوی اور حکمی کے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں کسی طرح صحیح نہیں، کیونکہ ﷲ تعالیٰ جسمیت اور ہر قسم کی کیفیت اور ان کے تمام لوازمات سے کامل طور پر منزہ ہے اور ﷲ تعالیٰ پر باعتبار معنی مذکور "ظاھر بذاتہ مظھر لغیرہ" کے لفظ نور کا اطلاق ایک جماعت نے جائز رکھا ہے ان میں سے حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ ﷲ علیہ بھی ہیں۔ (تفسیر روح المعانی،پ۱۸، ص۱۴۷)
وجوز بعض المحققین کون المراد من النور فی الایۃ الموجد کانہ قیل: ﷲ موجد السمٰوات والارض ووجہ ذٰلک بانہ مجاز مرسل باعتبار لازم معنی النور وھوالظہور فی نفسہٖ اظہارا لغیرہ۔(تفسیر روح المعانی،پ۱۸،ص۱۴۸۔مطبوعہ بیروت، ص۱۶۴)
اور بعض محققین نے آیت کریمہ اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ میں نور سے موجد کا مراد ہونا جائز قرار دیا ہے گویا اس آیت کریمہ میں یہ کہا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ زمین وآسمان کا موجد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ مجاز مرسل ہے باعتبار لازم معنی نور کے جو ظہور فی نفسہٖ اور اظہار لغیرہ ہےیعنی خود بخود ظاہر ہونا اور اپنے غیر کو ظاہر کرنا)۔
(تفسیر روح المعانی، پ۱۸، ص۱۴۸)
وقیل المراد بہ المنزہ من کل عیب ومن ذٰلک قولھم امرأۃ نوار ای بریئۃ من الریبۃ بالفحشاء۔(تفسیر روح المعانی،پ ۱۸، ص ۱۴۸۔مطبوعہ بیروت، ص۱۶۴)
ایک قول یہ بھی ہے کہ لفظِ نور سے مراد (کبھی) ہر عیب سے منزہ ہوتا ہے، اور اسی سے اہل عرب کا یہ مقولہ ہے "امرأۃ نوار" یعنی یہ عورت بے حیائی کے کاموں کے شک وشبہ سے پاک ہے۔(تفسیر روح المعانی،پ ۱۸، ص۱۴۸)
وقیل نور بمعنی منور وروی ذٰلک عن الحسن وابی العالیۃ والضحاک وعلیہ جماعۃ من المفسرین ویؤیدہ قرأۃ بعضھم منور وکذا قراۃ علی کرم ﷲ وجہہٗ وابی جعفر وعبدالعزیز المکی وزید بن علی وثابت ابن ابی حفصۃ والقورصی ومسلمۃ بن عبد الملک وابی عبد الرحمن السلمی وعبد ﷲ بن عباس بن ابی ربیعۃ نور فعلا ماضیًا والارض بالنصب۔ (روح المعانی، پ۱۸، ص۱۴۸)
آیت کریمہ اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ میں ایک قول یہ ہے کہ یہاں نور بمعنی منور ہے یعنی روشن کرنے والا، یہ مروی ہے حسن بصری سے، ابوالعالیہ سے اور ضحاک سے اور اسی قول پر مفسرین کی ایک جماعت ہے اور تائید کرتی ہے اس قول کی اس آیت میں بعض علماء کی قرأت ﷲ منور السمٰوات" اسی طرح اس کو حضرت علی کرم ﷲ وجہہ اور ابوجعفر، عبدالعزیز مکی، زید بن علی، ثابت بن ابی حفصہ، قورصی، مسلمہ بن عبدالملک، ابو عبدالرحمن السلمی اور عبداﷲ بن عباس ابن ابی ربیعہ نے نَوَّرَ فعل ماضی اور الارض کو نصب (زبر) کے ساتھ پڑھا۔ (روح المعانی، پ۱۸، ص۱۴۸)
معترضین ذرا سوچیں کہ قرآن کریم کی جس آیت (اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ، الآیۃ) کے لفظ "نور" کو وہ ﷲ تعالیٰ کے لئے معاذ ﷲ تمثیل وتشبیہ قرار دے رہے ہیں اس کے سترہ معنی منقولہ میں سے ایک معنی بھی انہیں ایسے نظر نہ آئے جنہیں تمثیل وتشبیہ کے بغیر مراد لیا جاسکے ؟ کیا خدائے قدوس کے حق میں تمثیل وتشبیہ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی خوف خدا محسوس نہیں ہوا، مفسرین کرام کی تصریحات جلیلہ منقولہ بالامیں انہیں یہ نظر نہیں آیا کہ ﷲ تعالیٰ صفاتِ حدوث اور صفاتِ مخلوقہ سے منزہ ہے اور مثل وشبہ سے پاک اور تمثیل وتشبیہ سے مقدس ہے۔
شاید بعض حضرات کو بعض تفاسیر میں یہ دیکھ کر مغالطہ ہوگیا کہ (اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ) ﷲ تعالیٰ کے نور کی مَثَل ہے اس لئے انہوں نے تمثیل وتشبیہ کو ﷲ تعالیٰ کے لئے درست سمجھ لیا، اس مغالطہ کو دُور کرنے کے لئے انہیں "مفردات امام راغب" کی حسب ذیل عبارت کو غور سے پڑھنا چاہئے جس میں ان کے مغالطہ کو جڑ بنیاد سے اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے اور ﷲ تعالیٰ کے تمثیل وتشبیہ سے مبرہ ومنزہ ہونے کو آفتاب سے زیادہ روشن کرکے دکھایا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:والتمثال" الشیء المصور " والمثل عبارۃٌ عن قول فی شیء یشبہ قولاً فی شیء آخر بینھما مشابھۃٌ لیبین احدھما الاخر ویصورہ " والمثل یقال علی وجھین احدھما بمعنی المثل نحو شبہ وشَبہ ونِقضٍ ونَقضٍ، قال بعضھم وقد یعبر بھما عن وصف الشیء نحو قولہ (مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ) والثانی: عبارۃ عن المشابھۃ لغیرہ فی معنی من المعانی ای معنی کان وھواعم الالفاظ الموضوعۃ للمشابھۃ وذٰلک ان النِدَّ یقال فیما یشارک فی الجوھر فقط، والشبہ یقال فیما یشارک فی الکیفیۃ فقط، والمساوی یقال فیما یشارک فی الکمیۃ فقط، والشکل فیما یشارکہ فی القدر والمساحۃ فقط، والمثل عام فی جمیع ذٰلک ولہٰذا لما اراد ﷲ تعالیٰ نفی التشبیہ من کل وجہ خصہ بالذکر فقال (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْء)، واما الجمع بین الکاف والمثل فقد قیل ذٰلک لتاکید النفی تنبیھاً علی انہ لا یصح استعمال المثل ولا الکاف فنفی بلیس الامرین جمیعًا وقیل المثل ھھنا ھو بمعنی الصفۃ ومعناہ لیس کصفتہ صفۃ تنبیھًا علی انہ وان وصف بکثیر مما یوصف بہ البشر فلیس تلک الصفات لہٗ علی حسب مایستعمل فی البشر۔
تمثال" شی مصور کو کہتے ہیں " مَثَل" عبارت ہے قول سے کسی شے میں جو مشابہ ہو قول کے شی آخر میں کہ ان دونوں کے درمیان مشابہت ہو تاکہ ایک دوسرے کو بیان کردے اور اسے مصور کردے اور " مَثَل" کا استعمال (مزید) دو طریقوں پر بھی ہوتا ہے، ایک مثل کے معنی میں جیسے شِبْہٌ و شَبْہٌ اور نِقْضٌ و نَقْضٌ، بعض نے کہا ان دونوں کے ساتھ کبھی وصف شے کو بھی تعبیر کردیا جاتا ہے جیسے ﷲ تعالیٰ کا قول مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ، اور دوسرے طریقہ پر اس طرح کہ لفظ مَثَل عبارت ہوتا ہے اپنے غیر کے ساتھ مشابہت سے معانی میں سے کسی معنی میں بھی کیوں نہ ہو، اور وہ مشابہت کے معنی میں ان تمام الفاظ سے اعم ہے جو مشابہت کے معنی کے لئے وضع کئے گئے ہیں مثلاً لفظ نِدّ کا استعمال صرف ان چیزوں میں ہوتا ہے جو فقط جوہر میں باہم شریک ہوں اور "شبہ" کا اطلاق اِن اشیاء پر ہوتا ہے جو صرف کیفیت میں باہم مشارک ہوں اور لفظ "مساوی" کا استعمال صرف ان چیزوں میں ہوتا ہے جو فقط مقدار میں شریک ہوں، اور شکل" کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں دو چیزیں صرف اندازے اور پیمائش میں مشارک ہوں، اور لفظ "مِثل"ان سب میں عام ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ﷲ تعالیٰ نے (اپنی ذات مقدسہ سے) من کل وجہ (ہر طرح سے تشبیہ) کی نفی کا ارادہ فرمایا تو اسی لفظ "مِثل" کو ذکر کے ساتھ خاص کیا اور فرمایا لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ، رہا یہ سوال کہ ﷲ تعالیٰ نے یہاں مثل کے ساتھ کاف تشبیہ کو کیوں جمع فرمایا تو بعض نے اس کا جواب دیا کہ تاکیدِ نفی کے لئے ایسا کیا، گویا اس بات پر تنبیہ فرمائی کہ ﷲ تعالیٰ تمثیل وتشبیہ سے ایسا پاک ہے کہ اس کے حق میں لفظِ مثل کا استعمال جائز ہے نہ کاف تشبیہ کا، لہٰذا لَیْسَ کے ساتھ کاف تشبیہ اور مثل دونوں کی نفی فرمادی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ لفظ مثل یہاں صفت کے معنی میں ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کی صفت کی طرح کوئی صفت نہیں اور اس کا مقصد اس بات پر تنبیہ کرناہے کہ اگرچہ (قرآن مجید میں) ﷲ تعالیٰ ان چیزوں سے بکثرت موصوف کیا گیا ہے جن سے بشر موصوف کئے جاتے ہیں (جیسے سمع، بصر، علم، رحم، ید، وجہ وغیرہا) لیکن اس کے باوجود ﷲ تعالیٰ کے لئے ان صفات کا استعمال ایسا نہیں جیسے بشر کے حق میں ہے، بلکہ ﷲ تعالیٰ تمثیل وتشبیہ سے مطلقاً پاک ہے اور اس ذات وصفات کی مثل کوئی شیٔ اور کسی کی صفت نہیں ہوسکتی۔(مفردات امام راغب اصفہانی، ص۴۷۸)
اقتباسات وعبارات مرقومہ بالا سے عامر صاحب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ان پر یہ امر واضح ہو جانا چاہئے کہ ﷲ تعالیٰ تمثیل وتشبیہ سے پاک ہے اور مَثَلُ نُورِہٖ میں لفظ مَثَل سے صفت مراد ہے اور بس۔
معترضین تو اپنے آپ کو عالم دین تصور کرتے ہیں، میرے نزدیک تو کوئی ادنیٰ درجہ کا معمولی پڑھا لکھا مسلمان بھی آیت کریمہ سے ﷲ تعالیٰ کے لئے تمثیل وتشبیہ کے معنی نہیں سمجھ سکتا ۔ علامہ عامر عثمانی دیوبندی اﷲ تعالیٰ کو حقیقی اور واقعی نور تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ وہ اسی بیان میں آیت کریمہ "وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا" الآیۃ لکھ کر لکھتے ہیں : یہاں ﷲ جل شانہ نے خود اپنے نورِ مقدس کا ذکر فرمایا ہے وہ چونکہ واقعی بہمہ وضوح وہ نور ہی نور ہیں اس لئے لفظ کو اس کے حقیقی ووضعی معنی پر محمول کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی ۔ (ماہنامہ تجلی، بابت مئی جون ۱۹۶۰ء، ص ۵۳)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔