Friday, 29 November 2024

قصاص میں قوموں اور لوگوں کی زندگی ہے

قصاص میں قوموں اور لوگوں کی زندگی ہے

محترم قارٸینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ (سورہ آیت نمبر 179)
ترجمہ : اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو ۔


اس آیتِ مبارکہ میں قصاص میں قوموں اور لوگوں کی حیات بیان کی گئی ہے ۔ جس قوم میں ظالم کی پردہ پوشی اور حمایت کی جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور جہاں ظالم اور مجرم کو سزا دی جائے وہاں جرائم خود بخود کم ہو جاتے ہیں ۔ ایک محلے سے لے کر عالمی سطح تک کے مجرموں میں یہی ایک فلسفہ کار فرما ہے ۔ آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ جن ممالک میں جرائم پر سخت سزائیں نافذ ہیں وہاں کے جرائم کی تعداد اور جہاں مجرموں کو سزائیں نہیں دی جاتیں وہاں جرائم کی تعداد کتنی ہے ۔

وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قتل متعمدا دفع إلى اولياء المقتول فإن شاؤوا قتلوا وإن شاؤوا اخذوا الدية: وهي ثلاثون حقة وثلاثون جذعة واربعون خلفة وما صالحوا عليه فهو لهم ۔
ترجمہ : عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : جس شخص نے عمداً قتل کیا تو اسے مقتول کے ورثا کے حوالے کیا جائے گا ، اگر وہ چاہیں تو (اسے) قتل کر دیں اور اگر وہ چاہیں تو دیت لے لیں ۔ اور وہ تیس حِقّہ (اونٹنی کا وہ بچہ جو تین سال مکمل کرنے کے بعد عمر کے چوتھے سال میں داخل ہو) تیس جذعہ (وہ اونٹنی جو پانچویں سال میں داخل ہو) اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہے۔ اور وہ جس چیز پر مسالحت کر لیں تو وہ ان کےلیے ہے ۔ (مشكوة المصابيح كتاب القصاص حدیث نمبر 3474،چشتی)(جامع ترمذی حدیث نمبر 1387)

قانونِ قصاص ایک حکیمانہ قانون ہے جو کسی اور کا نہیں بلکہ خالق فطرت کا بنایا ہوا ہے ۔ قصاص اسلام کے احکام سزا میں سے ہے جس کو قرآن مجید نے سماج کےلیے حیات جانا ہے ۔ قصاص کے حکم کی قانون سازی ، بے مقصد اور بے انصاف انتقاموں کو روکنے کےلیے نیز مجرموں کو عام شہریوں کے قتل کی جرات کرنے یا انہیں مجروح کرنے سے روکنے کےلیے کی گئی ہے جوسالم اور صحت مند سماج کی حیات ، حفاظت اور عمومی راحت و آرام ، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور متقابل ذمہ داریوں پر مشتمل ہے ۔ نیز یہ بات سماجی حیات کے ارکان اور اصول کی حفاظت سے وابستہ ہے ۔ قصاص کا حکم مجرموں کے مقابلے میں سماج کے اہم رکن یعنی افراد کی جان کی حفاظت کےلیے وضع کیا ہے ۔

اللہ تعالی کے قانون میں انسانی جان کو بے پناہ حرمت دی گئی ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے آخری خطبے میں جو تعلیمات ارشاد فرمائیں اس میں انسانی جان ، مال اور آبرو کی حرمت کو بیت اللہ کی حرمت کے برابر قرار دیا ۔

قتل دو طرح کا ہوا کرتا ہے : ⏬

1 : قتل عمد ۔

2 : قتل خطا ۔

قتلِ عمد جس میں قاتل پورے ارادے اور منصوبے سے قتل کرتا ہے جبکہ قتل خطا میں غلطی سے بغیر ارادے کے کوئی شخص ہلاک ہو جائے ۔ پہلی صورت میں قانون یہ ہے کہ ایسا کرنے والے قاتل کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ۔ انسانوں کی غالب اکثریت نے اس معاملے میں اسی قانون پر عمل کیا ۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس معاشرے میں اس قانون پر عمل کیا گیا ، وہاں انسانی جان کی حرمت برقرار رہی ۔ جس معاشرے نے بھی اس قانون سے منہ موڑا ، اس کے نتیجے میں اس معاشرے میں انسانی خون پانی سے بھی سستا ہوا جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا ۔ اسی انتشار سے بچنے کےلیے قتل کے قصاص کو اللہ کی طرف سے بطور قانون حیات نازل کیا گیا جواسلام کے احکام سزا میں سے ایک حکم ہے ۔

لغت میں قصاص کے معنی کسی چیز کے اثر کے تلاش کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں جرم کے اثر کو ایسے تلاش کرنا کہ قصاص لینے والا ویسی ہی سزا مجرم کو دے جس طرح مجرم نے جرم انجام دیا ہے ۔

قصاص ایک قدیم انسانی قانون ہے جو اس کے زمان ابلاغ سے لیکر ہمارے زمانے تک موجود ہے ۔ جاہل عربوں کی رسم یہ تھی کہ اگر ان کے قبیلے کا کوئی فرد مارا جاتا تھا تو وہ یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے وہ قاتل کے قبیلے کے افراد کو مارڈالیں اور یہ فکر اتنی وسعت پاچکی تھی کہ وہ ایک فرد کے مرنے کے ساتھ قاتل کے پورے قبیلے کو ختم کر دیتے تھے ، تب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی جس کے ذریعے قصاص کا باانصاف حکم بیان ہوا ہے کیونکہ یہ حالت وسیع طور پر انتقامی کیفیت اور طولانی لڑائیوں کا سبب بنتی تھی ۔

لیکن اسلام نے قانون قصاص کو انتقامی قتل کا جانشین بنایا ۔ اسلام ایک طرف اسے گلی کوچوں کی انتقامی کاروائیوں سے نکال کر عدالت اور قاضی کے دائرہ میں لایا اور اس طرح قصاص کو ایک غیر قانونی کام سے ایک ایسے عمل میں تبدیل کیا کہ جرم کی پہچان ، مجرم اور جرم کے حدود کیلئے ایک عدالت قائم ہوجائے تاکہ ہر طرح کی سزا اسی کی نظارت میں عدل و انصاف کے ساتھ دی جائے ۔ اسے انتقامی صورت حال سے نکال کر قصاص کا نام دیا، اوراس زمانے میں جن غلط قوانین نے سماج کو گھیررکھا تھا انہیں ختم کر دیا ۔ ایک شخص کے مقابلے میں کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا انتقام لینا تھا اور ایسا اندھا انتقام کہ جو مجرم اور قاتل کے گھرانے تک ہی محدود نہیں رہتا تھا ، جبکہ قرآن مجید بیان کرتا ہے : وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر 45)
ترجمہ : اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

اس آیتِ مبارکہ میں اگرچہ یہ بیان ہے کہ توریت میں یہودیوں پر قصاص کے یہ احکام تھے لیکن چونکہ ہمیں اُن کے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اس لیے ہم پر بھی یہ احکام لازم رہیں گے کیونکہ سابقہ شریعتوں کے جو احکام اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیان سے ہم تک پہنچے اور مَنسوخ نہ ہوئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوا کرتے ہیں جیسا کہ اُوپر کی آیت سے ثابت ہوا ۔ آیت میں زخموں کے ، اعضاء کے اور جان کے قصاص کا حکم بیان فرمایا گیا ، اَعضاء اور زخموں کے قصاص میں کافی تفصیل ہے جس کےلیے فقہی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور جان کے قصاص کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو اس کی جان مقتول کے بدلے میں لی جائے گی خواہ وہ مقتول مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام، مسلم ہو یا ذمّی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہ کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل صفحہ ۲۸۷،چشتی)

جو قاتل یا جرم کرنے والا اپنے جرم پر نادم ہو کر گناہ کے وبال سے بچنے کےلیے بخوشی اپنے اوپر حکم شرعی جاری کرائے تو قصاص اس کے جرم کا کفارہ ہو جائے گا اور آخرت میں اُس پر عذاب نہ ہوگا ۔ (تفسیر جمل مع جلالین جلد ۲ صفحہ ۲۲۸)

بعض مفسرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کیے ہیں کہ جو صاحبِ حق قصاص کو معاف کر دے تو یہ معافی اس کےلیے کفارہ ہے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل صفحہ ۲۸۷)

دونوں تفسیروں کے اعتبار سے ترجمہ مختلف ہو جائے گا ۔ تفسیر احمدی میں ہے یہ تمام قصاص جب ہی واجب ہونگے جب کہ صاحبِ حق معاف نہ کرے اگر وہ معاف کر دے تو قصاص ساقط ہو جائے گا ۔ (تفسیر احمدی صفحہ ۳۵۹،چشتی)

اگر تمہارا ایک شخص مار ڈالا گیا ، تو تمہیں بھی اس کے مقابلے میں ایک ہی آدمی سے جو مجرم اور قصور وار ہے قصاص لینا چاہیے ۔ آج تک قصاص کے اس حکم کے بدلے کوئی بہتر حکم نہیں ہے کہ جس میں مقتولین کے پسماندگان راضی نظر آتے ہوں اور مجرم بھی مساوی طور پر ویسی ہی سزا دیکھے تاکہ دوسروں کےلیے عبرت کا سبق بن جائے اور لوگ آسانی سے قتل اور خون نہ بہائیں ، یا دوسرے لوگوں کو مارنے کے بعد چند سال جیل کاٹ کر اور دوبارہ آزاد ہو کر لوگوں کو خطرے میں نہ ڈالیں ۔

اسلام ہر موضوع میں مسائل کو حقیقت کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو جانچ لیتا ہے ۔ بے گناہوں کے خون کے مسئلے میں بھی لواحقین کے حق کو بغیر کسی شدت یا سہل انگاری کے بیان کرتا ہے ۔

قصاص کے قانون کی سب سے اہم دلیل جس کے ذریعے سماج کی حفاظت کو جانا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں قصاص کے فلسفے کے بارے میں فرمایا ہے : اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 179)

یعنی قصاص کا مقصد موت کے گھاٹ اتارنا نہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے ، اس کا مقصد صرف امور کی ترمیم اور فرد یا سماج کو اپنی پہلی حالت پر لوٹا دینا ہے ۔ اگر کوئی بغیر دلیل کے سماج کے قانونی ارکان کے بغیر قتل کا اقدام کرے تو سماجی حیات خطرے میں پڑتی ہے جبکہ قصاص سماج اور فرد کی حیات کی ضمانت ہے ۔

بعض افراد حکم قصاص پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قصاص اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ایک اور آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جبکہ انسانی رحمت اور رافت اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی جان کا نقصان نہ ہو ۔ اس کے جواب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہاں ، لیکن ہر طرح کی رافت اور رحمت پسندیدہ اور با مصلحت نہیں ہے اور ہر طرح کا رحم کرنا بھی فضیلت نہیں جانا جائے گا ، کیونکہ کسی مجرم اور سخت دل انسان (جس کےلیے لوگوں کو قتل کر دینا آسان کام ہے) پر رحم کرنا اور ایسے فرد پر جو نافرمان ہے اور جو دوسروں کے جان ، مال اور عزت پر حملہ کرتا ہے ، اس پر رحم کرنا نیک ، شریف اورصالح افراد پر ستم کرنے کے برابر ہے ۔ اگر ہم مطلق طور پر اور بغیر کسی قید و شرط کے رحم پر عمل کریں تو نظام میں فساد پیدا ہوگا اور انسانیت ہلاکت میں پڑ جائے گی اور انسانی فضائل تباہ ہو جائیں گے ۔

اس طرح کے مارنے کو مارنا،مرنا اور مار ڈالنا نہ کہیں بلکہ اس کو حیات اور زندگی سمجھیں ، نہ صرف اس فرد کی حیات بلکہ سماج کی حیات ، یعنی ایک مجرم کے قصاص سے ، آپ نے سماج کے افراد کی حیات کو محفوظ کر دیا ، اگر آپ قاتل کو نہیں روکیں گے تو کل وہ ایک اور آدمی کو مار ڈالے گا ، کل ایسے کئی آدمی نکلیں گے جو متعدد آدمیوں کو مار ڈالیں گے ، اس کو آپ سماج کے افراد کا کم ہونا مت جانیں ، یعنی قصاص کے معنی انسان کے ساتھ دشمنی کا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے ساتھ دوستی کرنے کا نام ہے ۔

پس اگر انسان اخلاقی کمال کو پہنچ جائے تو وہ سمجھ جائے گا کہ قصاص انفرادی اور اجتماعی حیات کی فراہمی ہے اور دوسرے اعتبار سے بھی ایک انسان کا کم ہونا کئی انسانوں کے کم ہونے پر ترجیح رکھتا ہے ، کیونکہ مقصد موت کے گھات اتارنا نہیں ہے بلکہ مقصد حیات ہے اور خداوند تعالیٰ اپنے سارے بندوں کی نسبت زیادہ رحم کرنے والا ہے ، اسی لیے آیۃ کریمہ متفکر افراد اور انسانوں کے ذہنوں کو خطاب کرتی ہے نہ کہ احساسات اور عواطف کے ساتھ ارشاد فرمایا : قصاص تمہارے لیے حیات اور زندگی ہے اے صاحبان عقل ۔

پاکیزہ اور صحت مند و سالم سماجی حیات عمومی آرام، محفوظ حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور عمومی آرام اور حفاظت ، سماجی حیات کے اصول اور بنیاری ارکان کی حفاظت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ سماجی حیات دین ، جان ، مال ، احترام ، انسانی عزت اور انسانی عقل پر مشتمل ہے ، یہ اصول جو امام غزالی علیہ الرحمہ کے بعد ہمارے علماء اور فقہاء کی توجہ کا مرکز بنے ، واقعی طور پر ایک صحت مند سماج کی بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں اور جو اجزاء اور مجموعے اس کے ذیل میں موجود ہیں وہ سماج کی سبھی معتبر اور اہم مصلحتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔

مندرجہ بالا مطالب کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام کے احکامِ سزا کا مقصد یا اس کا اہم ترین ہدف دینی اور سماجی نظام کی حفاظت ہے اور یہ بلند مقصد صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اصلاح اور تربیت کے ذریعے یا سزاؤں کے ڈر سے ایسے اعمال کا مرتکب نہ ہو جن سے اجتماعی نظام کو نقصان پہنچتا ہے ۔

قصاص کے قانون کی گہری حکمت اور اس کے دور رس مقاصد : ⏬

ضرور انتقام ہی لیاجائے بلکہ یہ اس سے کہیں بلندو برتر مقاصد کا حامل ہے ۔ یہ زندگی کےلیے ، زندگی کے قیام کی راہ میں انسان کا قتل ہے ، بلکہ قیام قصاص بذات خود زندگی ہے ۔ یہ اس لیے ہے کہ اس فریضہ حقیقت کو سمجھا جائے ۔ اس کی حکمت میں غور و تدبر کیا جائے ۔ دل زندہ ہوں اور ان میں خدا خوفی موجزن ہو۔

ایک مجرم جرم کی ابتدا کرتا ہے اسے سوچنا چاہیے کہ یہ بات معمولی نہیں بلکہ ایسی ہے کہ مجھے تو اس کے بدلے میں اپنی جان کی قیمت دینی پڑے گی ۔ یوں نظام قصاص سے دوزندگیاں بچ جاتی ہیں ۔

ارتکاب قتل کی صورت میں قاتل کو سزا ہو جاتی ہے ۔ وہ قصاص میں مارا جاتا ہے ۔ مقتول کے ورثاء مطمئن ہوجاتے ہیں ان کے دلوں سے کینہ دور ہو جاتا ہے اور انتقام کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور پھر وہ انتقام جو عرب قبائل میں تو کسی حد پر ، کسی مقام پر رکتا ہی نہ تھا ۔ چالیس چالیس سال تک قتل کے بدلے میں قتل کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔ مثلاً حرب البسوس میں یہی ہوا ۔ عرب کیا آج بھی اس گواہ ہیں ، جہاں زندگی خاندانی دشمنیوں اور کینوں کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہے اور نسلاً بعد نسل یہ معاملہ چلتا ہی رہتا ہے اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔

قصاص میں زندگی ہے ۔ اپنے عمومی مفہوم میں ۔ ایک فرد کی زندگی پر حملہ دراصل جنس زندگی پر حملہ ہے ۔ پوری زندگی پر حملہ ہے ہر انسان پر حملہ ہے ۔ ہر اس انسان پر حملہ جو مقتول کی طرح زندہ ہے ۔ اگر قانون قصاص کی وجہ سے ایک مجرم ، صرف ایک زندگی کو ختم کرنے سے رک جائے تو اس نے پوری انسانیت کو بچالیا ۔ یوں اس ارتکاب جرم سے رک جانا عین حیات ہے اور یہ عام زندگی ، کسی ایک فرد کی زندگی نہیں ہے ، کسی خاندان کی نہیں ، کسی جماعت کی نہیں بلکہ مطلقاً زندگی ہے ۔

اب آخر میں قانون الٰہی کی حکمت میں غور وفکر کے شعور کے موجزن کیا جاتا ہے اور خدا خوفی کی تلقین کی جاتی ہے ۔ (یہی وہ اہم فیکٹر اور موثر ذریعہ ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی قائم رہ سکتی ہے ) تَتّقُونَ ” امید ہے کہ تم قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔

یہ ہے وہ اصل بندھن ، جو انسان کو ظلم و زیادتی سے باز رکھتا ہے ، ابتداء میں قتل ناحق کی زیادتی سے روکتا ہے ، اور آخر میں انتقام کی زیادتی سے ۔ یہ کیا ہے ؟ خدا خوفی ، تقویٰ ، دل میں خدا خوفی کا شعور اور شدید احساس ۔ اللہ کے قہر وغضب سے ڈرنے کا احساس اور اس کی رضاجوئی کی کشش ۔

اس پابندی کے بغیر کوئی قانون کامیاب نہیں ہو سکتا ، کوئی شریعت کامیاب نہیں ہوتی ۔ کوئی شخص ارتکاب جرم سے باز نہیں رہتا ۔ انسانی طاقت سے اعلیٰ اور برتر طاقت کے تصور کے بغیر اخروی خوف اور طمع کے روحانی احساس کے بغیر کوئی ظاہری شیرازہ بندی اور قانونی انتقام کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک اور خلافت کے زمانہ میں جرائم کا وقوع شاذ و نادر ہی رہا ہے ۔ جو جرائم وقوع پذیر ہوئے بھی تو مجرم نے خود اعتراف کیا ۔ اس کا راز یہی ہے کہ وہاں تقویٰ کا زور تھا ۔ لوگوں کے دل و دماغ میں ، ایک زندہ ضمیر کی صورت میں تقویٰ ، چوکیدار کی طرح بیٹھا ہوا تھا ۔ جو ہر وقت بیدار رہتا تھا ۔ وہ انہیں حدود جرم سے بھی دور رکھتا ۔ ساتھ ساتھ انسانی فطرت اور انسانی جذبات و میلانات و انصرام تھا ۔ دوسری طرف اسلامی عبادات کے نتیجے میں تقویٰ اور خدا خوفی کا سیل رواں تھا ۔ دونوں کے باہم تعاون اور ہم آہنگی کے نتیجے میں ہم آہنگ اور پاک وصاف قانون اور شریعت موجود تھی ۔ ایک طرف شریعت و قانون اور ظاہری انتقام میں ایک پاک صالح تصور زندگی اور نظام زندگی نے جنم لیا ، جس میں لوگوں کا طرز عمل پاک طرز فکر صالح تھی ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اس نظم نے ملک سے پہلے ہر شخص کے دل میں ایک منصف بٹھادیا تھا اور ایک عدالت قائم کردی تھی ۔ حالت یہ تھی کہ اگر کسی وقت کسی پر حیوانیت غالب ہی آگئی اور غلطی کا صدور ہو گیا اور یہ شخص قانون کی گرفت سے بچ بھی گیا تو بھی اس کا ایمان اس کےلیے نفسِ لوامہ بن گیا ۔ اس نے اپنے ضمیر میں خلش اور چبھن محسوس کی ۔ دل میں ہر وقت خوفاک خیالات کا ہجوم برپا ہو گیا ۔ اور گناہ کرنے والے کو تب آرام نصیب ہوا کہ جب اس نے قانون کے سامنے رضاکارانہ اعتراف جرم کر لیا اور اپنے آپ کو سخت سزا کےلیے پیش کر دیا اور خوشی اور اطمینان کے ساتھ اس سزا کو برداشت کیا ، محض اللہ کے غضب سے بچنے کی خاطر ۔ یہ ہے تقویٰ ، یہ ہے خدا خوفی ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمب 178)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

یہ آیت اَوس اور خَزرج کے بارے میں نازل ہوئی ،ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت، تعداد، مال و شرف میں زیادہ تھا ۔ اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا، زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی زیادتیوں کے عادی تھے ۔ عہد اسلام میں یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا ۔ ا س پر وہ لوگ راضی ہوئے ۔ (تفسیر جمل جلد ۱ صفحہ ۲۱۳)

قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے ، اس آیت میں قصاص اور معافی دونوں مسئلے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص اورمعافی میں اختیار دیا ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول سے اسلام کی نظر میں خونِ انسان کی حرمت کا بھی علم ہوتا ہے ۔

قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو، مرد کو قتل کیا ہو یا عورت کو کیونکہ آیت میں ’’قَتْلٰى‘‘ کا لفظ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے ۔ البتہ کچھ افراد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ نیز اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گاخواہ آزاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت اور زمانۂ جاہلیت کی طرح نہیں کیا جائے گا ، ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے ، غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے ، عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ بعض اوقات بہت بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھتے ۔ ان سب چیزوں سے منع کردیا گیا ۔

فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جس قاتل کو مقتول کے اولیاء کچھ معاف کریں جیسے مال کے بدلے معاف کرنے کا کہیں تو یہاں قاتل اور اولیاءِ مقتول دونوں کو اچھا طریقہ اختیار کرنے کا فرمایا گیا ہے ۔ مقتول کے اولیاء سے فرمایا کہ اچھے انداز میں مطالبہ کریں ، شدت و سختی نہ کریں اور قاتل سے فرمایا کہ وہ خون بہاکی ادائیگی میں اچھا طریقہ اختیار کرے ۔ آیت میں قاتل اور مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قتل اگرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے ایمانی بھائی چارہ ختم نہیں ہو جاتا ۔ اس میں خارجیوں کے مذہب کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں ۔ اہلسنّت کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں ۔

مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بغیر عوض معاف کردے یامال پر صلح کرے اوراگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا ۔ (تفسیر جمل جلد ۱ صفحہ ۲۱۳)

اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہو جاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے ۔(تفسیرات احمدیہ صفحہ۵۲)

دستورِ جاہلیت کے مطابق غیرِ قاتل کو قتل کرے یادِیَت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے تو اس کےلیے دردناک عذاب ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۹۵) ۔

علماء کا اس پر اجماع ہے کہ سلطان اگر اپنی رعیت میں سے کسی شخص پر زیادتی کرے تو وہ خود اپنی ذات سے قصاص لے گا ‘ کیونکہ سلطان اللہ تعالیٰ کے احکام سے مستثنی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مقتول کے سبب سے تمام مسلمانوں پر قصاص کو فرض کیا ہے اگر سلطان کسی شخص کو بےقصور قتل کردیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ خود کو قصاص کے لیے پیش کرے ‘ امام نسائی روایت کرتے ہیں : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی چیز تقسیم کررہے تھے ‘ ایک شخص آپ پر جھک گیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو ایک چھڑی چبھوئی ‘ اس نے ایک چیخ ماری ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آؤ بدلہ لے لو ‘ اس شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے معاف کر دیا ۔ (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٤٤۔ ٢٤٣ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی،چشتی)

امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ اس کے چہرہ پر زخم لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آؤ مجھ سے بدلہ لے لو ‘ اس نے کہا : میں نے معاف کر دیا ۔ (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٦٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام نسائی روایت کرتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو قصاص کےلیے پیش کیا ہے ۔ (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٤٤ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)۔اس حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ‘ ٤١ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں : ابوفراس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : میں عاملوں کو اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ لوگوں کے جسموں پر ضرب لگائیں اور نہ اس لیے کہ وہ ان کا مال لیں ‘ جس شخص کے ساتھ کسی حاکم نے ایسا کیا وہ مجھ سے شکایت کرے ‘ میں اس سے قصاص لوں گا ‘ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر کوئی شخص اپنی رعیت کو تادیبا مارے آپ پھر بھی اس سے قصاص لیں گے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں خدا کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں اس سے قصاص لوں گا ‘ اور بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے ‘ آپ نے اپنے نفس کو قصاص کے لیے پیش کیا تھا ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٢٦٨ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ،چشتی)۔اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔(سنن کبری ج ٨ ص ٤٨‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

امام بیہقی روایت کرتے ہیں : ابونصر وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے (سرخ رنگ کی) خوشبولگائی ہوئی تھی ‘ آپ نے وہ تیر اس کو چبھوکر فرمایا : کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ اس شخص نے کہا : رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ اور بیشک آپ نے مجھے زخمی کردیا ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیر اس کے آگے ڈال دیا اور فرمایا : تم اپنا بدلہ لے لو ‘ اس شخص نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ نے مجھے تیر چبھویا تھا تو میرے بدن پر کپڑا نہیں تھا اور آپ نے قمیص پہنی ہوئی ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا ‘ اس شخص نے جھک کر آپ کے بدن مبارک کا بوسہ لے لیا ۔
حضرت سواد بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اس وقت میں نے سرخ رنگ کی خوشبو لیپی ہوئی تھی ‘ جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : اے سواد بن عمرو ! تم نے درس (ایک خوشبودار گھاس جس سے سرخ رنگ ہوجاتا ہے) کا لیپ کیا ہوا ہے ‘ کیا میں نے تم کو اس خوشبو سے منع نہیں کیا تھا ؟ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ‘ آپ نے مجھے وہ چبھوئی جس سے مجھے درد ہوا ‘ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے بدلہ دیں ‘ آپ نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا اور میں آپ کے پیٹ کو بوسہ دینے لگا ۔
ابویعلی بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسید بن حضیر بہت ہنسانے والے تھے ‘ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہے تھے اور ان کو ہنسا رہے تھے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے انگلی اس کی کو کھ میں چبھوئی ‘ انہوں نے کہا : آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے ‘ آپ نے فرمایا : بدلہ لے لو ‘ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے قمیص پہنی ہوئی ہے اور میں نے قمیص نہیں پہنچی ہوئی ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص اٹھا دی وہ آپ کے بدن سے لپٹ گئے اور آپ کے پہلو کا بوسہ لے لیا اور کہنے لگے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں ‘ میرا یہی ارادہ تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک حبشی شخص کو لشکر میں بھیجا ‘ اس نے واپس آکر کہا کہ لشکر کے امیر نے بغیر کسی قصور کے میرا ہاتھ کاٹ دیا ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم سچے ہو تو میں اس سے ضرور تمہارا بدلہ لوں گا ۔ الحدیث ملخصا۔
جریر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابوموسی کے ساتھ مل کر دشمن پر غلبہ پایا اور مال غنیمت حاصل کیا ‘ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کا حصہ دیا اور تمام مال غنیمت نہیں دیا ‘ اس نے منع کیا اور کہا : وہ تمام مال غنیمت لے گا ‘ حضرت ابوموسی نے اس کو بیس کوڑے مارے اور اس کا سرمونڈ دیا ‘ اس نے وہ تمام بال جمع کیے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور وہ بال نکال کر دکھائے ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کے نام خط لکھا ‘: سلام کے بعد واضح ہو کہ فلاں شخص نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے اور میں نے یہ قسم کھائی ہے کہ اگر واقعی تم نے اس شخص کے یہ زیادتی لوگوں کے مجمع میں کی ہے تو میں لوگوں کے مجمع میں تم سے اس شخص کا قصاص لوں گا اور اگر تم نے تنہائی میں اس شخص کے ساتھ یہ زیادتی کی ہے تو میں تنہائی میں تم سے اس شخص کا قصاص لوں گا ‘ لوگوں نے سفارش کی اور کہا : ابوموسی کو معاف کردیجیے ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ! خدا کی قسم ! میں کسی شخص کے ساتھ رعایت نہیں کروں گا ‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو وہ خط دیا اور قصاص لینے کے لیے تیار ہوگئے تو اس شخص نے آسمان کی طرف سراٹھا کر کہا : میں نے ان کو اللہ کے لیے معاف کردیا ۔ (سنن کبری ج ٨ ص ٥٠ ‘۔ ٤٨ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان،چشتی)

تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ از خود قصاص لے ‘ قصاص لینے کے لیے ضروری ہے کہ حاکم کے پاس مرافعہ کیا جائے ‘ پھر حاکم خود قصاص لے گا یا کسی شخص کو قصاص لینے کے لیے مقرر کرے گا ‘ قانون پر عمل کرنے کا منصب صرف حکومت کا ہے ‘ ہر شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ‘ اسی طرح جادوگر اور مرتد کو قتل کرنا اور حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا حکومت کا منصب ہے ۔

امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کا راجح مذہب یہ ہے کہ جس طرح اور جس کیفیت سے قاتل نے مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اور اسی کیفیت سے قاتل کو قتل کیا جائے اور یہی قصاص کا تقاضا ہے کیونکہ قصاص کا معنی ہے : بدلہ ‘ اور بدلہ اسی صورت میں ہوگا ‘ نیز حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے پتھر مار کر ایک باندی کو قتل کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس یہودی کا پتھر سے سرپھاڑ کر اس کا بدلہ لیا ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے دو پتھروں کے درمیان ایک باندی کا سرپھاڑ دیا ‘ اس باندی سے پوچھا گیا : کس نے تمہارا سرپھاڑا ہے ‘ کیا فلاں نے ‘ یافلاں نے حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس باندی نے سرہلایا ‘ اس یہودی کو بلایا گیا ‘ اس نے قتل کرنے کا اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھر سے پھاڑ دیا گیا ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ١٠١٦۔ ١٠١٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد کے نزدیک قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا اور اس حدیث میں مثلہ کرنے کی ممانعت سے پہلے کے واقعہ کا بیان ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمادیا تو پھر اس کیفیت سے قصاص لینا منسوخ ہوگیا ‘ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تلوار کے سوا کسی چیز سے قصاص لینا (جائز) نہیں ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ص ‘ ١٩١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں : حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تلوار کے بغیر کسی چیز سے قصاص لینا جائز نہیں ہے۔ ابراہیم نے کہا : جس شخص کو پتھروں سے قتل کیا جائے یا اس کا مثلہ کیا جائے اس کا قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا ‘ اس کو مثلہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبی نے کہا : تلوار کے سوا کسی چیز سے قصاص لینا جائز نہیں ہے ۔ قتادہ نے کہا : تلوار کے سوا کسی چیز سے قصاص لینا جائز نہیں ہے ۔ (المصنف ج ٩ ص ٣٥٥۔ ٣٥٤‘ مطبوعہ ادراۃ القران ‘ کراچی)
علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں : جس کیفیت سے قاتل نے قتل کیا ہے اسی کیفیت سے اس کو قتل کیا جائے گا اگر اس نے غرق کیا ہے تو اس کو غرق کیا جائے گا اور اگر اس نے پتھر سے قتل کیا ہے تو اس کو پتھر سے قتل کیا جائے گا ‘ امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے ‘ البتہ اگر اس کیفیت سے زیادہ عذاب ہو تو پھر اس کو تلوار سے قتل کیا جائے گا اور اجس نے آگ سے جلا کر قتل کیا اس کے متعلق امام مالک کے مختلف قول ہیں۔ (ہدایۃ المجتہدج ٢ ص ٣٠٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت،چشتی)

علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں : جو شخص کسی کو عمدا قتل کرے گا تو جس کیفیت سے اس نے قتل کیا ہے اسی کیفیت سے اس سے قصاص لیا جائے گا ‘ اگر کسی نے تلوار سے قتل کیا ہے تو اس کو تلوار سے قتل کیا جائے گا اور اگر اس نے پتھر یا لکڑی سے قتل کیا ہے تو اس کو پتھر یا لکڑی سے قتل کیا جائے گا ۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ‘ ٥٨ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : اگر کسی شخص نے دوسرے شخص پر متعدد وار کرکے زخمی کردیا ‘ پھر زخم مندمل ہونے سے پہلے اس کو قتل کردیا تو اس کی گردن پر تلوار مار کر اس کو صرف قتل کیا جائے گا کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ بغیر تلوار کے قصاص لینا جائز نہیں ہے۔ عطاء ثوری ‘ امام ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ جس صفت سے قاتل نے قتل کیا ہے اسی صفت سے اس کو قتل کیا جائے گا حتی کہ اگر اس نے آگ میں جلایا جائے گا ‘ اور اگر اس نے دریا میں غرق کیا ہے تو اس کو غرق کیا جائے گا کیونکہ قرآن مجید میں ہے :  وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ۔ (النحل : ٢٦ ا)
ترجمہ : اور اگر تم انہیں سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جس طرح تمہیں تکلیف پہنچائی گئی تھی ۔
فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ۔ (البقرہ : ١٩٤)
ترجمہ : جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم اس پر اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی تھی ۔

امام احمد نے یہودی کا پتھر سے قصاص لینے پر بھی استدلال کیا ہے اور تلوار سے قصاص لینے والی حدیث کے متعلق کہا ہے : اس کی سند درست نہیں ہے ۔ (المغنی ج ٨ ص ٢٤٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ ١٤٠٥،چشتی)

علامہ المرغینانی الحنفی لکھتے ہیں : قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا کیونکہ حدیث میں ہے : تلوار کے بغیر قصاص لینا جائز نہیں ہے (ہدایہ اخیرین ص ٥٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ علمیہ ‘ ملتان)

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی آدمی کو مثلہ کرکے قتل کیا یعنی اس کے جسم کے مختلف اعضاء کاٹ ڈالے اور اگر پھر قاتل سے اسی کیفیت سے قصاص لیا جائے تو لازم آئے گا کہ اس قاتل کو مثلہ کیا جائے حالانکہ احادیث صحیحہ میں مثلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو ‘ جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اس کے ساتھ قتال کرو خیانت نہ کرو ‘ عہد شکنی نہ کرو ‘ مثلہ نہ کرو (کسی شخص کے اعضاء کاٹ کر اس کے جسم کو نہ بگاڑو) ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ،چشتی)۔اس حدیث کو امام ترمذی ‘ امام ابن ماجہ ‘ امام مالک ‘ امام دارمی اور امام احمد نے بھی روایت کیا ہے ۔

تاہم قرآن مجید کی یہ آیات اور سورة نمل اور سورة بقرہ کی آیتیں ائمہ ثلاثہ کے مؤقف کی تائید کرتی ہیں : ⏬
وجزؤا سیءۃ سیءۃ مثلھا “۔ (الشوری : ٤٠)
ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے۔
من عمل سیءۃ فلایجزی الا مثلھا “۔ (المومن : ٤٠ )
ترجمہ : جس نے برائی کی تو اس سے اسی کی مثل بدلہ لیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو جس (قاتل) کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا گیا تو (اس کا) دستور کے مطابق مطالبہ کیا جائے ‘ اور نیکی کے ساتھ اس کی ادائیگی کی جائے ‘ یہ (حکم) تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے ‘ پھر اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔ (البقرہ : ١٧٤)

یعنی مقتول کے ولی نے قاتل کو معاف کر دیا ‘ قاتل کو مقتولل کے بھائی سے تعبیر فرمایا ہے تاکہ ولی کی مقتول کو معاف کرنے میں رغبت ہو اور وہ قصاص کا مطالبہ ترک کر دے اور دستور کے مطابق دیت کا مطالبہ کیا جائے یعنی شریعت میں جو دیت کی مقدارمقرر کی گئی ہے ولی مقتول اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے اور قاتل کے عصبات دیت کی ادائیگی کی مدت میں تاخیر اور مقدار میں کمی نہ کریں اور معاف کرنے اور دیت ادا کرنے کا حکم تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ہے اور اس میں تم پر رحمت ہے کیون کی یہود کی شریعت میں صرف قصاص واجب تھا اور نصاری کی شریعت میں صرف دیت واجب تھی ‘ اور تمہارے لیے یہ آسانی ہے کہ مقتول کا ولی قاتل سے قصاص لے ‘ یا دیت لے یا بالکل معاف کردے۔ تمہیں ہر طرح اختیار کی وسعت دی گئی اور کوئی شق واجب نہیں کی گئی اور جس نے اس کے بعد حد سے تجاوز کیا یعنی اگر ولی مقتول نے معاف کرنے کے بعد قاتل کو قتل کیا تو اس کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا ‘ دنیا میں اس کو قتل کیا جائے گا اور آخرت کا عذاب الگ ہو گا ۔

دیت کی مقدار سو اونٹ یا ہزار دینار (٣٧٤ ء ٤ کلو سونا) یا دس ہزار درہم (٦١٨ ء ٣٠ کلوچاندی) ہے ۔ دیت کو تین سال میں قسط وار ادا کرنا قاتل کی عاقلہ پر لازم ہے ۔ عاقلہ سے مراد قاتل کے حمایتی اور مددگار ہیں ‘ یہ اس کے اہل قبیلہ ‘ اہل محلہ اور اہل صنعت وحرفت ہوسکتے ہیں ‘ جو شخص کسی مل یا کارخانہ میں ملازم ہو ‘ اس مل یا فیکٹری کے مالکان اور کارکنان کو بھی عاقلہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

قصاص میں قوموں اور لوگوں کی زندگی ہے

قصاص میں قوموں اور لوگوں کی زندگی ہے محترم قارٸینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَ...