Wednesday 28 March 2018

درس حدیث موضوع : فتنوں کا بیان

0 comments
درس حدیث موضوع : فتنوں کا بیان

فتن جمع ہے فتنۃ کی،فتنہ کے کل چودہ معنی ہیں:محنت، آزمائش،پسندکرنا،کسی پر فریفتہ ہونا،گمراہ ہونا،گمراہ کرنا،گناہ،کفر،رسوائی، عذاب،سونا آگ میں گلانا،جنون محبت،لوگوں کے آپس کے جھگڑے و فساد۔(اشعۃ اللمعات)مؤلف اس بارے میں بہت سے باب باندھیں گے حتی کہ فضائل و مناقب کے باب بھی اسی بیان میں آئیں گے ان بابوں میں ان معانی کا لحاظ ہے ۔

عَن حُذَيْفَة قَالَ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مقَامه إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِي هَؤُلَاءِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ قَدْ نَسِيتُهُ فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عرفه . (مُتَّفق عَلَيْهِ)
ترجمہ : روایت ہے حضرت حذیفہ سے فرماتے ہیں کہ ہم میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے ایک جگہ قیام فرمایا (1) آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم نے اسی جگہ میں قیامت تک ہونے والی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دیدی (2) جس نے اسے یاد رکھا اس نے یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا (3) یہ بات میرے یہ دوست جانتے ہیں (4) ان واقعات میں سے کوئی چیز ہوتی ہے جسے میں بھول چکا ہوتا ہوں پھر اسے دیکھتا ہوں تو ایسے یادکرلیتا ہوں جیسے کوئی شخص کسی کا چہرہ پہچان لیتا ہے جب وہ اس سے غائب رہا ہو پھر جب اسے دیکھے تو پہچان لے (5) (مسلم،بخاری)

(1) حضور انور کا یہ قیام آئندہ واقعات کی خبریں دینے کے لیے تھا جیساکہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے ۔

(2)  یعنی حضور نے ہر چھوٹے بڑے واقعہ حتی کہ قطرہ قطرہ ذرہ ذرہ کا بیان فرمادیا،یہ حدیث اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے"وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ"جس سے معلوم ہورہا ہے کہ الله تعالٰی نے حضور کو ذرہ ذرہ قطرہ قطرہ کا علم بخشا،اتنے تھوڑے وقت میں یہ سب بیان فرما دینا حضور انور کا معجزہ ہے جیسے حضرت داؤد علیہ السلام آن کی آن میں زبور شریف پڑھ لیتے تھے۔خیال رہے کہ الله تعالٰی نے حضور انور کو سب کچھ سکھادیا جس سے حضور ان سب کے عالم بن گئے مگر حضور انور نے حضرات صحابہ کو یہ سب کچھ بتادیا سکھایا نہیں جس سے وہ صحابہ ان سب کے عالم نہیں بن گئے لہذا صحابہ کا علم حضور کے برابر نہیں ہوگیا جیسے الله تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھادیئے "وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسْمَآءَ کُلَّہَا"جس سے وہ ان تمام کے عالم بن گئے مگر آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو یہ نام بتادیئے سکھائے نہیں جس سے فرشتہ عالم نہ بنے "فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ"۔

(3) یہ ساری باتیں تو کسی ایک کو بھی یاد نہ رہیں،بعض صحابہ کو زیادہ باتیں یاد رہیں،بعض کوتھوڑی،بعض کو بہت چیزیں بھول گئیں ۔

(4) یعنی جو صحابہ آج موجود ہیں انہیں یہ واقعہ یاد ہے جو میں نے بیان کیا کہ حضور انور نے یہ سب باتیں ایک مجلس شریف میں بتائی تھیں ۔

(5) یعنی بہت دفعہ واقعات ہمارے سامنے آکر ہم کو ہماری بھولی باتیں یاد دلادیتے ہیں کہ حضور انور نے یہ فرمایا تھا،دیکھو وہ واقعہ یہ ہے جیسے بھولا بچھڑا آدمی سامنے آجاوے تو پہچان لیا جاتا ہے۔سبحان الله! کیسی شاندار مثال ہے ۔

عَن حُذَيْفَة قَالَ :  سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نَكَتَتْ فِيهِ نُكْتَةً سَوْدَاءَ وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَتْ فيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى يَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ: أَبْيَضُ بِمثل الصَّفَا فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مِرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجْخِيًّا لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلَّا مَا أشْرب من هَوَاهُ " رَوَاهُ مُسلم ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت حذیفہ سے فرماتے ہیں میں نے رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو فرماتے سنا کہ دلوں پر فتنے پیش آئیں گے (1) جیسے چٹائی کا ایک ریگ جو دل فتنے پلا دیا گیا اس میں سیاہ دھبہ پیدا  کر دیں گے اور جو دل انہیں برا سمجھے اس میں سفید داغ پیدا ہوجاوے گا (2) حتی کہ لوگ دو قسم کے دلوں پر ہوجائیں گے (3) ایک سفید جیسے سنگ مرمر اسے کوئی فتنہ نقصان نہ دے گا جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں اور دوسرا کالا راکھ ہمرنگ جیسے اوندھا کوزہ (4) وہ نہ بھلائی کو پہچانے نہ برائی کو برا جانے سواء اس خواہش کے جو اسے پلادی گئ (5) (مسلم)

(1)  یہاں فتنوں سے مراد یا دنیاوی آفتیں اور مصیبتیں ہیں یا برے عقیدے برے اعمال ہیں وہ فتنے دور ہوجائیں گے مگر ان کے اثرات دلوں پر رہ جائیں گے جیسے مٹی یا ریتے پر چٹائی بچھاؤ تو اٹھ جاتی ہے مگر اس کے نشان مٹی پر رہ جاتے ہیں۔

(2) یعنی جو شخص ان فتنوں کو اچھا سمجھے گا اس کا دل سیاہ ہوجاوے گا،وہ بے ایمان جیئے گا بے ایمان مرے گا اور جو ان فتنوں سے نفرت کرے گا اس کا دل نورانی ہوگا۔یہاں پلائے جانے سے مراد پسند کرنا چاہنا ہے،جیسے رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَاُشْرِبُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الْعِجْلَ"۔

(3) یا تو لوگ دو قسم کے ہوجائیں گے: کالے دل والے اور سفید دل والے یا لوگوں کے دل دو قسم کے ہوجائیں گے: سفید اور کالے۔معلوم ہوا کہ گناہ سے الفت اور نفرت کا اثر دل پر پڑتاہے،پھر کبھی دل کا اثر چہرے پر نمودار ہوجاتا ہے چہرہ دل کی کتاب ہے۔

(4) یعنی اس کا دل سیاہ بھی ہوگا اور ناقابل تاثیر جیسے الٹا کوزہ کہ اس میں کوئی چیز نہیں ٹھہرتی ایسے ہی اس دل میں کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت ٹھہرے گی نہیں،وہ دل کسی نصیحت کا اثر قبول نہ کرے گا یہ الله تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔مجحن اجحاء کا اسم فاعل ہے بمعنی اوندھا اور الٹا ہوجانا۔

(5) یعنی وہ شخص بجز اپنی دل پسند چیز کے کسی کو اختیار نہ کرے گا اگرچہ کتنی ہی اچھی ہو اور سوائے اپنی ناپسندیدہ چیز کے کسی چیز کو چھوڑے گا ہی نہیں اگرچہ کتنی ہی بری ہو،یہ ہے دل کی موت یا دل کا رین،رب فرماتاہے:"کَلَّا بَلْ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ"۔

عَن حُذَيْفَة قَالَ : حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ: حَدَّثَنَا: «إِنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ».وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا قَالَ:" يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ أَثَرُهَا مِثْلُ أَثَرِ الْوَكْتِ ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ قتقبض فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ وَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدُهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ ".
ترجمہ : روایت ہے حضرت حذیفہ سے فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے دو خبریں بتائیں (1) جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی اور دوسری کا منتظر ہوں (2) ہم کو خبر دی کہ امانت لوگوں کے دلوں کے اصل میں اتر ی ہے (3)  پھر لوگوں نے قرآن سیکھا پھر حدیث سیکھی (4) اور حضور نے ہم کو اس کے اٹھ جانے کی خبر دی (5) فرمایا آدمی ایک نیند سوئے گا تو اس کے دل سے امانت قبض کرلی جاوے گی (6) تو اس کا اثر چھالے کی طرح رہ جاتا ہے (7) پھر ایک نیند سوئے گا تو امانت قبض کرلی جاوے گی حتی کہ اس کا اثر آبلے کی طرح ہوجاوے گا (8) جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری لگاؤ تو ابھار ہو جاوے تم اسے پھولا ہوا دیکھو جس میں کچھ بھی نہ ہو (9) لوگ خریدو فروخت کریں گے اور کوئی بھی امانت ادا نہ کرے گا (10) حتی کہ کہا جاوے گا کہ فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار شخص ہے (11) اور کسی شخص کے متعلق کہا جاوے کہ وہ کیسا عقلمند ہے کیسا خوش طبع ہے کیسا بہادر ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کی برابر ایمان نہ ہوگا (12) (مسلم،بخاری)

(1) یعنی فتنوں کے زمانوں میں امانت کے متعلق دو خبریں دی لہذا یہ حدیث کتاب الفتن کے مناسب ہے۔

(2) حضور انور نے نزول امانت کی بھی خبر دی اور اس امانت کے اٹھ جانے کی بھی دی،میں نے امانت کا نزول تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اس کے اٹھ جانے کا منتظر ہوں نہ معلوم یہ واقعہ میری زندگی میں ہو یا میرے بعد۔

(3) امانت سے مراد یا تو ایمان ہے یا شرعی احکام،رب تعالٰی فرماتاہے:"اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ"۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد دیانتداری ہو خیانت کی مقابل۔

(4) اس سے معلوم ہوا کہ دلوں میں توفیق خیر پہلے ہوتی ہے،قرآن و حدیث کا سیکھنا عمل کرنا بعد میں میسر ہوتا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم نے دیکھ لیں۔

(5) یعنی آخر زمانہ میں روشنی ایمان دلوں سے نکل جاوے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ قرآن و سنت پڑھنا ان پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔

(6) ظاہر یہ ہے کہ یہاں سونے سے مراد علم دین سے غفلت کرنا ہے اور نومۃ سے مراد معمولی غفلت ہے اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن و سنت کے علم کا ذکر ہوا یعنی لوگ علم دین سے معمولی غفلت کریں گے تو اس کا نتیجہ وہ ہوگا جو یہاں مذکور ہے۔(اشعہ)اور ہوسکتا ہے کہ نوم سے مراد سونا ہی ہو تو مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے انقلاب کا حال یہ ہوگا کہ ابھی سونے سے پہلے دل کا اور حال تھا اور سوتے ہی کچھ اور ہوگیا۔(مرقات)

(7) وکت واؤ کے فتحہ کاف کے سکون سے جمع ہے وکتۃ کی بمعنی نقطہ سفید جو آنکھ کی سیاہ پتلی میں ہو،چھوٹے چھالے یا چھوٹے تل کو بھی وکت کہتے ہیں خواہ کالا تل ہو یا سرخ یعنی امین آدمی کے دل سے امانت ختم ہوجاوے گی مگر کچھ اثر باقی رہے گا۔

(8) مجل میم کے فتح جیم کے سکون سے،آبلہ چھالا جو زیادہ کام کرنے سے ہاتھوں میں پڑ جاتا ہے،کھال سخت ہوجاتی ہے یعنی لوگوں کے دلوں سے امانت آہستہ آہستہ اٹھے گی،ایک بار غفلت میں امانت جائے گی دل میں خیانت آوے گی مگر معمولی جیسے چھالا دوبارہ غفلت میں یہ خیانت دل میں سخت ہوجاوے گی جیسے کام کرنے والوں کے ہاتھ کے سخت دہٹے آبلے ۔

(9) یہ مضمون علیحدہ ہے یعنی اگر کسی کا عضو معمولی چنگاری سے جل جاوے وہاں چھالا پڑ جاوے تو چھالا ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس میں سواء گندے پانی کے ہوتا کچھ نہیں،یوں ہی اس زمانہ کے لوگ لباس و شکل میں بہت اچھے دکھائی دیں گے مگر انکی دلوں میں خیر نہ ہوگی برائی ہی ہوگی ۔

(10) یعنی وہ لوگ آپس میں خرید و فروخت اور دوسرے مالی معاملات کریں گے مگر امین نہ ہوں گے،تجارتوں میں خیانت ملاوٹ سب ہی کچھ کریں گے اپنی زبان پر قائم نہ رہیں گے ۔

(11) یعنی امین آدمیوں کی اتنی کمی ہوجاوے گی کہ اگر کسی شہر کسی قبیلہ میں کوئی ایک امین ہوگا تو لوگ دور دور اس کا چرچہ کریں گے کہ اس علاقہ میں صرف وہ شخص امین ہے ۔

(12) یعنی آخر زمانہ میں لوگوں کی چالاکی دنیاکمانا چست و چالاکی ہونے کی تو تعریف ہوگی مگر اس کے دین تقویٰ امانت کا ذکر بھی نہ کیا جاوے گا،وہ ہوگا بے ایمان خائن جیساکہ آج کل عام چودھریوں نمبرداروں دنیا داروں میں دیکھا جاتا ہے، ہاں بعض الله کے مقبول بھی ہوتے ہیں مگر تھوڑے ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔