Saturday, 16 November 2024

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تجانبِ اہل السنتہ کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ ٧۔٥۔٢)


حالانکہ یہ مولانا محمد طیب کی انفرادی رائے تھی جسے علماء اہل سنت کی جماعتی طور پر تائید حاصل نہیں ہوئی ۔ شخص واحد کی انفرادی رائے کو پوری جماعت پر ٹھوس دینا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے ۔ 


احسان الٰہی ظہیر وہابی لکھتا ہے : ہم یہ عقائد و معتقدات اور ان کے دلائل خود احمد رضا بریلوی ، ان کے خواص اور اس گروہ کے خواص و عوام کے نزدیک معتمد حضرات اور ان نمایاں شخصیات سے نقل کرینگے جو ان کے نزدیک بغیر کسی اختلاف کے مسلم ہوں ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ٥٦) 


اَب ان لوگوں سے کون پوچھے کہ تجانب اہل السنتہ کے مصنف مولانا محمد طیب کہاں کی مسلم نمایاں اور غیر متنازع فیہ شخصیت ہیں ؟ خود احسان الٰہی ظہیر وہابی نے بریلویوں کے جن زعماء کا ذکر کیا ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ ٤۔٥١)


ان میں مولانا محمد طیب کا ذکر نہیں ہے ، یہ کہاں کی دیانت ہے کہ ان کے اقوال تمام اہل سنت کے سر تھوپ دئے جائیں ؟ 


علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مولانا طیب صاحب ہمدانی مصنف تجانبِ اہلِ سنت ''علمی اعتبار سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں، وہ مولانا حشمت علی کے داماد تھے اور ان کا مبلغ علم فقط اتنا تھا کہ وہ شرقپور کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے اور بس '' تجانب اہل سنت میں جو کچھ انہوں نے لکھا ، وہ ان کے ذاتی خیالات تھے ، اہل سنت کے پانچ ہزار علماء و مشائخ نے بنارس کانفرنس میں قرار داد قیام پاکستان منظور کر کے مولانا حشمت علی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی افکار اور تجانب اہل سنت'' کے مندرجات کو عملاً رد کر دیا تھا ، لہٰذا سیاسی نظریات میں ایک غیر معروف مسجد کے غیر معروف امام (مولانا طیب) اور غیر مستند شخص کے سیاسی خیالات کو سوادِ اعظم اہل سنت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ، نہ یہ شخص ہمارے لیے حجت ہے اور نہ اس کے سیاسی افکار ۔ (علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ : ماہنامہ فیضان فیصل آباد شمارہ اپریل ١٩٧٨ء صفحہ ٢٨۔٢٧،چشتی)


استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجانبِ اہل سنت کسی غیر معروف شخص کی تصنیف ہے جو ہمارے نزدےک قطعاً قابلِ اعتماد نہیں ہے ، لہٰذا اہل سنت کے مسلمات میں اس کتاب کو شامل کرنا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی حوالہ ہم پر حجت نہیں ہے ، سالہا سال سے یہ وضاحت اہل سنت کی طرف سے ہو چکی ہے کہ ہم اس کے کسی حوالہ کے ذمہ دار نہیں ۔ ( قلمی یا دداشت حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر ٢٩ اکتوبر ١٩٨٤ء محفوظ نزد راقم (شرف قادری)


ترجمان عقائد اہل سنت اور کلکِ رضا ہیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ : ⏬


ماہر رضویات فی الہند ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی مدیر ماہنامہ" سُنی دنیا" بریلی شریف ، سند فضیلت جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ، ایوارڈ یافتہ یادگار اعلیٰ حضرت منظر اسلام بریلی شریف لکھتے ہیں : کچھ مفتی صاحبان نے اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا ہے لیکن یہ فتویٰ بریلی شریف سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا یا اُن کے صاحبزادگان وغیرہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہوتا تو پھر لاہور میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے خلف اکبر حضرت حجتہ الاسلام ڈاکٹر اقبال سے ملنا کیسے گوارہ کر لیتے ؟ ۔(اقبال مسلک رضا کے آئینے میں صفحہ 14 ، 15 ، ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی مطبوعہ رضا اسلامک اکیڈمی بریلی شریف)


حضرت امیرِ ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدثِ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ


شیخ الحدیث علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:علامہ اقبال آپ (امیرِ ملت) کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسہ کی صدارت کر رہے تھے کہ علامہ اقبال آ کر آپ کے قدموں میں بیٹھ گئے اور کہا کہ بزرگوں کے قدموں میں بیٹھنا سعادت ہے ۔ آپ نے فرمایا : اقبال جس کے قدموں میں ہو اسے اور کیا چاہیے ؟ ۔ ایک موقع پر پیر صاحب نے از راہِ عنایت فرمایا : ڈاکٹر صاحب آپ کا یہ شعر ہمیں بھی یاد ہے : ⏬


کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا 

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


اس پر علامہ اقبال نے کہا : میری نجات کےلیے یہی کافی ہے کہ آپ کو میرا یہ شعر یاد ہے ۔ (تذکرہ اکابر اہلِ سنت از علامہ عبد الحکیم شرف قادری صفحہ 115)


قاطع قادیانیت ، مناظر اسلام،فاضل جلیل ، تائید کنندہ حسام الحرمین ، حضرت علامہ مفتی کرم الدین دبیر رحمۃ اللہ علیہ وصال 1946ء مصنف آفتاب ہدایت ، متنبی قادیان کا قانونی جہاد ۔ نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے لکھا ہے:ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال جو مشاہیر شعرائے پنجاب سے ہیں اور انگریزی دان طبقہ بھی ان کی پاکیزگی خیال کا قائل و مداح ہے،آپ اولیاءِ کرام کی نسبت یوں گوہر افشانی کرتے ہیں : ⏬


چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے

وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا ناز نینوں میں


بانگ درا کے چھ سات اشعار نقل کر کے مفتی کرم الدین دبیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : میرا خیال ہے کہ اسی پاک ارادت کے باعث جو اس شیریں مقال شاعر کے دل میں بندگان خدا سے ہے ، رب العزت نے اسے رتبہ جلیلہ اور اس کے کلام کو قبولیت عامہ کا شرف بخشا ۔ جزا اللہ خیرا ۔ (ہدیة الاصفیا صفحہ نمبر 20 ، 21 مطبوعہ مسلم پرنٹنگ پریس لاہور،چشتی)


مولانا عبدالستار ہمدانی صاحب مدظلہ خلیفہ مفتی اعظم ہند ، مصنف مردانِ عرب و کتب کثیرہ اختلافات کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بن شیخ نور محمد 1877ء کے نومبر مہینے کی 9 تاریخ کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، نہایت ذہین اور ذی استعداد علمی صلاحیت کی وجہ سے دینی اور دینوی تعلیم میں کمال درجہ کی دسترس حاصل تھی ، فاضل علوم عربیہ و فارسیہ مولانا مولوی میر حسن سے عربی اور فارسی زبان میں اہلیت و مہارت حاصل کی ، فارسی و عربی زبان میں گفتگو کرنے اور شاعری کرنے کی صلاحیت و چابک دستی حاصل تھی " جناب مولانا ہمدانی نے علامہ کے اشعار پر گرفت بھی کی ہے ، تنقیدات و تعاقبات کے بعد کیا خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے فرماتے ہیں کہ : ڈاکٹر اقبال کا دیوان "ارمغان حجاز " جو ان کے انتقال کے بعد شایع ہوا اس میں ڈاکٹر اقبال نے اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی اور پاداش اور مکافات میں عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے "عقائد اہل سنت" کی ترجمانی کی ہے ، بلکہ بارگاہ رسالت کے گستاخوں کی توبیخ و تذلیل میں اپنے قلم سے "کلک رضا" کے جلوئے دکھائے ہیں ۔ (مسلمانوں کو کافر کون کہتا ہے ۔ علامہ عبدالستار ہمدانی نوری مطبوعہ مرکزاہل سنت برکات رضا گجرات ہند 2015ء،چشتی)


بدر العلماء ، حضرت علامہ مولانا بدر الدین احمد صدیقی رحمۃ اللہ علیہ ، ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : رضوی دار الافتاء بریلی شریف میں ایک استفتا پیش کیا گیا جس میں ڈاکٹر اقبال کے کچھ (کفریہ) اشعار کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو مولانا مفتی محمد اعظم نے (فتوے میں) اُن اشعار کو کفریہ قرار دیا اور قائل (یعنی ڈاکٹر اقبال) کے بارے میں تحریر کیا کہ میں نے حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے ڈاکٹر اقبال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : بے شک اقبال سے خلاف شرع امور کا صدور ہوا ہے ، کفریات تک اس سے صادر ہوئے ہیں مگر وہ اللہ تعالی کے محبوب، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخ و بے ادب نہیں تھا- بے شک جہالت کی بنا پر اس سے کفر تک پہنچانے والی غلطیاں ہوئی ہیں مگر آخر وقت میں مرنے سے پہلے اس کی توبہ بھی مشہور ہے اور جو اللہ کے محبوب کی شان میں گستاخ نہیں ہوتا اس کو توبہ کی توفیق ہوتی ہے ۔ اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند نے اقبال کا یہ شعر پڑھا : ⏬


بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

گر با و نر سیدی تمام بو لہبی است


یہ شعر پڑھ کر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور فرمانے لگے کہ اس شعر سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اقبال کی سچی محبت ظاہر ہے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اقبال کے بارے میں توقف چاہیے اور حضرت کا یہ فرمان ناسازی طبع سے پندرہ سولہ سال پہلے کا ہے اور حضرت کے اس فرمان پر ہمارا عمل ہے ۔ (فتاوی بدر العلماء صفحہ 126 ، 229)


خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ڈاکٹر اقبال کے ایک شعر کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ہمیں حکم ہے کہ مومن کے کلام کو اچھے معنوں پر محمول کرنا واجب ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد 2 صفحہ 486)


خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اقبال کی توبہ مشہور ہے ، بہت سے مستند عالموں نے اس کی (توبہ کی) روایت بھی کی ہے اس لیے اس کے بارے میں سکوت کیا جاتا ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد 3 صفحہ491)


مسلمان کو کافر و مشرک کہنا : ⏬


محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل اکثر اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے مسلمانانِ اہلسنت پر شرک و کفر کے فتوے بلا سوچے سمجھے جڑ دیے جاتے ہیں کبھی کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی کسی مسلمان کو ابوجہل کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی ہندو کہہ دیتے تو کبھی قادیانی وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حدیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں ۔ یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے حوالے موجود ہیں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو ہر فتنہ کے شر و فساد سے بچائے آمین : ⬇


سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان مما اخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔

ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ (صحیح ابنِ حبان جلد اوّل صفحہ 282 عربی مطبوعہ موسس الرسالہ)


یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔

اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵، امجد اکیڈمی لاہور۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۶۵ دارالفکر بیروت۔چشتی)

علاوہ ازیں یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵) (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔ )(صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔)(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔چشتی)(مسند الشامیین للطبرانی ، جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲ صفحہ نمبر ۳۵۸)


ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً : ⬇


ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)


مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔

ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔ ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۱)


مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔

ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا : اے کافر! … تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ ۹۰۱ واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)


یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔


امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔

ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ۹۰۱۔چشتی)


ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانان اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیئے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔


شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر کسی مسلمان کو کوئی شخص کافر یا ابو جہل کافر سمجھ کر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہے اور اگر بطور گالی کہتا ہے تو خود فاسقِ معلن اور تعزیر کا مستحق ہے ۔ اور صفحہ نمبر 369 پر لکھتے ہیں ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 368،چشتی)


اللہ عزّوجل اور اس کے رسول صلی للہ علیہ والہ والہ وسلم نے اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے وہاں ان باتوں سے بھی منع فرمایا جو اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مکدر کر دیتی ہیں۔ ایک مسلما ن کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا، اس کی غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن و سنت میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ایک مومن کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں زندہ ڈال دیا جانا۔ اسی طرح اپنے ایمان کی اہمیت کو جانتے ہوئے وہ اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ’’کافر‘‘ کہے یا زمرہ اہل اسلام سے خارج ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کرے۔ دور حاضر میں یہ بات بہت عام نظر آنے لگی ہے کہ خواص و عوام ایک دوسرے کو بلا جھجک کا فر کہہ دیتے ہیں اور اس عمل سے قبل اپنی طرف نظر بھی نہیں کرتے کہ وہ اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی کہی بات کو اس قدر مستند اور نا قابل تردید سمجھتے ہیں کہ جو ان کے کہے کو کافر نہ کہے وہ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا : اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھااحدھما ۔

ترجمہ : جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال و الا رجعت علیہ ۔

ترجمہ : جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرر لوٹے گا۔اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا ۔


اس حدیث سے یہ معلوم بھی ہو تا ہے کہ کسی کا کفر اگر واقعی ثابت ہو چکا ہو تو اسے کا فر کہنا جائز ہے ورنہ اس کا وبال کہنا والے پر ہو تا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا عاد علیہ ۔ (مسلم کتاب الایمان:باب :بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر)

ترجمہ : اور جس نے کسی شخص کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کفر اس کی طرف لوٹ آئے گا ۔


حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہاں ’’بغیر تاویل‘‘ کی شرط لگائی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تکفیر میں متاول ہو تو وہ معذورکہلائے گا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منافق کہنے کو عذر فرمایا اور انہیں تنبیہ بھی فرمائی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگی احوال کی خبر کفار کو دینا نفاق ہے۔ اسی طرح جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرمائی تو ایک صحابی نماز سے الگ ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز الگ ادا کر لی۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ منافق ہے۔ وہ صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : أ فتان انت ۔

ترجمہ : اے معاذ کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ پھر انہیں مختصر سورتیں تلاوت کرنے کی نصیحت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافر نہیں فرمایا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو جماعت ترک کرنے کی وجہ سے منافق گمان کیا تھا ۔ (عمدۃ القاری جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۷۔۱۵۸)


حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ اس بارے میں ارشادفرماتے ہیں: فتاملنا فی ھذا الحدیث طلبا منا للمرادبہ ما ھو؟فوجدنا من قال لصاحبہ :یا کافر معناہ انہ کافر لأن الذی ھو علیہ الکفر فاذا کان الذی علیہ لیس بکفر ،وکان ایمانا کان جاعلہ کافرا جاعل الایمان کفرا،و کان بذلک کافرا باللہ تعالیٰ لأن من کفر بایمان اللہ تعالیٰ فقد کفر باللہ :و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ ،و ھو بالاخرۃ من الخاسرین ،فھذا أحسن ما وفقنا علیہ من تاویل ھذا الحدیث و اللہ نسالہ التوفیق ۔ (مشکل الاثار باب بیان مشکل ما روی عنہ علیہ السلام فیمن قال لأخیہ :یا کافر،چشتی)

ترجمہ : ہم نے اس حدیث کی مراد جاننے کےلیے اس میں غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کافر! اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ وہ ہے جس پر کفر ہے ، پس اگر وہ کافر نہ ہو اور ایمان والا ہو تو اسے کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر کہا ہے۔ اس وجہ سے وہ در حقیقت اللہ کا انکار کر نے والا ہے۔ جس نے ایمان کو کفر کہا اس نے اللہ کا انکار کیا۔ جس نے ایمان کا انکار کیا اس کے اعمال بر باد ہو گئے اور وہ آخرت میں خسارا پانے والوں میں ہوگا۔ یہ اس حدیث کی سب سے بہترین تاویل ہے جس کی ہمیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں ۔


حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ کے بیان سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ کہ جس شخص کو اس نے کافر کہا وہ واقعی میں کافر ہو اور دوسری صورت یہ کہ وہ کافر نہ ہو۔ جب اس میں وجہ کفر نہ پائی گئی تو مسلمان کا اس کو کافر کہنا اس کو خود کافر بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اب اس کے ایمان کو کفر سے تعبیر کر رہا ہے جو کفر ہے ۔

ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ’’کافر‘‘ کہے تو محض اس عمل سے اسلام سے دونوں میں سے کوئی بھی خارج نہیں ہوگا۔ کافر ہونے کی صورت کو ہم امام طحاوی کے قول کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ ایک وعید ہے تا کہ اہل اسلام ایک دوسرے کو کافر بنانے سے احتراز کریں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبارکہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے اس کو تکفیر کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس حدیث کے بارے میں شرح مواقف میں ہے: (الثالث قولہ علیہ السلام :من قال لاخیہ المسلم یا کافر فقد باء بہ)ای بالکفر(أحدھما قلنا آحاد )و قد اجمعت الامۃ علی ان انکار الاحاد لیس کفرا (و)مع ذلک نقول(المراد مع اعتقاد انہ مسلم فان من ظن بمسلم انہ یھودی أو نصرانی فقال لہ یا کافر لم یکن ذلک کفرا بالاجماع)۔(شرح المواقفـ:ج:۸/ص:۳۴۴،سید شریف جرجانی ،دار الفکر ،قم ایران،چشتی)


خلاصہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کا انکار کفر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ یہ مسلمان ہے ۔پس جس کسی نے مسلمان کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ یہودی ہے یا نصرانی ہے تو اس پر اجماع ہے کہ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا ۔ اس بارے میں حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے امام خانی لکھتے ہیں:قال النووی فی الاذکار :قول المسلم لأخیہ یاکافر یحرم تحریما غلیظا و یمکن حمل قولہ و یمکن حمل قولہ (یحرم تحریما غلیظا)علی الکفر أیضا کما فی الروضۃ لکنہ قال فی شرح مسلم ما حاصلہ :مذھب أھل الحق انہ لا یکفر المسلم بالمعاصی کالقتل و الزنا و کذا قولہ لأخیہ یا کافر من غیر اعتقاد بطلان دین الاسلام ذکر ذلک عند شرح حدیث :اذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ۔و الحاصل ان المفھوم من جملۃ اقوال النووی انہ لا یکفر بمجرد ھذا اللفظ بل لا بد معہ من ان یعتقد ان ما اتصف بہ شخص من الاسلام کفر ۔ (رسالۃ فی الفاظ الکفرصفحہ ۴۰۱ قاسم بن صلاح الدین خانی دار ایلاف الدولیۃ للنشر و التوزیع کویت،چشتی)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اذکار میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو اے کافر کہنا بہت شدید حرام ہے آپ کے قول کو کفر پر محمول کرنا بھی ممکن ہے۔جیسا کہ روضہ میں ہے لیکن آپ نے شرح صحیح مسلم میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان گناہ سے کافر نہیں ہوتا جیسے قتل کرنا ،زنا کرنا یا جیسے اپنے بھائی کو اے کافر کہنا،اس کے دین اسلام کے باطل نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے۔آپ نے اس کا ذکر درج ذیل حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے ۔ جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گااگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا ۔ حضرت امام نووی کے تمام اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص محض اس لفظ سے کافر نہیں ہو گا بلکہ اس کے کافر ہونے کے لیے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ یہ شخص جو اسلام کے ساتھ متصف ہے اس کا اسلام کفر ہے ۔


علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مقبول ترین نظموں شکوہ اور جواب شکوہ پر کفریہ اعتراض لگایا جاتا رہا ہے اور ابھی بھی بہت سے لوگ ان نظموں کو گستاخی پر محمول کرتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ان نظموں میں ادب و تکریم کو ملحوظ نہیں رکھا اور یہ کفریہ شاعری ہے ۔اس موضوع پر مباحثے بھی ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ حالانکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ نہ تو کفریہ شاعری پر مبنی ہیں اور نہ ہی ان کے پڑھنے میں کے پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت ہے ۔ علمائے کرام کا یہی کہنا ہے کہ علامہ نے شکوہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ پیش کیا ہے، جبکہ جواب شکوہ میں اس تنزلی کے اسباب بیان کیے ہیں۔ شکوہ اور جواب شکوہ میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے امت مسلمہ کی فکری و اعتقادی گمراہیوں ، اخلاقی کجرویوں اور عملی کمزوریوں کو بڑے موثر انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ان نظموں کی اثرانگیزی بے مثال ہے، یہی وجہ ہے کہ ان نظموں کو پڑھنے اور سننے والا تڑپ اٹھتا ہے ۔ غلو ، انتہا پسندی اور تکفیر سے اجتناب کرتے ہوئے ہمیں اس پیغام کو سمجھنا چاہیے جو علامہ اقبال نے ان نظموں میں دیا ہے ۔


علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ شاعرِ مشرق سے کون نہیں واقف ، علامہ اقبال نے ہی سب سے پہلے تصورِ پاکستان پیش کیا، اپنی شاعری سے ہر دم ایک نئی روح پھونکی، خاص طور پر نئی نسل کے نوجوانوں کو '' خُودی '' کا درس دیا، علامہ اقبال دراصل '' شاعرِ حیات '' شاعرِ فردا'' شاعرِ مشرق'' اور شاعرِ انقلاب تھے،ان کی شاعری میں انقلابی روح، پیغمبرانہ شان ، سوزوفکر، اسرارِ معرفت، حقیقت شناسی، فلسفہ عشق فلسفہ خودی، حق گوئی اور تصورِ شاہین سبھی کچھ موجود ہے، علامہ اقبال نے ہی پاکستانی نوجوانوں کو '' شاہین '' کا نام دیا، علامہ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں، ان کی قوم کے نوجوانوں میں، طالبِ علموں میں وہ صفات پیدا ہوں جو کہ شاہین میں ہیں، شاہین وہ پرندہ ہے جس کا نام جس کا ذکر علامہ اقبال نے بارہا اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شاہین ہی وہ واحد پرندہ ہے جو اونچی پرواز سے بھی کبھی تھک کر نہیں گرتا،وہ کبھی آشیانہ نہیں بناتا،وہ بلند پرواز ہے، خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے، اور یہی صفات علامہ اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے، نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑون کی چٹانوں پر نوجوان مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، قوم کو مضبوط اورمستحکم بنانے کی ذمے داری نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے، علامہ اقبال چاہتے تھے کہ ان کے نوجوان فولاد بن جائیں، خودی کو اس قدر مستحکم کر لیں کہ وہ فولاد بن جائے، ساتھ ساتھ نوجوانوں کی رہنمائی کے لیئے '' بوڑھوں '' کا وجود بھی ضروری ہے کیونکہ انہوں زمانے کا سرد و گرم دیکھا ہوتا ہے، تمام نوجوانوں کو چاہییئے کہ بزرگوں کے سائے میں شاعرِ مشرق کے پیغامات کی روشنی میں آگے بڑھیں اور شاہین کی پرواز اختیار کریں کیونکہ،،، عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خودی کی تعلیم دی ہے کہ '' خودی '' ایک ایسی روحانی قوت ہے جو انسان میں خدائی صفات پیدا کرتی ہے، جو خدا سے عشق و محبت کے بعد پیدا ہوتی ہیں،جب انسان میں خودی مستحکم ہو جاتی ہے تو اُسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا، اور دین و دنیا کی دولت قدموں تلے آجاتی ہے، خودی سے مراد انسان کی عزتِ نفس ہے، خودی انسان کی وہ خصوصیت ہے جو اُسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے، اور اس وصف کا نوجوان نسل میں ہونا انتہائی ضروری ہے کہ نوجوانوں میں عزتِ نفس ہو گی تو اپنا، اپنے ملک کا مستقبل یقیناً بہتر طور پر سنوار سکیں گے، اپنی تقدیر خود بنا سکیں گے کہ، خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے یقیناً مسلمانانِ عالم کو مسلسل جدوجہد اور عمل کا درس بھی دیا ہے، گویا اقبال کی شاعری میں وہ '' بانگِ درا '' ہے جس نے مسلمانوں کے اذہان کو نئی توانائی بخشی، اقبال کی شاعری وہ '' ضربِ کلیم '' ہے جس نے ملتِ اسلامیہ کی بے حسی اور جمود کو توڑا، ملتِ اسلامیہ میں ایک نئی روح پُھونکی،، شاعرِ مشرق کا یہ شعر کتنا خوبصورت پیغام ہے ملتِ اسلامیہ کے ان نوجوانوں کے لیئے جو آج مغرب کی تقلید میں اندھا دھند ماڈرن ازم کی جانب رواں دواں ہے، اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی انسان جو بظاہر خطا کا پُتلا ہے، اور کمزوری اُس کی فطرت ہے، لیکن اگر وہ چاہے تو زمین، آسمان فتح کر سکتا ہے، منزل صرف ظاہری اور وقتی معاملات سے بہت آگے ہے، بقول علامہ اقبال، '' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں '' اگرچہ علامہ اقبال کے زمانے میں انسان کے قدم ستاروں سے آگے نہیں گئے تھے، لیکن واقعہ معراج سے انسان کی منزل رسائی کا اشارہ ملتا ہے، اقبال نے جو بات شاعرانہ انداز میں کہی تھی، وہ اب ایک حقیقت بن چکی ہے، اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے '' تصوف '' ''عرفان '' اور '' حکمت '' کا درس بھی دیا ہے، اور اسی کو تسخیرِ کائنات کا سبب بھی قرار دیا ہے کہ جب انسان '' معرفت '' اور '' حکمت '' سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ شاہین کی پرواز اختیار کر لیتا ہے، اور آج، آج کا انسان چاند پر چہل قدمی کر چکا ہے، اب نئے اُفق اور نئی منزلیں منتظر ہیں، بقول اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روزوشب میں اُلجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں علامہ اقبال مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق دیکھنا چاہتے تھے جس کا آج کل فقدان ہے ، وہ فرماتے تھے، اے مسلمانو۔۔۔! متحد ہو جاؤ، اسی میں تمہاری بقاء کا سامان ہے، ورنہ دوسری قومیں تمہیں ختم کر دیں گی،(اوربیشک آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے، شام، افغانستان، فلسطین ہر جگہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے) سعی مسلسل اور عملِ پیہم زندگی میں کامیابی کے لوازم ہیں اور سکون '' موت '' ہے، جو قومیں مصروفِ عمل ہوں وہ زندہ رہتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں اور جو بے عمل ہیں وہ فنا ہو جاتی ہیں، بقول اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا علامہ اقبال نے راہَ راست سے بھٹکی ہوئی مسلم قوم کو سیدھا راستہ دکھایا، انہیں حال کی پستیوں کا احساس دلاتے ہوئے ماضی کا روشن آئینہ دکھاتے ہوئے ایک شاندار مستقبل کی تعمیر پر آمادہ کیا، اقبال ایک ایسے عظیم شاعر تھے، جو صدیوں کی گردش کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اور جن کی عظمت کو نہ گردشِ زمانہ دھندلا سکتی ہے اور نہ تاریکیئ قبر، بے شک 21 اپریل 1938 کو خودی کا درس دینے والا یہ چراغ بجھ گیا، لیکن نوجوانوں کےلیے مستقل ایک پیغام چھوڑ گیا کہ پاکستان کی صورت جو چراغ روشن ہے اقبال کے شاہینوں کو اس کی حفاظت کرنا ہو گی بنا رکے ، بنا تھکے کہ ۔ پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ اُفتاد شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)














No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...