عمر بن خطاب نے کہا ہے : تمام مہاجرین، ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے کا جواب
شیعہ حضرات کا اہلسنت پر اعتراض : آپ کہتے ہیں : ابوبکر کی بیعت تمام مہاجرو انصار کے اجماع کے ذریعہ حاصل ہوئی ، لیکن عمر بن خطاب نے کہا ہے : تمام مہاجرین، ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے ، علی (علیہ السلام) ، زبیر اور ان کے چاہنے والے بھی موافق نہیں تھے۔ ” حین توفی اللہ نبیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان الانصار خالفونا ، و اجتمعوا باسرھم فی سقیفة بنی ساعدة و خالف عنا علی والزبیر و من معھما ۔ آپ کا دعوی صحیح ہے یا عمر بن خطاب کا دعوی صحیح ہے؟
اس اعتراض کا جواب : ہم اس بات کو اس سے قبل لکھے گئے مضامین میں ثابت کرچکے ہیں کہ تمام انصار و مہاجرین نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (رضی اللہ عنہم) کی بیعت کر لی تھی اور وہ سب کے سب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلافت کے کاموں میں لگ گئے تھے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت : یہ ایک طویل روایت ہے ہم اس کا ضروری حصّہ یہاں صحیح بخاری س کتاب الحدود باب رجم الحبلی ے نقل کردیتے ہیں : إِنَّمَا کَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَکْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ کَانَتْ کَذَلِکَ وَلَکِنَّ اللَّهَ وَقَی شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْکُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَکْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِي بَکْرٍ يَا أَبَا بَکْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی إِخْوَانِنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَکَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْنَا نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَکُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا يُوعَکُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَکَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِکُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَکْرٍ وَکُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی رِسْلِکَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَکَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّی سَکَتَ فَقَالَ مَا ذَکَرْتُمْ فِيکُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَکُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَکْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا کَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِکَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَی قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَکْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْکُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّی فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَکَ يَا أَبَا بَکْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ
ترجمہ : تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی اور پھر پوری ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن ﷲ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جیسی فضیلت ہو، جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے- اس خوف سے کہ وہ قتل کردیے جائیں گے جس وقت ﷲ نے اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر ہے– مگر انصار نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور حضرت علی وزبیر نے بھی ہماری مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکر کے پاس جمع ہوئے تو میں نے ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ہم لوگ اپنے انصار بھائیوں کے پاس چلیں، ہم لوگ انصار کے پاس جانے کے ارادے سے چلے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک بخت آدمی ہم سے ملے، ان دونوں نے وہ بیان کیا جس کی طرف وہ لوگ مائل تھی پھرانہوں نے پوچھا اے جماعت مہاجرین کہاں کا قصد ہے ہم نے کہا کہ اپنے انصار بھائیوں کے پاس جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قریب جاؤ تم اپنے امر کا فیصلہ کرو میں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس جائیں گے چناچہ ہم چلے یہاں تک کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو ان کے درمیان دیکھا کہ کمبل میں لپٹا ہوا ہے میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ سعد بن عبادہ، میں نے کہا کہ ان کو کیا ہوا لوگوں نے عرض کیا کہ ان کو بخار ہے ہم تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ان کا خطیب کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور ﷲ کی حمدوثناء کرنے لگا جس کا وہ سزاوار ہے- پھر کہا امابعد، ہم ﷲ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین وہ گروہ ہو کہ تمہاری قوم کے کچھ آدمی فقر کی حالت میں اس ارادہ سے نکلے کہ ہمیں ہماری جماعت کو جڑ سے جدا کردیں اور ہماری حکومت ہم سے لے لیں- جب وہ خاموش ہوا تو میں نے بولنا چاہا، میں نے ایک بات سوچی رکھی کہ جس کو میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا- اور میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا، جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی وہ مجھ سے زیادہ بردباراور باوقار تھے- خدا کی قسم جو بات میری سمجھ میں اچھی معلوم ہوتی تھی اسی طرح یا اس سے بہتر پیرایہ میں فی البدیہہ بیان کی یہاں تک کہ وہ چپ ہوگئے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے جو خوبیاں بیان کی ہیں تم ان کے اہل ہو لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش کے لئے مخصوص ہے یہ لوگ عرب میں نسب اور گھر کے لحاظ سے اوسط ہیں میں تمہارے لئے ان دو آدمیوں میں ایک سے راضی ہوں ان دونوں میں کسی سے بیعت کرلو، چناچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے (عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) مجھے اس کے علاوہ انکی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی، خدا کی قسم میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا، یا ﷲ مگر میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہم اس کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں اے قریش ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے شوروغل زیادہ ہوا اور آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ مجھے اختلاف کا خوف ہوا میں نے کہا اے ابوبکر اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر انصار نے ان سے بیعت کی ۔
اب یہ اعتراض کرنے ولا عقل کا دشمن ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے سے پہلے کا حال بتا رہے ہیں ظاہر اس وقت وہ خلیفہ نہیں تھے تو اس وقت اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔ یہ سراسر جھوٹ و کذب ہے کہ تمام مہاجرین رضی اللہ عنہم ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کہا بلکہ صرف حضرت علی و حضرت زبیر رضی اللہ عنہما اور کچھ اور لوگ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھےمخالف وہ بھی نہیں تھے انہیں جیسے پتا چلا بیعت کے لئے آگئے ۔ لیکن جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار نے اجماع کرلیا اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو تھے انہوں نے بھی بیعت کی ۔ تو عقل کے دشمن کیا یہ اجماع نہیں ہوا سب نے بیعت کی ۔ اس بات سے کس کو انکار ہے کہ انصار رضی اللہ عنہم نے اپنا خلیفہ چننے کے لئے ہی اجتماع کیا تھا اور پھر اس بات سے کس کو انکا ر ہے کہ سیدنا علی و زبیر رضی اللہ عنہما بھی الگ تھے لیکن جب ان سب لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو پھر یہ اجماع ہی ہوا نہ ۔ اب پتہ نہیں کہ شیعہ اجماع کسے کہتے ہیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment