حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت نہ کی کا جواب
شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)
اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ ( مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں .(رضی اللہ عنہم)
اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔
بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت :
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔
ترجمہ : عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔
حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ 448)
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔
باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔
شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کوحق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق ہر ہیں ۔
لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔۔۔۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment