سیدنا حضرت ابوبکر صدیق اور سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما کے درمیان رشتہ داری اور مسلہ باغ فدک پر اہل تشیع کے اعتراض کا مختصر جواب
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی ایک بیٹی تھی جس کا نام اسماء بنت عبدالرحمٰن بن حضرت ابوبکر صدیق تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹے حضرت محمد بن ابوبکر صدیق تھے ان کا ایک بیٹا تھا قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق تھا ۔ ۔ ۔ یہ دونوں اسماء بنت عبدالرحمٰن اور قاسم بن محمد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی کہلائے ۔ پھر ان دونوں پوتی اسماء بنت عبدالرحمٰن اور پوتے قاسم بن محمد کا آپس میں نکاح ہوا پھر اسماء بنت عبدالرحمٰن کے بطن سے قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ام فروہ رضی اللہ عنہا ہے ۔ اس ام فروہ کا نکاح سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین رضی اللہ عنہما سے ہوا ۔ پھر اسی ام فروہ کے بطن سے سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہے ۔ یعنی سیدنا امام جعفر صادق کے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر اور نانی حضرت اسماء بنت عبدالرحمٰن دونوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پوتے اور پوتی ہیں سیدنا امام جعفر صادق اسماء بنت عبدالحمٰن کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق کے پڑنواسے اور قاسم بن محمد بن ابوبکر کے طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پڑپوتے کہلاتے ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نانا اور نانی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسبت دونوں کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔
یہی وجہ ہے جب کسی نے سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ سیدنا صدیق اکبر کو برا بھلا کہتے ہیں؟ آپ ارشاد فرمایا : ابوبکرن الصدیق جدی ھل یسب احد اباءہ ، ۔ (احقاق الحق جلد1 صفحہ 30،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوبکر میرے نانا ہیں کیا کوئی اپنے آباواجداد کو گالی دینا پسند کرے گا۔اللہ مجھے کوئی مرتبہ اور عزت نہ بخشے اگر میں ابوبکر صدیق کو (عزت اور عظمت میں) مقدم نہ رکھوں ۔
قال ابو جعفر محمد الباقر لست بمنكر فضل ابي بكر ولست بمنكر فضل عمر ولكن ابابكر افضل من عمر ۔ (احتجاج طبرسي ص 204)
ترجمہ : امام ابو جعفر صادق محمد باقر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ"میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر نہیں اور نہ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر ہوں ۔ ہاں لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔
سال رجل من المخالفين عن الامام الصادق عليه السلام وقال يا من رسول الله ما تقول في ابي بكر ومر فقال عليه السلام هما امامان عادلاان قاسطان كانا علي الحق وماتا عليه رحمهما الله يوم القيامة ) ( احقاق الحق ص 1 مطبوعه 1203)
ترجمہ : مخالف گروہ کے ایک شخص نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے خلافت صدیق وعمر رضی اللہ عنھما کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔"وہ دونوں امام عادل تھے،مصنف تھے،حق پر تھے اور حق پر انہوں نے وفات پائی ان دونوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت نازل ہو۔( رضوان اللہ عنھم اجمعین )
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابوبكر ن الصديق جدي هل يسب احد اباه لاقد مني الله ان لا اقدمه ) ( احقاق الحق ص ،7،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پڑ نانا ہیں ۔ کیا کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کو سب وشتم کرنا پسند کرتا ہے ؟ اگر میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کروں توخدا مجھے کوئی شان اور عزت نہ دے ۔ (احقاق الحق ص7)
اسی کتاب احقاق الحق میں ہے کہ : ولدني الصديق مرتين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں دو طرح داخل ہوں ۔ (ص7)(مزید تفصیل کے لئے جلال العیون ص248،کشف الغمہ ص215،222،احتجاج طبرسی ص 205 دیکھیں) ۔ (کشف الغمہ جلد 2 صفحہ373 شیعہ عالم)
صافی شرح اصول کافی ص 214 پر امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ : ومادرش ام فروہ اسماء دخت قاسم بن محمد بن ابی بکر بود ومادرام فروہ اسماء دختر عبدالرحمٰن بن ابی بکر بود ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فروہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پڑ پوتی (پوتے کی بیٹی) تھیں اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نانی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں ۔
باقی رہا یہ سوال کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اتنی شان اور افضلیت کے مالک تھے تو سید فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فدک سے محروم کیوں رکھا ؟ تو یہ سوال بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ خلیفہ اول بلا فصل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے مطابق عمل کیا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری مطبوعہ نظامی کان پور کے ص575ج2) ص576ج2،چشتی) پر زمانہ نبوت کا عمل درآمد بیان کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں بلازری نے فتوح البلدان ص37 پر اشارہ کیا ہے ۔ نیز عون المعبود شرح ابی داؤد ج3ص104 ،ج3 ص105 پر بھی تذکرہ ہے اور امام نووی نے شرح مسلم میں زیر حدیث مالک بن اوس ص90 پر ذکر کیا ہے۔کہ قاضی عیاض نے کہا ہے،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نزاع کے ترک کردینے اورحدیث کے اجماع کو تسلیم کرنے کا ثبوت موجود ہے ۔ جس وقت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ حدیث پہنچی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی رائے چھوڑ دی ۔ بعد ازیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد سے کسی نے بھی میراث کا مطالبہ نہیں کیا ۔ ثم ولي علي ن الخلافة فلم يعدل بها عما فعله ابوبكر و عمر ۔
ترجمہ : پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر جلوہ گر ہوئے تو انہوں نے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف عمل نہیں کیا ۔
مگر افسوس کہ شیعہ کی کتاب کافی کلینی ج1 ص 355 ،چشتی) پر صاحب کتاب نے ایک روایت نقل کی ہے جو افراط وتفریط سے پُر ہے ۔ اور اس کی حقیقت محض افسانہ گوئی ہے ۔ اس کے برعکس شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ لعلامہ ابن ہثیم بحرانی ص543) جز نمبر 35 "(عربی) اور در نجفیہ شرح نہج البلاغۃ مطبوعہ طہران ص332 پر مرقوم ہے : كان رسول الله صلي الله عليه وسلم ياخذ من فلك فوتكم ويقسم الباقي ويحمل منه في سبيل الله ان اصنع بها كما كان يصنع فرضيت واخدت العهد عليه به وكان ياخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعده كذلك الي ان ولي معاويه )
ترجمہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی پیدا وار سے تمہارا خرچ لے لیا کرتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرماتے اور فی سبیل اللہ جہاد میں سواریاں لے لیتے تھے ۔ اللہ کی قسم اٹھا کر میں عہد کرتا ہوں کہ میں فدک میں اسی طرح کروں گا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فدک کے اس فیصلہ پر رضا مند ہوگئیں ۔ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بات کا عہد لیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فدک کی پیداوار وصول کرکے اس سے اہل بیت کو کافی وافی خرچ دے دیتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت آنے تک تمام خلفاء رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ عمل کیا ۔
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ۔ اور بعینہ یہ عمل تمام خلفائے راشدین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت حسن مجتبیٰ ۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کا رہا ۔ حتیٰ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت آگئی ۔ اور اس عرصہ میں کوئی تغیر وتبدل نہ ہوا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا اور خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس حکم کی پابندی کی ۔ تو اب حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ناراضگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
کتب تاریخ وسیر کی ورق گردانی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سید فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فراخ دلی کا ثبوت دیا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے سامان شادی خریدتے وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موافقت کی (جلالعیون ص 55) اور مرض الموت میں بھی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تیمارداری کے فرائض سر انجام دیئے اور وفات کے بعد غسل بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ ہی نے دیا (جلالعیون ص3) تو ان امور سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض نہ تھیں بلکہ خوش تھیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment