قرآن اور فضائلِ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
(1) ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ۔ (التوبۃ:٤٠)
ترجمہ : آپ دو میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ)غار میں تھے ، جب (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ےار سے فرماتے تھے ، غم نہ کر ، بیشک اﷲ ہمارے ساتھ ہے تو اﷲ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی ۔
صدرُالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت اس آیت سے ثابت ہے۔ حسن بن فضل نے فرمایا، جو شخص حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ہوا''۔ (تفسیربغوی، تفسیر مظہری، تفسیر خزائن العرفان)
مرزا مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ '' اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا'' کی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ےہی فضیلت کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے بغیر کسی فرق کے، اﷲ تعالیٰ کی اس معیت کو ثابت کیا جو انہیں خود حاصل تھی ۔ جس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کا انکار کیا اس نے اس آیت کریمہ کا انکار کیا اور کفر کا ارتکاب کیا''۔(تفسیر مظہری)
''سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ'' کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ : یہ تسکین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر نازل ہوئی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تو سکینت ہمیشہ ہی رہی تھی''۔(ازالۃالخفاء ج ٢:١٠٧، تاریخ الخلفاء : ١١١)
(2) ابن عساکررحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا تمام مسلمانوں پر عتاب فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کے آغاز میں ہے : اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ ( التوبۃ: ٤٠)
ترجمہ : اگر تم محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہ کرو تو بیشک اﷲ نے انکی مدد فرمائی، جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا(ہجرت کے لیے) ۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یہ آیت اس دعوے کی دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس عتاب سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ (تاریخ الخلفاء: ،١١٣،چشتی)
(3) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ، یا رسول اﷲا! اﷲ تعالیٰ جو فضل وشرف بھی آپ کو عطا فرماتا ہے تو ہم نیازمندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتاہے۔ اسی وقت اﷲتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر خزائن العرفان، تفسیر مظہری، تاریخ الخلفاء: ١١٢) ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰئِکَتُہ، لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب: ٤٣)
ترجمہ : وہی ہے کہ درود بھیجتاہے تم پر وہ اور اسکے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے ۔
(4) وَالَّذِیْ جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (الزمر:٣٣)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے انکی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں ۔
بزاروابن عساکررحمہما اللہ نے اس آیت کے شان نزول کے متعلق روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح ارشادفرمایا، ''قسم ہے اُس رب کی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس رسالت کی تصدیق کرائی''۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء:١١٢)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حق لیکر آنے والے سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہص سے بھی یہی مروی ہے۔ (تفسیرکبیر، تفسیر مظہری، ازالۃ الخفاء ج٢:٢٢٥) (شیعہ مذہب کی مستند تفسیر مجمع البیان میں بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ (ج٨:٤٩٨)
(5) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبّہ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:٤٦)
ترجمہ : اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے،اسکے لیے دو جنتیں ہیں۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ (تفسیرمظہری، تفسیر درمنثور،چشتی)
(6) وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ۔
ترجمہ : اور قسم نہ کھائےں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزرکریں۔ (النور:٢٢)
یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ موافقت کرنے پر اپنے خالہ زاد بھائی مسطح کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھائی جو بہت نادار و مسکین بدری صحابی تھے۔ آپ نے اس آیت کے نزول پر اپنی قسم کا کفارہ دیا اور انکی مالی مدد جاری فرمائی۔ صدرُالافاضل رقمطراز ہیں ،'' اس آیت سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی، اس سے آپ کی علوشان ومرتبت ظاہر ہوئی کہ اﷲتعالیٰ نے آپکو ابوالفضل (فضیلت والا)فرمایا''۔(تفسیر خزائن العرفان،تفسیر مظہری،چشتی)
(7) ایک مرتبہ یہودی عالم فخاص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا اے ابوبکر! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہمارا رب ہمارے مالوں میں سے قرض مانگتا ہے، مالدار سے قرض وہی مانگتاہے جو فقیر ہو، اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر اﷲتعالیٰ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اسکی گستاخانہ گفتگو سن کر غضبناک ہوئے اور اسکے منہ پر زوردار تھپڑ مارا اور فرمایا ، اگر ہمارے اورتمہارے درمیان صلح کا معا ہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فخاص نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی۔ آپ نے اسکی گستاخانہ گفتگو بیان کردی ۔ فخا رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا انکار کردیا تو اﷲتعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی : لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْر'' وَّ نَحْنُ اَغْنِیَاءَ۔ (اٰلِ عمران: ١٨١)
ترجمہ : بیشک اﷲنے سنا جنہوں نے کہا کہ اﷲمحتاج ہے اور ہم غنی ۔
(8) وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مِنْ اَنَابَ اِلَیَّ ۔
ترجمہ : اور اسکی راہ چل جو میر ی طرف رجوع لایا''۔ (لقمٰن: ١٥)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ آیت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ جب وہ اسلام لائے تو حضرت عثمان، طلحہ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمٰن بن عوف ثنے انکی رہنمائی کے سبب اسلام قبول کیا۔ (تفسیر مظہری)
(9) لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر (الحدید:١٠)
ترجمہ : تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔
یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ سب سے پہلے ایمان لائے اور سب سے پہلے اﷲ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ (تفسیر بغوی،چشتی)
قاضی ثناء اﷲرحمہ اﷲ فرماتے ہیں ، یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ سے افضل اور صحابہ کرام تمام لوگوں سے افضل ہیں کیونکہ فضیلت کا دارومداراسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے ، مال خرچ کرنے اورجہاد کرنے میں ہے۔ جس طرح آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جس نے اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکا اجر اور اس پر عمل کرنے والوں کا اجربھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم)
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لائے اور آپکے ہاتھ پر قریش کے معززین مسلمان ہوئے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں میں بھی سب سے آگے ہیں۔ کفار سے مصائب برداشت کرنے والوں میں بھی آپ سب سے پہلے ہیں۔ (تفسیر مظہری)
(10) وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی O الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہ، یَتَزَکّٰیO وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہ، مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیO اِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبّہِ الْاَعْلٰیO وَلَسَوْفَ یَرْضٰی O
ترجمہ : اور اس (جہنم )سے بہت دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہےزگار جو اپنا مال دےتا ہے کہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہےں جس کا بدلہ دیا جائے ، صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ (اپنے رب سے)راضی ہو گا ۔ (والیل:١٧ تا ٢١،چشتی )
اکثر مفسرین کا اتفاق ہے یہ آیات مبارکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئیں۔ (تفسیرقرطبی ،تفسیر کبیر ،تفسیرابن کثیر ،تفسیرمظہری)
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سات غلاموں کو اسلام کی خاطر آزاد کیا۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر مظہری،تفسیرروح المعانی،چشتی)
صدرُالافاضل رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت گراں قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا ،بلا ل کا ان پر کوئی احسان ہو گا جو انہوں نے اتنی قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر فرما دیا گیا کہ حضرت صد یق اکبر کا یہ فعل محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے، کسی کے احسان کا بدلہ نہیں۔ (خزائن العرفان)
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ آخری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ،''یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں اس طرح ہے جس طرح حضور کے حق میں یہ آیت ہے : وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی O (تفسیر مظہری )
ترجمہ : اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment