حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پرمسلمانوں کا اجماع قائم ہوا شیعہ حضرات کے اعتراض کا جواب
اہل تشیع کا اعتراض : کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پرمسلمانوں کا اجماع قائم ہوا بلکہ وہ تو فقط ایک شخص حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اشارے پر قائم ہوئی ۔ اور اگر یہ بات درست ہو تو کیا تمام مسلمانوں پر ایسے شخص کی اطاعت کرنا واجب ہے جو اس وقت خلیفہ مسلمین بھی نہ تھا بلکہ اسلامی ملک کا ایک عام باشندہ اور دوسرے مسلمانوں کے مانند ایک مسلمان تھا ؟ اور اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی اطاعت نہ کرے تو کیسے اس کا خون مباح ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ ایک فرد قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر حجت ہے ؟ جبکہ ہمارے بہت سے علماء جیسے ابویعلیٰ حنبلی متوفٰی ٤٥٨ھ کہتے ہیں : لاتنعقد الاّ بجمھور أھل العقد والحلّ من کلّ بلد لیکون الرّضا بہ عاما، والتّسلیم لامامتہ اجماعا .وھذا مذھب مدفوع ببیعة أبی بکر علی الخلافة باختیارمن حضرھا ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنھا.( الأحکام السلطانیة : ٣٣.)
قرطبی کہتے ہیں : ((فانّ عقدھا واحد من أھل الحلّ والعقد..)). جامع احکام القرآن ١: ٢٧٢)
اس اعتراض کا جواب
اول : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم منعقد ہو چکا تھا جس کا ثبوت ہم نے اس سے پہلے کی گئی پوسٹ دے دیا ہے ۔
دوم : ابو یعلی ، قرطبی وغیرہ کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بیعت وقت ضروری نہیں کہ پررے ملک کے لوگ ہیں بیعت کریں بس ہر جگہ سے اہل حال و عقد اگر بیعت میں شریک ہوں تو یہ امامت اجماع پر ہی ہے اور پھر عقلن بھی یہ محال ہے کہ پورے ملک سے سب کے سب بیعت کریں ۔ اور اجماع کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ امت کی غالب اکثریت جس چیز کو اپنائے وہ لازم ہوتی ہے اجماع کے لئے ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ پر تمام امت متفق ہو کیوں کہ ایسا نا ممکن ہے ۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت تمام مہاجرین و انصار اور امت کی غالب اکثریت نے تسلیم کر لی تھی ۔ اس لئے ان کی خلافت کو ماننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے نہ ماننے والا شخص اس امت سے خارج ہو جاتا ہے ۔
سوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا و نماز پڑھاتے تھے وہ کوئی عام باشندے کیسے ہوسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ کی حیات ظاہری میں امام بنتے ہیں اور امام حج بھی ۔ چناچہ وہ کوئی عام باشندے نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا تو ابی بکر رضی اللہ عنہ کیسے ہوسکتے ہیں ہاں وہ وقتی امام ضرور تھے جب انصار اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور آپ کو مستقل طور پر اپنا امام بنا لیا تو وہ خلیفہ بلا فصل بن گئے ۔ ان کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر نہیں قائم ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ان کی حمایت کی بلکہ انصار کے و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکمل مشورہ کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تو وہ اس پر راضی تھے ۔ اکیلے سیدنا عمر آپ کو خلیفہ کسیے بنا سکتے ہیں ۔
سیدنا فاروق اعظم و سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر کا نام خلافت کے لئے تجویز کیا جیسے انصار نے سیدنا سعد بن عبادہ کا نام تجویز کیا تھا ۔ جب انصار بھی سیدنا صدیق کی بیعت ہر راضی ہوگئے اور ان کے امیدوار نے ہاتھ اٹھا لیا پھر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اگر امید وار تھے انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیا جیسے نو بختی لکہتے ہیں انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تسلیم کرلیا وہ ان کے لئے دستبردار ہوگئے اور ابو بکر سے راضی تھی ۔ تو مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ بنی ہاشم نے بھی بیعت کرلی ۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب مسلمانوں نے اجماع کرلیا اس کی تفصیل ہم پہلے مضمون میں لکھ چکے ہیں جو لوگ غائب تھے یعنی اس وقت مدینہ میں نہ تھے یا دوسرے علاقون کے تھے تو انہوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت ان کے عمال یعنی گورنروں کے ذریعے کی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment